15. اب قصہ آدم و حوا کے ایک خاص پہلو کی طرف توجہ منعطف کر کے اہل عرب کے سامنے خود اُن کی اپنی زندگی اکے اندر شیطانی اغوا کے ایک نمایا ں ترین اثر کی نشان دہی فرمائی جاتی ہے۔ یہ لوگ لباس کو صرف زینت اور موسمی اثرات سے جسم کی حفاظت کے لیے استعمال کرتے تھے، لیکن اس کی سب سے پہلی بنیادی غرض،یعنی جسم کےقابل شرم حصّوں کی پردہ پوشی آپ کے نزدیک کوئی اہمیت نہ رکھتی تھی۔ اُنہیں اپنے ستر دوسروں کے سامنےکھول دینے میں کوئی باک نہ تھا۔برہنہ منظرِ عام پر نہا لینا، راہ چلتے قضائے حاجت کے لیے بیٹھ جانا، ازار کھل جائے تو ستر کے بے پردہ ہو جانے کی پروانہ کرنا اُن کے شب وروز کے معمولات تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان میں سے بکثرت لوگ حج کے موقع پر کعبہ کے گرد برہنہ طواف کرتے تھے اور اس معاملہ میں ان کی عورتیں ان کےمردوں سےبھی کچھ زیادہ بے حیا تھیں۔ ان کی نگاہ میں یہ ایک مذہبی فعل تھا اور نیک کام سمجھ کر وہ اس کا ارتکاب کرتے تھے۔ پھر چونکہ یہ کوئی عربوں ہی کی خصوصیت نہ تھی، دنیا کی اکثر قومیں اسی بے حیائی میں مبتلا رہی ہیں اور آج تک ہیں اس لیے خطاب اہل عرب کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ عام ہے،اور سارے نبی آدم کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو، یہ شیطانی اغوا کی ایک کھلی ہوئی علامت تمہاری زندگی میں موجود ہے ۔ تم نے اپنے رب کی رہنمائی سے بےنیاز ہو کر اور اُس کے رسولوں کی دعوت سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو شیطان کےحوالے کر دیا اور اس نے تمہیں انسانی فطرت کے راستے سے ہٹاکر اُسی بے حیائی میں مبتلا کر دیا جس میں وہ تمہارے پہلے باپ اور ماں کو مبتلا کرنا چاہتا تھا۔ اس پر غور کرو تو یہ حقیقت تم پر کھل جائے کہ رسولوں کی رہنمائی کے بغیر تم اپنی فطرت کے ابتدائی مطالبات تک کو نہ سمجھ سکتے ہو اور نہ پورا کر سکتے ہو۔
16. ان آیات میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اس سے چند اہم حقیقتیں نکھر کر سامنے آجاتی ہیں:
اوّل یہ کہ لباس انسان کے لیے ایک مصنوعی چیز نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے جسم پر حیوانات کی طرح کوئی پوشش پیدائشی طورپر نہیں رکھی بلکہ حیا اور شرم کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کر دیا۔ اس نے انسان کے لیے اُس کے اعضائے صنفی کو محض اعضائے صنفی ہی نہیں بنا یا بلکہ سَوْأة ْ بھی بنایا جس کے معنی عربی زبان میں ایسی چیز کے ہیں جس کے اظہار کو آدمی قبیح سمجھے۔ پھر اس فطری شرم کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے اس نے کوئی بنا بنایا لباس انسان کو نہیں دے دیا بلکہ اس کی فطرت پر لباس کو الہام کیا(اَنْزَلْنَا علَیْکُمْ لِبَاسًا)تاکہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اپنی فطرت کے اِس مطالبے کو سمجھے اور پھر اللہ کے پیدا کردہ مواد سے کام لے کر اپنے لیے لباس فراہم کرے۔
دوم یہ کہ اس فطری الہام سے رو سے انسان کے لیے لباس کی اخلاقی ضرورت مقدم ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنی سَوْأة کو ڈھانکے۔ اور اس کی طبعی ضرورت موخر ہے، یعنی یہ کہ اس کا لباس اس کےلیے رِیش(جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کا ذریعہ)ہو۔ اس باب میں بھی فطرةً انسان کا معاملہ حیوانات کے برعکس ہے۔ا ُن کے لیے پوشش کی اصل غرض صرف اس کا ”ریش“ ہونا ہے، رہا اس کا ستر پوش ہونا تو اُن کے اعضاء صنفی سرے سے سَوْأة ہی نہیں ہیں کہ اُنہیں چھپانے کے لیے حیوانا ت کی جبلت میں کوئی داعیہ موجود ہوتا اور اس کا تقاضا پورا کرنے کے لیے ان کے اجسام پر کوئی لباس پیدا کیا جاتا ۔ لیکن جب انسانوں نے شیطان کی رہنمائی قبول کی تو معاملہ پھر اُلٹ گیا۔ اس نے اپنے ان شاگردوں کو اس غلط فہمی میں ڈال دیا کہ تمہارے لیے لباس کی ضرورت بعینہٖ وہی ہے جو حیوانات کے اعضاء سَوْأة نہیں ہیں اسی طرح تمہارے یہ اعضاء بھی سَوْأة نہیں ، محض اعضاء صنفی ہی ہیں۔
سوم یہ کہ انسان کے لیے لباس کا صرف ذریعہ ستر پوشی اور وسیلہ زینت و حفاظت ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس معاملہ میں جس بھلائی تک انسان کو پہنچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا لباس تقویٰ کا لباس ہو، یعنی پوری طرح ساتر بھی ہو، زینت میں بھی حد سے بڑھا ہوا یا آدمی کی حیثیت سے گرا ہوا نہ ہو، فخرو غرور اور تکبروریا کی شان لیے ہوئے بھی نہ ہو، اور پھر اُن ذہنی امراضکی نمائندگی بھی نہ کرتا ہو جن کی بنا پر مرد زنانہ پن اختیا ر کرتےہیں، عورتیں مردانہ پن کی نمائش کرنےلگتی ہیں،اور ایک قوم دوسری قوم کے مشابہہ بننے کی کوشش کرکے خود اپنء ذلت کا زندہ اشتہار بن جاتی ہے۔لباس کے معاملہ میں اِس خیر مطلوب کو پہنچنا تو کسی طرح اُن لوگوں کے بس میں ہے ہی نہیں جنہوں نے انبیاء علیہمالسلام پر ایمان لاکر اپنے آپ کوبالکل خدا کی رہنمائی کے حوالے نہیں کر دیا ہے۔جب وہ خدا کی رہنمائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتےہیں تو شیاطین ان کے سر پرست بنا دیے جاتے ہیں، پھر یہ شیاطین ان کو کسی نہ کسی غلطی میں مبتلاکرکے ہی چھوڑتے ہیں۔
چہارم یہ کہ لباس کا معاملہ بھی اللہ کی اُن بے شمار نشانیوں میں سے ایک ہے جو دنیا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں اور حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی مدد کرتی ہیں۔ بشرطیکہ انسان خود ان سے سبق لینا چاہے۔ اُوپر جن حقائق کیطرف ہم نے اشارہ کیا ہے انہیں اگر تامُّل کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ لباس کس حیثیت سے اللہ تعالیٰ کا ایک اہم نشان ہے۔
17. اشارہ ہے اہل عرب کے برہنہ طواف کی طرف ، جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ وہ لوگ اس کو ایک مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور ان کا خیا تھا کہ خدا نے یہ حکم دیا ہے۔
18. بظاہر یہ ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جا ہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے۔ اس طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بظور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہییں:
ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھےاور اسےایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے، لیکن بر ہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا، چناچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں ، یا بازار میں ، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو۔
دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمنا ک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے۔ اس پر قرآن مجید یہ استد لال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے باور کر لیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہوگا۔ کسی فحش کا م کا حکم خدا کی طرف سے ہر گز نہیں ہو سکتا، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے۔
19. مطلب یہ ہے کہ خدا کے دین کو تمہار ی ان بیہودہ رسموں سے کیا تعلق۔ اُس نے جس دین کی تعلیم دی ہے اس کے بنیادی اصول تو یہ ہیں کہ :
(١) انسان اپنی زندگی کو عدل وراستی کی بنیاد پر قائم کرے،
(۲) عبادت مین اپنا رُخ ٹھیک رکھے، یعنی خد ا کے سوا کسی اور کی بندگی کا شا ئبہ تک اس کی عبادت میں نہ ہو، معبود حقیقت کے سوا کسی دوسرے کی طر ف اطاعت و غلامی اور عجزونیا ز کارُخ ذرا نہ پھرنے پائے،
(۳)رہنمائی اور تائید و نصرت اور نگہبانی و حفاظت کے لیے خدا ہی سے دُعا مانگے، مگر شرط یہ ہے کہ اس چیز کی دُعا مانگنے والا آدمی پہلے اپنے دین کو خدا کے لیے خالص کر چکا ہو۔ یہ نہ ہو کہ زندگی کا سارا نظام تو کفر و شرک اور معصیّت اور بندگیِ اغیار پر چلا یا جا رہا ہو اور مدد خدا سے مانگی جائے کہ اے خدا ، یہ بغاوت جو ہم تجھ سے کر رہے ہیں اس میں ہماری مدد فرما۔
(۴) اور اس بات پر یقین رکھے کہ جس طرح اس دنیا میں وہ پیدا ہوا ہے اسی طرح ایک دوسرے عالم میں بھی اس کو پیدا کیا جائے گا اور اسے اپنے اعمال کا حساب خدا کودینا ہوگا۔
20. یہاں زینت سے مرد مکمل لباس ہے۔ خدا کی عبادت میں کھڑے ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں ہے کہ آدمی محض اپنا ستر چھپا لے، بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت وہ اپنا پورا لباس پہنے جس میں ستر پوشی بھی ہو اور زینت بھی۔ یہ حکم اُس غلط رویہ کی تردید کے لیے ہے جس پر جہلا اپنی عبادتوں میں عمل کرتے رہے ہیں اور آج تک کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بر ہنہ یا نیم برہنہ ہو کر اور اپنی ہیئتوں کو بگاڑ کر خدا کی عبادت کرنی چاہیے۔ اس کے برعکس خدا کہتا ہے کہ اپنی زینت سے آراستہ ہو کو ایسی وضع میں عبادت کرنی چاہیے جس کے اندر بر ہنگی تو کیا، نا شائستگی کا بھی شائبہ تک نہ ہو۔
21. یعنی خدا کو تمہاری خستہ حالی ور فا قہ کشی اور طیّباتِ رزق سے محرومی عزیز نہیں ہے کہ اس کی بندگی بجالانے کےلیے یہ کسی درجہ میں بھی مطلوب ہو۔ بلکہ اس کی عین خوشی یہ ہے کہ تم اس کے بخشے ہوئے عمدہ لباس پہنو اور پاک رزق سے متمتع ہو۔ اس کی شریعت میں اصل گناہ یہ ہے کہ آدمی ا س کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے، خواہ یہ تجاوز حلال کو حرام کرلینے کی شکل میں ہو یا حرام کو حلال کر لینے کی شکل میں ۔