Tafheem ul Quran

Surah 7 Al-A'raf, Ayat 40-47

اِنَّ الَّذِيۡنَ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَاسۡتَكۡبَرُوۡا عَنۡهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمۡ اَبۡوَابُ السَّمَآءِ وَلَا يَدۡخُلُوۡنَ الۡجَـنَّةَ حَتّٰى يَلِجَ الۡجَمَلُ فِىۡ سَمِّ الۡخِيَاطِ​ ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُجۡرِمِيۡنَ‏ ﴿7:40﴾ لَهُمۡ مِّنۡ جَهَـنَّمَ مِهَادٌ وَّمِنۡ فَوۡقِهِمۡ غَوَاشٍ​ ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿7:41﴾ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُـكَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَاۤ  اُولٰۤـئِكَ اَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ​ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿7:42﴾ وَنَزَعۡنَا مَا فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهِمُ الۡاَنۡهٰرُ​ۚ وَقَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ هَدٰٮنَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهۡتَدِىَ لَوۡلَاۤ اَنۡ هَدٰٮنَا اللّٰهُ​ ​ۚ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُ رَبِّنَا بِالۡحَـقِّ​ ؕ وَنُوۡدُوۡۤا اَنۡ تِلۡكُمُ الۡجَـنَّةُ اُوۡرِثۡتُمُوۡهَا بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏  ﴿7:43﴾ وَنَادٰٓى اَصۡحٰبُ الۡجَـنَّةِ اَصۡحٰبَ النَّارِ اَنۡ قَدۡ وَجَدۡنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَهَلۡ وَجَدْتُّمۡ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمۡ حَقًّا​ ؕ قَالُوۡا نَـعَمۡ​ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَيۡنَهُمۡ اَنۡ لَّـعۡنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِيۡنَۙ‏  ﴿7:44﴾ الَّذِيۡنَ يَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَيَـبۡـغُوۡنَهَا عِوَجًا​ ۚ وَهُمۡ بِالۡاٰخِرَةِ كٰفِرُوۡنَ​ۘ‏ ﴿7:45﴾ وَبَيۡنَهُمَا حِجَابٌ​ۚ وَعَلَى الۡاَعۡرَافِ رِجَالٌ يَّعۡرِفُوۡنَ كُلًّاۢ بِسِيۡمٰٮهُمۡ​ ۚ وَنَادَوۡا اَصۡحٰبَ الۡجَـنَّةِ اَنۡ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ​ لَمۡ يَدۡخُلُوۡهَا وَهُمۡ يَطۡمَعُوۡنَ‏ ﴿7:46﴾ وَاِذَا صُرِفَتۡ اَبۡصَارُهُمۡ تِلۡقَآءَ اَصۡحٰبِ النَّارِۙ قَالُوۡا رَبَّنَا لَا تَجۡعَلۡنَا مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿7:47﴾

40 - یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جُھٹلایا ہے اور ان کے مقابلے میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے۔ اُن کا جنّت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سُوئی کے ناکے سے اُونٹ کا گزرنا۔ مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے۔ 41 - ان کے لیے جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا۔ یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں۔ 42 - بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں ۔۔۔ اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استظاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں ۔۔۔ وہ اہلِ جنّت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ 43 - ان کے دلوں میں ایک دُوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے۔32 اُن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہ کہیں گے کہ ”تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پاسکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا، ہمارے ربّ کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے“۔ اُس وقت نِدا آئے گی کہ ”یہ جنّت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن کے اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے“۔33 44 - پھر جنّت کے لوگ دوزخ والوں سے پکار کر کہیں گے، ”ہم نے اُن سارے وعدوں کو ٹھیک پالیا جو ہمارے ربّ نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی ان وعدوں کو ٹھیک پایا جو تمہارے ربّ نے کیے تھے؟“ وہ جواب دیں گے ”ہاں۔“ تب ایک پکارنے والا ان کے درمیان پکارے گا کہ ”خدا کی لعنت اُن ظالموں پر 45 - جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روکتے اور اسے ٹیڑھا کرنا چاہتے تھے اور آخرت کے منکر تھے“۔ 46 - ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس کی بلندیوں (اَعراف)پر کچھ اور لوگ ہوں گے۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنّت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ”سلامتی ہو تم پر“ یہ لوگ جنّت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔34 47 - اور جب ان کی نگاہیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے، ”اے رب !ہمیں اِن ظالموں میں شامل نہ کیجیو“۔ ؏ ۵


Notes

32. یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دور کر دی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہو جائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سےجنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہو گی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور فلاں جو مجھ سے لڑاتھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ کے درمیان بھی صفائی کرادے گا۔

اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انہیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انہیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے۔

33. یہ ایک نہایت لطیف معاملہ ہے جو وہاں پیش آئے گا۔ اہلِ جنت اس بات پر نہ پھولیں گے کہ ہم نے کام ہی ایسے کیے تھے جن پر ہمیں جنت ملنی چاہیے تھی بلکہ وہ خدا کی حمد وثناء اور شکر و احسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ سب ہمارے رب کا فضل ہےورنہ ہم کس لائق تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان نہ جتائے گا بلکہ جواب میں ارشاد فرمائے گا کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدمات کے صلہ میں پایا ہے، یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جارہی ہے ، یہ بھیک کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ تمہاری سعی کا اجر ہے، تمہارے کام کی مزدوری ہے، اور وہ باعزت روزی ہے جس کا استحقاق تم نے اپنی قوت بازو سے اپنے لیے حاصل کیا ہے۔ پھر یہ مضمون اِس انداز بیان سے اور بھی زیادہ لطیف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جواب کا ذکر اس تصریح کے ساتھ نہیں فرماتا کہ ہم یوں کہیں گے بلکہ انتہائی شان کریمی کے ساتھ فرماتا ہے کہ جواب میں یہ ندا آئے گی۔

درحقیقت یہی معاملہ دنیامیں بھی خدا اور اس کے نیک بندوں کے درمیان ہے۔ ظالموں کو جو نعمت دنیامیں ملتی ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، اور اسی بنا پر وہ نعمت کےحصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد بنتے چلے جاتےہیں۔ اس کے برعکس صالحین کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں، شکر بجا لاتے ہیں جتنے نوازے جاتے ہیں اتنےہی زیادہ مُتواضع اور رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسنِ عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقیناً بخشے ہی جائیں گے۔بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتےہیں، اپنے عمل کےبجائے خدا کے رحم و فضل سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کے بجائے کچھ دینا ہی نہ نکل آئے۔ بخاری و مسلم دونوںمیں روایت موجود ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا اعلمواان احد کم لن ید خلہ عملہ الجنة۔خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی الا ان یتغمد نی اللہ برحمةٍ منہ و فضل ،اِلّا یہ کہ اللہ مجھے اپنی رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے۔

34. یعنی یہ اصحاب الاعراف وہ لوگ ہوں گے جن کی زندگی کا نہ تو مثبت پہلو ہی اتنا قوی ہوگا کہ جنت میں داخل ہو سکیں اور نہ منفی پہلو ہی اتنا خراب ہوگا کہ دوزخ میں جھونک دیے جائیں۔ اس لیے وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک سرحد پر رہیں گے۔