35. اہلِ جنت اور اہل دوزخ اور اصحاب الاعراف کی اس گفتگو سےکسی حد تک اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عالم آخرت میں انسان کی قوتوں کا پیمانہ کس قدر وسیع ہو جائے گا ۔ وہاں آنکھوں کی بینائی اتنے بڑے پیمانہ پر ہو گی کہ جنت اور دوزخ اور اعراف کے لوگ جب چاہیں گے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔ وہاں آواز اور سماعت بھی اتنے بڑے پیمانہ پر ہوگی کہ اِن مختلف دنیاؤں کے لوگ ایک دوسرے سے بآسانی گفت و شنید کر سکیں گے۔یہ اور ایسے ہی دوسرے بیانات جو عالم آخرت کے متعلق ہمیں قرآن میں ملتے ہیں۔ اس بات کا تصور دلانے کے لیے کافی ہیں کہ وہاں زندگی کے قوانین ہماری موجودہ دنیا کے قوانین طبیعی سے بالکل مختلف ہوں گے، اگر چہ ہماری شخصیتیں یہی رہیں گی جو یہاں ہیں۔ جن لوگوں کے دماغ اِس عالمِ طبیعی کے حدود میں اس قدر مقیّد ہیں کہ موجودہ زندگی اور اس کے مختصر پیمانوں سے وسیع تر کسی چیز کا تصور ان میں نہیں سما سکتا وہ قرآن اور حدیث کے اِن بیانات کو بڑے اچنبھے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بسا اوقات ان کا مذاق اُڑا کر اپنی خفیف العقلی کا مزید ثبوت بھی دینے لگتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان بیچاروں کا دماغ جتنا تنگ ہے زندگی کے امکانات اُتنے تنگ نہیں ہیں۔
36. یعنی اس میں پوری تفصیل کے ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور انسان کے لیے دنیا کی زندگی میں کونسا رویّہ درست ہے اور صحیح طرزِ زندگی کے بنیادی اصول کیا ہیں۔ پھر یہ تفصیلات بھی قیاس یا گمان یا وہم کی بنیاد پر نہیں بلکہ خالص علم کی بنیا د پر ہیں۔
37. مطلب یہ ہے کہ اوّل تو اس کتاب کے مضامین اور اس کی تعلیمات ہی بجائے خود اس قدر صاف ہیں کہ آدمی اگر ان پر غور کرے تو اس کے سامنے راہِ حق واضح ہو سکتی ہے۔ پھر اس پر مزید یہ ہے کہ جو لوگ اس کتاب کو مانتےہیں ان کی زندگی میں عملاً بھی اِس حقیقت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ انسان کی کیسی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور کتنی بڑی رحمت ہے کہ اس کا اثر قبول کرتے ہی انسان کی ذہنیت ، اس کے اخلاق اور اس کی سیرت میں بہترین انقلاب شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اشارہ ہے اُن حیرت انگیز اثرات کی طرف جو اس کتاب پر ایمان لانے سےصحابہ کرام کی زندگیوں میں ظاہر ہو رہے تھے۔
38. دوسرے الفاظ میں اس مضمون کو یوں سمجھیے کہ جس شخص کو صحیح اور غلط کا فرق نہایت معقول طریقہ سے صاف صاف بتایا جاتا ہے مگر وہ نہیں مانتا، پھر اس کے سامنے کچھ لوگ صحیح راستہ پر چل کر مشاہدہ بھی کرا دیتے ہیں کہ غلط روی کے زمانے میں وہ جیسے کچھ تھے ا س کی بہ نسبت راست روی اختیار کر کے ان کی زندگی کتنی بہتر ہو گئی ہے ، مگر اس سے بھی وہ کوئی سبق نہیں لیتا، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب وہ صرف اپنی غلط روی کی سزا پا کر ہی مانے گا کہ ہاں یہ غلط روی تھی۔ جو شخص نہ حکیم کے عاقلانہ مشوروں کو قبول کرتا ہے اور نہ اپنے جیسے بکثرت بیماروں کو حکیم کی ہدایات پر عمل کرنے کی وجہ سے شفایاب ہوتے دیکھ کر ہی کوئی سبق لیتا ہے، وہ اب بسترِ مرگ پر لیٹ جانے کے بعد ہی تسلیم کرے گا کہ جن طریقوں پر وہ زندگی بسر کر رہا تھا وہ اس کے لیے واقعی مہلک تھے۔
39. یعنی وہ دوبارہ اِس دنیامیں واپس آنے کی خواہش کریں گے اور کہیں گے کہ جس حقیقت کی ہمیں خبر دی گئی تھی اور اُس وقت ہم نےنہ مانا تھا، اب وہ مشاہدہ کر لینے کے بعد ہم اس سے واقف ہو گئے ہیں، لہٰذا اگر ہمیں دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تو ہمارا طرز عمل وہ نہ ہو گا جو پہلے تھا۔ اس درخواست اور اس کےجوابات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیات ۲۷ ۔ ۲۸ ، ابراہیم ۴۴ ۔ ۴۵ ،السجدہ ۱۲ ۔ ۱۳ ، فاطر ۳۷۔ ، الزمر ۵۶ تا ۵۹ ، المومن ۱۱ ۔ ۱۲ ۔