69. مَدیَن کا اصل علاقہ حجاز کے شمال مغرب اور فلسطین کے جنوب میں بحِراحمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر واقع تھا مگر جزیرہ نما ئے سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا کچھ سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ یہ ایک بڑی تجارت پیشہ قوم تھی۔ قدیم زمانہ میں جو تجارتی شاہ راہ بحِر احمر کے کنارے یمن سے مکہ اور یَنبوع ہوتی ہوئی شام تک جاتی تھی، اور ایک دوسری تجارتی شاہ راہ جو عراق سے مصر کی طرف جاتی تھی، اس کے عین چوراہے پر اس قوم کی بستیاں واقع تھیں۔ اسی بناء پر عرب کا بچہ بچہ مَدیَن سے واقف تھا اور اس کے مٹ جانے کے بعد بھی عرب میں اس کی شہرت برقرار رہی ۔ کیونکہ عربوں کے تجارتی قافلے مصر اور شام کی طرف جاتے ہوئے رات دن اس کے آثارِ قدیمہ کے درمیان سے گزرتے تھے۔
اہل مَد یَن کے متعلق ایک اور ضروری بات ، جس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے، یہ ہے کہ یہ لوگ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے مِد یان کی طرف منسوب ہیں جو ان کی تیسری بیوی قَطُوراء کے بطن سے تھے۔قدیم زمانہ کے قاعدے کے مطابق جو لوگ کسی بڑے آدمی کے ساتھ وابستہ ہو جاتے تھے وہ رفتہ رفتہ اسی کی آل اولاد میں شمار ہو کر بنی فلاں کہلانے لگتے تھے، اسی قاعدے پر عرب کی آبادی کا بڑا حِصہ بنی اسماعیل کہلایا۔ اور اولاد یعقوب کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہونے ولاے لوگ سب کے سب بنی اسرائیل کے جامع نام کے تحت کھپ گئے۔ اسی طرح مَد یَن کے علاقے کی ساری آبادی بھی جو مد یان بن ابراہیم علیہ السلام کے زیر اثر آئی، بنی مدیان کہلائی اور ان کے ملک کا نام ہی مَد یَن یا مَد یان مشہور ہو گیا۔۔ اس تاریخی حقیقت کو جان لینے کےبعد یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی کہ اس قوم کو دین ِ حق کی آواز پہلی مرتبہ حضرت شعیب کے ذریعہ سے پہنچی تھی۔ درحقیقت بنی اسرائیل کی طرح ابتداء ً وہ بھی مسلمان ہی تھے اور شعیب علیہ السلام کے ظہور کے وقت ان کی حالت ایک بگڑی ہوئی مسلمان قوم کی سی تھی جیسی ظہور موسیً علیہ السلام کے وقت بنی اسرائیل کی حالت تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد چھ سات سو برس تک مشرک اور بد اخلاق قوموں کے درمیان رہتے رہتے یہ لوگ شرک بھی سیکھ گئے تھے اور بد اخلاقیوں میں بھی مبتلا ہو گئے تھے، مگر اس کے با وجود ایمان کا دعویٰ اور اس پر فخر بر قرار تھا۔
70. اس سے معلوم ہوا کہ اس قوم میں دو بڑی خرابیاں پائی جاتی تھی۔ ایک شرک ، دوسرے تجارتی معاملا ت میں بد دیانتی ۔ اور انہی دونوں چیزوں کی اصلاح کے لیے حضرت شعیب مبعوث ہوئے تھے۔
71. اس فقرے کی جامع تشریح اس سورة اعراف کے حواشی ۴۴،۴۵ میں گزر چکی ہے ۔ یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت شعیب کے اس قول کا ارشاد اس طرح ہے کہ دینِ حق اور اخلاق صالحہ پر زندگی کا جو نظام انبیائے سابقین کی ہدایت و رہنما ئی میں قائم ہو چکا تھا، اب تم اسے اپنی اعتقادی گمراہیوں اور اخلاقی بد راہیوں سے خراب نہ کرو۔
72. اس فقرے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ خود مدعی ایمان تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم اشارہ کر چکے ہیں ، یہ دراصل بگڑے ہوئے مسلمان تھے اور اعتقادی و اخلاقی فساد میں مبتلا ہونے کے با وجود ان کے اندر نہ صرف ایمان کا دعویٰ باقی تھا بلکہ اس پر انہیں فخر بھی تھا۔اسی لیے حضرت شعیب نے فرمایا کہ اگرتم مومن ہو تو تمہارے نزدیک خیر اور بھلائی راستبازی اور دیانت میں ہونی چاہیے اور تمہارے میعارِ خیر و شر اُن دنیا پرستوں سے مختلف ہونا چاہیے جو خدا اور آخرت کو نہیں مانتے۔
73. یہ فقرہ اُسی معنی میں ہے جس میں اِن شاء اللہ کا لفظ بولا جاتا ہے، اور جس کے متعلق سورة کہف (آیات ۲۳۔۲۴) میں ارشاد ہوا ہے کہ کسی چیز کے متعلق دعوے کے ساتھ یہ نہ کہہ دیا کرو کہ میں ایسا کروں گا بلکہ اس طرح کہا کرو کہ اگر اللہ چاہے گا تو ایسا کروں گا۔ اس لیے کہ مومن ، جو اللہ تعالیٰ کی سلطانی و بادشاہی کا اور اپنی بندگی و تا بعیت کا ٹھیک ٹھیک ادراک رکھتا ہے، کبھی اپنے بل بوتے پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں فلاں بات کر کے رہوں گا یا فلاں حرکت ہر گز نہ کروں گا، بلکہ وہ جب کہے گا تو یوں کہے گا کہ میرا ارادہ ایسا کرنے کا یا نہ کرنے کا ہے لیکن میرے اس ارادے کا پورا ہونا میرے مالک کی مشیت پر موقوف ہے، وہ توفیق بخشے گا تو اس میں کامیا ب ہو جاؤں گا ورنہ ناکام رہ جاؤں گا۔
74. اس چھو ٹے سے فقرے پر سے سر سری طور پر نہ گزر جائیے۔ یہ ٹھیر کر بہت سوچنے کا مقام ہے۔ مَد یَنَ کے سردار اور لیڈر د راصل یہ کہہ رہے تھے اور اسی بات کا اپنی قوم کو بھی یقین دلا رہے تھے کہ شعیب جس ایمان داری اور راست بازی کی دعوت دے رہا ہے اور اخلاق ودیا نت کےجن مستقل اصولوں کی پا بندی کرانا چاہتا ہے، اگر ان کو مان لیا جائے تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔ ہماری تجارت کیسے چل سکتی ہے اگر ہم بالکل ہی سچائی کے پابند ہوجائیں اور کھرے کھرے سودے کرنے لگیں۔ اور ہم جو دنیا کی دو سب سے بڑی تجارتی شاہ راہوں کے چوراہے پر بستے ہیں، اور مصر وعراق کی عظیم الشان متمدّن سلطنتوں کی سرحد پر آباد ہیں، اگر ہم قافلوں کو چھیڑنا بند کر دیں اور بے ضرر اور پُر امن لوگ ہی بن کر رہ جائیں تو جو معاشی اور سیاسی فوائد ہمیں اپنی موجودہ جغرافی پو زیشن سے حاصل ہو رہے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں گے اور آس پاس کی قوموں پر ہماری جو دھونس قائم ہے وہ باقی نہ رہے گی۔۔۔۔ یہ بات صرف قوم شعیب کے سرداروں ہی تک محدود نہیں ہے۔ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے لوگوں نے حق اور راستی اور دیانت کی روش میں ایسے ہی خطرات محسوس کیے ہیں۔ ہر دور کے مفسدین کا یہی خیال رہا ہے کہ تجارت اور سیاست اور دوسرے دنیوی معاملات جُھوٹ اور بے ایمانی اور بد اخلاقی کے بغیر نہیں چل سکتے ۔ ہر جگہ دعوت حق کے مقابلہ میں جو زبر دست عذرات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی رہا ہے کہ اگر دنیا کی چلتی ہوئی راہوں سے ہٹ کر اس دعوت کی پیروی کی جائے گی تو قوم تباہ ہو جائے گی۔
75. مدین کی یہ تباہی مد تہائے دراز تک آس پاس کی قوموں میں ضرب المثل رہی ہے۔ چنانچہ زَبورِ داؤد میں ایک جگہ آتا ہے کہ اے خدا فلاں فلاں قوموں نے تیرے خلاف عہد باندھ لیا ہے لہٰذا تو ان کے ساتھ وہی کر جو تو نے مدیان کے ساتھ کیا(۸۳۔۵تا۹)۔ ااور یَسعِیاہ نبی ایک جگہ بنی اسرائیل کو تسلی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آشور والوں سے نہ ڈرو، اگر چہ وہ تمہارے لیے مصر یوں کی طرح ظالم بنے جا رہے ہیں لیکن کچھ دیر نہ گزرے گی کہ رب الافواج ان پر اپنا کوڑا برسائے گا اور ان کا وہی حشر ہو گا جو مَد یان کا ہوا(یسعیاہ: ١۰۔۲١ تا ۲٦)۔
76. یہ جتنے قصے یہاں بیان کیے گئے ہیں ان سب میں ”سرِّ دلبراں درحدیث دیگراں“کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ ہر قصہ اُس معاملہ پر پورا پورا چسپاں ہوتا ہے جو اُس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آ رہا تھا۔ ہر قصہ میں ایک فریق نبی ہے جس کی تعلیم ، جس کی دعوت ، جس کی نصیحت و خیر خواہی، اور جس کی ساری باتیں بعینہٖ وہی ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تھیں ۔ اور دوسرا فریق حق سے منہ موڑنے والی قوم ہے جس کی اعتقادی گمراہیاں ، جس کی اخلاقی خرابیاں ، جس کی جاہلانہ ہٹ دھر میاں، جس کے سرداروں کا استکبار، جس کے منکروں کا اپنی ضلالت پر اصرار، غرض سب کچھ وہی ہے جو قریش میں پایا جاتا تھا۔ پھر ہر قصے میں منکر قوم کا جو انجام پیش کیا گیا ہے اس سے دراصل قریش کو عبرت دلائی گئی ہے کہ اگر تم نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی بات نہ مانی اور اصلاح حال کا جو موقع تمہیں دیا جا رہا ہے اسے اندھی ضد میں مبتلا ہو کر کھو دیا تو آخر کار تمہیں بھی اسی تباہی و بر بادی سے دوچار ہونا پڑے گا جو ہمیشہ سے گمراہی و فساد پر اصرار کرنے والی قوموں کے حصہ میں آتی رہی ہے۔