Tafheem ul Quran

Surah 7 Al-A'raf, Ayat 94-99

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِىۡ قَرۡيَةٍ مِّنۡ نَّبِىٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَهۡلَهَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمۡ يَضَّرَّعُوۡنَ‏ ﴿7:94﴾ ثُمَّ بَدَّلۡـنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الۡحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّقَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَالسَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰهُمۡ بَغۡتَةً وَّهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ﴿7:95﴾ وَلَوۡ اَنَّ اَهۡلَ الۡقُرٰٓى اٰمَنُوۡا وَاتَّقَوۡا لَـفَتَحۡنَا عَلَيۡهِمۡ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالۡاَرۡضِ وَلٰـكِنۡ كَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰهُمۡ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿7:96﴾ اَفَاَمِنَ اَهۡلُ الۡـقُرٰٓى اَنۡ يَّاۡتِيَهُمۡ بَاۡسُنَا بَيَاتًا وَّهُمۡ نَآئِمُوۡنَؕ‏ ﴿7:97﴾ اَوَاَمِنَ اَهۡلُ الۡقُرٰٓى اَنۡ يَّاۡتِيَهُمۡ بَاۡسُنَا ضُحًى وَّهُمۡ يَلۡعَبُوۡنَ‏  ﴿7:98﴾ اَفَاَمِنُوۡا مَكۡرَ اللّٰهِ​ ۚ فَلَا يَاۡمَنُ مَكۡرَ اللّٰهِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ‏ ﴿7:99﴾

94 - کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اُس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو، اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں۔ 95 - پھر ہم نے اُن کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خُوب پھلے پھُولے اور کہنے لگے کہ ”ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور بُرے دن آتے ہی رہے ہیں۔“ آخرِ کار ہم نے اُنہیں اچانک پکڑ لیا اور اُنہیں خبر تک نہ ہوئی۔77 96 - اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوٰی کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اُنہوں نے تو جُھٹلایا، لہٰذا ہم نے اُس بُری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔ 97 - پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟ 98 - یا انہیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ 99 - کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟78 حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو۔ ؏ ۱۲


Notes

77. ایک ایک نبی اور ایک ایک قوم کا معاملہ الگ الگ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ابنیاء علیہم السلام کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجاگیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت ساز گار بنایا گیا۔ یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط، وبا، تجارتی خسارے ، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں۔ تا کہ اس کا دل نرم پڑے، اس کی شیخی اور تکبّر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو، اس کا غرورِ طاقت اور نشہ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد شکست ہو جائے، اُسے محسوس ہو کہ اُوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہو جائے۔ پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس کا دل قبول ِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنہ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بر بادی کی تمہید شروع ہو جاتی ہے ۔ جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے بُرے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصوّر بٹھاتے ہیں کے حالات کا اُتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک اندھی طبیعت بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی بُرے دن لاتی ہی رہتی ہے، لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کر کے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کھینچا ہے: لا یزال البلا ء بالمؤمن حتٰی یخر جَ نقیاً من ذنوبہٖ، والمنا فقُ مَثَلہُ کمثلِ الحِمار لا یدری فیمَ رَبَطہُ اھلہُ ولاَ فِیمَ ارسلوہ۔ یعنی”مصیبت مومن کی تو اصلاح کر تی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اِس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے، لیکن منافق کی حالت با لکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا ۔“پس جب کسی قوم کاحال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے، نہ نعمتوں پر وہ شکر گزار ہوتی ہے، اور نہ کسی حال میں اصلاح کرتی ہے تو پھر اس کی بر بادی اِس طرح اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے جیسے پورے دن کی حاملہ عورت کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کب اس کا وضع حمل ہو جائے۔

یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر بھی بر تا گیا اور شامت زدہ قوموں کے جس طرزِ عمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، ٹھیک وہی طرزِ عمل سورہ اعراف کے نزول کے زمانہ میں قریش والوں سے ظاہر ہو رہاتھا۔ حدیث میں عبد اللہ بن مسعود ؓ عبداللہ بن عباس ؓ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو حضور ؐ نے دعا کی کہ خدایا ، یوسف کے زمانہ میں جیسا ہفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت قحط میں مبتلا کر دیا اورنوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے، چمڑے اور ہڈیاں اور اُون تک کھا گئے۔ آخر کار مکہ کے لوگوں نے ،جن میں ابو سفیان پیش پیش تھا، حضور ؐ سے درخواست کی کہ ہمارے لیے خدا سے دعا کیجیے۔ مگر جب آپ کی دعا سے اللہ نے وہ بُرا وقت ٹال دیا ور بھلے دن آئے تو اُن لوگوں کی گر دنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں، اور جن کے دل تھوڑے بہت پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرارِ قوم نے یہ کہہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کر دیا کہ میاں، یہ تو زمانے کا اتار چڑھاؤہے۔ پہلے بھی آخر قحط آتے ہی رہے ہیں، کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمبا قحط پڑگیا، لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کھا کر محمد ؐ کے پھندے میں نہ پھنس جا نا۔ یہ تقریریں اس زمانے میں ہو رہی تھیں جب یہ سورہ اعراف نازل ہوئی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہوئی ہیں اور اسی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے اِن کی معنویت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو یونس، آیت ۲۱ ۔ النحل ۱۱۲ ۔ المومنون ۷۵ ، ۷۶ ۔ الدخان ۱۵ ، ۱۶)۔

78. اصل میں لفظ مَکر استعمال ہوا ہے جس کے معنی عربی زبان میں خفیہ تدبیر کے ہیں، یعنی کسی شخص کے خلاف ایسی چال چلنا کہ جب تک اس پر فیصلہ کن ضرب نہ پڑ جائے اس وقت تک اسے خبر نہ ہو کہ اس کی شامت آنے والی ہے، بلکہ ظاہر حالات کو دیکھتے ہوئے وہ یہی سمجھتا رہے کہ سب اچھا ہے۔