24. یہ اُن لوگوں کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و تبلیغ اور تلاوتِ قرآن کی آواز سن کر مذاق اڑانے اور آوازے کسنے کے لیے چاروں طرف سے دوڑ پڑتے تھے۔
25. مطلب یہ ہے کہ خدا کی جنت تو اُن لوگوں کے لیے ہے جن کی صفات ابھی ابھی بیان کی جا چکی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ جو حق بات سننا تک گوارا نہیں کرتے اور حق کی آواز کو دبا دینے کے لیے یوں دوڑے چلے آرہے ہیں، جنت کے امید وار ہو سکتے ہیں؟ کیا خدا نے اپنی جنت ایسے ہی لوگوں کے لیے بنائی ہے؟ اس مقام پر سورة القلم کی آیات۳۴۔۴۱ بھی پیش نظر رکھنی چاہییں جن میں کفارِ مکہ کو اُن کی اِس بات کا جواب دیا گیا ہے کہ آخرت اگر ہوئی بھی تو وہاں وہ اُسی طرح مزے کریں گےجس طرح دنیا میں کر رہے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے اُسی طرح خستہ حال رہیں گے جس طرح آج دنیا میں ہیں۔
26. اس مقام پر اس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ مضمونِ سابق کے ساتھ اس کا تعلق مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس مادے سے یہ لوگ بنے ہیں اس کے لحاظ سے تو سب انسان یکساں ہیں۔ اگر وہ مادہ ہی انسان کے جنت میں جانے کا سبب ہو تو نیک و بد،ظالم و عادل، مجرم اور بے گناہ،سب ہی کو جنت میں جانا چاہیے۔لیکن معمولی عقل ہی یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ جنت کا استحقاق انسان کے مادہ تخلیق کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اُس کے اوصاف کے لحاظ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس فقرے کو بعد کے مضمون کی تمہید سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہمارے عذاب سے محفوظ سمجھ رہے ہیں اور جو شخص انہیں ہماری پکڑ سے ڈراتاہے اس کا مذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ ہم اِن کو دنیا میں بھی جب چاہیں عذاب دے سکتے ہیں اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے بھی جب چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔ یہ خود جانتے ہیں کہ نطفے کی ایک حقیر سی بُوند سے اِن کی تخلیق کی ابتدا کر کے ہم نے ان کو چلتا پھرتا انسان بنایا ہے۔ اگر اپنی اِس خلقت پر یہ غور کرتے تو اُنہیں کبھی یہ غلط فہمی لاحق نہ ہوتی کہ اب یہ ہماری گرفت سے باہر ہو گئے ہیں، یا ہم اِنہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں۔
27. یعنی بات وہ نہیں ہے جو اِنہوں نے سمجھ رکھی ہے۔
28. یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی قسم کھا ئی ہے۔ مشرقوں اور مغربوں کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ سال کے دوران میں سورج ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع اور نئے زاویے پر غروب ہوتا ہے۔ نیز زمین کے مختلف حصوں پر سورج الگ الگ اوقات میں پے در پے طلوع اور غروب ہوتا چلا جاتاہے۔ ان اعتبارات سے مشرق اور مغرب ایک نہیں ہیں بلکہ بہت سے ہیں۔ ایک دوسرے اعتبار سے شمال اور جنوب کے مقابلے میں ایک جہت مشرق ہے اور دوسری جہت مغرب۔ اس بنا پر سورہ شعراء، آیت ۲۸،اور سورہ مزمل، آیت۱۹ میں رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک اور لحاظ سے زمین کے دو مشرق اور مغرب ہیں، کیونکہ جب زمین کے ایک نصف کُرے پر سورج غروب ہوتا ہے تو دوسرے پر طلوع ہوتا ہے۔ اس بنا پر سورہ رحمٰن، آیت ۱۷ میں رَبُّ الْمَشْرِقَینِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَینِ کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ۱۷)۔
29. یہ ہے وہ بات جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رب المشارق و المغارب ہونے کی قسم کھائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہے کہ ہم چونکہ مشرقوں اور مغربوں کے مالک ہیں اس لیے پوری زمین ہمارے قبضہ قدرت میں ہے اور ہماری گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ ہم جب چاہیں تمہیں ہلاک کر سکتے ہیں اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اٹھا سکتے ہیں جو تم سے بہتر ہو۔
30. اصل الفاظ ہیں اِلیٰ نُصُبٍ یُّوفِضُونَ۔ نصب کے معنی میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ ان میں سے بعض نے اس سے مراد بُت لیے ہیں اور اُن کے نزدیک اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ داورِ محشر کی مقرر کی ہوئی جگہ کی طرف اِس طرح دوڑے جا رہے ہو نگے جیسے آج وہ اپنے بتوں کے استھانوں کی طرف دوڑتے ہیں۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ نشان لیے ہیں جو دوڑ کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے لگائے جاتےہیں تا کہ ہر ایک دوسرے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے۔