1. یعنی ان کو اس بات سے آگاہ کر دے کہ جن گمراہیوں اور اخلاقی ًخرابیوں میں وہ مبتلا ہیں وہ اُن کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں گی اگر وہ اُن سے باز نہ آئے، اور اُن کو بتا دے کہ اُس عذاب سے بچنے کے لیے انہیں کونسا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
2. یہ تین باتیں تھیں جو حضرت نوح ؑ نے اپنی رسالت کا آغاز کرتے ہوئے اپنی قوم کے سامنے پیش کیں، ایک اللہ کی بندگی۔ دوسرے ، تقوٰی۔ تیسرے، رسول کی اطاعت۔ اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ دوسروں کی بندگی و عبادت چھوڑ کر اور صرف اللہ ہی کو اپنا معبود تسلیم کر کے اُسی کی پر ستش کرو اور اُسی کے احکام بجالاؤ۔ تقویٰ کا مطلب یہ تھا کہ اُن کاموں سے پر ہیز کرو جو اللہ کی ناراضی اور اس کے غضب کے موجب ہیں، اور اپنی زندگی میں وہ روش اختیار کرو جو خدا ترس لوگوں کو اختیار کرنی چاہیے۔ رہی تیسری بات کہ”میری اطاعت کرو“، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اُن احکام کی اطاعت کرو جو اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے میں تمہیں دیتا ہوں۔
3. اصل الفاظ ہیں یَغْفِرْ لَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ۔ اس فقرے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تمہارے گناہوں میں سے بعض کو معاف کر دے گا، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر تم اُن تین باتوں کو قبول کر لو جو تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہیں تو اب تک جو گناہ تم کر چکے ہو اُن سب سے وہ درگزر فرمائے گا۔ یہاں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ عَن ْکے معنی میں ہے۔
4. یعنی اگر تم نے یہ تین باتیں مان لیں تو تمہیں دنیا میں اُس وقت تک جینے کی مہلت دے دی جائے گی جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری طبعی موت کے لیے مقر کیا ہے۔
5. اس دوسرے وقت سے مراد وہ وقت ہے جو اللہ نے کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے مقرر کر دیا ہو۔ اس کے متعلق متعدد مقامات پر قرآن مجید میں یہ بات بصراحت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی قوم کے حق میں نزولِ عذاب کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اُس کے بعد وہ ایمان بھی لے آئے تو اسے معاف نہیں کیا جاتا۔
6. یعنی اگر تمہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ میرے ذریعہ سے اللہ کا پیغام پہنچ جانے کے بعد اب جو وقت گزر رہا ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو تمہیں ایمان لانے کے لیے دی جارہی ہے، اور اس مہلت کی مدت ختم ہو جانے کے بعد پھر خدا کے عذاب سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے، تو تم ایمان لانے میں جلدی کر و گے اور نزولِ عذاب کا وقت آنے تک اس کو ٹالتے نہ چلے جاؤ گے۔
7. بیچ میں ایک طویل زمانے کی تاریخ چھوڑ کر اب حضرت نوح ؑ کی وہ عرضداشت نقل کی جا رہی ہے جو انہوں نے اپنی رسالت کے آخری دور میں اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی۔
8. یعنی جتنا جتنا میں اُن کو پکارتا گیا اتنے ہی زیادہ وہ دور بھاگتے چلے گئے۔
9. اس میں خود بخود یہ مضمون شامل ہے کہ وہ نافرمانی کی روش چھوڑ کر معافی کے طلب گارہوں ، کیونکہ اسی صورت میں اُن کو اللہ تعالیٰ سے معافی مل سکتی تھی۔
10. منہ ڈھانکنے کی غرض یا تو یہ تھی کہ وہ حضرت نوح ؑ کی بات سننا تو درکنار، آپ کی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتے تھے، یا پھر یہ حرکت وہ اس لیے کرتے تھے کہ آپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے منہ چھپا کر نکل جائیں اور اس کی نوبت ہی نہ آنے دیں کہ آپ اُنہیں پہچان کر اُن سے بات کرنے لگیں۔ یہ ٹھیک وہی طرزِ عمل تھا جو کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اختیار کر رہے تھے۔ سورہ ہود آیت ۵ میں اُن کے اِس رویے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے۔”دیکھو یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہیں تا کہ رسول سے چُھپ جائیں۔ خبر دار!جب یہ اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانکتے ہیں تو اللہ ان کے کھلے کو بھی جانتا ہے اور چھپے کو بھی، وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں سے بھی واقف ہے، (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم،ہود،حواشی۵۔۶)۔
11. تکبُّر سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے حق کے آگے سر جھکا دینے اور خدا کے رسول کی نصیحت قبول کرلینے کو اپنی شان سے گری ہوئی بات سمجھا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بھلا آدمی کسی بگڑے ہوئے شخص کو نصیحت کرے اور وہ جواب میں سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہو اور پاؤں پٹختا ہوا نکل جائے تو یہ تکبُّر کے ساتھ کلامِ نصیحت کو رد کرنا ہوگا۔
12. یہ بات قران مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت ہی میں نہیں ، دنیا میں بھی انسان کی زندگی کو تنگ کر دیتی ہے ، اور اس کے بر عکس اگر کوئی قوم نا فرمانی کے بجائے ایمان و تقویٰ او ر احکام الہٰی کی اطاعت کا طریقہ اختیار کرلے تو یہ آخرت ہی میں نافع نہیں ہے بلکہ دنیا میں بھی اُس پر نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے۔”اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے “۔(آیت۱۲۴)۔سورہ مائدہ میں فرمایاگیا ہے”اور اگر ان اہل کتاب نے تو راة اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا، اور نیچے سے اُبلتا“(آیت۶۶)۔ سورہ اعراف میں فرمایا”اور اگربستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی رو ش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“(آیت۹۶)۔سورہ ہود میں ہے کہ حضرت ہود ؑ نے اپنی قوم کو خطاب کر کے فرمایا”اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا اور تمہاری موجود ہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا“(آیت۵۲)۔خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بھی اسی سورہ ہود میں اہل مکہ کو مخاطب کر کے یہ بات فرمائی گئی ”اور یہ کہ اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مقرر وقت تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دیگا“(آیت۳)۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں سے فرمایا کہ ”ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم کے فرمانروا ہو جاؤ گے“ ۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، المائدہ، حاشیہ۹۶۔جلددوم، ہود،حواشی۳و۵۷۔جلدسوم،طٰہٰ،حاشیہ۱۰۵۔جلد چہارم،دیباچہ سورہ ص)۔
قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارش کی دعا کرنے کے لیے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا، امیر المومنین آپ نے بارش کے لیے تو دعا کی ہی نہیں۔ فرمایا، میں نے آسمان کے اُن دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے، اور پھر سورہ نوح ؑ کی یہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں (ابن جریر و ابن کثیر)۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حسن بصری کی مجلس میں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا اللہ سے استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی، تیسرے نے کہا میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی، چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ہر ایک کو وہ یہی جواب دیتے چلے گئے کے اسغفار کرو۔ لوگوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتا رہے ہیں؟ انہوں نے جواب میں سورہ نوح ؑ کی یہ آیات سنا دیں۔(کشّاف)۔
13. مطلب یہ ہے کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے ر ئیسوں اور سرداروں کے بارے میں تو تم یہ سمجھتے ہو کہ ان کے وقار کے خلاف کوئی حرکت کرنا خطرناک ہے، مگر خداواندِ عالم کے متعلق تم یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ بھی کوئی باوقار ہستی ہو گا۔ اُس کے خلاف تم بغاوت کرتے ہو، اُس کی خدائی میں دوسروں کو شریک ٹھیرا تے ہو، اُس کے احکام کی نا فرمانیاں کرتے ہو، اور اس سے تمہیں یہ اندیشہ لاحق نہیں ہوتا کہ وہ اس کی سزا دے گا۔
14. یعنی تخلیق کے مختلف مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا تمہیں موجودہ حالت پر لایا ہے۔ پہلے تم ماں اور باپ کی صُلب میں الگ الگ نطفوں کی شکل میں تھے۔ پھر خدا کی قدرت ہی سے یہ دونوں نطفے ملے اور تمہارا استقرار حمل ہوا۔ پھر نو مہینے تک ماں کے پیٹ میں بتدریج نشو و نما دے کر تمہیں پوری انسانی شکل دی گئی اور تمہارے اندر تمام وہ قوتیں پیدا کی گئیں جو دنیا میں انسان کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے تمہیں درکار تھیں۔ پھر ایک زندہ بچے کی صورت میں تم بطن مادر سے باہر آئے اور ہر آن تمہیں ایک حالت سے دوسری حالت تک ترقی دی جاتی رہی ، یہاں تک کہ تم جوانی اور کہولت کی عمر کو پہنچے۔ اِن تمام منازل سے گزرتے ہوئے تم ہر وقت پُوری طرح خد ا کے بس میں تھے۔وہ چاہتا تو تمہارا استقرارِحمل ہی نہ ہونے دیتا اور تمہاری جگہ کسی اور شخص کا استقرار ہوتا۔ وہ چاہتا تو ماں کے پیٹ ہی میں تمہیں اندھا، بہرا، گونگا، یا اپاہج بنا دیتا یا تمہاری عقل میں کوئی فتور رکھ دیتا۔ وہ چاہتا تو تم زندہ بچے کی صورت میں پیدا ہی نہ ہوتے۔ پیدا ہونے کے بعد بھی وہ تمہیں ہر وقت ہلاک کر سکتا تھا، اور اس کے ایک اشارے پر کسی وقت بھی تم کسی حادثے کے شکار ہو سکتے تھے۔ جس خدا کے بس میں تم اِس طرح بے بس ہو اُس کے متعلق تم نے یہ کیسے سمجھ رکھا ہے کہ اس کی شان میں ہر گستاخی کی جا سکتی ہے، اس کے ساتھ ہر طرح کی نمک حرامی اور احسان فرامو شی کی جا سکتی ہے، اس کے خلاف ہر قسم کی بغاوت کی جا سکتی ہے اور اِن حرکتوں کا کوئی خمیازہ تمہیں بھگتنا نہیں پڑے گا۔
15. یہاں زمین کے مادّوں سے انسان کی پیدائش کو نباتات کے اُگنے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ جس طرح کسی وقت اِس کُرے پر نباتات موجود نہ تھیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہاں اُن کو اُگایا، اُسی طرح ایک وقت تھا جب روئے زمین پر انسان کا کوئی وجود نہ تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہاں اس کی پَود لگائی۔