Tafheem ul Quran

Surah 71 Nuh, Ayat 21-28

قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ اِنَّهُمۡ عَصَوۡنِىۡ وَاتَّبَعُوۡا مَنۡ لَّمۡ يَزِدۡهُ مَالُهٗ وَوَلَدُهٗۤ اِلَّا خَسَارًا​ ۚ‏ ﴿71:21﴾ وَمَكَرُوۡا مَكۡرًا كُبَّارًا​ ۚ‏ ﴿71:22﴾ وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِهَتَكُمۡ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا  ۙ وَّ لَا يَغُوۡثَ وَيَعُوۡقَ وَنَسۡرًا​ ۚ‏ ﴿71:23﴾ وَقَدۡ اَضَلُّوۡا كَثِيۡرًا​ ​ ۚ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا ضَلٰلًا‏  ﴿71:24﴾ مِّمَّا خَطِٓيْئٰتِهِمۡ اُغۡرِقُوۡا فَاُدۡخِلُوۡا نَارًا  ۙ فَلَمۡ يَجِدُوۡا لَهُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَنۡصَارًا‏ ﴿71:25﴾ وَ قَالَ نُوۡحٌ رَّبِّ لَا تَذَرۡ عَلَى الۡاَرۡضِ مِنَ الۡكٰفِرِيۡنَ دَيَّارًا‏  ﴿71:26﴾ اِنَّكَ اِنۡ تَذَرۡهُمۡ يُضِلُّوۡا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوۡۤا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا‏ ﴿71:27﴾ رَبِّ اغۡفِرۡلِىۡ وَلِـوَالِدَىَّ وَلِمَنۡ دَخَلَ بَيۡتِىَ مُؤۡمِنًا وَّلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِؕ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا تَبَارًا‏ ﴿71:28﴾

21 - نُوحؑ نے کہا” میرے ربّ ، اُنہوں نےمیری بات ردّ کر دی اور اُن (رئیسوں) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پاکر اور زیادہ نامُراد ہوگئے ہیں۔ 22 - اِن لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے۔ 16 23 - اِنہوں نے کہا ہر گز نہ چھوڑو اپنے معبُودوں کو ، اور نہ چھوڑو وَدّ اور سُواع کو، اور نہ یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر کو۔ 17 24 - انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے، اور تُو بھی اِن ظالموں کو گمراہی کے سوا کسی چیز میں ترقی نہ دے۔“ 18 25 - اپنی خطاوٴں کی بنا پر ہی وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دیے گئے،19 پھر انہوں نے اپنے لیے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔20 26 - اور نُوحؑ نے کہا”میرے ربّ، اِن کافروں میں سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ 27 - اگر تُو نے اِن کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور اِن کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا بدکار اور سخت کافر ہی ہوگا۔ 28 - میرے ربّ ، مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے، اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرمادے ، اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر۔ ؏۲


Notes

16. مکر سے مراد اُن سرداروں اور پیشواؤں کے وہ فریب ہیں جن سے وہ اپنی قوم کے عوام کو حضرت نوحؑ کی تعلیمات کے خلا ف بہکانے کی کوشش کرتے تھے۔ مثلاً وہ کہتے تھے کہ نوحؑ تمہی جیسا ایک آدمی ہے ، کیسے مان لیا جائے کہ اس پر خدا کی طرف سے وحی آئی ہے (الاعراف ۶۳۔ ہود ۲۷)۔ نوحؑ کی پیروی تو ہمارے اَراذِل نے بے سوچے سمجھے قبول کر لی ہے، اگر اس کی بات میں کوئی وزن ہوتا تو قوم کے اکابر اس پر ایمان لاتے(ہود۲۷) ۔ خدا کو اگر بھیجنا ہوتا تو کوئی فرشتہ بھیجتا (المومنون۲۴)۔ اِس شخص پر کسی جِن کا سایہ ہے جس نے اِسے دیوانہ بنا دیا ہے( المومنون ۲۵)۔ قریب قریب یہی باتیں تھیں جن سے قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو بہکا یا کرتے تھے۔

17. قومِ نوح کے معبودوں میں سے یہاں اُن معبودوں کے نام لیے گئے ہیں جنہیں بعد میں اہلِ عرب نے بھی پُوجنا شروع کر دیا تھا اور آغازِ اسلام کے وقت عرب میں جگہ جگہ اُن کے مندر بنے ہوئے تھے۔ بعید نہیں کہ طوفان میں جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں نے قومِ نوح کے قدیم معبودوں کا ذکر سُنا ہو گا اور جب ازسرِ نو اُن کی اولاد میں جاہلیّت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں کے بُت بنا کر انہوں نے پھر اُنہیں پُوجنا شروع کر دیا ہو گا۔

وَدّ قبیلہ قُضاعہ کی شاخ بنی کَلب بن وَبرَہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں نے دُومَةُ الجَندَل میں بنا رکھا تھا۔ عرب کے قدیم کتبات میں اس کا نام وَدَّم اَبَم (ودباپو) لکھا ہو ا ملتا ہے۔ کَلبِی کا بیا ن ہے کہ اس کا بُت ایک نہایت عظیم الجثّہ مرد کی شکل میں بنا ہو اتھا۔ قریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں وُدّ تھا۔ اسی کے نام پر تاریخ میں ایک شخص کا نام عبدِ وُدّ ملتا ہے۔

سُواع قبیلہء ہُذ َیل کی دیوی تھی اور اس کا بُت عورت کی شکل میں بنایا گیا تھا۔ یَنبوع کے قریب رُہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا۔

یَغُوث قبیلہء طَے کی شاخ اَنعُم اور قبیلہء مَذ جِح کی بعض شاخوں کا معبود تھا۔ مذجح والوں نے یمن اور حجاز کے درمیان جُرَش کے مقام پر اس کا بُت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی۔ قریش کے لوگوںمیں بھی بعض کا نام عبدِ یَغُوث ملتا ہے۔

یَعُوق یمن کے علاقہ ہَمدان میں قبیلئہ ہَمدان کی شاخ خَیوان کا معبود تھا اور اس کا بُت گھوڑے کی شکل کا تھا۔

نَسر حمیَر کے علاقے میں قبیلئہ حمیر کی شاخ آلِ ذوالکُلاع کا معبود تھا اور بَلخع کے مقام پر اس کا بُت نصب تھا جس کی شکل گِدھ کی تھی۔ سبا کے قدیم کتبوں میں اس کا نام نَسور لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس کے مندرکو وہ لوگ بَیتِ نَسور، اور اس کے پُجاریوں کو اہلِ نَسور کہتے تھے۔ قدیم مندروں کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں میں پائے جاتے ہیں ان میں سے بہت سے مندروں کے دروازوں پر گِدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔

18۔جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیباچہ میں بیان کرچکے ہیں،حضرت نوح علیہ السلام کی یہ بد دعا کسی بے صبری کی بنا پر نہ تھی بلکہ یہ اس وقت ان کی زبان سے نکلی تھی جب صدیوں تک تبلیغ کا حق ادا کرنے کے بعدوہ اپنی قوم سے پوری طرح مایوس ہوچکے تھے۔ایسے ہی حالات میں حضرت موسی نے بھی فرعون اور قوم فرعون کے حق میں یہ بددعا کی تھی کہ " پروردگار ان کے مال غارت کردےاور ان دلوں پر ایسی مہر کردے کہ ایمان نہ لائیں جب تک دردناک عذاب نہ دیکھ لیں،" اور جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا تھا: "تمہاری دعا قبول کی گئی"( یونس آیات ٨٨،٨٩)۔ حضرت موسی کی طرح حضرت نوح کی یہ بددعا بھی عین منشائے الہی کے مطابق تھی۔ چنانچہ سورہ ہود میں ارشاد ہوا ہے وَاُوْحِيَ اِلٰي نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ يُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ 36؀ښ اور نوح ؑ پر وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو لوگ ایمان لا چکے ہیں،ان کے سوا اب اورکوئی ایمان لانے والا نہیں ہے،ان کے کرتوتوں پر غم کھانا چھوڑدے (36)

19. یعنی غرق ہونے پر ان کا قصہ تمام نہیں ہوگیا، بلکہ مرنے کے بعد فوراً ہی ان کی روحیں آگ کے عذاب میں مبتلا کر دی گئیں۔ یہ بعینہ وہی معاملہ ہے جو فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ کیا گیا ، جیسا کہ سورہ مومن، آیات ۴۵۔۴۶ میں بیان کیا گیا ہے(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، المومن، حاشیہ۶۳)۔ یہ آیت بھی اُن آیات میں سے ہے جن سے بَرزَخ کا عذاب ثابت ہوتا ہے۔

20. یعنی اپنے جن معبودوں کو وہ اپنا حامی و مددگار سمجھتے تھے ان میں سے کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے نہ آیا۔ یہ گویا تنبیہ تھی اہلِ مکہ کے لیے کہ تم بھی اگر خدا کے عذاب میں مبتلا ہوگئے تو تمہارے یہ معبود، جن پر تم بھروسا کیے بیٹھے ہو، تمہارے کسی کام نہ آئیں گے۔