Tafheem ul Quran

Surah 72 Al-Jinn, Ayat 1-19

قُلۡ اُوۡحِىَ اِلَىَّ اَنَّهُ اسۡتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الۡجِنِّ فَقَالُوۡۤا اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًاعَجَبًا ۙ‏ ﴿72:1﴾ يَّهۡدِىۡۤ اِلَى الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ​ ؕ وَلَنۡ نُّشۡرِكَ بِرَبِّنَاۤ اَحَدًا ۙ‏ ﴿72:2﴾ وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّلَا وَلَدًا ۙ‏  ﴿72:3﴾ وَّ اَنَّهٗ كَانَ يَقُوۡلُ سَفِيۡهُنَا عَلَى اللّٰهِ شَطَطًا ۙ‏ ﴿72:4﴾ وَّاَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ تَقُوۡلَ الۡاِنۡسُ وَالۡجِنُّ عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا ۙ‏ ﴿72:5﴾ وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الۡاِنۡسِ يَعُوۡذُوۡنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الۡجِنِّ فَزَادُوۡهُمۡ رَهَقًا ۙ‏ ﴿72:6﴾ وَّاَنَّهُمۡ ظَنُّوۡا كَمَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ لَّنۡ يَّبۡعَثَ اللّٰهُ اَحَدًا ۙ‏ ﴿72:7﴾ وَّاَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰهَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِيۡدًا وَّشُهُبًا ۙ‏ ﴿72:8﴾ وَّاَنَّا كُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ​ ؕ فَمَنۡ يَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ يَجِدۡ لَهٗ شِهَابًا رَّصَدًا ۙ‏ ﴿72:9﴾ وَّاَنَّا لَا نَدۡرِىۡۤ اَشَرٌّ اُرِيۡدَ بِمَنۡ فِى الۡاَرۡضِ اَمۡ اَرَادَ بِهِمۡ رَبُّهُمۡ رَشَدًا ۙ‏ ﴿72:10﴾ وَّاَنَّا مِنَّا الصّٰلِحُوۡنَ وَمِنَّا دُوۡنَ ذٰلِكَ​ؕ كُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا ۙ‏ ﴿72:11﴾ وَّاَنَّا ظَنَنَّاۤ اَنۡ لَّنۡ نُّعۡجِزَ اللّٰهَ فِى الۡاَرۡضِ وَلَنۡ نُّعۡجِزَهٗ هَرَبًا ۙ‏ ﴿72:12﴾ وَّاَنَّا لَمَّا سَمِعۡنَا الۡهُدٰٓى اٰمَنَّا بِهٖ​ ؕ فَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِرَبِّهٖ فَلَا يَخَافُ بَخۡسًا وَّلَا رَهَقًا ۙ‏ ﴿72:13﴾ وَّاَنَّا مِنَّا الۡمُسۡلِمُوۡنَ وَمِنَّا الۡقٰسِطُوۡنَ​ؕ فَمَنۡ اَسۡلَمَ فَاُولٰٓـئِكَ تَحَرَّوۡا رَشَدًا‏ ﴿72:14﴾ وَاَمَّا الۡقٰسِطُوۡنَ فَكَانُوۡا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا ۙ‏ ﴿72:15﴾ وَّاَنْ لَّوِ اسۡتَقَامُوۡا عَلَى الطَّرِيۡقَةِ لَاَسۡقَيۡنٰهُمۡ مَّآءً غَدَقًا ۙ‏ ﴿72:16﴾ لِّنَفۡتِنَهُمۡ فِيۡهِ​ ؕ وَمَنۡ يُّعۡرِضۡ عَنۡ ذِكۡرِ رَبِّهٖ يَسۡلُكۡهُ عَذَابًا صَعَدًا ۙ‏ ﴿72:17﴾ وَّاَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا ۙ‏ ﴿72:18﴾ وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبۡدُ اللّٰهِ يَدۡعُوۡهُ كَادُوۡا يَكُوۡنُوۡنَ عَلَيۡهِ لِبَدًا ؕ‏ ﴿72:19﴾

1 - اے نبیؐ ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جِنّوں کے ایک گروہ نے غور سے سُنا 1 پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے )کہا:
”ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سُنا ہے 2
2 - راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اِس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم ہرگز اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔“ 3 3 - اور یہ کہ” ہمارے ربّ کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے ، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہے۔“ 4 4 - اور یہ کہ” ہمارے نادان لوگ 5 اللہ کے بارے میں بہت خلافِ حق باتیں کہتے رہے ہیں۔“ 5 - اور یہ کہ ”ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جِن کبھی خدا کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔“ 6 6 - اور یہ کہ”انسانوں میں سے کچھ لوگ جِنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح اُنہوں نے جِنّوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔“ 7 7 - اور یہ کہ”انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمہارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسُول بنا کر نہ بھیجے گا۔“ 8 8 - اور یہ کہ”ہم نے آسمان کوٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پَٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے۔“ 9 - اور یہ کہ”پہلے ہم سُن گُن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے ، مگر اب جو چوری چھُپے سُننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔“ 9 10 - اور یہ کہ”ہماری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کا ربّ اُنہیں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے۔“ 10 11 - اور یہ کہ”ہم میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اور کچھ اس سے فرو تر ہیں، ہم مختلف طریقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔“ 11 12 - اور یہ کہ”ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں اور نہ بھاگ کر اُسے ہرا سکتے ہیں۔“ 12 13 - اور یہ کہ”ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سُنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اب جو کوئی بھی اپنے ربّ پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہوگا۔“ 13 14 - اور یہ کہ”ہم میں سے کچھ مسلم(اللہ کے اطاعت گزار)ہیں اور کچھ حق سے منحرف۔ تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ)اختیار کر لیا انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈلی، 15 - اور جو حق سے منحرف ہیں وہ جہنّم کا ایندھن بننے والے ہیں۔“ 14 16 - 15 اور (اے نبیؐ ) کہو، مجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے کہ) لوگ اگر راہِ راست پر ثابت قدمی سے چلتے تو ہم اُنہیں خوب سیراب کرتے، 16 17 - تاکہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں۔ 17 اور جو اپنے ربّ کے ذکر سے منہ موڑے گا 18 اس کا ربّ اسے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ 18 - اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اُن میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ 19 19 - اور یہ کہ جب اللہ بندہ 20 اُس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو لوگ اُس پر ٹُوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ؏۱


Notes

1. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جِن اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر نہیں آرہے تھے اور آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قرآن سن رہے ہیں، بلکہ بعد میں وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کواس واقعہ کی خبر دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اِس قصّے کو بیان کرتے ہوئے صراحت فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جِنوں کے سامنے قرآن نہیں پڑھا تھا، نہ آپ نے ان کو دیکھا تھا “(مسلم ۔ ترمذی۔ مُسند احمد۔ ابنِ جریر)۔

2. اصل الفاظ میں قُرُاٰناً عَجَبًا۔ قرآن کے معنی ہیں۔”پڑھی جانے والی چیز“اور یہ لفظ غالبًا جِنوں نے اِسی معنی میں ا ستعمال کیا ہوگا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اُس وقت اُن کو یہ معلوم نہ ہوگا کہ جو چیز وہ سُن رہے ہیں اس کا نام قرآن ہی ہے۔ عَجَب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لیے بولا جاتا ہے۔ پس جِنوں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سُن کر آئے ہیں جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیر ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جِن نہ صرف یہ کہ انسانوں کی باتیں سنتے ہیں بلکہ ان کی زبان بخوبی سمجھتے بھی ہیں۔ اگر چہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمام جِن تمام انسانی زبانیں جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ اُن میں سے جو گروہ زمین کے جس علاقے میں رہتے ہوں اُسی علاقے کے لوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں۔ لیکن قرآن کے اِس بیان سے بہر حال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جِن جنہوں نے اُس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اتنی اچھی جانتے تھے کہ انہوں نے اِس کلام کی بے مثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اُس کے بلند پا یہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا۔

3. اس سے کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ جن اللہ تعالیٰ کے وجوداور اس کے رب ہونے کے منکر نہیں ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان میں بھی مشرکین پائے جاتے ہیں جو مشرک انسانوں کی طرح اللہ کے ساتھ دوسروں کوخدائی میں شریک ٹھیراتے ہیں ، چنانچہ جِنوں کی یہ قوم جس کے افراد قرآن سُن کر گئے تھے مُشرک ہی تھی۔تیسرے یہ کہ نبوت اور کتبِ آسمانی کے نزول کا سلسلہ جِنوں کے ہاں جاری نہیں ہوا ہے، بلکہ ان میں سے جو جِن بھی ایمان لاتے ہیں وہ انسانوں میں آنے والے انبیاء اور ان کی لائی ہوئی کتابوں پر ہی ایمان لاتے ہیں۔ یہی بات سورہ احقاف آیات۲۹۔۳۱ سے بھی معلوم ہوتی ہے جن میں بتایاگیا ہے کہ وہ جِن جنہوں نے اُس وقت قرآن سُنا تھا، حضرت موسیٰ کے پیرووں میں سے تھے اور انہوں نے قرآن سُننے کے بعد اپنی قوم کو دعوت دی تھی کہ اب جو کلام خدا کی طرف سے پچھلی کتبِ آسمانی کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے اُس پر ایمان لاؤ۔ سورہ رحمان بھی اِسی بات پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس کا پُورا مضمون ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مخاطب انسان اور جِن دونوں ہیں۔

4. اِس سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ یہ جِن یا تو عیسائی جِنوں میں سے تھے، یا ان کا کوئی اور مذہب تھا جس میں اللہ تعالیٰ کو بیوی بچوں والا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اُس وقت رسول اللہ علیہ وسلم نماز میں قرآن پاک کا کوئی ایسا حصّہ پڑھ رہے تھے جسے سُن کر ان کو اپنے عقیدے کی غلطی معلوم ہوگئی اور انہوں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی بلند و برتر ذات کی طرف بیوی بچوں کو منسوب کرنا سخت جہالت اور گستاخی ہے۔

5. اصل میں لفظ سَفِیْھُنَا استعمال کیا گیا ہے جو ایک فرد کے لیے بھی بولا جا سکتا ہے اور ایک گروہ کے لیے بھی۔اگر اسے ایک نادان فرد کے معنی میں لیا جائے تو مراد ابلیس ہو گا۔ اور اگر ایک گروہ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جِنوں میں بہت سے احمق اور بے عقل لوگ ایسی باتیں کہتے تھے۔

6. یعنی اُن کی غلط باتوں سے ہمارے گمراہ ہونے وجہ یہ تھی کہ ہم کبھی یہ سوچ ہی نہیں سکتے تھےکہ انسان یا جن اللہ کے بارے میں جھوٹ گھڑنے کی جرأ ت بھی سکتے ہیں، لیکن اب یہ قرآن سُن کر ہمیں معلو م ہو گیا کہ فی الواقع وہ جھوٹے تھے۔

7. ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے میں جب عرب کسی سُنسان وادی میں رات گزارتے تھے تو پُکار کر کہتے”ہم اِس وادی کے مالک جِن کی پناہ مانگتے ہیں“۔ عہدِ جاہلیت کی دوسری روایات میں بھی بکثرت اس بات کا ذکر ملتا ہے ۔ مثلاً اگر کسی جگہ پانی اور چارہ ختم ہو جاتا تو خانہ بدوش بدّو اپنا ایک آدمی کوئی دوسری جگہ تلاش کرنے کے لیے بھیجتے جہاں پانی اور چارہ مل سکتا ہو، پھر اُس کی نشان دہی پر جب یہ لوگ نئی جگہ پہنچتے تو وہاں اُترنے سے پہلے پکار پکار کر کہتے”کہ ہم اس وادی کے رب کی پناہ مانگتے ہیں تا کہ یہاں ہم ہر آفت سے محفوظ رہیں“۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر غیر آباد جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے میں ہے اور اس کی پناہ مانگے بغیر وہاں کوئی ٹھیر جائے تو وہ جن یا تو خود ستا تا ہے یا دوسرے جِنوں کو ستانے دیتا ہے ۔ اسی بات کی طرف یہ ایمان لانے والے جِن اشارہ کر رہے ہیں۔ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین کے خلیفہ انسان نے اُلٹا ہم سے ڈرنا شروع کر دیا اور خدا کو چھوڑ کر وہ ہم سے پناہ مانگنے لگا تو ہماری قوم کے لوگوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہو گیا، ان کا کبروغرور اور کفر وظلم اور زیادہ بڑھ گیا، اور وہ گمراہی میں زیادہ جری ہو گئے۔

8. اصل الفاظ ہیں اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللہ ُ اَحَدًا۔ اِس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمہ میں اختیار کیے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ”اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھائے گا“۔ چونکہ الفاظ جامع ہیں اس لیے ان کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی طرح جِنوں میں بھی رسالت اور آخرت دونوں کا انکار پا یا جاتا تھا ۔ لیکن آگے کے مضمون کی مناسبت سے پہلا مفہوم ہی زیادہ قابلِ تر جیح ہے ، کیونکہ اس میں یہ ایمان لانے والے جِن اپنی قوم کے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ تمہارا یہ خیال غلط نکلا کہ اللہ کسی رسول کو مبعوث کرنے والا نہیں ہے، آسمانوں کے دروازے ہم پر اسی وجہ سے بند کیے گئے ہیں کہ اللہ نے ایک رسول بھیج دیا ہے۔

9. یہ ہے وہ وجہ جس کی بنا پر یہ جِن اِس تلاش میں نکلے تھے کہ آخر زمین پر ایسا کیا معاملہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کی خبر وں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس قدر سخت انتظا مات کیے گئے ہیں کہ اب ہم عالمِ بالا میں سُن گُن لینے کا کوئی موقع نہیں پاتے اور جدھر بھی جاتے ہیں مار بھگائے جاتے ہیں۔

10. اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ بالا میں اِس قسم کے غیر معمولی انتظامات دو ہی حالتوں میں کیے جاتے تھے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ زمین پر کوئی عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہو اور منشائے الہیٰ یہ ہو کہ اس کے نزول سے پہلے جِن اُس کی بِھنَک پا کر اپنے دوست انسانوں کو خبردار نہ کر دیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں کسی رسول کو مبعوث فرمایا ہو اور تحفظ کے اِن انتظامات سے مقصود یہ ہو کہ رسول کی طرف جو پیغامات بھیجے جا رہے ہیں اُن میں نہ تو شیاطین کسی قسم کی خلل اندازی کر سکیں اور نہ قبل از وقت یہ معلوم کر سکیں کہ پیغمبر کو کیا ہدایات دی جا رہی ہیں۔ پس جِنوں کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے اسمان میں یہ چوکی پہرے دیکھے اور شہابوں کی اِس بارش کا مشاہدہ کیا توہمیں یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ ان دونوں صورتوں میں سے کون سی صورت در پیش ہے۔ آیا اللہ تعالیٰ نے زمین میں کسی قوم پر یکایک عذاب نازل کر دیا ہے؟ یا کہیں کوئی رسول مبعوث ہوا ہے؟ اسی تلاش میں ہم نکلے تھے کہ ہم نے وہ حیرت انگیز کلام سنا جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ اللہ نے عذاب نازل نہیں کیا ہے بلکہ خلق کو راہِ راست دکھانے کے لیے ایک رسول مبعوث فرمادیا ہے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الحجر، حواشی۸تا ۱۲۔جلد چہارم، الصّافّات، حا شیہ۷،جلد ششم، المُلک، حاشیہ۱۱)۔

11. یعنی اخلاقی حیثیت سے بھی ہم میں اچھے اور بُرے دونوں طرح کے جِن پائے جاتے ہیں ، اور اعتقادات میں بھی ہمارا کوئی ایک مذہب نہیں ہے بلکہ ہم مختلف گروہوں میں منقسم ہیں۔ یہ بات کہہ کر یہ ایمان لانے والے جِن اپنی قوم کے جِنوں کو یہ سمجھا نا چاہتے ہیں کہ ہم راہِ راست معلوم کرنے کے یقیناً محتاج ہیں۔ اِس سے ہم بے نیاز نہیں ہو سکتے ۔

12. مطلب یہ ہے کہ ہمارے اِسی خیال نے ہمیں نجات کی راہ دکھا دی۔ ہم چونکہ اللہ سے بے خوف نہ تھے اور ہمیں یقین تھا کہ اگر ہم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی گرفت سے کسی طرح بچ نہ سکیں گے، اس لیے جب وہ کلام ہم نے سُناجو اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہِ راست بتانے آیا تھا تو ہم یہ جر أ ت نہ کر سکے کہ حق معلوم ہو جانے کے بعد بھی اُنہی عقائد پر جمے رہتے جو ہمارے نادان لوگوں نے ہم میں پھیلا رکھے تھے۔

13. حق تلفی سے مراد یہ ہے کہ اپنی نیکی پر وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اُس سے کم دیا جائے۔ اور ظلم یہ ہے کہ اُسے نیکی کا کوئی اجر نہ دیا جائے او ر جو قصور اس سے سر زد ہوں ان کی زیادہ سزا دے ڈالی جائے۔ یا بلا قصور ہی کسی کو عذاب دے دیا جائے۔ کسی ایمان لانے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اِس قسم کی کسی بے انصافی کا خوف نہیں ہے۔

14. سوال کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی رُو سے جن تو خود آتشیں مخلوق ہیں ، پھر جہنم کی آگ سے ان کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی رُو سے تو آدمی بھی مٹی سے بنا ہے، پھر اگر اسے مٹی کا ڈھیلا کھینچ مارا جائے تو اس کو چوٹ کیوں لگتی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا پُورا جسم اگرچہ زمین کے مادوں سے بنا ہے، مگر جب اُن سے گوشت پوست کا زندہ انسان وجود میں آجاتا ہے تو وہ ان مادوں سے بالکل مختلف چیز بن جاتا ہے اور انہی مادوں سے بنی ہوئی دوسری چیزیں اس کے لیے اذیت کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جِن بھی اگرچہ اپنی ساخت کے اعتبار سے آتشیں مخلوق ہیں، لیکن آگ سے جب ایک زندہ اور صاحبِ احساس مخلوق وجود میں آجاتی ہے تو وہی آگ اس کے لیے تکلیف کی موجب بن جاتی ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ۱۵)۔

15. اوپر جِنوں کی بات ختم ہو گئی۔ اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کے اپنے ارشادات شروع ہوتے ہیں۔

16. یہ وہی بات ہے جو سورہ نوح میں فرمائی گئی ہے کہ اللہ سے معافی مانگو تو وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں بر سائے گا(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیر سورہ نوح، حاشیہ۱۲)۔ پانی کی کثرت کو نعمتوں کی کثرت کے لیے بطورِ کنا یہ استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ پانی ہی آبادی کا انحصار ہے۔ پانی نہ ہو تو سرے سے کوئی بستی بس ہی نہیں سکتی، نہ انسان کی بنیادی ضروریات فراہم ہو سکتی ہیں، اور نہ انسان کی صنعتیں چل سکتی ہیں۔

17. یعنی یہ دیکھیں کہ وہ نعمت پا کر بھی شکر گزار رہتے ہیں یا نہیں، اور ہماری دی ہوئی نعمت کا صحیح استعمال کرتے ہیں یا غلط۔

18. ذکر سے مُنہ موڑنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آدمی اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت کو قبول نہ کرے، اور یہ بھی کہ وہ اللہ کا ذکر سننا ہی گوارا نہ کرے، اور یہ بھی کہ وہ اللہ کی عبادت سے رُوگردانی کرے۔

19. مفسرین نے بالعموم”مساجد“کو عبادت گاہوں کے معنی میں لیا ہے اور اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت گاہوں میں اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔ حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ زمین پوری کی پوری عباد ت گاہ ہے اور آیت کا منشا یہ ہے کہ خدا کی زمین پر کہیں بھی شرک نہ کیا جائے۔ ان کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہے کہ جعلت فی الارض مسجد اوطھورا۔”میرے لیے پُوری زمین عبادت کی جگہ اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے“۔ حضرت سعید بن جُبَیر نے مساجد سے مراد وہ اعضاء لیے ہیں جن پر آدمی سجدہ کرتا ہے، یعنی ہاتھ ، گھٹنے، قدم اور پیشانی۔ اِس تفسیر کی رُو سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعضاء اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ اِن پر اللہ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ نہ کیا جائے۔

20. اللہ کے بندے سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔