21. یعنی خدا کو پکارنا تو کوئی قابلِ اعتراض کام نہیں ہے جس پر لوگوں کو اس قدر غصّہ آئے، البتہ بری بات اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص خدا کے ساتھ کسی اور کو خدائی میں شریک ٹھیرائے، اور یہ کام میں نہیں کرتا بلکہ وہ لوگ کرتے ہیں جو خدا کا نام سُن کر مجھ پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔
22. یعنی میرا یہ دعویٰ ہر گز نہیں ہے کہ خدا کی خدائی میں میرا کوئی دخل ہے، یا لوگوں کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا کوئی اختیار مجھے حاصل ہے ۔ میں تو صرف ایک رسول ہوں اور جو خدمت میرے سپرد کی گئی ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغامات تمہیں پہنچادوں۔ باقی رہے خدا ئی اختیارات، تو وہ سارے کے سارے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ کسی دوسرے کو نفع یا نقصان پہنچانا تو درکنار، مجھے تو خود اپنے نفع و نقصان کا اختیار بھی حاصل نہیں۔ اللہ کی نافرمانی کروں تو اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں پناہ نہیں لے سکتا، اور اللہ کے دامن کے سوا کوئی ملجا و ماویٰ میرے لیے نہیں ہے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ۷)۔
23. اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر گنا ہ اور معصیت کی سزا ابدی جہنم ہے ، بلکہ جس سلسلہ کلام میں یہ بات فرمائی گئی ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے توحید کی جو دعوت دی گئی ہے اس کو جو شخص نہ مانے اور شرک سے باز نہ آئے اس کے لیے ابدی جہنم کی سزا ہے۔
24. اِس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ اُس زمانے میں قریش کے جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت الی ٰ اللہ کو سنتے ہی آپ پر ٹوٹ پڑتے تھے وہ اس زعم میں مبتلا تھے کہ اُن کا جتھا بڑا زبر دست ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند مٹھی بھر آدمی ہیں اس لیے وہ بآسانی آپ کو دبا لیں گے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ آج یہ لوگ رسول کو بے یار و مدد گار اور اپنے آپ کو کثیر التعداد دیکھ کر حق کی آواز کو دبانے کے لیے بڑے دلیر ہو رہے ہیں، مگر جب وہ بُرا وقت آجائے گا جس سے اِن کو ڈرایا جا رہا ہے تو ان کو پتہ چل جائے گا کہ بے یارو مددگار حقیقت میں کون ہے۔
25. اندازِ بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک سوال کا جواب ہے جو سوال نقل کیے بغیر دیا گیا ہے ۔ غالباً اوپر کی بات سُن کر مخالفین نے طنز اور مذاق کے طور پر سوال کیا ہوگا کہ وہ وقت جس کا ڈراوا آپ دے رہے ہیں آخر کب آئے گا؟ اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ ان لوگوں سے کہو ، اُس وقت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کی تاریخ مجھے نہیں بتائی گئی۔ یہ بات اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ آیا وہ جلدی آنے والا ہے یا اس کے لیے ایک طویل مدت مقرر کی گئی ہے۔
26. یعنی غیب کا پُورا علم اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے ، اور یہ مکمل علمِ غیب وہ کسی کو بھی نہیں دیتا۔
27. یعنی رسول بجائے خود عالم الغیب نہیں ہوتا کہ بلکہ اللہ تعالیٰ جب اس کورسالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے منتخب فرماتا ہے تو غیب کے حقائق میں سے جن چیزوں کا علم وہ چاہتا ہے اسے عطا فرمادیتا ہے۔