Tafheem ul Quran

Surah 73 Al-Muzzammil, Ayat 1-18

يٰۤاَيُّهَا الۡمُزَّمِّلُۙ‏ ﴿73:1﴾ قُمِ الَّيۡلَ اِلَّا قَلِيۡلًا ۙ‏ ﴿73:2﴾ نِّصۡفَهٗۤ اَوِ انْقُصۡ مِنۡهُ قَلِيۡلًا ۙ‏ ﴿73:3﴾ اَوۡ زِدۡ عَلَيۡهِ وَرَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِيۡلًا ؕ‏ ﴿73:4﴾ اِنَّا سَنُلۡقِىۡ عَلَيۡكَ قَوۡلًا ثَقِيۡلًا‏ ﴿73:5﴾ اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيۡلِ هِىَ اَشَدُّ وَطۡـاً وَّاَقۡوَمُ قِيۡلًا ؕ‏ ﴿73:6﴾ اِنَّ لَـكَ فِى النَّهَارِ سَبۡحًا طَوِيۡلًا ؕ‏ ﴿73:7﴾ وَاذۡكُرِ اسۡمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلۡ اِلَيۡهِ تَبۡتِيۡلًا ؕ‏ ﴿73:8﴾ رَبُّ الۡمَشۡرِقِ وَالۡمَغۡرِبِ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذۡهُ وَكِيۡلًا‏  ﴿73:9﴾ وَاصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَاهۡجُرۡهُمۡ هَجۡرًا جَمِيۡلًا‏ ﴿73:10﴾ وَذَرۡنِىۡ وَالۡمُكَذِّبِيۡنَ اُولِى النَّعۡمَةِ وَمَهِّلۡهُمۡ قَلِيۡلًا‏  ﴿73:11﴾ اِنَّ لَدَيۡنَاۤ اَنۡـكَالًا وَّجَحِيۡمًا ۙ‏ ﴿73:12﴾ وَّطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّعَذَابًا اَلِيۡمًا‏ ﴿73:13﴾ يَوۡمَ تَرۡجُفُ الۡاَرۡضُ وَالۡجِبَالُ وَكَانَتِ الۡجِبَالُ كَثِيۡبًا مَّهِيۡلًا‏  ﴿73:14﴾ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡكُمۡ رَسُوۡلًا ۙ شَاهِدًا عَلَيۡكُمۡ كَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ؕ‏ ﴿73:15﴾ فَعَصٰى فِرۡعَوۡنُ الرَّسُوۡلَ فَاَخَذۡنٰهُ اَخۡذًا وَّبِيۡلًا‏ ﴿73:16﴾ فَكَيۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ كَفَرۡتُمۡ يَوۡمًا يَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِيۡبَا  ۖ‏ ﴿73:17﴾ اۨلسَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌ ۢ بِهٖ​ؕ كَانَ وَعۡدُهٗ مَفۡعُوۡلًا‏ ﴿73:18﴾

1 - اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، 1 2 - رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، 2 3 - آدھی رات ، یا اس سے کچھ کم کر لو، 4 - یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، 3 اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ 4 5 - ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔ 5 6 - درحقیقت رات کا اُٹھنا 6 نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر 7 اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ 8 7 - دن کے اوقات میں تو تمہارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔ 8 - اپنے ربّ کے نام کا ذکر کیا کرو 9 اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ 9 - وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنا لو۔10 10 - اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاوٴ۔ 11 11 - اِن جُھٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو 12 اور اِنہیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت میں رہنے دو۔ 12 - ہمارے پاس (اِن کے لیے) بھاری بیڑیاں ہیں 13 اور بھڑکتی ہوئی آگ 13 - اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔ 14 - یہ اُس دن ہو گا جب زمین اور پہاڑ لرز اُٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں۔ 14 15 - 15 تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا16 ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسُول بھیجا تھا۔ 16 - (پھر دیکھ لو کہ جب) فرعون نے اُس رسُول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔ 17 - اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کیسے بچ جاوٴ گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا 17 18 - اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہو گا؟ اللہ کا وعدہ تو پُورا ہو کر ہی رہنا ہے۔


Notes

1. ان الفاظ کے ساتھ حضور ؐ کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوًں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اُوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اِس موقع پر آپ کواے نبی ؐ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے”اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے“کہہ کر پکارنا ایک لطیف اندازِ خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دَور گزر گیا جب آپ آرام سے پا ؤ ں پھیلا کر سوتے تھے۔ اب آپ پر ایک کارِ عظیم کا بوجھ ڈال دی گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

2. اِس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ رات نماز میں کھڑے رہ کر گزار و اور اس کا کم حصّہ سونے میں صرف کرو۔ دوسرا یہ کہ پوری رات نماز میں گزار دینے کا مطالبہ تم سے نہیں ہے بلکہ آرام بھی کرو اور رات کا ایک قلیل حصّہ عبادت میں بھی صرف کرو۔ لیکن آگے کے مضمون سے پہلا مطلب ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی کی تائید سورہ دہر کی آیت ۲۶ سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہےوَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلا ً طَوِیْلاً، ”رات کو اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو اور رات کا طویل حصّہ اُس کی تسبیح کرنے ہوئے گزارو“۔

3. یہ اُس مقدارِ وقت کی تشریح ہے جسے عبادت میں گزارنے کا حکم دی گیا تھا۔ اِس میں آپ ؐ کو اختیار دیا گیا کہ خواہ آدھی رات نما ز میں صرف کریں، یا اس سے کچھ کم کر دیں، یا اس سے کچھ زیادہ۔ لیکن اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قابلِ ترجیح آدھی رات ہے، کیونکہ اُسی کو معیار قرار دے کر کمی و بیشی کا اختیار دیا گیا ہے۔

4. یعنی تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تا کہ ذہن پُوری طرح کلام الہٰی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متا ثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات وصفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکّر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قر أت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر اور تدبُّر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قر أ ت کا طریقہ حضرت اَنَس ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتا یا کہ آپ اللہ، رحمان اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے(بخاری)۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور ؑ ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مسند احمد۔ ابو داؤ۔ترمذی)۔دوسری ایک روایت میں حضرت ام سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور ؐ ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے( ترمذی۔نسائی)۔ حضرت حْذیفہ بن یَمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور ؐ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرآت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے(مسلم، نسائی)۔ حضرت ابو ذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور ؐ اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُم عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِر لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔ (اگرتو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرمادے تو تُو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی(مسند احمد ، بخاری)۔

5. مطلب یہ ہے کہ تم کو رات کی نماز کا یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ایک بھاری کلام ہم تم پر نازل کر رہے ہیں جس کا بارا ٹھانے کے لیے تم میں اُس کے تحمّل کی طاقت پیدا ہونی ضروری ہے، اور یہ طاقت تمہیں اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ راتوں کو اپنا آرام چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھو اور آدھی آدھی رات یا کچھ کم و بیش عبادت میں گزارا کرو۔ قرآن کو بھاری کلام اس بنا پر بھی کہا گیا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تعلیم کا نمونہ بن کر دکھانا، اس کی دعوت کو لے کر ساری دنیا کے مقابلے میں اٹھنا، اور اس کے مطابق عقائد و افکار، اخلاق و آداب اور تہذیب وتمدن کے پورے نظام میں انقلاب بر پا کر دینا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑھ کر کسی بھاری کا م کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس بنا پر بھی اس کو بھا ری کلام کہا گیا ہے کہ اس کے نزول کا تحّمّل بڑا دشوار کام ہے۔ حضرت زید ؓ بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اِس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ اپنا زانو میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے تھے۔ میرے زانو پر اس وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا اَب ٹوٹ جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے سخت سردی کے زمانے میں حضور ؐ پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے، آپ کی پیشانی سے اُس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا( بخاری، مسلم، مالک، ترمِذی، نسَائی)۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جب کبھی آپ پر اس حالت میں وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پر بیٹھے ہوں تو اونٹنی اپنا سینہ زمین پر ٹکا دیتی تھی اور اس وقت تک حرکت نہ کر سکتی تھی جب تک نزولِ وحی کا سلسلہ ختم نہ ہو جاتا(مسند احمد، حاکم،ابن جریر)۔

6. اصل میں لفظ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ استعمال کیا گیا ہے جس کے متعلق مفسّرین اور اہل لغت کے چار مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ناشئہ سے مراد نفس ناشئہ ہے، یعنی وہ شخص جو رات کو اٹھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رات کے اوقات ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں رات کو اٹھنا۔ اور چوتھا قول یہ ہے کہ اس لفظ کا اطلاق محض رات کو اٹھنے پر نہیں ہوتا بلکہ سو کراُٹھنے پر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اور مجاہد ؒ نے اِسی چوتھے قول کو اختیار کیا ہے۔

7. اصل میں لفظ اَشَدُّ وَطْأً استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اسے ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اُس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے ، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ اِس طریقے سے جو شخص اپنے آپ پر قابو پا لے اور اپنے جسم و ذہن پر تسلّط حاصل کر کے اپنی اِس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے پر قادر ہو جائے وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دینِ حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کے اِن اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسراحائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کار گر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لا محالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا، اس میں ریا کاری کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے اس لیے اس کا التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے ، وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کر سکتا ہے۔

8. اصل میں اَقْوَمُ قِیْلاً ارشاد ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں”قول کو زیادہ راست اور درست بناتا ہے“۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ اُس وقت انسان قرآن کو زیادہ سکون و اطمینان اور توجہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھ سکتا ہے۔ ابن عباس ؓ اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ اجد ران یفقہ فی القرآن، یعنی ”وہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ آدمی قرآن میں غور دخوض کرے“(ابو دا ؤد)۔

9. دن کے اوقات کی مصروفیتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد کہ ”اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو“خود بخود یہ مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں ہر طرح کے کام کرتے ہوئے بھی اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہ ہواور کسی نہ کسی شکل میں اس کا ذکر کرتے رہو(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،الاحزاب، حاشیہ۶۳)۔

10. وکیل اُس شخص کو کہتے ہیں جس پر اعتماد کر کے کوئی شخص اپنا معاملہ اُس کے سُپرد کر دے۔ قریب قریب اِسی معنی میں ہم اُردو زبان میں وکیل کا لفظ اُس شخص کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے حوالہ اپنا مقدمہ کر کے ایک آدمی مطمئن ہو جاتا ہے کہ اس کی طرف سے وہ اچھی طرح مقدمہ لڑے گا اور اسے خود اپنا مقدمہ لڑنے کی حاجت نہ رہے گی۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اِس دین کی دعوت پیش کر نے پر تمہارے خلاف مخالفتوں کا جو طوفان اُٹھ کھڑا ہوا ہے اور جو مشکلات تمہیں پیش آرہی ہیں اُن پر کوئی پریشانی تم کو لاحق نہ ہونی چاہیے۔ تمہارا رب وہ ہے جو مشرق و مغرب، یعنی ساری کائنات کا مالک ہے ، جس کے سوا خدائی کے اختیارات کسی کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ تم اپنا معاملہ اُسی کے حوالے کر دو اورمطمئن ہوجا ؤ کہ اب تمہارا مقدمہ وہ لڑے گا ، تمہارے مخالفین سے وہ نمٹے گا اور تمہارے سارے کام وہ بنائے گا۔

11. الگ ہو جا ؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے مقاطعہ کر کے اپنی تبلیغ بند کر دو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ نہ لگو، ان کی بیہودگیوں کو بالکل نظر انداز کر دو، اور ان کی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو۔ پھر یہ احتراز بھی کسی غم اور غصّے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ نہ ہو، بلکہ اُس طرح کا احتراز ہو جس طرح ایک شریف آدمی کسی بازاری آدمی کی گالی سُن کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور دل پر مَیل تک نہیں آنے دیتا ۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل کچھ اس سے مختلف تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو یہ ہدایت فرمائی۔ اصل میں تو آپ پہلے ہی سے اِسی طریقے پر عمل فرمارہے تھے، لیکن قرآن میں یہ ہدایت اس لیے دی گئی کہ کفار کو بتادیا جائے کہ تم جو حرکتیں کر رہے ہو ان کا جواب نہ دینے کی وجہ کمزوری نہیں ہے بلکہ اللہ نے ایسی باتوں کے جواب میں اپنے رسول کو یہی شریفانہ طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔

12. اِن الفاظ میں صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ مکّہ میں دراصل جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جُھٹلا رہے تھے اور طرح طرح کے فریب دے کر اور تعصبات اُبھار کر عوام کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کر رہے تھے وہ قوم کے کھاتے پیتے، پیٹ بھرے، خوشحال لوگ تھے، کیونکہ انہی کے مفاد پر اسلام کی اِس دعوت ِ اصلاح کی زد پڑ رہی تھی۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہمیشہ یہی گروہ اصلاح کی راہ روکنے کے لیے سنگِ گراں بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو الاعراف، آیات۶۰۔۶۶۔۸۸۔المومنون،۳۳۔سبا،۳۴۔۳۵۔الزُّخْرُف،۲۳۔

13. جہنم میں بھاری بیڑیاں مجرموں کے پا ؤ ں میں اس لیے نہیں ڈالی جائیں گی کہ وہ بھاگ نہ سکیں، بلکہ ا س لیے ڈالی جائیں گی کہ وہ اٹھ نہ سکیں۔ یہ فرار سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ عذاب کے لیے ہونگی۔

14. چونکہ اُس وقت پہاڑوں کے اجزاء کو باندھ کر رکھنے والی کشش ختم ہو جائے گی، اس لیے پہلے تو وہ باریک بُھر بھری ریت کے ٹیلے بن جائیں گے، پھر جو زلزلہ زمین کو ہلا رہا ہو گا اس کی وجہ سے یہ ریت بکھر جائے گی اور ساری زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ اسی آخری کیفیت کو سُورہ طٰہٰ آیات۱۰۵ تا ۱۰۷ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ”لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ اِن پہاڑوں کا کیا بنے گا۔ کہو، میرا رب اِن کو دھُول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے“۔

15. اب مکّہ کے اُن کفار کو خطاب کیا جا رہا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جُھٹلا رہے تھے اور آپ کی مخالفت میں سر گرم تھے۔

16. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں پر گواہ بنا کر بھیجنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ دنیا میں اُن کے سامنے اپنےقول اور عمل سے حق کی شہادت دیں، اور یہ بھی کہ آخرت میں جب اللہ تعالیٰ کی عدالت برپا ہو گی اُس وقت آپ یہ گواہی دیں کہ میں نے اِن لوگوں کے سامنے حق پیش کر دیا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ النساء، حاشیہ۶۴۔جلد دوم، النحل، آیات۸۴، ۸۹۔جلد چہارم، الاحزاب،حاشیہ۸۲۔جلد پنجم، الفتح، حاشیہ۱۴)۔

17. یعنی اوّل تو تمہیں ڈرنا چاہیے کہ اگر ہمارے بھیجے ہوئے رسول کی بات تم نے نہ مانی تو وہ بُرا انجام تمہیں دُنیا ہی میں دیکھنا ہوگا جو فرعون اس سے پہلے اِسی جرم کے نتیجے میں دیکھ چکا ہے۔ لیکن اگر فرض کر و کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ بھی بھیجا گیا تو روزِ قیامت کے عذاب سے کیسے بچ نکلو گے؟