Tafheem ul Quran

Surah 73 Al-Muzzammil, Ayat 19-20

اِنَّ هٰذِهٖ تَذۡكِرَةٌ ​ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيۡلًا‏  ﴿73:19﴾ اِنَّ رَبَّكَ يَعۡلَمُ اَنَّكَ تَقُوۡمُ اَدۡنىٰ مِنۡ ثُلُثَىِ الَّيۡلِ وَ نِصۡفَهٗ وَثُلُثَهٗ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ الَّذِيۡنَ مَعَكَ​ؕ وَاللّٰهُ يُقَدِّرُ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ​ؕ عَلِمَ اَنۡ لَّنۡ تُحۡصُوۡهُ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ​ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ​ؕ عَلِمَ اَنۡ سَيَكُوۡنُ مِنۡكُمۡ مَّرۡضٰى​ۙ وَاٰخَرُوۡنَ يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ يَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ​ۙ وَاٰخَرُوۡنَ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ۖ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَيَسَّرَ مِنۡهُ​ ۙ وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا​ ؕ وَمَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِكُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ تَجِدُوۡهُ عِنۡدَ اللّٰهِ هُوَ خَيۡرًا وَّاَعۡظَمَ اَجۡرًا​ ؕ وَاسۡتَغۡفِرُوا اللّٰهَ ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿73:20﴾

19 - یہ ایک نصیحت ہے ، اب جس کا جی چاہے اپنے ربّ کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے۔ ؏۱ 20 - 18 اے نبیؐ ، تمہارا ربّ جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو،19 اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔ 20 اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے ، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ 21 اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے، کچھ دُوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، 22 اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ 23 پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰة 24 دو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ 25 جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاوٴ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔ 26 اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ ؏۲


Notes

18. یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجّد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے ، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے مُسند احمد ، مسلم اور ابو دا ؤد میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سا ل کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہ ؓ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے ۸ مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو ابن ابی حاتم نے انہی سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے بیان کیے گئے ہیں۔ ابو دا ؤد، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک سال کی مدّت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جُبَیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے(ابن جریر و ابن ابی حاتم)۔ ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے ، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اُس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضور ؐ کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفّار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم بھی آچکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ اِن دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے۔

19. اگرچہ ابتدائی حکم آدھی رات یا اس کے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں، اس لیے کبھی دو تہائی رات تک عبادت میں گزر جاتی تھی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ایک تہائی رہ جاتی تھی۔

20. ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو خطاب کیا گیا تھا، اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اُس وقت حضور ؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر اکثر صحابہ کرام بھی اِس نماز کا اہتمام کرتے تھے۔

21. چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآں کی طویل قر أت ہی سے ہوتا ہے، اس لیے فرمایا کہ تہجّد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگر چہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجّد فرض نہیں بلکہ نفل ہے۔ حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا اس کے سوا کبھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے ؟ جواب میں ارشادہوا”الّا یہ کہ تم اپنی خوشی سے کچھ پڑھو“(بخاری و مسلم)۔

اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نمازمیں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قر أ ت بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قر أت کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اِس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نمازتہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہات، جسم کا پاک ہونا ، وضو کرنا ، اور ستر چھپانا واجب نہیں ہے اور اس میں قیام وقعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں۔

22. جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

23. یہاں اللہ تعالیٰ نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ اِن دونوں کا موں کو نماز تہجّد سے معافی یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مامن جالبٍ یجلبُ طعامًا الیٰ بلد من بلدٍ ان المسْلمین فیبیعہ لِسِعْرِ یو مہٖ الا کانت منزلتہٗ عند اللہ ثم قر أ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اٰ خرون یضربون فی الارض....”جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلّہ لے کر آیا اور اُس روز کے بھا ؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہوگا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی“(ابن مَرْدُوْیَہ)۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احبّ الی من ان یا تینی و انا بین شِعبتَی جبل التمس من فضل اللہ و قر أ ھٰذا الاٰ یتہ۔”جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی“(بَیْہَقی فی شُعَب الایمان)۔

24. مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔

25. ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو ، یا بندگانِ خدا کی مدد ہو، یا ر فاہِ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۶۷۔ المائدہ، حاشیہ۳۳۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ۱۶۔

26. “مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا وہ تمہارے لیے اُس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا ہی میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا ایکم مالہ احب الیہ من مال وارثہ؟”تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔فرمایا اعملو ا ما تقولون۔”سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو“۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا: انما مال احد کم ما قدّ م ومال وارثہٖ ما اخّر۔”تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لیے بھیج دیا ۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے“۔(بخاری۔نسائی۔ مُسند احمد ابویَعلیٰ)