Tafheem ul Quran

Surah 74 Al-Muddaththir, Ayat 1-31

يٰۤاَيُّهَا الۡمُدَّثِّرُۙ‏ ﴿74:1﴾ قُمۡ فَاَنۡذِرۡۙ‏ ﴿74:2﴾ وَرَبَّكَ فَكَبِّرۡۙ‏ ﴿74:3﴾ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرۡۙ‏ ﴿74:4﴾ وَالرُّجۡزَ فَاهۡجُرۡۙ‏ ﴿74:5﴾ وَلَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَكۡثِرُۙ‏ ﴿74:6﴾ وَ لِرَبِّكَ فَاصۡبِرۡؕ‏ ﴿74:7﴾ فَاِذَا نُقِرَ فِى النَّاقُوۡرِۙ‏ ﴿74:8﴾ فَذٰلِكَ يَوۡمَـئِذٍ يَّوۡمٌ عَسِيۡرٌۙ‏ ﴿74:9﴾ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ غَيۡرُ يَسِيۡرٍ‏ ﴿74:10﴾ ذَرۡنِىۡ وَمَنۡ خَلَقۡتُ وَحِيۡدًا ۙ‏ ﴿74:11﴾ وَّجَعَلۡتُ لَهٗ مَالًا مَّمۡدُوۡدًا ۙ‏ ﴿74:12﴾ وَّبَنِيۡنَ شُهُوۡدًا ۙ‏ ﴿74:13﴾ وَّمَهَّدتُّ لَهٗ تَمۡهِيۡدًا ۙ‏ ﴿74:14﴾ ثُمَّ يَطۡمَعُ اَنۡ اَزِيۡدَ  ۙ‏ ﴿74:15﴾ كَلَّا ؕ اِنَّهٗ كَانَ لِاٰيٰتِنَا عَنِيۡدًا ؕ‏ ﴿74:16﴾ سَاُرۡهِقُهٗ صَعُوۡدًا ؕ‏ ﴿74:17﴾ اِنَّهٗ فَكَّرَ وَقَدَّرَۙ‏ ﴿74:18﴾ فَقُتِلَ كَيۡفَ قَدَّرَۙ‏ ﴿74:19﴾ ثُمَّ قُتِلَ كَيۡفَ قَدَّرَۙ‏ ﴿74:20﴾ ثُمَّ نَظَرَۙ‏ ﴿74:21﴾ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَۙ‏ ﴿74:22﴾ ثُمَّ اَدۡبَرَ وَاسۡتَكۡبَرَۙ‏ ﴿74:23﴾ فَقَالَ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ يُّؤۡثَرُۙ‏ ﴿74:24﴾ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا قَوۡلُ الۡبَشَرِؕ‏ ﴿74:25﴾ سَاُصۡلِيۡهِ سَقَرَ‏ ﴿74:26﴾ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا سَقَرُؕ‏ ﴿74:27﴾ لَا تُبۡقِىۡ وَ لَا تَذَرُ​ۚ‏ ﴿74:28﴾ لَـوَّاحَةٌ لِّلۡبَشَرِ​ۖ​ۚ‏ ﴿74:29﴾ عَلَيۡهَا تِسۡعَةَ عَشَرَؕ‏ ﴿74:30﴾ وَمَا جَعَلۡنَاۤ اَصۡحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓـئِكَةً​ وَّمَا جَعَلۡنَا عِدَّتَهُمۡ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ۙ لِيَسۡتَيۡقِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ وَيَزۡدَادَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِيۡمَانًا​ وَّلَا يَرۡتَابَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ​ۙ وَلِيَقُوۡلَ الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ وَّالۡكٰفِرُوۡنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ​ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ​ؕ وَمَا يَعۡلَمُ جُنُوۡدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ ​ؕ وَمَا هِىَ اِلَّا ذِكۡرٰى لِلۡبَشَرِ‏ ﴿74:31﴾

1 - اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، 1 2 - اُٹھو اور خبر دار کرو۔ 2 3 - اور اپنے ربّ کی بڑائی کا اعلان کرو۔ 3 4 - اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ 4 5 - اور گندگی سے دُور رہو۔ 5 6 - اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔ 6 7 - اور اپنے ربّ کی خاطر صبر کرو۔ 7 8 - اچھا، جب صُور میں پھُونک ماری جائے گی، 9 - وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، 8 10 - کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔ 9 11 - چھوڑ دو مجھے اور اُس شخص کو 10 جسے میں نے اکیلا پیدا کیا، 11 12 - بہت سا مال اُس کو دیا، 13 - اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، 12 14 - اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی، 15 - پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دُوں۔ 13 16 - ہر گز نہیں، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ 17 - میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواوٴں گا۔ 18 - اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی ، 19 - تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ 20 - ہاں ، خدا کی مار اُس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ 21 - پھر (لوگوں کی طرف)دیکھا۔ 22 - پھر پیشانی سکیڑی اور مُنہ بنایا۔ 23 - پھر پلٹا اور تکبُّر میں پڑ گیا۔ 24 - آخر کار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادُو جو پہلے سے چلا آرہا ہے، 25 - یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔ 14 26 - عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا۔ 27 - اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ ؟ 28 - نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔ 15 29 - کھال جھُلس دینے والی۔ 16 30 - اُنّیس کارکن اُس پر مقرر ہیں 31 - ۔۔۔۔ 17 ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں، 18 اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے، 19 تاکہ اہلِ کتاب کو یقین آجائے 20 اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے، 21 اور اہلِ کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار 22 اور کفّار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اِس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ 23 اِس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے۔ 24 اور تیرے ربّ کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا 25 ۔۔۔۔ اور اس دوزخ کا ذکر اِس کے سوا کسی غرض کے لیےنہیں کیا گیا کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو۔ 26 ؏۱


Notes

1. اوپر دیبا چے میں ہم اِن آیات کے نزول کا جو پس منظر بیا ن کر آئے ہیں اس پر غور کرنےسے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یٰاَیُّھَا الرَّسُوْلُ یا یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ کہہ کر مخاطب کرنے کے بجائے یٰاَیُّھَا المُدَّثِّرُ کہہ کر کیوں مخاطب کیا گیا ہے ۔ چونکہ حضور ؐ یکا یک جبریل علیہ السلام کو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہیبت زدہ ہو گئے تھے اور اسی حالت میں گھر پہنچ کر آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا تھا کہ مجھے اڑھا ؤ ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یٰاَیُّھَا الْمُدَّثِّر کہہ کر خطاب فرمایا۔ اس لطیف طرز خطاب سےخود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اَے میرے پیارے بندے، تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہاں گئے، تم پر تو ایک کارِ عظیم کا بار ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پُورے عزم کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

2. یہ اُسی نوعیت کا حکم ہے جو حضرت نوح علیہ السّلام کو نبوت کے منصب پر مامور کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ اَنْذِر قَوْ مَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْ تِیَھُمْ عَذَاب اَلِیْم ۔”اپنی قوم کے لوگوں کے ڈرا ؤ قبل اس کے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آجائے“۔(نوح۔۱۔)۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور تمہارے گرد وپیش خدا کے جو بندے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اُن کو چَونکا دو۔ انہیں اُس انجام سے ڈرا ؤ جس سے یقیناً وہ دو چار ہوں گے اگر اِسی حالت میں مبتلا رہے ۔ انہیں خبر دار کر دو کہ وہ کسی اندھیرنگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان کے کسی عمل کی کوئی باز پُرس نہ ہو۔

3. یہ ایک نبی کا اولین کا م ہے جسے اِس دنیا میں اُسے انجا م دینا ہوتا ہے ۔ اُس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں اُن سب کی نفی کر دے اور ہانکے پکارے دنیا بھر میں یہ اعلان کر دے کہ اِس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔اذان کی ابتداہی اللہ اکبر کے اعلان سے ہوتی ہے ۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے۔ نعرہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے زیادہ نمایاں امتیار ی شعار ہے کیونکہ اس امت کے نبیؐ نے اپنا کام ہی اللہ کی تکبیر سے شروع کیا تھا۔

اس مقام پر ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ اِن آیات کی شانِ نزول سے معلوم ہو چکا ہے، یہ پہلا موقع تھا جب رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبّوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور یہ بات ظاہر تھی کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر اٹھنے کا آپ کو حکم دیا جا رہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکین عرب کا سب سے بڑا تیر تھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اُس کے مجاور تھے۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کر دینا بڑے جان جوکھوں کا کام تھا۔ اسی لیے ”اٹھو اور خبر دار کرو“ کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ”اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو“ اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اِس کام میں تمہیں مزاحم نظر آتی ہیں ان کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب اُن سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیےکھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی کی جاسکتی ہے ۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑ جانے میں بھی ذرّہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا۔

4. یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔

اِن کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو، کیونکہ جسم ولباس کی پاکیزگی اور روح کی پا کیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا، اور حضورؐ کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پا کیز گی کا سبق سکھانا تھا۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں بھی طہارت کا ایک اعلیٰ معیار قائم فرمائیں۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضورؐ نے نوعِ انسانی کو طہارتِ جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو ”طہارت“کا ہم معنی ہو۔بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتاہے جس میں پاکی اور ناپا کی کے فرق اور پاکیزگی کےطریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔

دوسرا مفہوم اِن الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف سُتھرا رکھو۔ راہبانہ تصوّرات نے دنیا مین مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیادہ مَیلا کُچیلا ہو اتنا ہی زیادہ وہ مقدّس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ذرا اُجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیا دار انسان ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت مَیل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حِس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی سے مانوس ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اُس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو۔

تیسرا مفہوم اِس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو ۔ تمہارا لباس سُتھرا اور پاکیزہ توضرور ہو، مگر اس میں فخر و غرور ، ریاء اور نمائش، ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے۔ لباس وہ اوّلین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے ۔ رئیسوں اور نوابوں کے لباس، مذہبی پیشہ وروں کے لباس، متکبّر اور بر خود غلط لوگوں کے لباس، چھچورے اور کم ظرف لوگوں کےلباس، بدقوارہ اور آوارہ منش لوگوں کے لباس، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کرلے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی بُرائی میں مبتلا نہیں ہے۔

چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ابن عباس،ابراہیم نَخَعی، شَعبی، عطاء،مجاہد،قتادہ،سعیدبن جُبَیر، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاھر الثیاب و فلان طاھر الذیل،”فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے“۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اس کے بر عکس کہتے ہیں فلانٌ دَنِس الثیاب،”اس شخص کے کپڑے گندے ہیں“اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے، اس کے قول و قرار کا کوئی اعتبار نہیں۔

5. گندگی سے مراد ہر قسم کی گندگی ہے خواہ وہ عقائد اور خیالات کی ہو، یا اخلاق و اعمال کی ، یا جسم و لباس اور رہن سہن کی۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے گردوپیش سارے معاشرے میں طرح طرح کی جو گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں ان سب سے اپنا دامن بچا کر رکھو۔ کوئی شخص کبھی تم پر یہ حرف نہ رکھ سکے کہ جن بُرائیوں سے تم لوگوں کو روک رہے ہو ان میں سے کسی کا بھی کوئی شائبہ تمہاری اپنی زندگی میں پایا جاتا ہے۔

6. اصل الفاظ ہیں وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ اِن کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اِن کا ترجمہ کر کے پورا مطلب ادا نہیں کیا جا سکتا۔

ان کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جس پر بھی احسان کرو بے غرضا نہ کرو۔ تمہاری عطا اور بخشش اور سخاوت اور حُسنِ سلوک محض اللہ کے یے ہو، اس میں کوئی شائبہ اِس خواہش کا نہ ہو کہ احسان کے بدلے میں تمہیں کسی قسم کے دنیوی فوائد حاصل ہوں۔ بالفاظِ دیگر اللہ کے لیے احسان کرو، فائدہ حاصل کرنے کے لیے کو ئی احسان نہ کرو۔

دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نبوت کا جو کام تم کر رہے ہو یہ اگرچہ اپنی جگہ ایک بہت بڑااحسان ہے کہ تمہاری بدولت خلق خدا کو ہدایت نصیب ہو رہی ہے، مگر اس کا کوئی احسان لوگوں پر نہ جتا ؤ اور اس کا کوئی فائدہ اپنی ذات کے لیے حاصل نہ کرو۔

تیسرا مفہوم یہ ہے کہ تم اگرچہ ایک بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہو، مگر اپنی نگاہ میں اپنے عمل کو کبھی بڑا عمل نہ سمجھو اور کبھی یہ خیال تمہارے دل میں نہ آئے کہ نبوت کا یہ فریضہ انجام دے کر ، اور اس کام میں جان لڑا کر اپنے رب پر کوئی احسان کر رہے ہو۔

7. یعنی یہ کام جو تمہارے سُپر د کیا جا رہا ہے، بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں سخت مصائب اور مشکلات اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ پیش آئے گا۔ تمہاری اپنی قوم تمہاری دشمن ہو جائے گی۔ سارا عرب تمہارے خلاف صف آرا ہو جائے گا۔ مگر جو کچھ بھی اس راہ میں پیش آئے ، اپنے رب کی خاطر اِس پر صبر کرنا اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دینا۔ اس سے باز رکھنے کے لیے خوف، طمع، لالچ،دوستی، دشمنی،محبت ہر چیز تمہارے راستے میں حائل ہوگی۔ ان سب کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہنا۔

یہ تھیں وہ اوّلین ہدایات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اُس وقت دی تھیں جب اُس نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اٹھ کر نبوت کے کام کا آغآز فرمادیں۔ کوئی شخص اگر ان چھوٹے چھوٹے فقروں پر اور ان کے معانی پر غور کرے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ ایک نبی کو نبوت کا کام شروع کرتے وقت اِس سے بہتر کوئی ہدایات نہیں دی جا سکتی تھیں۔ ان میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کو کام کیا کرنا ہے، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ اِس کام کے لیے آپ کی زندگی اور آپ کے اخلاق اور معاملات کیسے ہونے چاہییں، اور یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ یہ کام آپ کس نیت، کس ذہنیت اور طرزِ فکر کے ساتھ انجام دیں ، اور اس بات سے بھی خبر دار کر دیا گیا کہ اس کام میں آپ کو کن حالات سے سابقہ پیش آنا ہے اور ان کا مقابلہ آپ کو کس طرح کرنا ہوگا۔ آج جو لوگ تعصّب میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہیں کہ معاذاللہ صَرع کے دَوروں میں یہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہو جایا کرتا تھا وہ ذرا آنکھیں کھول کر اِن فقروں کو دیکھیں اور خود سوچیں کہ یہ صَرع کے کسی دَورے میں نکلے ہوئے الفاظ ہیں یا ایک خدا کی ہدایات ہیں جو رسالت کے کام پر مامور کرتے ہوئے وہ اپنے بندے کو دے رہا ہے؟

8. جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، اِس سورہ کا یہ حصّہ ابتدائی آیات کےچند مہینے بعد اُس وقت نازل ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عَلانیہ تبلیغِ اسلام شروع ہوجانے کے بعد پہلی مرتبہ حج کا زمانہ آیا اور سردار انِ قریش نے ایک کانفرنس کر کے یہ طے کیا کہ باہر سے آنے والے حاجیوں کو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بد گمان کرنے کے لیے پروپیگنڈا کی ایک زبردست مہم چلائی جائے۔ اِن آیات میں کفار کی اِسی کاروائی پر تبصرہ کیا گیا ہے اور اِس تبصرے کا آغاز اِن الفاظ سے کیا گیا ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ اچھا، یہ حرکتیں جو تم کرنا چاہتے ہو کر لو، دنیا میں اِن سے کوئی مقصد برا ری تم نے کر بھی لی تو اُس روز اپنے بُرے انجام سے کیسے بچ نکلو گے جب صور میں پھونک ماری جائے گی اور قیامت برپا ہوگی۔ (صور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن ، جلد اوّل، الانعام، حاشیہ۴۷۔جلد دوم، ابراہیم،حاشیہ۵۷۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۷۸۔الحج،حاشیہ۱۔جلد چہارم،یٰس،حواشی۴۶۔۴۷۔الزُّمُر، حاشیہ۷۹۔جلد پنجم،ق،حاشیہ۵۲۔)۔

9. اِس ارشاد سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ دن ایمان لانے والوں کے لیے ہلکا ہوگا اورا س کی سختی صرف حق کا انکار کرنے والوں کے لیے مخصوص ہوگی۔ مزید بر اں یہ ارشاد اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ اُس دن کی سختی کافروں کے لیے مستقل سختی ہو گی، وہ ایسی سختی نہ ہوگی جس کے بعد کبھی اُس کے نرمی سے بدل جانے کی امید کی جا سکتی ہو۔

10. یہ خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اَے نبی، کفار کی اس کانفرنس میں جس شخص (ولید بن مغیرہ) نے تمہیں بدنام کرنے کے لیے یہ مشورہ دیا ہے کہ تمام عرب سے آنے والے حاجیوں میں تمہیں جادوگر مشہور کیا جائے، اُس کا معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ اُس سے نمٹنا اب میرا کام ہے، تمہیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

11. اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ جب میں نے اُسے پیدا کیا تھا اُس وقت یہ کوئی مال اور اولاد اور وجاہت اور ریاست لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ اُس کا پیدا کرنے والا اکیلا میں ہی تھا، وہ دوسرے معبود، جن کی خدائی قائم رکھنے کے لیے یہ تمہاری دعوتِ توحید کی مخالفت میں اس قدر سر گرم ہے، اُس کو پیدا کرنے میں میرے ساتھ شریک نہ تھے۔

12. ولید بن مغیرہ کے دس بارہ لڑکے تھے جن میں سے حضرت خالد بن ولید تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ اِن بیٹوں کے لیے شُہود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو کہیں اپنی روزی کے لیے دوڑ دھوپ اور سفر کرنے کی حاجت پیش نہیں آتی ، ان کے گھر کھانے کو اتنا موجود ہے کہ ہر وقت باپ کے پاس موجود اور اس کی مدد کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کے سب بیٹے نامور اور با اثر ہیں، مجلسوں اور محفلوں میں اس کے ساتھ شریک ہو تے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ اِس مرتبے کے لوگ ہیں کہ معاملات میں ان کی شہادت قبول کی جاتی ہے۔

13. اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اِس پر بھی اس کی حرص ختم نہیں ہوئی۔ اتنا کچھ پانے کے بعد بھی وہ بس اسی فکر میں لگا ہوا ہے کہ اُسے دنیا بھر کی نعمتیں عطا کر دی جائیں۔ دوسرا مطلب حضرت حسن بصری اور بعض دوسرے بزرگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ اگر واقعی محمدؐ کا یہ بیان سچاہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی جنت بھی ہو گی تو وہ جنّت میرے ہی لیے بنائی گئی ہے۔

14. یہ اُس واقعہ کا ذکر ہے جو کفارِ مکہ کی مذکورہ بالا کانفرنس میں پیش آیا تھا۔ اس کی جو تفصیلات ہم دیباچے میں نقل کر چکے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ شخص دل میں قرآن کے کلامِ الہٰی ہونے کا قائل ہو چکا تھا۔ لیکن اپنی قوم میں محض اپنی وجاہت و ریاست بر قرار رکھنے کے لیے ایمان لانے پر تیار نہ تھا۔ جب کفار کی اس کانفرنس میں پہلے اس نے خود اُن تمام الزامات کو رد کر دیا جو قریش کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا رہے تھے تو اسے مجبُور کیاگیا کہ وہ خود کوئی ایسا الزام تراشے جسے عرب کے لوگوں میں پھیلا کر حضور ؐ کو بدنام کیا جا سکتا ہو۔ اس موقع پر جس طرح وہ اپنے ضمیر سے لڑا ہے اور جس شدید ذہنی کشمکش میں کافی دیر مبتلا رہ کر آخر کار اس نے ایک الزام گھڑا ہے اس کی پُور ی تصویر یہاں کھینچ دی گئی ہے۔

15. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو شخص بھی اس میں ڈالا جائے گا اسے وہ جلا کر خاک کر دے گی مگر مر کر بھی اس کا پیچھا نہ چھوٹے گا بلکہ وہ پھر زندہ کیا جائےگا اور پھر جلا یا جائے گا۔ اسی مضمون کو دوسری جگہ اس طرح ادا کیا گیا ہے کہ لاَ یَمُوْتُ فِیْھَا وَلاَ یَحْیٰی”وہ نہ اس میں مرے گا نہ جیے گیا“(الاعلیٰ۔۱۳)۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عذاب کے مستحقین میں سے کسی کو باقی نہ رہنے دیگی جو اُس کی گرفت میں آئے بغیر رہ جائے، اور جو بھی اس کی گرفت میں آئے گا اسے عذاب دیے بغیر نہ چھوڑے گی۔

16. یہ کہنے کے بعد کہ وہ جسم میں کچھ جلائے بغیر نہ چھوڑے گی، کھال جھلس دینے کا الگ ذکر کرنا بظاہر کچھ غیر ضروری سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عذاب کی اس شکل کو خاص طور پر الگ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کی شخصیت کو نمایا ں کر نے والی چیز دراصل اس کے چہرے اور جسم کی کھال ہی ہوتی ہے جس کی بد نمائی اُسے سب سے زیادہ کھلتی ہے۔ اندرونی اعضاء میں خواہ اسے کتنی ہی تکلیف ہو، وہ اس پر اتنا زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتا جتنا اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کا منہ بد نما ہو جائے، یا اس کے جسم کے کھلے حصّوں کی جلد پر ایسے داغ پڑجائیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص اُس سے گِھن کھانے لگے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ حسین چہرے اور بڑے بڑے شاندار جسم لیے ہو ئے جو لوگ آج دنیا میں اپنی شخصیت پر پھولے پھر رہے ہیں ، یہ اگر اللہ کی آیات کے ساتھ عناد کی وہ ر وش برتیں گے جو ولید بن مغیرہ برت رہا ہے تو ان کے منہ جُھلس دیے جائیں گے اور ان کی کھال جلا کر کوئلے کی طرح سیاہ کر دی جائے گی۔

17. یہاں سے لے کر”تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا“تک کی پُوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر اُن معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف ۱۹ ہو گی ، اس کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا تھا۔ اُن کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف تو ہم سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفر اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف ۱۹ کارکن مقرر ہوں گے۔ اس پر قریش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا۔ ابو جہل بولا،”بھائیوں ، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ایک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے؟“بنی جُمحَ کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے”۱۷ سے میں تو اکیلا نمٹ لوں گا، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا“۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں۔

18. یعنی اُن کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے۔ وہ آدمی نہیں، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں۔

19. یہ طنزیہ اندازِ بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتُوتوں پر وہ آج بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں ، انہیں بتا دو کہ تمہارے ان اعمال کا انجام یہ ہے۔

20. بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سُن کر ان کو یقین آجائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے اوّل یہ کے یہود نصاریٰ کو جو مذہبی کتابیں دنیا میں پا ئی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد ۱۹ ہے۔ دوسرے، قرآن مجید میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جو اہلِ کتاب کے ہاں اُن کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سےدوزخ کے ۱۹ فرشتوں کا ذکر سن کر میرا خوب مذاق اڑا یا جائے گا، لیکن اس کے با وجود جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق یا استہزاء کی ذرّہ برابر پر وا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء کی شان سے نا واقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہےکہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہو یا نا پسند۔ اس بنا پر اہلِ کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آجائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجِک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ طرزِ عمل بار ہا ظاہرہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلّف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرّہ برابر پروا نہ کی کہ اس حیرت انگیز قصّے کو سُن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے۔

21. یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہےکہ ہر آزمائش کے موقع پر جب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور شکّ و انکار یا اطاعت سے فرار یا دین سے بے وفائی کی راہ چھوڑ کر یقین و اعتماد اور اطاعت و فرمانبرداری اور دین سے وفا داری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے(تشریح کےملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران، آیت۱۷۳۔جلد دوم، الانفال، آیت۲، حاشیہ ۲۔ التوبہ، آیات۱۲۴۔۱۲۵۔حاشیہ۱۲۵۔جلدچہارم،الاحزابِ،آیت۲۲،حاشیہ۳۸۔جلد پنجم، الفتح آیت ۴، حاشیہ۷)۔

22. قرآن مجید میں چونکہ بالعموم”دل کی بیماری“سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکّہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ،جلدسوم میں صفحہ۶۷۲،۶۷۴، اور۶۸۰تا۶۸۲ پر واضح کر چکے ہیں۔دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو ایک خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا اور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اُس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اِس مضمون میں آخر کونسا موقع تھا کہ اِس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھے اور ہیں جو قطعیت کے ساتھ خدا، آخرت ، وحی، رسالت، جنت ،دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں، اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں، آخرت ہوگی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھے اور ان پر وحی آتی تھی یا نہیں، یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لے گئی ہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر اِن حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرّہ برابر بھی عقل کا مادّہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اِن امُور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اور اِنہیں قطعاً خارج از امکان قرار دے دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔

23. اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اِسے اللہ کا کلام تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی۔ بلکہ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید ازعقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے۔

24. یعنی اس طرح اللہ تعالی اپنے کلام اور اپنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرمادیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ایک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اُس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اُسی بات کو ایک ہٹ دھرم، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اُس کا ٹیڑھا مطلب نکال کر اسے حق سے دُور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا بنا لیتا ہے۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت بخش دیتا ہے،کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیے اللہ اسے ضلات ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے۔( اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں :جلد اوّل، ابقرہ،حواشی۲۰،۱۹،۱۶،۱۰۔النساء،حاشیہ۱۷۳۔الانعام،حواشی۹۰،۲۸،۱۷ جلد دوم، یونس،حاشیہ۱۳۔جلد سوم،الکہف،حاشیہ۵۴۔القصص،حاشیہ۷۱)۔

25. یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے، ان باتوں کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ ایک چھوٹے سے کُرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گردوپیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ ورنہ یہ خدا ئی کاکار خانہ اتنا وسیع و عظیم ہے کہ اس کی کسی ایک چیز کا بھی پورا علم حاصل کر لینا انسان کے بس میں نہیں ہے، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصّور اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے۔

26. یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آجائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں۔