Tafheem ul Quran

Surah 74 Al-Muddaththir, Ayat 32-56

كَلَّا وَالۡقَمَرِۙ‏ ﴿74:32﴾ وَالَّيۡلِ اِذۡ اَدۡبَرَۙ‏ ﴿74:33﴾ وَالصُّبۡحِ اِذَاۤ اَسۡفَرَۙ‏ ﴿74:34﴾ اِنَّهَا لَاِحۡدَى الۡكُبَرِۙ‏ ﴿74:35﴾ نَذِيۡرًا لِّلۡبَشَرِۙ‏ ﴿74:36﴾ لِمَنۡ شَآءَ مِنۡكُمۡ اَنۡ يَّتَقَدَّمَ اَوۡ يَتَاَخَّرَؕ‏ ﴿74:37﴾ كُلُّ نَفۡسٍ ۢ بِمَا كَسَبَتۡ رَهِيۡنَةٌ ۙ‏ ﴿74:38﴾ اِلَّاۤ اَصۡحٰبَ الۡيَمِيۡنِۛ ؕ‏ ﴿74:39﴾ فِىۡ جَنّٰتٍ ۛ يَتَسَآءَلُوۡنَۙ‏ ﴿74:40﴾ عَنِ الۡمُجۡرِمِيۡنَۙ‏ ﴿74:41﴾ مَا سَلَـكَكُمۡ فِىۡ سَقَرَ‏ ﴿74:42﴾ قَالُوۡا لَمۡ نَكُ مِنَ الۡمُصَلِّيۡنَۙ‏ ﴿74:43﴾ وَلَمۡ نَكُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡكِيۡنَۙ‏ ﴿74:44﴾ وَكُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَـآئِضِيۡنَۙ‏ ﴿74:45﴾ وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوۡمِ الدِّيۡنِۙ‏ ﴿74:46﴾ حَتّٰٓى اَتٰٮنَا الۡيَقِيۡنُؕ‏ ﴿74:47﴾ فَمَا تَنۡفَعُهُمۡ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيۡنَؕ‏ ﴿74:48﴾ فَمَا لَهُمۡ عَنِ التَّذۡكِرَةِ مُعۡرِضِيۡنَۙ‏ ﴿74:49﴾ كَاَنَّهُمۡ حُمُرٌ مُّسۡتَنۡفِرَةٌ ۙ‏ ﴿74:50﴾ فَرَّتۡ مِنۡ قَسۡوَرَةٍ ؕ‏ ﴿74:51﴾ بَلۡ يُرِيۡدُ كُلُّ امۡرِىٴٍ مِّنۡهُمۡ اَنۡ يُّؤۡتٰى صُحُفًا مُّنَشَّرَةً ۙ‏  ﴿74:52﴾ كَلَّا ​ؕ بَلۡ لَّا يَخَافُوۡنَ الۡاٰخِرَةَ ؕ‏ ﴿74:53﴾ كَلَّاۤ اِنَّهٗ تَذۡكِرَةٌ​ ۚ‏ ﴿74:54﴾ فَمَنۡ شَآءَ ذَكَرَهٗ ؕ‏ ﴿74:55﴾ وَمَا يَذۡكُرُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ يَّشَآءَ اللّٰهُ​ ؕ هُوَ اَهۡلُ التَّقۡوٰى وَاَهۡلُ الۡمَغۡفِرَةِ‏ ﴿74:56﴾

32 - 27 ہرگز نہیں، قسم ہے چاند کی ، 33 - اور رات کی جبکہ وہ پلٹتی ہے، 34 - اور صبح کی جبکہ وہ روشن ہوتی ہے، 35 - یہ دوزخ بھی بڑی چیزوں میں سے ایک ہے، 28 36 - انسانوں کے لیے ڈراوا، 37 - تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے ڈراوا جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے۔ 29 38 - ہر متنفّس اپنے کسب کے بدلے رہن ہے، 30 39 - دائیں بازو والوں کے سوا،31 40 - جو جنّتوں میں ہوں گے۔ وہاں وہ پوچھیں گے 41 - مجرموں سے 32 42 - ”تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟“ 43 - وہ کہیں گے” ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہ تھے، 33 44 - اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، 34 45 - اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے۔ 46 - اور روزِ جزا کو جھُوٹ قرار دیتے تھے ، 47 - یہاں تک کہ ہمیں اُس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا۔“ 35 48 - اُس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ 36 49 - آخر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اِس نصیحت سے مُنہ موڑ رہے ہیں 50 - گویا یہ جنگلی گدھے ہیں 51 - جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں۔ 37 52 - بلکہ اِن میں سے تو ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے نام کُھلے خط بھیجے جائیں۔ 38 53 - ہر گز نہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔ 39 54 - ہر گز نہیں، 40 یہ تو ایک نصیحت ہے، 55 - اب جس کا جی چاہے اس سبق حاصل کرلے۔ 56 - اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔41 وہ اس کا حق دار ہے کہ اُس سے تقویٰ کیا جائے 42 اور وہ اس کا اہل ہے کہ (تقویٰ کرنے والوں کو) بخش دے۔ 43 ؏۲


Notes

27. یعنی یہ کوئی ہوا ئی بات نہیں ہے جس کا اِس طرح مذاق اُڑا یا جائے۔

28. یعنی جس طرح چاند ، اور رات اور دن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عظیم نشانات ہیں اُسی طرح دوزخ بھی عظائمِ قدرت میں سے ایک چیز ہے۔ اگر چاند کا وجود غیر ممکن نہ تھا، اگر رات اور دن کا اس باقاعدگی کے ساتھ آنا غیر ممکن نہ تھا، تو دوزخ کا وجود، آخر کیوں تمہارے خیال میں غیر ممکن ہو گیا؟ اِن چیزوں کو چونکہ تم رات دن دیکھ رہے ہو اس لیے تمہیں ان پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ، ورنہ اپنی ذات میں یہ بھی اللہ کی قدرت کے نہایت حیرت انگیز معجزے ہیں ، جو اگر تمہارے مشاہدے میں نہ آئے ہوتے ، اور کوئی تمہیں خبر دیتا کہ چاند جیسی ایک چیز بھی دنیا میں موجود ہے، یا سورج ایک چیز ہے جس کے چھپنے سے دنیا میں اندھیرا ہو جا تا ہے، اور جس کے نکل آنے سے دنیا چمک اٹھتی ہے ،تو تم جیسے لوگ اِس بات کو سُن کر بھی اُسی طرح ٹھٹھے مارتے جس طرح دوزخ کا ذکر سُن کر ٹھٹھے مار رہے ہو۔

29. مطلب یہ ہے کہ اس چیز سے لوگوں کو ڈرادیا گیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس سے ڈر کر بھلائی کے راستے پر آگے بڑھے اور جس کا جی چاہے پیچھے ہٹ جائے۔

30. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد پنجم، تفسیر سورہ طور،حاشیہ۱۶۔

31. بالفاظ دیگر بائیں بازو والے تواپنے کسب کے بدلے میں پکڑ لیے جائیں گے ، لیکن دائیں بازوں والے اپنا فکِّ رہن کر ا لیں گے (دائیں بازو اور بائیں بازو کی تشریح کے لیے ملاحظہ وہ تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ واقعہ، حواشی۵۔۶)۔

32. اس سے پہلے کئی مقامات پر قرآن مجید میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اہلِ جنت اور اہل دوزخ ایک دوسرے سے ہزاروں لاکھوں میل دُور ہونے کے باوجود جب چاہیں گے ایک دوسرے کو کسی آلے کی مدد کے بغیر دیکھ سکیں گے اور ایک دوسرے سے براہِ راست گفتگو کر سکیں گے۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، آیات۴۴تا ۵۰، حاشیہ۳۵۔جلد چہارم، الصّافّات، آیات۵۰تا۵۷،حاشیہ۳۲۔

33. مطلب یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے خدا اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو مان کر خدا کا وہ اوّلین حق ادا کیا ہو جو ایک خدا پرست انسان پر عائد ہوتا ہے، یعنی نماز۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نماز کوئی شخص اُس وقت تک پڑھ ہی نہیں سکتا جب تک وہ ایمان نہ لایا ہو ۔ اس لیے نمازیوں میں سے ہونا آپ سے آپ ایمان لانے والوں میں سے ہونے کو متلزم ہے ۔ لیکن نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ میں جانے کا سبب قرار دے کر یہ بات واضح کر دی گئی کہ ایمان لا کر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا اگر وہ تارکِ نماز ہو۔

34. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کو بھوک میں مبتلا دیکھنا اور قدرت رکھنے کے باوجود اس کو کھانا نہ کھلانا اسلام کی نگاہ میں کتنا بڑا گناہ ہے کہ آدمی کے دوزخی ہونے کے اسباب میں خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

35. یعنی مرتے دم تک ہم اِسی روش پر قائم رہے یہاں تک کہ وہ یقینی چیز ہمارے سامنے آگئی جس سے ہم غافل تھے۔ یقینی چیز سے مراد موت بھی ہے اور آخرت بھی۔

36. یعنی ایسے لوگ جنہوں نے مرتے دم تک یہ روش اختیار کیے رکھی ہو ان کے حق میں اگر کوئی شفاعت کرنے والا شفاعت کرے بھی تو اسے معافی نہیں مل سکتی۔ شفاعت کے مسئلے کو قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ کسی شخص کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی کہ شفاعت کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا ، کس حالت میں کی جاسکتی ہے اور کس حالت میں نہیں کی جا سکتی، کس کے لیے کی جا سکتی ہے اور کس کے لیے نہیں کی جا سکتی ، اور کس کے حق میں وہ نافع ہے اور کس کے حق میں نافع نہیں ہے۔ دنیا میں چونکہ لوگوں کی گمراہی کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب شفاعت کے بارے میں غلط عقائد بھی ہیں ، اس لیے قرآن نے اس مسئلے کو اتنا کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجا ئش باقی نہیں چھوڑی۔ مثال کے طور پر آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں : البقرہ،۲۵۵۔ الانعام،۹۴۔الاعراف،٥٣۔یونس،۳۔۱۸۔ مریم،۸۷۔طٰہٰ،۱۰۹۔الانبیاء،۲۸۔سبا،۲۳۔الزُّمَر،۴۳۔۴۴۔المومن،۱۸۔الدُّخان،۸۶۔النجم۲۶۔النبا،۳۷۔۳۸۔تفہیم القرآن میں جہاں جہاں یہ آیات آئی ہیں ہم نے ان کی اچھی طرح تشریح کر دی ہے۔

37. یہ ایک عربی محاورہ ہے ۔جنگلی گدھوں کا یہ خا صہ ہوتا ہے کہ خطرہ بھانپتے ہی وہ اِس قدر بد حواس ہو کر بھاگتے ہیں کہ کوئی دوسرا جانور اس طرح نہیں بھاگتا ۔ اس لیے اہلِ عرب غیر معمولی طور پر بد حواس ہو کر بھاگنے والے کو اُن جنگلی گدھوں سے تشبیہ دیتے ہیں جو شیر کی بُو یا شکاریوں کی آہٹ پاتے ہی بھاگ پڑے ہوں۔

38. یعنی یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر واقعی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مقرر فرمایا ہے تو وہ مکہ کے ایک ایک سردار اور ایک ایک شیخ کے نام ایک خط لکھ کر بھیجے کہ محمد ؐ ہمارے نبی ہیں، تم ان کی پیروی قبول کرو، اور یہ خط ایسے ہوں جنہیں دیکھ کر انہیں یقین آجائے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے یہ لکھ کر بھیجے ہیں۔ ایک اور مقام پر قرآن مجید میں کفارِ مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ”ہم نہ مانیں گے جب تک وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے“(الانعام،۱۲۴)۔ایک دوسری جگہ ان کا یہ مطالبہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب لا کر ہمیں دیں جسے ہم پڑھیں(بنی اسرائیل۔۹۳)۔

39. یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے یہ مطالبے پُورے نہیں کیے جاتے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت سے بے خوف ہیں۔ انہوں نے سب کچھ اسی دنیا کو سمجھ رکھا ہے اور انہیں یہ خیال نہیں ہے کہ اِس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں اِن کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اسی چیز نے اِن کو دنیا میں بے فکر اور غیر ذمّہ دار بنا دیا ہے ۔ یہ حق اور باطل کے سوال کو سرے سے بے معنی سمجھتے ہیں، کیونکہ انہیں دنیا میں کوئی حق ایسا نظر نہیں آتا جس کی پیروی کا نتیجہ لازماً دنیا میں اچھا ہی نکلتا ہو، اور نہ کوئی باطل ایسا نظر آتا ہے جس کا نتیجہ دنیا میں ضرور بُرا ہی نکلا کرتا ہو۔ اس لیے یہ اِس مسئلے پر غور کرنا لا حاصل سمجھتے ہیں کہ فی الواقع حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ یہ مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ قابلِ غور اگر ہو سکتا ہے تو صرف اُس شخص کے لیے جو دنیا کی موجودہ زندگی کو ایک عارضی زندگی سمجھتا ہو اور یہ تسلیم کرتا ہو کہ اصلی اور ابدی زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں حق کا انجام لازماً اچھا اور باطل کا انجام لازماً بُرا ہوگا۔ ایسا شخص تو اُن معقول دلائل اور اُن پاکیزہ تعلیمات کو دیکھ کر ایمان لائے گا جو قرآن میں پیش کی گئی ہیں اور اپنی عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ قرآن جن عقائد اور اعمال کو غلط کہہ رہا ہے ان میں فی الواقع کیا غلطی ہے۔ لیکن آخرت کا منکر جو سرے سے تلاشِ حق میں سنجیدہ ہی نہیں ہے وہ ایمان نہ لانے کے لیے آئے دن نتِ نئے مطالبے پیش کرے گا، حالانکہ اس کا خواہ کوئی مطالبہ بھی پورا کر دیا جائے، وہ انکار کرنے کے لیے کوئی دوسرا بہانا ڈھونڈنکالے گا۔ یہی بات ہے جو سورہ انعام میں فرمائی گئی ہے کہ ”اے نبی، اگر ہم تمہارے اوپر کاغذ میں لکھی لکھائی کوئی کتاب بھی اُتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چُھو کر بھی دیکھ لیتے تو جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے“(الانعام،۷)۔

40. یعنی ان کا ایسا کوئی مطالبہ ہر گز پورا نہ کیا جائے گا۔

41. یعنی کسی شخص کا نصیحت حاصل کرنا سراسر اُس کی اپنی مشیت ہی پر موقوف نہیں ہے ، بلکہ اُسے نصیحت اُسی وقت نصیب ہوتی ہے جب کہ اللہ کی مشیت بھی یہ ہو کہ وہ اُسے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ دوسرے الفاظ میں یہاں اِس حقیقت کا اظہار کیا گیا ہے کہ بندے کا کوئی فعل بھی تنہا بندے کی اپنی مشیت سے ظہور میں نہیں آتا ، بلکہ ہر فعل اُسی وقت پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے جب خدا کی مشیت بندے کی مشیت سے مل جائے۔ یہ ایک نہایت نازک مسئلہ ہے جسے نہ سمجھنے سے انسانی فکر بکثرت ٹھو کر یں کھاتی ہے۔ مختصر الفاظ میں اِس کو یُوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر اِس دنیا میں ہر انسان کو یہ قدرت حاصل ہوتی کہ جو کچھ وہ کرنا چاہے کر گزرے تو ساری دنیا کا نظام درہم بر ہم ہو جاتا۔ جو نظم اس جہاں میں قائم ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ اللہ مشیت ساری مشیتوں پر غالب ہے۔ انسان جو کچھ بھی کرنا چاہے وہ اُسی وقت کر سکتا ہے جبکہ اللہ بھی یہ چاہے کہ انسان کو وہ کام کرنے دیا جائے۔ یہی معاملہ ہدایت اور ضلالت کا بھی ہے۔ انسان کا محض خود ہدایت چاہنا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ اُسے ہدایت مل جائے، بلکہ اُسے ہدایت اُس وقت ملتی ہے جب اللہ اُس کی اس خواہش کر پورا کرنے کا فیصلہ فرما دیتا ہے۔ اسی طرح ضلالت کی خواہش بھی محض بندے کی طرف سے ہونا کافی نہیں ہے۔ بلکہ جب اللہ اس کے اندر گمراہی کی طلب پا کر یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ اسے غلط راستوں میں بھٹکنے دیا جائے تب وہ اُن راہوں میں بھٹک نکلتا ہےجن پر اللہ اسے جانے کا موقع دے دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی چور بننا چاہے تو محض اس کی یہ خواہش اِس کے لیے کافی نہیں ہے کہ جہاں جس کےگھر میں گھس کر وہ جو کچھ چاہے چرا لےجائے، بلکہ اللہ اپنی عظیم حکمتوں اور مصلحتوں کے مطابق اس کی اِس خواہش کو جب اور جس قدر اور جس شکل میں پورا کرنے کا موقع دیتا ہے اسی حد تک وہ اسے پورا کر سکتا ہے۔

42. یعنی تمہیں اللہ کی ناراضی سے بچنے کی جو نصیحت کی جارہی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ کو اِس کی ضرورت ہے اور اگر تم ایسا نہ کرو تو اُس سے اللہ کا کوئی نقصان ہوتا ہے،بلکہ یہ نصیحت اس بنا پر کی جا رہی ہے کہ اللہ کا یہ حق ہے کہ اس کے بندے اس کی رضا چاہیں اور اس کی مرضی کے خلاف نہ چلیں۔

43. یعنی یہ اللہ ہی کو زیب دیتا ہے کہ کسی نے خواہ اس کی کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں ، جس وقت بھی وہ اپنی اِس روش سے باز آجائے اللہ اپنا دامن رحمت اس کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔ اپنے بندوں کے لیے کوئی جذبۂ انتقام وہ اپنے اندر نہیں رکھتا کہ ان کے قصوروں سے وہ کسی حال میں درگزر ہی نہ کرے اور انہیں سزا دیے بغیر چھوڑے۔