Tafheem ul Quran

Surah 75 Al-Qiyamah, Ayat 31-40

فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلّٰىۙ‏ ﴿75:31﴾ وَلٰڪِنۡ كَذَّبَ وَتَوَلّٰىۙ‏ ﴿75:32﴾ ثُمَّ ذَهَبَ اِلٰٓى اَهۡلِهٖ يَتَمَطّٰىؕ‏ ﴿75:33﴾ اَوۡلٰى لَكَ فَاَوۡلٰىۙ‏ ﴿75:34﴾ ثُمَّ اَوۡلٰى لَكَ فَاَوۡلٰىؕ‏ ﴿75:35﴾ اَيَحۡسَبُ الۡاِنۡسَانُ اَنۡ يُّتۡرَكَ سُدًىؕ‏ ﴿75:36﴾ اَلَمۡ يَكُ نُطۡفَةً مِّنۡ مَّنِىٍّ يُّمۡنٰىۙ‏ ﴿75:37﴾ ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوّٰىۙ‏ ﴿75:38﴾ فَجَعَلَ مِنۡهُ الزَّوۡجَيۡنِ الذَّكَرَ وَالۡاُنۡثٰىؕ‏ ﴿75:39﴾ اَلَيۡسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓى اَنۡ يُّحۡـىِۦَ الۡمَوۡتٰى‏ ﴿75:40﴾

31 - مگر اُس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی، 32 - بلکہ جُھٹلا یا اور پلٹ گیا، 33 - پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا۔ 21 34 - یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے۔ 35 - ہاں یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے۔ 22 36 - 23 کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یُونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ 24 37 - کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر میں )ٹپکا جاتا ہے؟ 38 - پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے، 39 - پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔ 40 - کیا وہ اِس پر قادر نہیں ہے کہ مرنے والوں کو پھر سے زندہ کردے؟ 25 ؏۲


Notes

21. مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا اس نے وہ سب کچھ سُنا جو اوپر کی آیات میں بیان کیا گیا ہے، مگر پھر بھی وہ اپنے انکار ہی پر اڑا رہا اور یہ آیات سننے کے بعد اکڑتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ مجاہد، قتادہ اور ابنِ زید کہتے ہیں کہ یہ شخص ابوجہل تھا۔ آیت کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک شخص تھا جس نے سورہ قیامہ کی مذکورہ بالا آیات سننے کے بعد یہ طرزِ عمل اختیار کیا۔

اس آیت کے یہ الفاظ کہ ” اس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی“خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں۔ ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کی صداقت تسلیم کرنے کا اوّلین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے۔شریعت الہٰی کے دوسرے احکام کی تعمیل کی نوبت تو بعد ہی میں آتی ہے، لیکن ایمان کے اقرار کے بعد کچھ زیادہ مدّت نہیں گزرتی کہ نماز کا وقت آجاتا ہے اور اُسی وقت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے زبان سے جس چیز کے ماننے کا اقرار کیا ہے وہ واقعی اس کے دل کی آواز ہے یا محض ایک ہوا ہے جو اُس نے چند الفاظ کی شکل میں مُنہ سے نکال دی ہے۔

22. مفسرین نے اَوْلٰی لَکَ کے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔ تُف ہے تجھ پر ۔ ہلاکت ہے تیرے لیے۔ خرابی، یا تباہی ، یا کمبختی ہے تیرے لیے۔ لیکن ہمارے نزدیک موقع ومحل کے لحاظ سے اس کا مناسب ترین مفہوم وہ ہے جو حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ”جب تو اپنے خالق سے کفر کرنے کی جُراءت کر چکا ہے تو پھر تجھ جیسے آدمی کو یہی چال زیب دیتی ہے جو تو چل رہا ہے۔“یہ اسی طرح کا طنزیہ کلام ہے جسے قرآن مجید میں ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں عذاب دیتے ہوئےمجرم انسان سے کہا جائے گا کہ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ،”لے چکھ اس کا مزا، بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تو ۔“(الدخان،۔۴۹)

23. اب کلام کو ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کا اعادہ کیا جا رہا ہے جس سے کلام کا آغاز کیا گیا تھا، یعنی زندگی بعدِموت ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔

24. عربی زبان میں اِبِل سُدی اُس اونٹ کے لیے بولتے ہیں جو یونہی چھوٹا پھر رہا ہو، جدھر چاہے چڑھتا پھرے، کوئی اس کی نگرانی کرنے والا نہ ہو۔ اسی معنی میں ہم شُتر بے مہار کا لفظ بولتے ہیں ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کیا انسان نے اپنے آپ کو شُتر بے مہار سمجھ رکھا ہے کہ اس کے خالق نے اس زمین میں غیر ذمّہ دار بنا کر چھوڑ دیا ہو ؟ کوئی فرض اس پر عائد نہ ہو؟ کوئی چیز اس کے لیے ممنوع نہ ہو؟ اور کوئی وقت ایسا آنے والا نہ ہو جب اس سےاس کے اعمال کی باز پُرس کی جائے؟ یہی بات ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید میں اس طرح بیان کی گئی ہے کے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کفار سے فرمائِے گا:اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْ جَعُوْنَ۔”کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے ؟“(المومنون۔۱۱۵)۔ ان دونوں مقامات پر زندگی بعدِ موت کے واجب ہونے کی دلیل سوال کی شکل میں پیش کی گئی ہے ۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تم نے اپنے آپ کو جانور سمجھ رکھا ہے؟ کیا تمہیں اپنے اور جانور میں یہ کھلا فرق نظر نہیں آتا کہ وہ بے اختیار ہیں اور تم با اختیار ، اس کے افعال میں اخلاقی حُسن وقبح کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور تمہارے افعال میں یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے ؟ پھر تم نے اپنے متعلق یہ کیسے سمجھ لیا کہ جس طرح جانور غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ ہیں۔ اسی طرح تم بھی ہو؟ جانوروں کے دوبارہ زندہ کر کے نہ اُٹھائے جانے کی مقبول وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے صرف اپنی جِبِلت کے لگے بندھے تقاضے پورے کیے ہیں، اپنی عقل سے کام لے کر کوئی فلسفہ تصنیف نہیں کیا، کوئی مذہب ایجاد نہیں کیا، کسی کومعبود نہیں بنایا نہ خود کسی کا معبود بنا، کوئی کام ایسا نہیں کیاجسے نیک یابد کہا جا سکتا ہو، کوئی اچھی یا بُری سنت جاری نہیں کی جس کے اثرات نسل در نسل چلتے رہیں اور وہ ان پر کسی اجر یا سز ا کا مستحق ہو۔ لہٰذ ا وہ اگر مر کر فنا ہو جائے تو یہ سمجھ میں آنے کے قابل بات ہے کیونکہ اس پر اپنے کسی عمل کی ذمہ داری عائد ہی نہیں ہوتی جس کی بازپُرس کے لیے اسے دوبارہ زندہ کرکے اٹھانے کی کوئی حاجت ہو۔ لیکن تم حیات بعدِموت سے کیسے معاف کیے جا سکتے ہو جبکہ عین اپنی موت کے وقت تک تم ایسے اخلاقی افعال کرتے رہتے ہو جن کے نیک یا بد ہونے اور جزا یا سزا کے مستو جب ہونے کاتمہاری عقل خود حکم لگاتی ہے ؟ جس آدمی نے کسی بے گناہ قتل کیا اور فوراً ہی اچانک کسی حادثے کا شکار ہو گیا، کیا تمہارے نزدیک اس کونِلوُہfree) (Scot چھوٹ جانا چاہیےاور اس ظلم کا بدلہ اسے کبھی نہ ملنا چاہیے؟ جو آدمی دنیا میں کسی ایسے فساد کا بیج بو گیا جس کا خمیازہ اس کے بعد صدیوں تک انسانی نسلیں بھگتتی رہیں، کیا تمہاری عقل واقعی اس بات پر مطمئن ہے کہ اسے بھی کسی بُھنگے یا ٹڈے کی طرح مر کر فنا ہو جانا چاہیے اور کبھی اٹھ کر اپنے ان کرتوتوں کی جواب دہی نہیں کرنی چاہیے جن کی بدولت ہزاروں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں خراب ہوئیں؟ جس آدمی نےعمر بھر حق و انصاف اور خیر وصلاح کے لیے اپنی جان لڑائی ہو اورجیتے جی مصیبتیں ہی بھگتّا رہا ہو کیا تمہارے خیال میں وہ بھی حشرات الارض ہی کی قسم کی کوئی مخلوق ہے جسے اپنے اس عمل کی جزا پانے کا کوئی حق نہیں ہے؟

25. یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی دلیل ہے۔ جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق کا آغاز کر کے پُور اانسان بنا دینے تک کا سارا فعل اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اورحکمت کا کرشمہ ہے ان کے لیے تو فی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں، کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈِھٹائی برتیں، ان کی عقل تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں پیدا کرتا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجود میں لے آنے پر قادر ہے۔ رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ اگر ہٹ دھرمی پر تُلے ہوئے نہیں ہیں تو آخر ان کے پاس اس بات کی کیا توجیہ ہے کہ آغازِ آفرنیش سے آج تک دنیا کے ہر حصے اور ہر قوم میں کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدائش مسلسل اِس تناسب سے ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کہیں کسی زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتی چلی جائیں اور آئندہ اُس کی نسل چلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جا رہا ہے؟ اتنا بڑا دعویٰ کر نےکےلئے آدمی کوکم از کم اتنا بے شرم ہونا چاہیے کہ وہ اٹھ کر بے تکلف ایک روز یہ دعوی کربیٹھے کہ لندن اور نیوریاک ، ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الروم، حواشی۲۷ تا ۳۰۔جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۷۷)۔

متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کے جواب میں کبھی بَلیٰ (کیو ں نہیں)، کبھی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ فبلی (پاک ہے تیری ذات، خداوند، کیوں نہیں) اور کبھی سُبْحَانَکَ وَبَلیٰ فرمایا کرتے تھے (ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو دواؤد)۔ ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب تم سورہ تین میں آیت اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْن (کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے؟) پڑھو تو کہو بَلیٰ وَاَنَا عَلیٰ ذَالِکَ مِنَ الشَّا ھِدِیْنَ (کیوں نہیں ، میں اِس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں)۔ اور جب سورہ قیامہ کی یہ آیت پڑھو تو کہو بَلیٰ۔ اور جب سورہ مرسَلات کی آیت فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ (اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں گے؟) پڑھو تو کہو اٰمَنَّا بِا للہِ ( ہم اللہ پر ایمان لائے)۔ اسی مضمون کی روایات امام احمد، ترمذی، ابن المُنذر، ابن مردُوْیہ، بَیْقَہی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں۔