Tafheem ul Quran

Surah 76 Al-Insan, Ayat 1-22

هَلۡ اَتٰى عَلَى الۡاِنۡسَانِ حِيۡنٌ مِّنَ الدَّهۡرِ لَمۡ يَكُنۡ شَيۡـئًـا مَّذۡكُوۡرًا‏ ﴿76:1﴾ اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَةٍ اَمۡشَاجٍۖ نَّبۡتَلِيۡهِ فَجَعَلۡنٰهُ سَمِيۡعًۢا بَصِيۡرًا‏ ﴿76:2﴾ اِنَّا هَدَيۡنٰهُ السَّبِيۡلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوۡرًا‏ ﴿76:3﴾ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلۡكٰفِرِيۡنَ سَلٰسِلَا۟ وَاَغۡلٰلًا وَّسَعِيۡرًا‏ ﴿76:4﴾ اِنَّ الۡاَبۡرَارَ يَشۡرَبُوۡنَ مِنۡ كَاۡسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوۡرًا​ۚ‏  ﴿76:5﴾ عَيۡنًا يَّشۡرَبُ بِهَا عِبَادُ اللّٰهِ يُفَجِّرُوۡنَهَا تَفۡجِيۡرًا‏ ﴿76:6﴾ يُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ وَيَخَافُوۡنَ يَوۡمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسۡتَطِيۡرًا‏  ﴿76:7﴾ وَيُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسۡكِيۡنًا وَّيَتِيۡمًا وَّاَسِيۡرًا‏  ﴿76:8﴾ اِنَّمَا نُطۡعِمُكُمۡ لِـوَجۡهِ اللّٰهِ لَا نُرِيۡدُ مِنۡكُمۡ جَزَآءً وَّلَا شُكُوۡرًا‏ ﴿76:9﴾ اِنَّا نَخَافُ مِنۡ رَّبِّنَا يَوۡمًا عَبُوۡسًا قَمۡطَرِيۡرًا‏ ﴿76:10﴾ فَوَقٰٮهُمُ اللّٰهُ شَرَّ ذٰلِكَ الۡيَوۡمِ وَ لَقّٰٮهُمۡ نَضۡرَةً وَّسُرُوۡرًا​ۚ‏  ﴿76:11﴾ وَجَزٰٮهُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّةً وَّحَرِيۡرًا ۙ‏ ﴿76:12﴾ مُّتَّكِـئِـيۡنَ فِيۡهَا عَلَى الۡاَرَآئِكِ​ۚ لَا يَرَوۡنَ فِيۡهَا شَمۡسًا وَّلَا زَمۡهَرِيۡرًا​ۚ‏ ﴿76:13﴾ وَدَانِيَةً عَلَيۡهِمۡ ظِلٰلُهَا وَذُلِّلَتۡ قُطُوۡفُهَا تَذۡلِيۡلًا‏ ﴿76:14﴾ وَيُطَافُ عَلَيۡهِمۡ بِاٰنِيَةٍ مِّنۡ فِضَّةٍ وَّاَكۡوَابٍ كَانَتۡ قَوَارِيۡرَا۟ ۙ‏  ﴿76:15﴾ قَوَارِيۡرَا۟ مِنۡ فِضَّةٍ قَدَّرُوۡهَا تَقۡدِيۡرًا‏ ﴿76:16﴾ ​ ​ وَيُسۡقَوۡنَ فِيۡهَا كَاۡسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنۡجَبِيۡلًا ۚ‏ ﴿76:17﴾ عَيۡنًا فِيۡهَا تُسَمّٰى سَلۡسَبِيۡلًا‏ ﴿76:18﴾ وَيَطُوۡفُ عَلَيۡهِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ​ۚ اِذَا رَاَيۡتَهُمۡ حَسِبۡتَهُمۡ لُـؤۡلُـؤًا مَّنۡثُوۡرًا‏ ﴿76:19﴾ وَاِذَا رَاَيۡتَ ثَمَّ رَاَيۡتَ نَعِيۡمًا وَّمُلۡكًا كَبِيۡرًا‏ ﴿76:20﴾ عٰلِيَهُمۡ ثِيَابُ سُنۡدُسٍ خُضۡرٌ وَّاِسۡتَبۡرَقٌ​ وَّحُلُّوۡۤا اَسَاوِرَ مِنۡ فِضَّةٍ ​ۚوَسَقٰٮهُمۡ رَبُّهُمۡ شَرَابًا طَهُوۡرًا‏ ﴿76:21﴾ اِنَّ هٰذَا كَانَ لَـكُمۡ جَزَآءً وَّكَانَ سَعۡيُكُمۡ مَّشۡكُوۡرًا‏ ﴿76:22﴾

1 - کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟ 1 2 - ہم نے انسان کو ایک مخلُوط نُطفے سے پیدا کیا 2 تاکہ اس کا امتحان لیں 3 اور اِس غرض کے لیے ہم نے اسے سُننے اور دیکھنے والا بنایا۔ 4 3 - ہم نے اُسے راستہ دکھایا ، خواہ شُکر کرنے والا بنے یا کُفر کرنے والا۔ 5 4 - کُفر کرنے والوں کے ہم نے زنجیریں اور طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ مہیّا کر رکھی ہے۔ 5 - نیک لوگ 6 (جنّت میں )شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آبِ کافور کی آمیزش ہوگی، 6 - یہ ایک بہتا چشمہ ہوگا 7 جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے 8 شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہُولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔ 9 7 - یہ وہ لوگ ہونگے جو (دُنیا میں)نذر پُوری کرتے ہیں، 10 اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی، 8 - اور اللہ کی محبت 11 میں مسکین اور یتیم اور قیدی 12 کو کھانا کھلاتے ہیں 13 9 - (اور اُن سے کہتے ہیں کہ)ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کِھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ، 14 10 - ہمیں تو اپنے ربّ سے اُس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہو گا ۔ 11 - پس اللہ تعالیٰ انہیں اُس دن کے شر سے بچالے گا اور انہیں تازگی اور سُرور بخشے گا 15 12 - اور اُن کے صبر کے بدلے میں 16 اُنہیں جنّت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ 13 - وہاں وہ اُونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ نہ اُنہیں دُھوپ کی گرمی ستائے گی نہ جاڑے کی ٹھِر۔ 14 - جنّت کی چھاوٴں ان پر جھکی ہوئی سایہ کر رہی ہوگی، اور اُس کے پھل ہر وقت ان کے بس میں ہوں گے (کہ جس طرح چاہیں اُنہیں توڑ لیں)۔ 15 - اُن کے آگے چاندی کے برتن 17 اور شیشے کے پیالے گردش کرائے جارہے ہوں گے، 16 - شیشے بھی وہ جو چاندی کی قِسم کے ہونگے، 18 اور ان کو( منتظمینِ جنّت نے)ٹھیک اندازے کے مطابق بھرا ہوگا۔ 19 17 - ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائیں جائیں گے جس میں سُونٹھ کی آمیزش ہوگی ، 18 - یہ جنّت کا ایک چشمہ ہوگا جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔ 20 19 - ان کے خدمت کے لیے ایسے لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے۔ تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی ہیں جو بکھیر دیے گئے ہیں۔ 21 20 - وہاں جِدھر بھی تم نگاہ ڈالو گے نعمتیں ہی نعمتیں اور ایک بڑی سلطنت کا سروسامان تمہیں نظر آئے گا۔ 22 21 - اُن کے اوپر باریک ریشم کےسبز لباس اور اطلس و دیبا کے کپڑے ہوں گے،23 ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے، 24 اور ان کا ربّ ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا۔ 25 22 - یہ ہے تمہاری جزا اور تمہاری کارگزاری قابلِ قدر ٹھہری ہے۔ 26 ؏۱


Notes

1. پہلا فقرہ ہے ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ۔ اکثر مفسرین و مترجمین نے یہاں ھَلْ کو قَدْ کے معنی میں لیا ہے اور وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ بے شک یا بلا شُبہ انسان پر ایسا وقت آیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ ھَلْ عربی زبا ن میں ”کیا“کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے، اور اس سے مقصود ہر حال میں سوال ہی نہیں ہوتا، بلکہ کسی بات کا انکار کرنا ہوتا ہے اور یہ انکار ہم اِس انداز میں کرتے ہیں کہ ”کیا یہ کام کوئی اور بھی کر سکتا ہے“؟ کبھی ہم ایک شخص سے کسی بات کا اقرار کرانا چاہتےہیں اور اِس غرض کے لیے اس سے پوچھتے ہیں کہ ”کیا میں نے تمہاری رقم ادا کر دی“؟ اور کبِھی ہمارا مقصود محض اقرار ہی کرانا نہیں ہوتا بلکہ سوال ہم اِس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ مخاطب کے ذہن کو ایک اور بات سوچنے پر مجبور کر دیں جو لازماً اُس کے اقرار سے بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ہم کسی سے پوچھتے ہیں ”کیا میں نے تمہارے ساتھ کوئی بُرائی کی ہے، بلکہ اُسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی مقصود ہوتا ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بُرائی نہیں کی ہے اس کے ساتھ میں بُرائی کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں ۔ آیت زیر بحث میں سوالیہ فقرہ دراصل اِسی آخری معنی میں ارشاد ہوا ہے ۔ اس سے مقصود انسان سے صرف یہی اقرار کرانا نہیں ہے کہ فی الواقع اُس پر ایک وقت ایسا گزرا ہے ، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے کہ جس خدا نے اُس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر سی حالت سے کر کے اسے پُورا انسان بنا کھڑا کیا وہ آخر اسے دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں عاجز ہوگا؟

دوسرا فقرہ ہے حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ۔ دھر سے مراد وہ لامتنا ہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسا ن کو معلوم ہے نہ انتہا، اور حین سے مراد وہ خاص وقت ہے جو اِس لا متنا ہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ اِس لامتنا ہی زمانے کے اندر ایک طویل مدت تو ایسی گزری ہے جب سرے سے نوعِ انسانی ہی موجود نہ تھی۔ پھر اُس میں ایک وقت ایسا آیا جب انسان نام کی ایک نوع کا آغاز کیا گیا۔ اور اسی زمانے کے اندر ہر شخص پر ایک ایسا وقت آیا ہے جب اسے عدم سے وجود میں لانے کی ابتدا کی گئی۔

تیسرا فقرہ ہے لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْ کُوْ راً، یعنی اُس وقت وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔ اُس کا ایک حصّہ باپ کے نُطفے میں ایک خوردبینی کیڑے کی شکل میں اور دوسرا حصّہ ماں کے نطفے میں ایک خورد بینی بَیضے کی شکل میں موجود تھا۔ مدتہائے دراز تک تو انسان یہ بھی نہیں جانتا تھآ کہ دراصل وہ اِس کیڑے اور بیضے کے ملنے سے وجود میں آتا ہے۔ اب طاقت ور خوردبینوں سے اِن دونوں کو دیکھ تو لیا گیا ہےلیکن اب بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنا انسان باپ کے اِس کیڑے میں اور کتنا ماں کے اس بیضے میں موجود ہوتا ہے۔ پھر استقرارِ حمل کے وقت اِن دونوں کے ملنے سے جو ابتدائی خَلِیَّہ( (cell وجود میں آتا ہے وہ ایک ایسا ذرّۂ بے مقدار ہوتا ہے کہ بہت طاقت ور خوردبین ہی سے نظر آسکتا ہے اور اسے دیکھ کر بھی بادی النظر میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کوئی انسان بن رہا ہے، نہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اِس حقیر سی ابتداء سے نشونما پا کر کوئی انسان اگر بنے گا بھی تو وہ کس قد و قامت ، کس شکل وصورت، کس قابلیت اور شخصیت کا انسان ہوگا۔ یہ مطلب ہے اِس ارشاد کا کہ اُس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا اگر چہ انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے وجود کا آغاز ہو گیا تھا۔

2. ”ایک مخلوط نُطفے“سے مراد یہ ہے کہ انسان کی پیدائش مرد اور عورت کے دو الگ الگ نطفوں سے نہیں ہوئی ہے بلکہ دونوں نُطفے مل کر جب ایک ہوگئے تب اُس مُرکّب نُطفے سے انسان پیدا ہوا۔

3. یہ ہے دنیا میں انسان کی، اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصدِ تخلیق یہیں پُورا ہو جائے۔ اور قانون فطرت کے مطابق ایک مدت تک اپنے حصے کا کام کر کے وہ یہیں مر کر فنا ہو جائے۔ نیز یہ دنیا اُس کے لیے نہ دارالعذاب ہے ، جیسا کہ راہب سمجھتے ہیں، نہ دارالجزا ہے جیسا کہ تَناسُخ کے قائلین سمجھتے ہیں، نہ چراگاہ اور تفریح گاہ ہے، جیسا کہ ما دّہ پرست سمجھتے ہیں، اور نہ رزم گاہ ، جیسا کہ ڈارون اور مارکس کے پیرو سمجھتے ہیں، بلکہ دراصل یہ اُس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے ۔ وہ جس چیز کو عُمر سمجھتا ہے حقیقت میں وہ امتحان کا وقت ہے جو اُسے یہاں دیا گیا ہے۔ دنیا میں قُوّ تیں اور صلاحیتیں بھی اس کو دی گئی ہیں، جن چیزوں پر بھی اس کو تصرُّف کے مواقع دیے گئے ہیں، جن حیثیتوں میں بھی وہ یہاں کام کر رہا ہے، اور جو تعلقات بھی اُس کے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ہیں، وہ سب اصل میں امتحان کے بے شمار پر چے ہیں، اور زندگی کے آخری سانس تک اِس امتحان کا سلسلہ جاری ہے۔ نتیجہ اس کا دنیا میں نہیں نکلنا ہے بلکہ آخرت میں اُس کے تمام پر چوں کو جانچ کریہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام۔ اور اُس کی کامیابی و ناکامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ اُس نے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہوئے یہاں کام کیا، اور کس طرح امتحان کے وہ پرچے کیے جو اُسے یہاں دیے گئے تھے۔ اگر اس نے اپنے آپ کو بے خدایا بہت سے خدا ؤں کابندہ سمجھا، اور سارے پر چے یہ سمجھتے ہوئے کیے کہ آخرت میں اسے اپنے خالق کے سامنے کوئی جو ابد ہی نہیں کر نی ہے، تو اس کا سارا کارنامہ زندگی غلط ہو گیا۔ اور اگر اس نے اپنے آپ کو خدائے واحد کا بندہ سمجھ کر اُس طریقے پر کام کیا جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو اور آخرت کی جوابدہی کو پیش نظر رکھا تو وہ امتحان میں کامیاب ہوگیا،(یہ مضمون قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ اور اتنی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اُن سب مقامات کا حوالہ دینا یہاں مشکل ہے۔ جو حضرات اسے پُوری طرح سمجھنا چاہتے ہوں وہ تفہیم القرآن کی ہر جلد کے آخر میں فہرست موضوعات کے اندر لفظ ”آزمائش“نکال کر وہ تمام مقامات دیکھ لیں جہاں قرآن میں مختلف پہلو ؤں سے اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں یہ حقیقت اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہو)۔

4. اصل میں فرمایا گیا ہے”ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا“۔ اِس کا مفہوم صحیح طور پر ”ہوش گوش رکھنے والا بنایا“ سے ادا ہوتا ہے ، لیکن ہم نے ترجمے کی رعایت سے سمیع کے معنی”سننے والا“اور بصیر کے معنی”دیکھنے والا“کیے ہیں۔ اگرچہ عربی زبان کے اِن الفاظ کا لفظی ترجمہ یہی ہے مگر ہر عربی داں جانتا ہے کہ حیوان کے لیے سمیع اور بصیر کے الفاظ کبھی استعمال نہیں ہوتے، حالانکہ وہ بھی سُننے اور دیکھنے والا ہوتا ہے۔ پس سُننے اور دیکھنے سے مراد یہاں سماعت اور بینائی کی وہ قوتیں نہیں ہیں جو حیوانات کو بھی دی گئی ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا اور پھر اس سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ علاوہ بریں سماعت اور بصارت انسان کے ذرائع علم میں چونکہ سب سے زیادہ اہم ہیں اس لیے اختصار کے طور پر صرف انہی کا ذکر کیا گیا ہے ، ورنہ اصل مراد انسان کو وہ تمام حواس عطا کرنا ہے جن کے ذریعہ سے وہ معلومات حاصل کرتا ہے ۔ پھر انسان کو جو حواس دیے گئے ہیں وہ اپنی نوعیت میں اُن حواس سے بالکل مختلف ہیں جو حیوانات کو دیے گئے ہیں کیونکہ اس کے ہر حاسّہ کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ موجود ہوتا ہے جو حواس کے ذریعہ سے آنے والی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو ترتیب دے کر اُن سے نتائج نکالتا ہے، رائے قائم کرتا ہے، اور پھر کچھ فیصلوں پر پہنچتا ہے جن پر اس کا رویہ زندگی مبنی ہوتا ہے۔لہٰذا یہ کہنے کے بعد کہ انسان کو پیدا کر کے ہم اس کا امتحان لینا چاہتے تھے یہ ارشاد فرمانا کہ اِسی غرض کے لیے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا، دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے علم اور عقل کی طاقتیں دیں تا کہ وہ امتحان دینے کے قابل ہو سکے ۔ ظا ہر ہے کہ اگر مقصود ِکلام یہ نہ ہو اور سمیع اور بصیر بنانے کا مطلب محض سماعت و بینائی کی قوتیں رکھنے والا ہی ہو تو ایک اندھا اور بہرا آدمی تو پھر امتحان سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے، حالانکہ جب تک کوئی علم و عقل سے بالکل محروم نہ ہو، امتحان سے اس کے مستثنیٰ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔

5. یعنی ہم نے اسے محض علم وعقل کی قوتیں دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا ، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی بھی کی تا کہ اسے معلوم ہو جائے کہ شُکر کا راستہ کونسا ہے اور کُفر کا راستہ کونسا، اور اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے اس کا ذمّہ دار وہ خود ہو۔ سُورہ بَلَد میں یہی مضمون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۔”اور ہم نے اسے دونوں راستے (یعنی خیر وشر کے راستے)نمایاں کر کے بتا دیے۔“اور سورہ شمس میں یہی بات اِسطرح بیان کی گئی ہے وَنَفْسِ وَّمَا سَوّٰ ھَا فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا،”اور قسم ہے(انسان کے )نفس کی اور اُس ذات کی جس نے اُسے (تمام ظاہری و باطنی قوتوں کے ساتھ) اُستوار کیا، پھر اُس کا فُجور اور اُس کا تقویٰ دونوں اُس پر الہام کردیے“۔ اِن تمام تصریحات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے، اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کے اُن تفصیلی بیانات کو بھی نگا ہ میں رکھا جائے جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے انسان کو ہدایت کے لیے دنیا میں کیا کیا انتظامات کیے ہیں، تو معلو م ہو جاتا ہے کہ اِس آیت میں ”راستہ دکھانے“سے مراد رہنمائی کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے بلکہ بہت سی صورتیں ہیں جن کی کوئی حدّ ونہایت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر:

(۱) ہر انسان کو علم وعقل کی صلاحیتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حِس بھی دی گئی ہے جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور بُرائی میں امتیاز کرتا ہے، بعض افعال اور اوصاف کو بُرا جانتا ہے اگر چہ وہ خود ان میں مبتلا ہو، اور بعض افعال واوصاف کو اچھا جانتا ہے۔ اگرچہ وہ خود اُن سے اجتناب کر رہا ہو۔حتٰی کہ جِن لوگوں نے اپنی اغراض و خواہشات کی خاطر ایسے فلسفے گھڑ لیے ہیں جن کی بنا پر بہت سی برائیوں کو اُنہوں نے اپنے لیے حلال کر لیا ہے ، اُن کا حال بھی یہ ہے کہ وہی بُرائیاں اگر کوئی دوسرا اُن کے ساتھ کر ے تو وہ اُس پر چیخ اُٹھتے ہیں اور اُس وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے جُھوٹے فلسفوں کے باوجود حقیقت میں وہ اُن کو بُرا ہی سمجھتے ہیں ۔ اِس طرح نیک اعمال و اوصاف کو خواہ کسی نے جہالت اور حماقت اور دقیا نوسیت ہی قرار دے رکھا ہو، لیکن جب کسی انسان سے خود اُس کی ذات کو کسی نیک سلوک کا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی فطرت قابل قدر سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

(۲) ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ضمیر (نفس لوّامہ) نام کی ایک چیز رکھ دی ہے جو اسے ہر اُس موقع پر ٹوکتی ہے جب وہ کوئی برائی کرنے والا ہو یا کر رہا ہو یا کر چکا ہو۔ اِس ضمیر کو خواہ انسان کتنی ہی تھپکیاں دے کر سُلائے ، اور اس کو بے حِس بنا نے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لے، لیکن وہ اسے بالکل فنا کر دینے پر قادر نہیں ہے، وہ دنیا میں ڈھیٹ بن کر اپنے آپ کو قطعی بے ضمیر ثابت کر سکتا ہے ، وہ حجّتیں بگھار کر دنیا کو دھوکا دینے کی بھی ہر کوشش کر سکتا ہے، وہ اپنے نفس کو بھی فریب دینے کے لیے اپنے افعال کے لیے بیشمار عذرات تراش سکتا ہے، مگر اس کے باوجود اللہ نے اس کی فطرت میں جو مُحاسِب بِٹھا رکھا ہے وہ اتنا جاندار ہے کہ کسی بُرے انسان سے یہ بات چُھپی نہیں رہتی کہ وہ حقیقت میں کیا ہے۔ یہی بات ہے جو سورہ قیامہ میں فرمائی گئی ہے کہ ”انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے خواہ وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے“(آیت۱۵)۔

(۳) انسان کے اپنے وجود میں اور اُس کے گرد و پیش زمین سے لے کر آسمان تک ساری کائنات میں ہر طرف ایسی بے شمار نشانیا ں پھیلی ہوئی ہیں جو خبر دے رہی ہیں کہ یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر نہیں ہو سکتا ، نہ بہت سے خدا اِس کا رخانہ ہستی کے بنانے والے اور چلانے والے ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح آفاق اور اَنْفُس کی یہی نشانیاں قیامت اور آخرت پر بھی صریح دلالت کر ہی ہیں۔ انسان اگر ان سے آنکھیں بند کر لے ، یا اپنی عقل سے کام لے کر اِن پر غور نہ کرے ، یا جن حقائق کی نشان دہی یہ کر رہی ہیں اُن کو تسلیم کرنے سے جی چُرائے تو یہ اس کا اپنا قصُور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تو حقیقت کی خبر دینے والے نشانات اس کے سامنے رکھ دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔

(۴) انسان کی اپنی زندگی میں ،اُس کی ہم عصر دنیا میں، اور اس سے پہلے گزری ہوئی تاریخ کے تجر بات میں بے شمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں اور آتے رہے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک بالا تر حکومت اُس پر اور ساری کائنات پر فرمانروا ئی کر رہی ہے، جس کے آگے وہ بالکل بے بس ہے، جس کی مشیت ہر چیز پر غالب ہے، اور جس کی مدد کا وہ محتاج ہے۔ یہ تجربات و مشاہدات صرف خارج ہی میں اِس حقیقت کی خبر دینے والے نہیں ہیں، بلکہ انسان کی اپنی فطرت میں بھی اُس بالا تر حکومت کے وجود کی شہادت موجود ہے جس کی بنا پر بڑے سے بڑا دہر یہ بھی بُرا وقت آنے پر خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے، اور سخت سے سخت مشرک بھی سارے جھوٹے خدا ؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کو پکارنے لگتا ہے۔

(۵) انسان کی عقل اور اس کی فطرت قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ جُرم کی سزا اور عمدہ خدمات کا صلہ ملنا ضروری ہے اِسی بنا پر تو دنیا کے ہر معاشرے میں عدالت کا نظام کسی نہ کسی صورت میں قائم کیا جاتا ہے اور جن خدمات کو قابل تحسین سمجھا جاتا ہے ان کا صلہ دینے کی بھی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی جاتی ہے۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اخلاق اور قانون ِ مُکافات کے درمیان ایک ایسا لازمی تعلق ہے جس سے انکار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اب اگر یہ مسلم ہے کہ اس دنیا میں بے شمار جرائم ایسے ہیں جن کی پُوری سزا تو درکنار سرے سے کوئی سزا ہی نہیں دی جا سکتی، اور بے شمار خدمات ایسی بھی ہیں جن کا پورا صلہ تو کیا، کوئی صلہ بھی خدمت کرنے والے کو نہیں مل سکتا، تو آخرت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، الّا یہ کہ کوئی بے وقوف یہ فرض کر لے، یا کوئی ہٹ دھرم یہ رائے قائم کرنے پراصرار کرے کہ انصاف کا تصور رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوگیا ہےجو بجائے خود انصاف سے خالی ہے۔ اور پھر اس سوال کا جواب اُس کے ذمّہ رہ جاتا ہے کہ ایسی دنیا میں پیدا ہونے والے انسان کے اندر یہ انصاف کا تصوّر آخر آ کہاں سے گیا؟

(۶) ان تمام ذرائع رہنمائی کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کی صریح اور واضح رہنمائی کے لیےدنیا میں انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں جن میں صاف صاف بتا دیا گیا کہ شُکر کی راہ کونسی ہے اور کُفر کی راہ کونسی اور ان دونوں راہوں پر چلنے کے نتائج کیا ہیں۔ انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی یہ تعلیمات ، بے شمار محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے اتنے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں پھیلی ہیں کہ کوئی انسانی آبادی بھی خدا کے تصور، آخرت کے تصوّر، نیکی اور بدی کے فرق ، اور اُن کے پیش کردہ اخلاقی اصولوں اور قانونی احکام سے ناواقف نہیں رہ گئی ہے، خواہ اسے یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ علم اُسے انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی تعلیمات ہی سے حاصل ہوا ہے۔ آج جو لوگ انبیاء اور کتابوں کے منکر ہیں، یا ان سے بالکل بے خبر ہیں ، وہ بھی اُن بہت سی چیزوں کی پیروی کر رہے ہیں جو دراصل اُنہی کی تعلیمات سے چَھن چَھن کر اُن تک پہنچتی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ اِن چیزوں کا اصل ماخذ کونسا ہے۔

6. اصل میں لفظ ابرار استعمال ہوا ہے جس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی اطاعت کا حق ادا کیا ہو، اُس کے عائد کیے ہوئے فرائض بجا لا ئے ہوں ، اور اُس کےمنع کیے ہوئے افعال سے اجتناب کیا ہو۔

7. یعنی وہ کافور ملا ہوا پانی نہ ہوگا بلکہ ایسا قدرتی چشمہ ہوگا جس کے پانی کی صفائی اور ٹھنڈک اور خوشبو کافور سے ملتی جُلتی ہو گی۔

8. عباد اللہ (اللہ کے بندے) یا عباد الرحمٰن(رحمٰن کے بندے) کے الفاظ اگر چہ لُغوی طور پر تمام انسانوں کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں، کیونکہ سب ہی خدا کے بندے ہیں، لیکن قرآن میں جہاں بھی یہ الفاظ آئے ہیں ان سے نیک بندے ہی مراد ہیں۔ گویا کہ بد لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو بندگی سے خارج کر رکھا ہو، اِس قابل نہیں ہیں کہ اُن کو اللہ تعالیٰ اپنے اسمِ گرامی کی طرف منسوب کرتے ہوئے عباد اللہ یا عباد الرحمٰن کے معزز خطاب سے نوازے۔

9. یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں وہ کدال پھاوڑے لے کر نالیاں کھودیں گے اور اس طرح چشمے کا پانی جہاں لے جانا چاہیں گے لے جائیں گے، بلکہ ان کا ایک حکم اور اشارہ اس کے لیے کافی ہوگا کہ جنت میں جہاں وہ چاہیں اُسی جگہ وہ چشمہ پُھوٹ لے۔ بسہولت نکال لینے کے الفاظ اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

10. نذر پوری کرنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب کیا گیا ہوا سے وہ پُورا کر ے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی نے خود اپنے اوپر واجب کر لیا ہو۔ یا بالفاظِ دیگر جس کام کے کرنے کا اس نے عہد کیا ہو، اُسے وہ پُورا کرے۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ جو کچھ آدمی پر واجب ہو، خواہ وہ اُس پر واجب کیا گیا ہو یا اس نے خود اپنے اوپر واجب کر لیا ہو، اسے وہ پُورا کرے۔ اِن تینوں مفہومات میں سے زیادہ معروف مفہوم دوسرا ہے اور عام طور پر لفظ نذر سے وہی مراد لیا جاتا ہے۔ بہر حال یہاں اُن لوگوں کی تعریف یا تو اس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ واجبات کو پُورا کرتے ہیں، یا اِس لحاظ سے کی گئی ہے کہ وہ ایسے نیک لوگ ہیں کہ جو خیر اور بھلائی کے کام اللہ نے ان پر واجب نہیں کیے ہیں ان کو بھی انجام دینے کا جب وہ اللہ سے عہد کر لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں، کجا کہ اُن واجبات کو ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی کریں جو اللہ نے ان پر عائد فرمائے ہیں۔

جہاں تک نذر کے احکام کا تعلق ہے ، اُن کو مختصر طور پر ہم تفہیم القرآن ، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ۳۱۰ میں بیان کر چکے ہیں ۔ لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اُن کو ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا جائےتا کہ لوگ نذر کے معاملہ میں جو غلطیاں کرتے ہیں یا جو غلط فہمیاں لوگوں میں پائی جاتی ہیں ان سے بچ سکیں اور نذر کے صحیح قواعد سے واقف ہو جائیں۔

(۱) فقہاء نے نذر کی چار قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک آدمی اللہ سے یہ عہد کرے کہ وہ اُس کی رضا کی خاطر فلاں نیک کام کرے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اِس بات کی نذرمانے کہ اگر اللہ نے میری فلاں حاجت پوری کر دی تو میں شُکرانے میں فلاں نیک کام کر دوں گا، اِن دونوں قسم کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر تَبَرُّر (نیکی کی نذر) کہتے ہیں اور اس پر اتفاق ہے کہ اسے پُورا کر نا واجب ہے۔ تیسرے یہ کہ آدمی کوئی ناجائز کام کرنے یا کوئی واجب کام نہ کرنے کا عہد کر لے۔ چوتھے یہ کہ آدمی کوئی مُباح کام کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلے، یا کوئی مستحب کام نہ کرنے کا یا کوئی خلافِ اَولٰی کام کرنے کا عہد کرلے۔ ان دونوں قسموں کی نذروں کو فقہاء کی اصطلاح میں نذر لَجاج (جہالت اور جھگڑالو پن اور ضِد کی نذر) کہتے ہیں۔ ان میں تیسری قسم کی نذر کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ منعقد ہی نہیں ہوتی۔ اور چوتھی قسم کے متعلق فقہاء میں اختلاف ہے۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اسے پُورا کرنا چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ قسم توڑنے کا کفّارہ ادا کر دینا چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ آدمی کوا ختیار ہے ، خواہ نذر پوری کردے ، یا کفارہ ادا کر دے۔ شافعیوں اور مالکیوں کے نزدیک یہ نذر بھی سرے سے منعقد نہیں ہوتی۔ اور حنفیوں کے نزدیک دونوں قسموں کی نذروں پر کفارہ لازم آتا ہے۔(عمدہ القاری)۔

(۲) متعدد احادیث سے معلو م ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نذر ماننے سے منع فرمایا ہے جو یہ سمجھتے ہوئے مانی جائے کہ اُس سے تقدیر بدل جائے گی، یا جس میں کوئی نیک کام اللہ کی رضا کے لیےبطور ِ شکر کرنے کے بجائے آدمی اللہ تعالیٰ کو بطورِ معاوضہ یہ پیشکش کرے کہ آپ میرا یہ کام کر دیں تو میں آپ کے لیے فلاں نیک کام کر دوں گا۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ اَخَذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینھیٰ عن النذر و یقول انہٗ لا یردّ شیئاً و انما یُسْتَخْرَجُ بہ من البخیل۔” رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ نذر ماننے سے منع کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ وہ کسی ہونے والی چیز کو پھیر نہیں سکتی، البتہ اُس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے۔“( مُسلم۔ابو داؤد)۔ حدیث کے آخری فقرے کا مطلب یہ ہے کہ بخیل یُوں تو راہِ خدا میں مال نکالنے والا نہ تھا، نذر کے ذریعہ سے اِس لالچ میں وہ کچھ خیرات کر دیتا ہے کہ شاید یہ معاوضہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ اس کے لیے تقدیر بدل دے۔ دوسری روایت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے یہ ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، النّذرُ لا یُقَدِّ مُ شیئاً ولا یُؤَخِّرُہٗ و انما یُسْتَخْرَجُ بہٖ من البخیل۔”نذر نہ کوئی کام پہلے کرا سکتی ہے، نہ کسی ہوتے کام میں تاخیر کر اسکتی ہے۔ البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل کے ہاتھ سے نکلوا لیا جاتا ہے“(بخاری ومسلم)۔ ایک اور روایت میں وہ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے نذر ماننے سے منع کیا اور فرمایا انہ لا یاتی بخیر و انما یستخرج بہ من البخیل” اس سے کوئی کام بنتا نہیں ہے، البتہ اس کے ذریعہ سے کچھ مال بخیل سے نکلوا لیا جاتا ہے“(بخاری ومسلم)۔ تقریباً اسی مضمون کی متعدد روایات مُسلم نے حضرت ابو ہُریرہ سے نقل کی ہیں، اور ایک روایت بخاری و مسلم دونوں نے نقل کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا ان النذر لا یقرِّب من ابن اٰدم َ شیئاً لم یکن اللہ قدرہ لہٗ ولٰکِن النذر یوافقُ القدر فُیخرجُ بذالک من البخیل مالم یکن البخیل یرید ان یُّخْرِجَ۔”درحقیقت نذر ابن آدم کو کوئی ایسی چیز نہیں دلواسکتی جو اللہ نے اس کے لیے مقدَّر نہ فرمائی ہو، لیکن نذر ہوتی تقدیر کے مطابق ہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے تقدیر الہٰی وہ چیز بخیل کے پاس سے نکال لاتی ہے جسے وہ کسی اور طرح نکالنے والا نہ تھا“۔ اسی مضمون پر مزید روشنی حضرت عبداللہ بن عَمْرو بن عاص کی اس روایت سے پڑتی ہے کہ حضورؐ نے فرمایا انما النذر ما ابتُغییَ بہٖ وجہُ اللہ۔ ”اصل نذر تو وہ ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود ہو“۔(طَحاوِی)۔

(۳) نذر کے معاملہ میں ایک اور قاعدہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ صرف وہ نذر پُوری کرنی چاہیے جو اللہ کی اطاعت میں ہو۔ اللہ کی نافرمانی کرنے کی نذر ہر گز پُوری نہیں کرنی چاہیے۔ اسی طرح ایسی چیز میں کوئی نذر نہیں ہے جس کا آدمی مالک نہ ہو، یا ایسے کام میں کوئی نذر نہیں ہے جو انسان کے بس میں نہ ہو۔حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من نذر ان یطیع اللہ فَلْیُطِعْہُ ومن نذر ان یعص اللہ فلا یعصِہٖ۔”جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اس کی اطاعت کرنی چاہیے، اور جس نے یہ نذر مانی ہو کہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو اسے نافرمانی نہیں کرنی چاہیے“۔(بخاری ، ابو داؤد، ترمذی، نسائی،ابن ماجہ، طحاوی)۔ ثابت بن ضَحّاک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا وفاء لنذرِ فی معصیۃ اللہ ولا فیما لا یملک ابن اٰدم۔” اللہ کی نافرمانی میں کسی نذر کے پُور کرنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، نہ کسی ایسی چیز میں جو آدمی کی ملکیت میں نہ ہو“(ابو داؤد)۔ مسلم نے اسی مضمون کی روایت حضرت عمران بن حُصین سے نقل کی ہے۔ اور ابو داؤد میں حضرت عبد اللہ بن عَمْروبن عاص کی روایت اس سے زیادہ مفصل ہے جس میں وہ حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ لا نذر و لایمین فی ما لا یملک ابن اٰدم، ولا فی معصیۃ اللہ، ولا فی قطیعۃ رحم” کوئی نذر اور کوئی قسم کسی ایسے کام میں نہیں ہے جو آدمی کے بس میں نہ ہو، یا اللہ کی نافرمانی میں ہو، یا قطع رحمی کے لیےہو۔“

(۴) جس کام میں بجائے خود نیکی نہیں ہے اور آدمی نے خواہ مخواہ کسی فضول کام، یا نا قبلِ برداشت مشقت یا محض تعذیبِ نفس کو نیکی سمجھ کر اپنے اوپر لازم کر لیا ہو اُس کی نذر پُوری نہیں کرنی چاہیے۔ اس معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بالکل واضح ہیں ، حضر ت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورؐ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک صاحب دھوپ میں کھڑے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ کون ہیں اور کیسے کھڑے ہیں؟ عرض کیا گیا یہ ابو اسرائیل ہیں، انہوں نے نذر مانی ہے کہ کھڑے رہیں گے ، بیٹھیں گے نہیں، نہ سایہ کریں گے، نہ کسی سے بات کریں گے ، اور روزہ رکھیں گے۔ اس پر آپ نے فرمایا مُرُوْہُ فلیکلّم وَلْیَسْتَظِل وَلْیَقْعُدْ، وَلْیُتِمَّ صوم۔” ان سے کہو بات کریں، سایہ میں آئیں، بیٹھیں ، البتہ روزہ پُورا کریں“(بخاری، ابوداؤد، ابن ماجہ، مُؤطَا)۔ حضرت عُقْبہ بن عامر جُہنَیِ کہتے ہیں کہ میری بہن ننگے پاؤں پیدل حج کرنے کی نذر مانی اور یہ نذر بھی مانی کہ اس سفر میں سر پر کپڑا بھی نہ ڈالیں گی۔ حضورؐ نے فرمایا اُس سے کہو کہ سواری پر جائے اور سر ڈھانکے(ابوداؤد۔مسلم نے اِس مضمون کی متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں کچھ لفظی اختلاف ہے)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے عُقْبہ بن عامی کی بہن کا یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے حضورؐ کے جو الفاظ نقل کیے ہیں وہ یہ ہیں:اِنَّ اللہَ لَغنیٌّ عن نذرھا، مُرْھا فَلْتَرْکَبْ۔”اللہ کو اس کی اِس نذر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے کہو کہ سواری پر جائے“(ابو داؤد)۔ ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا، میری بہن نے پیدل حج کرنے کی نذر مانی ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا انّ اللہ لا یصنع بشقاء اختک شیئاً فلتحُجَّ رَا کبۃ۔ ”تیری بہن کے مشقت میں پڑنے کی اللہ کو کوئی ضرورت نہیں پڑی ہے ۔ اسے سواری پر حج کرنا چاہیے“۔(ابو داؤد)۔ حضرت اَنَس بن مالک کی روایت ہے کہ حضورؐ نے (غالباً سفر حج) میں دیکھا کہ ایک بڑے میاں کو ان کے دو بیٹے سنبھالے لیے چل رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ عرض کیا گیا انہوں نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا اِنَّ اللہَ لغنیٌ عن تعذیب ھٰذا نفسہٗ و امرہٗ ان یرکَبَ۔ ”اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے کہ یہ شخص اپنے نفس کو عذاب میں ڈالے“۔ پھر آپ نے اسے حکم دیا سوار ہو(بخاری،مسلم،ابوداؤد۔مسلم میں اسی مضمون کی حدیث حضرت ابو ہریرہؓ سے بھی مر وی ہے)۔

(۵) اگر کسی نذر کو پُورا کرنا عملاً ممکن نہ ہوتو اسے کسی دوسری صورت میں پُورا کیا جا سکتا ہے۔ حضرت جابر بن عبدا للہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے روز ایک شخص نے اُٹھ کر عرض کیا ، یا رسول اللہ ، میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ نے مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح کر دیا تو میں بیت المقدس میں دو رکعت نماز پڑھوں گا۔ حضورؐ نے فرمایا یہیں پڑھ لے اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ اس نے پھر پوچھا۔ آپ نے فرمایا شَأ نک اذًا،”اچھا تو تیری مرضی“۔ دوسری ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا۔ والذی بعث محمدًا بالْحق، لوصلَّیت ھٰھنا لاجزأ عنک صلوٰ ۃً فی بیت المقدس”قسم ہے اُس ذات کی جس نے محمدؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ، اگر تو یہیں نماز پڑھ لے تو بیت المقدس میں نماز پڑھنے کے بدلے یہ تیرے لیے کافی ہو گی“(ابو داؤد)۔

(۶) اگر کسی نے اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی نذر مان لی ہو تو اس کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام مالکؓ کہتے ہیں کہ اسے ایک تہائی مال دے دینا چاہیے، اور مالکیہ میں سے سَحْنُون کا قول ہے کہ اسے اتنا مال دے دینا چاہیے جسے دینے کے بعد وہ تکلیف میں نہ پڑ جائے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ اگر یہ نذر تُبرُّر کی نوعیت کی ہو تو اسے سارا مال دے دینا چاہیے، اور اگر یہ نذرِ لَجاج ہو تو اُسے اختیار ہے کہ نذر پُوری کرے یا قسم کا کفارہ ادا کردے۔ امام ابو حنیفہ کہتےہیں کہ اسے اپنا وہ سب مال دے دنیا چاہیے جس میں زکوٰۃ عائد ہوتی ہو، لیکن جس مال میں زکوٰۃ نہیں ہے، مثلاً مکان یا ایسی ہی دوسری اَملاک، اس پر اس نذر کا اطلاق نہ ہو گا۔ حنفیہ میں سے امام زُفَر کا قول ہے کہ اپنے اہل وعیال کے لیے دو مہینے کا نفقہ رکھ کر باقی سب صدقہ کر دے (عمدۃ القاری۔ شرح مؤطاء از شاہ ولی اللہ صاحب) ۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق جو روایات آئی ہیں وہ یہ ہیں: حضرت کعبؓ بن مالک کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر پیچھے رہ جانے کی وجہ سے جو عتاب مجھ پر ہوا تھا اس کی جب معافی مل گئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عر ض کیا کہ میری توبہ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ میں اپنے سارے مال سے دست بردار ہو کر اسے اللہ اور رسول کی راہ میں صدقہ کر دُوں گا۔ حضورؐ نے فرمایا نہیں ایسا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا، پھر آدھا مال؟ فرمایا، نہیں۔ میں نے عرض کیا، پھر ایک تہائی؟ فرمایا ہاں(ابو داؤد)۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تم اپنا کچھ مال اپنے لیے روک رکھو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے(بخاری)۔ امام زُہری کہتے ہیں کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابو لُبابہؓ نے (جن پر اِسی غزوہ تبوک کے معاملہ میں عتاب ہوا تھا، حضورؐ سے عرض کیا، میں اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں صدقہ کے طور پر اپنے سارے مال سے دست بر دار ہوتا ہوں۔ حضورؐ نے جواب دیا تمہارے لیے اُس میں صرف ایک تہائی دے دینا کافی ہے(مؤطّا)۔

(۷) اسلام قبول کرنے سےپہلے اگر کسی شخص نے کسی نیک کام کی نذر مانی ہو تو کیا اسلام قُبول کرنے کے بعد اسے پورا کیا جائے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فتوٰی اس بارے میں یہ ہے کہ اسے پُورا کیا جائے۔ بخاری، ابو داؤد اور طَحا وی میں حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں نذرمانی تھی کہ ایک رات (اور بروایتِ بعض ایک دن) مسجد حرام میں اعتکاف کریں گے۔ اسلام لانے کے بعد انہوں نے حضورؐ سے فتوٰی پوچھا تو آپ نے فرمایا اوف ِبنذرک”اپنی نذر پوری کرو“۔ بعض فقہاء نے حضورؐ کے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ ایسا کر نا واجب ہے، اور بعض نے یہ مطلب لیا ہے کہ یہ مُستحب ہے۔

(۸) میت کے ذمہ اگر کوئی نذر رہ گئی ہو تو اسے پُورا کرنا وارثوں پر واجب ہے یا نہیں ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ امام احمد، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور اور ظاہر یہ کہتے ہیں کہ میّت کے ذمّہ اگر روزے یا نماز کی نذر رہ گئی ہو تو وارثوں پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر بدنی عبادت(نماز یا روزہ) کی ہو تو وارثوں پر اُس کا پُورا کرنا واجب نہیں ہے، اور اگر مالی عبادت کی ہو اور مرنےوالے نے اپنے وارثوں کو اُسے پورا کرنے کی وصیت نہ کی ہوتو اسے بھی پورا کرنا واجب نہیں ، البتہ اگر اس نے وصیّت کی ہو تو اس کے بعد تر کے میں سے ایک تہائی کی حد تک نذر پُوری کرنی واجب ہوگی۔ مالکیہ کا مذہب بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ نذر اگر غیر مالی عبادت کی ہو، یا مالی عبادت کی ہو اور میت نے کوئی ترکہ نہ چھوڑا ہو، تو اسے پُورا کرنا وارثوں پر واجب نہیں ہے، اور اگر میت نے ترکہ چھوڑا ہو تو وارثوں پر مالی عبادت کی نذر پُوری کرنا واجب ہے، خواہ اس نے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو(شرح مُسلم لِنَّوَوِی)۔ بذل المجہود (شرح ابی داؤد)۔ حدیث میں اس مسئلے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عُبادہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوٰی پوُچھا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے ذمّہ ایک نذر تھی جو انہوں نے پُوری نہیں کی تھی۔ حضور ؐ نے فرمایا کہ تم اس کی طرف سے پُوری کر دو(ابو داؤد۔ مُسلم)۔ دوسری روایت ابن عباس سے یہ ہے کہ ایک عورت نے بحری سفر کیا اور نذر مانی کہ اگر میں زندہ سلامت واپس گھر پہنچ گئی تو ایک مہینے کے روزے رکھوں گی۔ واپس آنے کے بعد اس کا انتقال ہوگیا اور وہ مر گئی۔ اس کی بہن یا بیٹی نے آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پُوچھا اور آپ ؐ نے فرمایا کہ اس کی طرف سے تُو روزے رکھ لے(ابو داؤد)۔ ایسی ہی ایک روایت ابو داؤد نے حضرت بُریدہ نے نقل کی ہے کہ ایک عورت نے حضورؐ سے اسی طرح کا مسئلہ پوچھآ اور آپ نے اسے وہی جواب دیا جو اوپر مذکور ہوا ہے۔ ان روایات میں چونکہ یہ بات صاف نہیں ہے کہ حضورؐ کے یہ ارشادات وجوب کے معنی میں تھے یا استحباب کے معنی میں، اور حضرت سعد بن عُبادہ کی والدہ کی نذر کے معاملہ میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ مالی عبادت کے بارے میں تھی یا بدنی عبادت کے بارے میں، اسی بنا پر فقہاء کے درمیان اِس مسئلے میں اختلافات ہوئے ہیں۔

(۹) غلط اور نا جائز نوعیت کی نذر کے معاملہ میں یہ بات تو صاف ہے کہ اسے پُورا نہیں کرنا چاہیے ۔ البتہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اس پر کفارہ لازم آتا ہے یا نہیں ۔ اس مسئلے میں چونکہ روایات مختلف ہیں اس لیے فقہاء کے مسالک بھی مختلف ہیں۔ ایک قسم کی روایات میں یہ آیا ہے کہ حضور ؐ نے ایسی صورت میں کفارہ کا حکم دیا ہے مثلاً، حضرت عائشہؓ کی یہ روایت کہ حضورؐ نے فرمایا لانذر فی معصیۃ وکفارتُہٗ کفّارۃ یمین، ”معصیت میں کوئی نذر نہیں ہے اور اس کاکفارہ قسم توڑنے کا کفارہ ہے“(ابو داؤد)۔ عُقبہ بن عامر جُہَنی کی بہن کے معاملہ میں (جس کا ذکر اُوپر نمبر ۴ میں گزر چکا ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ اپنی نذر توڑ دیں اور تین دن کے روزے رکھیں(مسلم۔ ابوداؤد)۔ ایک اور عورت کے معاملہ میں بھی جس نےپیدل حج کی نذر مانی تھی، حضورؐ نے حکم دیا کہ وہ سواری پر حج کے لیے جائے اور قسم کا کفارہ ادا کر دے(ابو داؤد)۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا من نذر نذرًا لم یسمہ فکفارتہ کفارۃ یمین، ومن نذر نذرا فی معصیۃ فکفارتۃ کفارۃ یمین، ومن نذر نذرًا لا یطیقہ فکفارتۃ کفّارۃ یمین، ومن نذر نذرًا اطاقہ فلیفِ بِہٖ۔”جس نے ایک نذر مان لی اور اس بات کا تعین نہ کیا کہ کس بات کی نذر مانی ہے وہ قسم کا کفارہ دے ۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے پورا کرنے کی وہ قدرت نہ رکھتا ہو وہ قسم کا کفارہ دے۔ اور جس نے ایسی نذر مانی جسے وہ پُورا کر سکتا ہو وہ اسے پورا کرے“( ابو داؤد)۔ دوسری طرف وہ احادیث ہیں جن سے معلو م ہوتا ہے کہ اِس صورت میں کفارہ نہیں ہے۔ اوپر نمبر ۴ میں جن صاحب کا ذکر آیا ہے کہ انہوں نے دھوپ میں کھڑے رہنے اور کسی سے بات نہ کرنے کی نذر مانی تھی، اُن کا قصّہ نقل کر کے امام مالکؒ نے مؤطّا میں لکھا ہے کہ مجھے کسی ذریعہ سے بھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ حضورؐ نے ان کو نذر توڑنے کا حکم دینے کے ساتھ یہ بھی حکم دیا ہو کہ وہ کفارہ ادا کریں۔ حضرت عبد اللہ بن عَمْر وبن عاص کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من حلف علیٰ یمین فراٰی غیرھا خیرًا منھا فلید عھا ولیاتِ الذی ھو خیرٌ فان ترکھا کفارتھا، ”جس نے کسی بات کی قسم کھائی ہوا ور بعد میں وہ دیکھے کہ اس سے بہتر بات دوسری ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہو اور اسے چھوڑدینا ہی اس کا کفارہ ہے“(ابو داؤ بیقہی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اور حضرت ابو ہریرہؓ کی یہ روایت کہ ”جو کام بہتر ہے وہ کرے اور یہی اس کا کفارہ ہے“ ثابت نہیں ہے)۔ امام نَووِی اِن احادیث پر بحث کرتے ہوئے شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ امام مالکؒ، شافعیؒ،ابوحنفیہؒ،داؤد ظاہری اور جمہور علماء کہتے ہیں کہ معصیت کی نذ ر باطل ہے اور اسے پُورا نہ کرنے پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اور امام احمد کہتے ہیں کہ کفارہ لازم آتا ہے۔

11. اصل الفاظ ہیں عَلیٰ حُبِّہٖ۔ اکثر مفسرین نے حُبِّہٖ کی ضمیر کا مرجع کھانے کوقرار دیا ہے، اور وہ اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کھانے کےمحبوب اور دل پسند ہونے اور خود اُس کے حاجت مند ہونے کے باوجود دوسروں کو کھلادیتے ہیں۔ ابن عباس ؓ اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے عَلیٰ حُبِّ الاِطعام، یعنی غریبوں کو کھانا کھلانے کے شوق میں وہ ایسا کرتے ہیں۔ اور حضرت فُضَیل بن عیاض اور ابو سلیمان الدّارانی کہتےہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں وہ یہ کام کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک بعد کا یہ فقرہ کہ اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْarial لِوَجْہِ اللہِ (ہم تو اللہ کی خوشنودی کی خاطر تمہیں کھلا رہے ہیں)، اسی معنی کی تائید کرتا ہے۔

12. قدیم زمانے میں دستور یہ تھا کہ قیدیوں کو ہتھکڑی اور بیڑیاں لگا کر روزانہ باہر نکالا جاتا تھا اور وہ سڑکوں پر یا محلّوں میں بھیک مانگ کر پیٹ بھرتے تھے۔ بعد میں اسلامی حکومت نے یہ طریقہ بند کیا(کتاب الخراج، امام ابو یوسف، صفحہ۱۵۰۔طبع۱۳۸۲ھ۔ اِس آیت میں قیدی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قید میں ہو، خواہ کافر ہو یا مسلمان، خواہ جنگی قیدی ہو، یا کسی جُرم میں قید کیا گیا ہو، خوا ہ اسے قید کی حالت میں کھانا دیا جاتا ہو یا بھیک منگوائی جاتی ہو، ہر حالت میں ایک بے بس آدمی کو جو اپنی روزی کے یے خود کوئی کوشش نہ کر سکتا ہو، کھانا کھلانا ایک بڑی نیکی کا کام ہے۔

13. اگرچہ بجائے خود کسی غریب کو کھانا کھلانا بھی ایک بہت بڑی نیکی ہے ،لیکن کسی حاجت مند کی دوسری حاجتیں پوری کرنا بھی ویسا ہی نیک کام ہے جیسا بھوکے کو کھانا کھلانا۔ مثلاً کوئی کپڑے کا محتاج ہے، یا کوئی بیمار ہے اور علاج کا محتاج ہے ، یا کوئی قرضدار ہے اور قرض خواہ اسے پریشان کر رہا ہے ، تو اس کی مدد کرنا کھانا کھلانے سے کم درجے کی نیکی نہیں ہے۔ اس لیے اس آیت میں نیکی کی ایک خاص صورت کو اس کی اہمیت کے لحاظ سے بطور مثال پیش کیا گیا ہے، ورنہ اصل مقصود حاجت مندوں کی مدد کرنا ہے۔

14. ضروری نہیں ہے کہ غریب کو کھانا کھلاتے ہوئے زبان ہی سے یہ بات کہی جائے۔ دل میں بھی یہ بات کہی جا سکتی ہے اور اللہ کے ہاں اِس کی بھی وہی حیثیت ہے جو زبان سے کہنے کی ہے ۔ لیکن زبان سے یہ بات کہنے کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ جس کی مدد کی جائے اُس کو یہ اطمینان دلا دیا جائے کہ ہم اس سے کسی قسم کا شکریہ یا بدلہ نہیں چاہتے، تا کہ وہ بے فکر ہو کر کھائے۔

15. یعنی چہروں کی تازگی اور دل کا سرور۔ دوسرے الفاظ میں روزِ قیامت کی ساری سختیاں اور ہولناکیاں صرف کفّار و مجرمین کے لیے ہونگی، لوگ اُس دن ہر تکلیف سے محفوظ اور نہایت خوش وخرم ہوں گے۔ یہی بات سُورہ انبیاء میں بیان کی گئی ہے کہ ”وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت ان کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر ان کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا“(آیت۱۰۳)۔ اور اسی کی صراحت سورہ نَمل میں کی گئی ہے کہ ”جو شخص بھلائی لے کر آئے گا اُسے اُس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اُس دن کے ہوَل سے محفوظ ہوں گے“(آیت۸۹)

16. یہاں صبر بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے، بلکہ درحقیقت صالح اہلِ ایمان کی پُوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجا ئز خواہشوں کو دبانا، اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا ، اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت، اپنا مال،اپنی محنتیں، اپنی قوتیں اور قابلیتیں، حتیٰ کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کر دینا، ہر اُس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرادینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے، ہر اُس خطرے اور تکلیف کو برداشت کر لینا جو راہِ راست پر چلنے میں پیش آئے، ہر اُس فائدے اور لذت سے دست بردار ہوجانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو، ہر اُس نقصان اور رنج اور اذیت کو انگیز کر جانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اِ س وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اِس نیک رویّے کی ثمرات اِس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے ، ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے ۔ یہ ہر وقت کا صبر ہے ، دائمی صبر ہے، ہمہ گیر صبر ہے اور عمر بھر کا صبرہے۔(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل ،البقرہ،حاشیہ۶۰۔ آلِ عمران، حواشی۱۳۱،۱۰۷،۱۳۔ الانعام،حاشیہ۲۳۔ جلددوم،الانفال،حواشی۴۷،۳۷،یونس،حاشیہ،۹۔ہود،حاشیہ۱۱۔الرعد،حاشیہ۳۹۔النحل،حاشیہ۹۸۔جلد سوم،مریم،حاشیہ۴۰۔ الفرقان،حاشیہ۹۴۔ القصص، حواشی۱۰۰،۷۵۔العنکبوت،حاشیہ۹۸۔جلد چہارم،لقمان،حواشی۵۶،۲۹۔ السجَّدہ،حاشیہ۳۷۔ الاَحزاب ،حاشیہ۵۷۔ الزُّمَر،حاشیہ۳۲۔حٰم السجّدہ، حاشیہ۳۸۔ الشّوریٰ،حاشیہ۵۳)۔

17. سورہ زُخْرُف آیت ۷۱ میں ارشاد ہوا ہے کہ ان کے آگے سونے کے برتن گردش کرائے جا رہے ہوں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کبھی وہاں سونے کے برتن استعمال ہوں گے اور کبھی چاندی کے ۔

18. یعنی وہ ہوگی تو چاندی مگر شیشے کی طرح شفاف ہوگی ۔ چاندی کی یہ قسم اِس دنیا میں نہیں پائی جاتی ۔ یہ صرف جنّت کی خصوصیت ہوگی کہ وہاں شیشے جیسی شفاف چاندی کے برتن اہلِ جنت کے دستر خوان پر پیش کیے جائیں گے۔

19. یعنی ہر شخص کے لیے اس کی خواہش کے ٹھیک اندازے کے مطابق ساغر بھر بھر کر دیے جائیں گے ۔ نہ وہ اُس کی خواہش سے کم ہوں گے نہ زیادہ۔ بالفاظ دیگر اہلِ جنت کے خُدّام اس قدر ہوشیار اور تمیز دار ہونگے کہ وہ جس کی خدمت میں جامِ شراب پیش کریں گے اس کے متعلق ان کو پُورا اندازہ ہو گا کہ وہ کتنی شراب پینا چاہتا ہے۔(جنت کی شراب کی خصوصیات کے متعلق ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، الصّافات، آیات ۴۵تا۴۷، حواشی۲۴تا۲۷۔ جلد پنجم، سورہ محمد، آیت۱۵،حاشیہ۲۲۔الطُّور، آیت۲۳، حاشیہ۱۸۔الواقعہ، آیت۱۹،حاشیہ۱۰)۔

20. اہلِ عرب چونکہ شراب کے ساتھ سُونٹھ ملے ہوئے پانی کی آمیزش کو پسند کرتے تھے، اس لیے فرمایاگیا کہ وہاں اُن کو و ہ شراب پلائی جائے گی جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی۔ لیکن اس آمیزش کی صورت یہ نہ ہوگی کہ اس کے اندر سونٹھ ملا کر پانی ڈالا جائے گا، بلکہ یہ ایک قدرتی چشمہ ہوگا جس میں سونٹھ کی خوشبو تو ہوگی مگر اس کی تلخی نہ ہوگی، اس لیے اُس کا نام سلسبیل ہوگا۔سلسبیل سے مراد ایسا پانی ہے جو میٹھا، ہلکا اور خوش ذائقہ ہونے کی بنا پر حلق سے بسہولت گزر جائے۔ مفسرین کی اکثریت کا خیال یہ ہے کہ یہاں سلسبیل کا لفظ اُس چشمے کےلیے بطورِ صفت استعمال ہوا ہے نہ کہ بطورِ اسم۔

21. تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد چہارم، الصّٰفّٰت،حاشیہ۲۶۔جلد پنجم،الطُّور،حاشیہ ۱۹،الواقعہ،حاشیہ۹۔

22. یعنی دنیا میں خواہ کوئی شخص فقیر بے نواہی کیوں نہ رہا ہو، جب وہ اپنے اعمال خیر کی بنا پر جنت میں جائے گا تو وہاں اِس شان سے رہے گا کہ گویا وہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مالک ہے۔

23. یہی مضمون سورہ کہف آیت ۳۱ میں گزر چکا ہے کہ وَیَلْبَسُوْنَ ثِیَا باً خُضْراً مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ مُّتَّکِئِیْنَ فِیْھَاعَلَی الْاَرَآئِکِ۔ ”وہ یعنی (اہل جنت) باریک ریشم اور اطلس و دیباکے سبز کپڑے پہنیں گے، اونچی مسندوں پر تکیے لگا کر بیٹھیں گے“۔ اس بنا پر اُن مفسرین کی رائے صحیح نہیں معلوم ہوتی جنہوں نے یہ خیال ظا ہر کیا ہے کہ اس سے مراد وہ کپڑے ہیں جو اُن کی مسندوں یا مسہریوں کے اوپر لٹکے ہوئے ہونگے، یا یہ اُن لڑکوں کا لباس ہوگا جو اُن کی خدمت میں دوڑے پھر رہے ہوں گے۔

24. سورہ کہف آیت ۳۱ میں فرمایا گیا ہے یُحَلَّوْنَ فِیْھَا مِنْ اَسَا وِرَمِنْ ذَھَبٍ۔”وہ وہاں سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے “۔ یہی مضمون سورہ حج آیت۲۳، اور سورہ فاطر آیت ۳۳ میں بھی ارشاد ہوا ہے۔ ان سب آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں ممکن محسوس ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں گے تو سونے کے کنگن پہنیں گے اور کبھی چاہیں گے تو چاندی کے کنگن پہن لیں گے۔ دونوں چیزیں ان کے حسبِ خواہش موجود ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ سونے اور چاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں گے، کیونکہ دونوں کو ملا دینے سے حسن دوبالا ہو جاتا ہے، تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہے گا سونے کے کنگن پہنے گا اور جس چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا۔ رہا یہ سوال کہ زیور تو عورتیں پہنتی ہیں، مردوں کو زیور پہنانے کا کیا موقع ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم زمانے میں بادشاہوں اور رئیسوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہاتھوں اور گلے اور سر کے تاجوں میں طرح طرح کے زیورات استعمال کرتے تھے، بلکہ ہمارے زمانے میں بر طانوی ہندکے راجا ؤں اور نوابوں تک میں یہ دستور رائج رہا ہے۔ سورہ زَخْرُف میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسٰی جب اپنے سادہ لباس میں بس ایک لاٹھی لیے ہوئے فرعون کے دربار میں پہنچے اور اس سے کہا کہ میں اللہ رب العالمین کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ اچھا سفیر ہے جو اس حالت میں میرے سامنے آیا ہے، فَلَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَھَبٍ اَوْجَآ ءَ مَعَہُ الْمَلٰئکِۃُ مُقْتَرِنِیْنَ (آیت۵۳)۔یعنی اگر یہ زمین و آسمان کے بادشاہ کی طر ف سے بھیجا گیا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا ملائکہ کا کوئی لشکر ہی اس کی اردلی میں آتا۔

25. پہلے دو شرابوں کا ذکر گزر چکا ہے۔ ایک وہ جس میں آبِ چشمۂ کافور کی آمیزش ہوگی۔ دوسری وہ جس میں آبِ چشمہ زنجیل کی آمیزش ہوگی۔ ان دونوں شرابوں کے بعد اب پھر ایک شراب کا ذکر کرنا اور یہ فرمانا کہ ان کا رب انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ کوئی اور بہترین نو عیت کی شراب ہوگی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضلِ خاص کے طور پر انہیں پلائی جائے گی۔

26. اصل الفاظ ہیں کَانَ سَعْیَکُمْ مَّشْکُوْرًا۔ یعنی تمہاری سعی مشکور ہوئی۔ سَعی سے مراد وہ پُورا کا رنامہ حیات ہے جو بندے نے دنیا میں انجام دیا۔ جن کاموں میں اس نے اپنی محنتیں اور جن مقاصد کے لیے اس نے اپنی کوششیں صرف کیں اُن سب کا مجموعہ اُ س کی سعی ہے اور اس کے مشکور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ قابلِ قدر قرار پائی ۔ شُکریہ جب بندے کی طرف سے خدا کے لیے ہو تو اس سے مراد اس کی نعمتوں پر احسان مندی ہوتی ہے، اور جب خدا کی طرف سے بندے کے لیے ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی خدمات کی قدر فرمائی۔ آقا کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ بندہ جب اس کی مرضی کے مطابق اپنا فرض انجام دے تو وہ اس کا شکر یہ ادا کرے۔