1. یعنی کبھی تو ان کی آمد کے رُکنے اورقحط کا خطرہ پیدا ہونے سے دل گداز ہوتے ہیں اور لوگ اللہ سے تو بہ و استغفار کرنے لگتے ہیں۔ کبھی اُن کے باران رحمت لانے پر لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اور کبھی ان کی طوفانی سختی دلوں میں خوف پیدا کرتی ہے اور تباہی کے ڈر سے لوگ خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔(نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر ۳۔صفحہ ۵۷۹)۔
ضمیمہ نمبر ٣ –
بسلسلۂ المرسلات حاشیہ ١
ان آیات میں ابتداءً بارش لانے والی ہواؤں کی ترتیب بیان کی گئی ہے کہ پہلے پے در پے ہوائیں چلنی شروع ہوتی ہیں، پھر آندھی کی شکل اختیار کرلیتی ہیں، پھر بادلوں کو اٹھا کر پھیلاتی ہیں، پھر انہیں پھاڑ کرجدا کرتی ہیں۔ اس کے بعد بارش کے نزول کا ذکر کرنے کے بجائے یہ فرمایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی یاد دلوں میں ڈالتی ہیں عُذر کے طور پر یا ڈراوے کے طور پر، یعنی وہ ایسا موقع ہوتا ہے کہ آدمی کے دل میں یا تو خوف پیدا ہوتا ہے اور اس بنا پر وہ اللہ کو یاد کرنے پر مجبور ہوتا ہے،یا پھر آدمی اپنے قصوروں کا اعتراف کرکے دعا کرتا ہے کہ اللہ اسے تباہی سے بچالے اور اس پر رحم کرکے بارانِ رحمت سے اس کو نوازدے۔ اگر ایک مدت تک بارش نہ ہوئی ہو اور لوگ پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہوں تو اس موقع پر آندھیوں کو چلتے اور بادلوں کو آتے دیکھ کربعض اوقات کٹےّ سے کٹّا کافر بھی خدا کو یاد کرنے لگتا ہے۔ فرق اگر کچھ پڑتا ہے تو صرف اس سے کہ قحط ہلکا ہے یا سخت۔ معمولی قحط ہو تو عام آدمی جو اللہ تعالی سے زیادہ دور نہیں ہے وہ اس کو یاد کرے گا، لیکن دوسرے لوگ سائنس بگھاریں گے اور کہیں گے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ۔ فلاں فلاں اسباب سے بارش نہیں ہورہی ہے، اتنی سی بات پر دعائیں مانگنے لگنا ضعیف الاعتقادی ہے۔البتہ اگر طویل مدت تک قحط برپا رہے اور پورا ملک تباہی سے دوچار ہوجائے تو بڑے بڑے کافروں کو خدا یاد آنے لگتا ہے، زبان سے کہتے ہوئے شرم بھی آتی ہو تو دل میں وہ اپنی گناہ گاریوں اور ناشکریوں پر ندامت محسوس کرتے ہیں اور خدا سے دعا مانگتے ہیں کہ جو ہوائیں بادل اٹھا کر لارہی ہیں ان سے پورے ملک میں بارش ہوجائے۔ یہ عُذر کےطور پر دلوں میں خدا کی یاد کا القاء ۔ رہا نذر (ڈراوے) کے طور پر اس کا القاء تو یہ اس وقت ہوتا ہے جب آندھی بڑھتے بڑھتے طوفان عظیم بن جائے اور بستیوں کی بستیاں تباہ کرتی چلی جائے، یابارش اس قدر زوردار ہو کہ سیلاب بلا بن جائے۔ایسی حالت میں مظبوط سے مظبوط دل کا منکر بھی خوف کے مارے خدا کے آگے گڑگڑانے لگتا ہےاور اس وقت طوفان یا شیلاب کی ساری سائنٹفک توجیہات اس کے نہاں خانۂ دماغ سے فرار کرجاتی ہیں۔ پس ہواؤں کے چلنے کی اس ترتیب کو بیان کرنے کے بعدیہ کہنا کہ یہ ہوائیں عُذر کے طور پر یا ڈراوے کے طور پر اللہ کی یاد دلوں میں ڈالتی ہیں، گویا دوسرے الفاظ میں یا کہنا کہ یہ سارا نظام جو دنیا میں چل رہا ہے انسان کو اس حقیقت سے خبردار کرتا رہتا ہے کہ اس زمین پر سب کچھ اسی کے اختیار میں نہیں دے دیا گیا ہے بلکہ اوپر کوئی بالاتر طاقت موجود ہے جو اس کی قسمت پر حکمرانی کررہی ہے۔ اس کااقتدار اتنا زبردست ہے کہ جب چاہے وہ عناصر کو انسان کی پرورش کے لیے استعمال کرسکتی ہے اور جب چاہے انہی عناصر سے تباہی کا کام سے سکتی ہے۔
اس کے بعد ہواؤں کےاسی نظام کو اس بات کی دلیل قرار دیا گیا ہے کہ وہ قیامت جس کے برپا ہونے کا وعدہ تم سے کیا جارہا ہے، ضرور واقع ہونے والی ہے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ یہ نظام اس پر کیسے گواہی دے رہا ہے۔
انسان بالعموم قیامت اور آخرت کے معاملہ میں دو سوالات پر الجھتا ہے۔ ایک یہ کہ ایسا ہونا ممکن بھی ہے یا نہیں؟ دوسرے یہ کہ اس کی ضرورت کیا ہے؟ اور پھر انہی سوالات میں الجھتے ہوئے اسے یہ شک لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ آئے گی بھی یا نہیں، یا یہ محض ایک افسانہ ہے؟ اس پر قرآن میں جگہ جگہ کائنات کے نظام سے استدلال کرتے ہوئے اس کا امکان، اس کا وجوب اور اس کا وقوع ثابت کیا گیا ہے، اور کہیں یہ استدلال اس طرز پر کیا گیا ہےکہ خدا کی خدائی کے بے شمارآثار میں سے بعض کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہےکہ وہ آنے والی ہے۔ اس طریق استدلال میں اس کے امکان کے دلائل بھی آجاتے ہیں، وجوب کے دلائل بھی اور وقوع کے دلائل بھی۔
یہاں استدلال کا یہی طریقہ اختیار کرتے ہوئے صرف ہواؤں کی گردش اور بارشوں کی آمد کے نظام کو اس امر کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ نظام ہے جو کسی حکیم اور قادرمطلق کی تدبیر سے قائم ہوا ہے،کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے جس سے زمین کی فضا میں خود بخود یہ طریقہ چل پڑا ہو کہ یوں سمندروں سے بھاپیں اٹھیں، یوں ہوائیں ان کو لے کر چلیں، یوں وہ ان کو سمیٹ کر بادل بنائیں، پھر یوں وہ ان کو مختلف ٹکڑیوں میں تقسیم کرکے زمین کے مختلف حصوں پر پہنچائیں، اور یوں ان سے جگہ جگہ بارش ہو۔ یہ نظام ایک اندھی بہری فطرت نے کسی اندھیر نگری میں اتفاقاً نہیں بنادیا ہے، بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا اور جچا تلا منصوبہ ہے جو پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک قانون کے مطابق چل رہا ہے۔ اسی لیے کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ سمندر پر سورج کی گرمی پہنچنے سے بھاپیں اٹھنے کے بجائے برف جم جائے بلکہ ہمیشہ دھوپ کی حرارت سے بھاپیں ہی اٹھتی ہیں۔ کبھی موسمی ہوائیں الٹی چال نہیں چلتیں کہ بھاپوں کو اٹھانے کے بجائے سمندر میں دبادیں بلکہ وہ ہمیشہ ان کو اوپر ہی اٹھاتی ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ بادلوں کا بننا بند ہو جائے، ہوائیں ان کولے کر خشک علاقوں کی طرف چلنا چھوڑبیٹھیں، اور خشکی پر بارشوں کےنزول کا سلسلہ رک جائے۔ کروڑوں سال سے ایک ہی قاعدہ ہے جس پر یہ نظام مسلسل چل رہا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس زمین پر آپ کا وجود میں آنا اور جینا ممکن نہ ہوتا۔
اس نظام میں آپ ایک کھلی ہوئی مقصدیت اور ایک باضابطہ قانون کی کارفرمائی پاتے ہیں۔ آپ کو علانیہ نظر آرہا ہے کہ زمین پر انسان، حیوان اور نباتات کی زندگی کا نہایت گہرا تعلق ان ہواؤں اور ان بارشوں سے ہے ، اور یہ انتظام اس امر کی کھلی گواہی دے رہا ہے کہ پانی کی یہ فراہمی ذی حیات مخلوق کووجود میں لانے اور زندہ رکھنےکے لیے ٹھیک ٹھیک اس کی ضروریات کے مطابق اور ایک قانون کے مطابق کی گئی ہے۔ یہ مقصدیت اور باقاعدگی صرف اسی ایک معاملہ میں نہیں بلکہ کائنات کے پورے نظام میں پائی جاتی ہے اور انسان کی ساری سائنٹفک ترقی اس پر مبنی ہے۔ایک ایک چیز کے متعلق آپ یہ معلوم کرتے ہیں کہ وہ کس غرض کے لیے ہے اور کس قاعدے پر کام کرتی ہے، پھر جن جن چیزوں کے بارے میں جتنا جتنا آپ کو یہ معلوم ہوتا جاتا ہے کہ ان کا مقصد کیا ہے اور ان میں کام کرنے والے قوانین کیا ہیں اسی قدر آپ ان کے استعمال کے نئے نئے طریقے نکالتے چلے جاتے ہیں اور نئی نئی ایجادیں کرکے اپنے تمدن کو ترقی دیتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں اگر فطری طور پر یہ تصور موجود نہ ہوتا کہ یہ دنیا ایک بامقصد دنیا ہے اور اس کے اندر ہر چیز ایک قانون پر کام کررہی ہے تو آپ کے دماغ میں سرے سے کسی چیز کے متعلق یہ سوال پیدا نہ ہوتا کہ یہ کس غرض کے لیے ہے اور اس سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے۔
اب اگر یہ دنیا اور اس کی ایک ایک چیز با مقصد ہے اور اگر اس دنیا اور اس کی ہر چیز میں ایک قانون کارفرما ہے، اور اگر یہ اربوں سال سے پیہم اسی مقصدیت اور باضابطگی کے ساتھ چل رہی ہے، تو صرف ایک ضدی انسان ہی یہ ماننے سے انکار کرسکتا ہے کہ ایک علیم و حکیم اور قادر مطلق خدا نے اسے بنایا ہے اور اس خدا کےمتعلق یہ خیال کرنا سراسر ایک احمقانہ بات ہے کہ وہ اسے بنا اور چلا تو سکتا ہے مگر توڑ نہیں سکتا اور توڑ کر پھر کسی اور شکل میں بنانا چاہے تو نہیں بناسکتا۔مادے کے متعلق یہ تصور کہ وہ غیر فانی ہے قدیم زمانےکے جاہل دہریوں کا بہت بڑا سہارا تھا، مگر علم کی ترقی نے اسے بھی باطل ثابت کردیا ہے۔ اب یہ حقیقت علمی مسلمات میں سے ہے کہ مادہ قوت) (energy میں تبدیل ہوسکتا ہے اور قوت مادے کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس لیے یہ بات سراسر علم اور عقل کے مطابق ہے کہ خدائے حیّ قیّوم جب تک اس مادی دنیا کو قائم رکھے ہوئے ہے اسی وقت تک یہ قائم ہے۔ جونہی وہ اسے قوت میں تبدیل کرتا چاہے صرف ایک اشارے سے تبدیل کرسکتا ہے۔ اور اسکا صرف ایک اشارہ ہی اس کے لیے بھی کافی ہے کہ یہ دوبارہ ایک دوسری مادی شکل میں پیدا ہوجائے۔
یہ تو ہے قیامت کے امکان کا معاملہ جسے اب کسی علمی و عقلی دلیل سے رد نہیں کیا جاسکتا۔ اب رہا یہ سوال کہ اس کو ضرور واقع ہونا چاہیے تاکہ انسان کو اس کے اچھے اعمال کی جزا اور برے اعمال کی سزا ملے۔ تو جو شخص انسان کی اخلاقی ذمہ داری کا قائل ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ حسن خدمت کاانعام اور جرم کی سزا اس اخلاقی ذمہ داری کا لازمی تقاضا ہے اس کے لیے یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ آخرت ضرور ہونی چاہیے۔دنیا میں معاشرہ اور ریاست کا کوئی نظام ایسا نہیں ہے جو ہر جرم کی سزا اور ہر حسن عمل کا انعام دے سکتا ہو۔ یہ کہنا کہ مجرم کے لیے اس کے ضمیر کی ملامت ہی کا فی سزا اور محسن کے لیے اس کے ضمیر کا اطمینان ہی کافی جزا ہے۔ ایک بے معنی فلسفہ طرازی کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس شخص نے کسی بے گناہ کو قتل کیا اور اس کے بعد فورا ہی وہ کسی حادثے سے دوچار ہوکر مرگیا، اس کے لیے ضمیر کو کب اتنی مہلت ملی کہ وہ اسے ملامت کرتا؟ اور جو شخص حق اور انصاف کی خاطر لڑائی پر گیا اور وہاں اچانک ایک بم پڑنے سے اس کے پرخچے اڑگئے۔ اس کے ضمیر کو یہ اطمینان حاصل ہو نے کا موقع کب ملا کہ اس نے ایک اچھے مقصد کے لیے جان دی ہے؟ پس حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے عقیدے سے فرار کے لیے جتنے بہانے تراشے جاتے ہیں وہ سب بے معنی ہیں۔ انسان کی عقل چاہتی ہے، اس کی فطرت چاہتی ہے کہ انصاف ہو۔مگر دنیا کی موجودہ زندگی میں انصاف، اور وہ بھی ٹھیک ٹھیک اور پورا پورا انصاف ممکن نہیں ہے۔ وہ اگر ہو سکتا ہے تو آخرت ہی میں ہوسکتا ہے اور خدائے علیم و خبیر ہی کے حکم سے ہوسکتا ہے۔آخرت کی ضرورت کا انکار دراصل انصاف کی ضرورت کا انکار ہے۔
عقل اسی حد تک انسان کو لے جا سکتی ہے کہ آخرت ممکن ہے اور اس کو ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ وہ یقیناً ہوگی، اسکا "علم" صرف وحی کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے،اور وحی نے یہ بتادیا ہے کہ"جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے"۔ اس علم تک ہم عقلی استدلال سے نہیں پہنچ سکتے۔ البتہ اس کے برحق ہونےکا یقین ہمیں اس بنا پر حاصل ہوتا ہے کہ جس بات کی خبر وحی دے رہی ہےوہ ممکن بھی ہے اور اس کو ضرور ہونا بھی چاہیے۔
2. دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ”جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جارہا ہے“۔ مراد ہے قیامت اور آخرت۔
3. یہاں قیامت کے ضرور واقع ہونے پر پانچ چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک اَلْمُرْ سَلٰتِ عُرْفًا”پے در پے، یا بھلائی کے طور پر بھیجی جانے والیاں“۔ دوسرے ۔ العَاصِفَاتِ عَصْفًا۔”بہت تیزی اور شدّت کے ساتھ چلنے والیاں“۔ تیسرے، اَلنَّا شِرَاتِ نَشْرًا۔” خوب پھیلانے والیاں“۔ چوتھے، آلفَارِقاتِ فَرْقًا۔”الگ الگ کرنے والیاں“۔ پانچویں، اَلْمُلْقِیَاتِ ذِکْرًا۔” یاد کا اِلقا کرنے والیاں“۔ چونکہ اِن الفاظ میں صرف صفات بیان کی گئی ہیں، اور یہ صراحت نہیں کی گئی ہے کہ یہ کس چیز یا کن چیزوں کی صفات ہیں، اس لیے مفسرین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ آیا یہ پانچوں صفات ایک ہی چیز کی ہیں، یا الگ الگ چیزوں کی، اور وہ چیز یا چیزیں کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ پانچوں سے مراد ہوائیں ہیں۔ دوسرا کہتا ہے پانچوں سے مراد فرشتے ہیں۔ تیسرا کہتا ہے پہلے تین سے مراد ہوائیں ہیں اور باقی دوسے مراد فرشتے۔ چوتھا کہتا ہے کہ پہلے دو سے مراد ہوائیں اور باقی تین سے مراد فرشتے ہیں۔ اور ایک گروہ کی رائے یہ بھی ہے کہ پہلے سے مراد ملائکہ رحمت، دورے سے مراد ملائکہ عذاب اور باقی تین سے مراد قرآن مجید کی آیات ہیں۔
ہمارے نزدیک پہلی بات تو قابلِ غور ہے جب ایک ہی سلسلہ کلام میں پانچ صفات کا مسلسل ذکر کیا گیا ہے اور کوئی علامت بیچ میں ایسی نہیں پائی جاتی جس سے یہ سمجھا جا سکے کہ کہاں تک ایک چیز کی صفات کا ذکر ہے اور کہاں سے دوسری چیز کی صفات کا ذکر شروع ہوا ہے، تو یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ محض کسی بے بنیا د قیاس کی بنا پر ہم یہ سمجھ لیں کہ یہاں دو یا تین مختلف چیزوں کی قسمیں کھائی گئی ہیں، بلکہ اس صور ت میں نظمِ کلام خود اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ پوری عبارت کو کسی ایک ہی چیز کی صفات سے متعلق مانا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی شک یا انکار کرنے والوں کو کسی حقیقتِ غیر محسوس کا یقین دلانے کے لیے کسی چیز ، یا بعض چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے وہاں قسم دراصل استدلال کی ہم معنی ہوتی ہے ، یعنی اس سے مقصود یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ چیز یا چیزیں اس حقیقت کے صحیح و بر حق ہونے پر دلالت کر رہی ہے ۔ اس غرض کے لیے ظاہر ہے کہ ایک غیر مخصوص شے کے حق میں کسی دوسری غیر محسوس شے کو بطورِ استدلال پیش کرنا درست نہیں ہو سکتا، بلکہ غیر محسوس پر محسوس سے دلیل لانا ہی موزوں اور منا سب ہو سکتا ہے۔ اس لیے ہماری رائے میں صحیح تفسیر یہی ہے کہ اس سے مراد ہوائیں ہیں، اور ان لوگوں کی تفسیر قابلِ قبول نہیں ہیں جنہوں نے ان پانچوں چیزوں سے مراد فرشتے لیے ہیں، کیونکہ وہ بھی اسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح قیامت کا وقوع غیر محسوس ہے۔
اب غور کیجیے کہ قیامت کے وقوع پر ہواؤں کی یہ کیفیات کس طرح دلالت کرتی ہیں۔ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں سے ایک نہایت اہم سبب ہوا ہے۔ ہر نوع کی زندگی سے اس کی صفات کا جو تعلق ہے وہ بجائے خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادرِ مطلق اور صانِع حکیم ہے جس نے اس کُرہ خاکی پر زندگی کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا اور اس غرض کے لیے یہاں ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔ پھر اس نے صرف اتنا ہی نہیں کیا ہے کہ زمین کو ہوا کا ایک لبادہ اوڑھا کر چھوڑ دیا ہو، بلکہ اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں اس نے بے شمار مختلف کیفیات پیدا کی ہیں جن کا انتظام لاکھوں کروڑوں برس سے اس طرح ہو رہا ہے کہ انہی کی بدولت موسم پیدا ہوتے ہیں، کبھی حبس ہوتا ہے اور کبھی بادِ نسیم چلتی ہے، کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی ، کبھی بادل آتے ہیں اور کبھی آتے ہوئے اڑ جاتے ہیں، کبھی نہایت خوشگوار جھونکے چلتےہیں اور کبھی انتہائی تباہ کن طوفان آجاتے ہیں، کبھی نہایت نفع بخش بارش ہوتی ہے اور کبھی کال پڑجاتا ہے ۔ غرض ایک ہوا نہیں بلکہ طرح طرح کی ہوائیں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر چلتی ہیں اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہیں۔ یہ انتظام ایک غالب قدرت کا ثبوت ہے جس کے لیے نہ زندگی کو وجود میں لانا خارج از امکان ہو سکتا ہے، نہ اسے مٹا دینا ، اور نہ مٹا کر دوبارہ وجود میں لے آنا۔ اسی طرح یہ انتظام کمال درجہ حکمت و دانائی کا ثبوت بھی ہے، جس سے صرف ایک نادان آدمی ہی یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ سارا کاروبار محض کھیل کے طور پر کیا جا رہا ہو اور اس کا کوئی عظیم تر مقصد نہ ہو۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں انسان اتنا بے بس ہے کہ کبھی وہ نہ اپنے لیے مفید طلب ہوا چلا سکتا ہے نہ اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے کو روک سکتا ہے ۔ وہ خواہ کتنی ہی ڈھٹائی اور بے شعوری اور ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لے، کبھی نہ کبھی یہی ہوا اس کو یاد دلا دیتی ہے کہ اوپر کوئی زبر دست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعہ کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اورجب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے، اور انسان اس کے کسی فیصلے کو بھی روک دینے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ )مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، الجا ثیہ، حاشیہ،۷۔حوشی ۱ تا۴)۔
4. یعنی بے نور ہو جائیں گے اور ان کی روشنی ختم ہو جائے گی۔
5. ُحکَم پکّی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ ”آیاتِ محکمات“ سے مراد وہ آیات ہیں، جن کی زبان بالکل صاف ہے، جن کا مفہوم متعین کرنے میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے، جن کے الفاظ معنی و مدّعا پر صاف اور صریح دلالت کرتے ہیں، جنہیں تاویلات کا تختہٴ مشق بنانے کا موقع مشکل ہی سے کسی کو مِل سکتا ہے۔ یہ آیات”کتاب کی اصل بنیاد ہیں“، یعنی قرآن جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے ، اُس غرض کو یہی آیتیں پُورا کرتی ہیں۔ اُنہی میں اسلام کی طرف دُنیا کی دعوت دی گئی ہے، اُنہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں فرمائی گئی ہیں، اُنہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہِ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ اُنہی میں دین کے بُنیادی اُصُول بیان کیے گئے ہیں۔ اُنہی میں عقائد ، عبادات، اخلاق ، فرائض اور امر و نہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں۔ پس جو شخص طالبِ حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کی طرف رُجوع کرنا چاہتا ہو کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ پر نہ چلے، اس کی پیاس بُجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں اور فطرةً اُنہی پر اس کی توجہ مرکوز ہو گی اور وہ زیادہ تر اُنہی سے فائدہ اُٹھانے میں مشغول رہے گا۔
6. قرآن کریم میں متعدد مقامات پر یہ بات بیان کی گئ ہے کہ میدانِ حشر میں جب نوعِ انسانی کا مقدمہ پیش ہو گا تو ہر قوم کے رسول کو شہادت کے لیے پیش کیا جائے گا تا کہ وہ اِس امر کی گواہی دے کہ اُ س نے اللہ کا پیغام اُن لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ یہ گمراہوں اور مجرموں کے خلاف اللہ کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی حجّت ہوگی جس سے یہ ثابت کیا جائے گا کہ وہ اپنی غلط روش کے خود ذمہ دار ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خبرد ار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی تھی۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : تفہیم القرآن ، جلد دوم۔، الاعراف، آیات ۱۷۲، ۱۷۳۔ حواشی ۱۳۵،۱۳۴۔جلد چہارم، الزُمر، آیت۶۹، حاشیہ ۸۰۔ جلد ششم، الملک، آیت۸،حاشیہ۱۴۔
7. یعنی اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے اُس دن کے آنے کی خبر کو جھوٹ سمجھا اور دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے کہ کبھی وہ وقت نہیں آنا ہے جب اُنہیں اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کر نی ہو گی۔
8. یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خود اِسی دنیا میں اپنی تاریخ کو دیکھ لو۔ جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کر کے اِسی دنیا کو اصل زندگی سمجھا اور اسی دنیا میں ظاہر ہونے والے نتائج کو خیر و شر کا معیار سمجھ کر اپنا اخلاقی رویّہ متعیّن کیا، بلا استثناء وہ سب آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آخرت فی الواقع ایک حقیقت ہے جسے نظر انداز کر کے کام کرنے والا اُسی طرح نقصان اٹھاتا ہے جس طرح ہر اُس شخص کو نقصان اٹھا نا پڑتا ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کر کے چلے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم،یونس،حا شیہ۱۲۔جلد سوم، النمل، حاشیہ ۸۶۔ الرّوم، حاشیہ۸۔جلدچہارم، سبا، حا شیہ۲۵)۔
10. یہاں فقرہ اس معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ دنیا میں اُن کا جو انجام ہوا ہے یا آئندہ ہوگا وہ اُن کی اصل سزا نہیں ہے، بلکہ اصلی تباہی تو اُن پر فیصلے کے دن نازل ہو گی۔ یہاں کی پکڑ تو صرف یہ حیثیت رکھتی ہے کہ جب کوئی شخص مسلسل جرائم کرتا چلا جائے اور کسی طرح اپنی بگڑی ہوئی روش سے باز نہ آئے تو آخر کار اسے گرفتار کر لیا جائے۔ عدالت، جہاں اس کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے اور اسے اس کے تمام کر توتوں کی سز ا دی جانی ہے، اس دنیا میں قائم نہیں ہوگی بلکہ آخرت میں ہوگی، اور وہی اُس کی تباہی کا اصل دن ہوگا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلددوم، الاعراف، حواشی۵۔۶۔ ہود ، حاشیہ۱،۵)۔
11. اصل الفاظ ہیں قَدَ رٍمَّعْلُوْمٍ۔ اس کا صرف یہی مطلب نہیں ہے کہ وہ مدّت مُقَرّر ہے ، بلکہ اس میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اس کی مُدّت اللہ ہی کو معلوم ہے۔ کسی بچے کے متعلق کسی ذریعہ سے بھی انسان کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ وہ کتنے مہینے، کتنے دن، کتنے گھنٹے اور کتنے منٹ اور سکنڈ ماں کے پیٹ میں رہے گا، اور اس کا ٹھیک وقت ولادت کیا ہوگا۔ اللہ ہی نے ہر بچے کے لیے ایک خاص مدّت مقرر کی ہے اور وہی اس کو جانتا ہے۔
12. یعنی رحمِ مادر، جس میں استقرارِ حمل ہوتے ہی بچے کو اتنی مضبوطی کے ساتھ جما دیا جاتا ہے اور اتنے انتظامات اس کی حفاظت اور پرورش کے کیے جاتے ہیں کہ کسی شدید حادثے کے بغیر اس کا اسقاط نہیں ہو سکتا، اور مصنوعی اسقاط کے لیے بھی غیر معمولی تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہیں جوفنِّ طب کی جدید ترقیات کے باوجود خطرے اور نقصان سے خالی نہیں ہیں۔
13. یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی صریح دلیل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم ایک حقیر نطفے سے تمہاری ابتدا کر کے تمہیں پُورا انسان بنانے پر قادر تھے، تو آخر دوبارہ تمہیں کسی اور طرح پیدا کر دینے پر کیوں قادر نہ ہوں گے؟ ہماری یہ تخلیق، جس کے نتیجے میں تم آج زندہ موجود ہو، خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں، ایسے عاجز نہیں ہیں کہ ایک دفعہ پیدا کر کے پھر تمہیں پیدا نہ کر سکیں۔
14. یہاں فقرہ اس معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ حیات بعدِ موت کے امکان کی یہ صریح دلیل سامنے موجود ہوتے ہوئے بھی جو لوگ اُس کو جھٹلا رہے ہیں، وہ آج اُس کا جتنا چاہیں مذاق اڑا لیں، اور جس قدر چاہیں اس کے ماننے والوں کو دقیا نوسی، تاریک خیال اور اوہام پرست قرارد یتے رہیں، مگر جب وہ دن آجائے گا جسے یہ جھٹلا رہے ہیں تو انہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ یہ ان کے لیے تباہی کا دن ہے۔
15. یہ آخرت کے ممکن اور معقول ہونے پر ایک اور دلیل ہے ۔ یہی ایک کُرہ زمین ہے جو کڑوروں اور اربوں سال سے بے حد و حساب مخلوقات کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے، ہر قسم کی نبا تات، ہر قسم کے حیوانات اور انسان اس پر جی رہے ہیں، اور سب کی ضروریات پُوری کرنے کےلیے اِس کے پیٹ میں سے طرح طرح کے اَتھاہ خزانے نکلتے چلے آرہے ہیں۔ پھر یہی زمین ہے جس پر اِن تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افرادروز مرتے ہیں، مگر ایسا بے نظیر انتظام کر دیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اِسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اِس زمین کو سپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں یہ جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جن کا موسموں کے تغیرات میں، بارشوں کے برسنے میں، دریاؤں کی پیدائش میں ، زرخیز وادیوں کے وجود میں ، بڑے بڑے شہتیر فراہم کر نے والے درختوں کے اُگنے میں ، قسم قسم کے معدنیات اور طرح طرح کے پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے۔ پھر اس زمین کے پیٹ میں میٹھا پانی پیدا کیا گیا ہے، اِس کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں، اور سمندر کے کھارے پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نتھرا ہوا پانی آسمان سے بر سانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قادرِ مطلق نے یہ سب کچھ بنا یا ہے، اور وہ محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم و حکیم بھی ہے؟ اب اگر اس کی قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اِس سروسامان کے ساتھ اور اِن حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اُسکی قدرت اِس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے، اور اُس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اِس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تا کہ انسان سے اُن اعمال کا حساب لے جو اُس نے اِس دنیا میں کیے ہیں؟
16. یہاں یہ فقرہ اس معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ جو لوگ خدا کی قدرت اور حکمت کے یہ کرشمے دیکھ کر بھی آخرت کے ممکن اور معقول ہونے کا انکار کر رہے ہیں اور اس بات کو جُھٹلا رہے ہیں کہ خدا اِس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا پیدا کرے گا اور اُس میں انسان سےاُس کے اعمال کا حساب لے گا، وہ اپنی اِس خام خیالی میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو رہیں۔ جس روز یہ سب کچھ اُن کی توقعات کے خلاف پیش آجائے گا اس روز اُنہیں پتہ چل جا ِئے گا کہ انہوں نے یہ حماقت کر کے خود اپنے لیے تباہی مول لی ہے۔
17. اب آخرت کے دلائل دینے کے بعد یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ واقع ہو جائے گی تو وہاں اِن منکرین کا حشر کیا ہوگا۔
18. ساَئے سے مراد دھوئیں کا سایہ ہے ۔ اور تین شاخوں کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی بہت بڑا دھواں اٹھتا ہے تو اوپر جا کر وہ کئی شاخوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
19. یعنی ہر چنگاری ایک قَصر جیسی بڑی ہو گی، اور جب یہ بڑی بڑی چنگاریاں اٹھ کر پھٹیں گی اور چاروں طرف اُڑنے لگیں گی تو یُوں محسوس ہوگا جیسے زرد رنگ کے اونٹ اُچھل کود کر رہے ہیں۔
20. یہ اُن کی آخری حالت ہو گی جو جہنم میں داخلہ کے وقت اُ ن پر طاری ہو گی۔ اُس سے پہلے میدانِ حشر میں تو یہ لوگ بہت کچھ کہیں گے، بہت سی معذرتیں پیش کریں گے، ایک دوسرے پر اپنے قصوروں کا الزام ڈال کر خود بے قُصور بننے کی کوشش کریں گے ، اپنے گمراہ کرنے والے سرداروں اور پیشواؤں کو گالیاں دیں گے، حتیٰ کہ بعض لوگ پوری ڈِھٹائی کے ساتھ اپنے جرائم کا انکار تک کر گزریں گے، جیسا کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مگر جب تمام شہادتوں سے اُن کا مجرم ہونا پُوری طرح ثابت کر دیا جائے گا، اور جب ان کے اپنے ہاتھ پاؤں اور اُن کے اعضاء تک اُن کے خلاف گواہی دے کر ثبوتِ جرم میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے، اور جب بالکل بجا اور بر حق طریقے سے عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے انہیں سزا سنادی جائے گی تو وہ دم بخود رہ جائیں گے اور ان کے لیے اپنی معذرت میں کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ عذر پیش کرنے کا موقع نہ دینے یا اس کی اجازت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صفائی کا موقع دیے بغیر ان کے خلاف فیصلہ صادر کر دیا جائے گا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا جرم اِس طرح قطعی ناقابلِ انکار حد تک ثابت کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی معذرت میں کچھ نہ کہہ سکیں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ میں نے اُس کو بولنے نہیں دیا، میں نے اس کی زبان بند کردی، او راس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں نے اس پر ایسی حجّت تمام کی کہ اُس کےلیے زبا ن کھولنے یا کچھ بولنے کا کوئی موقع باقی نہ رہا ۔
21. یعنی دنیا میں تو تم بہت مکّاریاں اور چالبازیاں کرتے رہے، اب یہاں کوئی چال چل کر میری پکڑ سے بچ سکتے ہو تو ذرا بچ دکھاؤ۔