Tafheem ul Quran

Surah 77 Al-Mursalat, Ayat 41-50

اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ ظِلٰلٍ وَّعُيُوۡنٍۙ‏ ﴿77:41﴾ وَّفَوَاكِهَ مِمَّا يَشۡتَهُوۡنَؕ‏ ﴿77:42﴾ كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا هَنِيْٓئًا ۢ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿77:43﴾ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ‏ ﴿77:44﴾ وَيۡلٌ يَّوۡمَـئِذٍ لِّلۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ ﴿77:45﴾ كُلُوۡا وَتَمَتَّعُوۡا قَلِيۡلًا اِنَّكُمۡ مُّجۡرِمُوۡنَ‏ ﴿77:46﴾ وَيۡلٌ يَّوۡمَـئِذٍ لِّلۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ ﴿77:47﴾ وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمُ ارۡكَعُوۡا لَا يَرۡكَعُوۡنَ‏ ﴿77:48﴾ وَيۡلٌ يَّوۡمَـئِذٍ لِّلۡمُكَذِّبِيۡنَ‏ ﴿77:49﴾ فَبِاَىِّ حَدِيۡثٍۢ بَعۡدَهٗ يُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿77:50﴾

41 - 22متقی لوگ آج سایوں اور چشموں میں ہیں 42 - اور جو پھل وہ چاہیں (اُن کے لیے حاضر ہیں)۔ 43 - کھاوٴ اور پیو مزے سے اپنے اُن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو۔ 44 - ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ 45 - تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں کے لیے۔ 23 46 - 24 کھالو اور مزے کر لو تھوڑے دن۔ 25 حقیقت میں تم لوگ مجرم ہو۔ 47 - تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں کے لیے۔ 48 - جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ (اللہ کے آگے) جُھکو تو نہیں جُھکتے۔ 26 49 - تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں کے لیے۔ 50 - اب اِس (قرآن)کے بعد اور کونسا کلام ایسا ہو سکتا ہے جس پر یہ ایمان لائیں؟27 ؏۲


Notes

22. چونکہ یہ لفظ یہاں مُکذِّ بین(جھٹلانے والوں) کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اس لیے متقیوں سے مراد اس جگہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کو جُھٹلانے سے پر ہیز کیا اور اُس کو مان کر دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ ہمیں آخرت میں اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق و کردار کی جواب دہی کر نی ہوگی۔

23. یہاں یہ فقرہ اس معنی میں ارشاد ہوا ہے کہ اُن کے لیے ایک مصیبت تو وہ ہوگی جو اوپر بیان ہو چکی ہے کہ میدانِ حشر میں وہ مجرموں کی حیثیت سے کھڑے ہوں گے، علی الاعلان ان کے جرائم اِس طرح ثابت کر دیے جائیں گے کہ ان کے لیے زبان کھولنے تک کا یا رانہ رہے گا، اور آخر کار جہنم کا ایندھن بن کر رہیں گے۔ دوسری مصیبت بالائے مصیبت یہ ہوگی کہ وہی ایمان لانے والے جن سے اُن کی عمر بھی لڑائی رہی، جنہیں وہ بیوقوف اور تنگ خیال اور رجعت پسند کہتے رہے، جن کا وہ مذاق اُڑاتے رہے اور جنہیں اپنے نزدیک حقیر و ذلیل سمجھتے رہے، انہی کو وہ جنت میں مزے اڑاتے دیکھیں گے۔

24. اب کلام ختم کرتے ہوئے نہ صرف کفّار مکّہ کو بلکہ دنیا کے تمام کفّار کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کلمات ارشاد فرمائے جا رہے ہیں۔

25. یعنی دنیا کی اِس چند روزہ زندگی میں۔

26. اللہ کے آگے جھکنے سے مراد صرف اس کی عبادت کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ اس کے بھیجے ہوئے رسول اور اس کی نازل کر دہ کتاب کو ماننا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

27. یعنی جو بڑی سے بڑی چیز انسان کو حق و باطل کا فرق سمجھانے والی اور ہدایت کا راستہ دکھانے والی ہو سکتی تھی وہ قرآن کی صورت میں نازل کر دی گئی ہے۔ اس کو پڑھ کر یا سن کر بھی اگر کوئی شخص ایمان نہیں لاتا تو اِس کے بعد پھر اور کیا چیز ایسی ہو سکتی ہے جو اس کو راہِ راست پر لا سکے؟