Tafheem ul Quran

Surah 78 An-Naba, Ayat 1-30

عَمَّ يَتَسَآءَلُوۡنَ​ۚ‏ ﴿78:1﴾ عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِيۡمِۙ‏ ﴿78:2﴾ الَّذِىۡ هُمۡ فِيۡهِ مُخۡتَلِفُوۡنَؕ‏ ﴿78:3﴾ كَلَّا سَيَعۡلَمُوۡنَۙ‏ ﴿78:4﴾ ثُمَّ كَلَّا سَيَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿78:5﴾ اَلَمۡ نَجۡعَلِ الۡاَرۡضَ مِهٰدًا ۙ‏ ﴿78:6﴾ وَّالۡجِبَالَ اَوۡتَادًا ۙ‏ ﴿78:7﴾ وَّخَلَقۡنٰكُمۡ اَزۡوَاجًا ۙ‏ ﴿78:8﴾ وَّجَعَلۡنَا نَوۡمَكُمۡ سُبَاتًا ۙ‏ ﴿78:9﴾ وَّجَعَلۡنَا الَّيۡلَ لِبَاسًا ۙ‏ ﴿78:10﴾ وَّجَعَلۡنَا النَّهَارَ مَعَاشًا‏ ﴿78:11﴾ وَّبَنَيۡنَا فَوۡقَكُمۡ سَبۡعًا شِدَادًا ۙ‏ ﴿78:12﴾ وَّ جَعَلۡنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا ۙ‏ ﴿78:13﴾ وَّاَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡمُعۡصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا ۙ‏ ﴿78:14﴾ لِّـنُخۡرِجَ بِهٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا ۙ‏ ﴿78:15﴾ وَّجَنّٰتٍ اَلۡفَافًا ؕ‏ ﴿78:16﴾ اِنَّ يَوۡمَ الۡفَصۡلِ كَانَ مِيۡقَاتًا ۙ‏ ﴿78:17﴾ يَّوۡمَ يُنۡفَخُ فِى الصُّوۡرِ فَتَاۡتُوۡنَ اَفۡوَاجًا ۙ‏ ﴿78:18﴾ وَّفُتِحَتِ السَّمَآءُ فَكَانَتۡ اَبۡوَابًا ۙ‏ ﴿78:19﴾ وَّ سُيِّرَتِ الۡجِبَالُ فَكَانَتۡ سَرَابًا ؕ‏ ﴿78:20﴾ اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتۡ مِرۡصَادًا ۙ‏ ﴿78:21﴾ لِّلطّٰغِيۡنَ مَاٰبًا ۙ‏ ﴿78:22﴾ لّٰبِثِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَحۡقَابًا​ ۚ‏ ﴿78:23﴾ لَا يَذُوۡقُوۡنَ فِيۡهَا بَرۡدًا وَّلَا شَرَابًا ۙ‏ ﴿78:24﴾ اِلَّا حَمِيۡمًا وَّغَسَّاقًا ۙ‏ ﴿78:25﴾ جَزَآءً وِّفَاقًا ؕ‏ ﴿78:26﴾ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا لَا يَرۡجُوۡنَ حِسَابًا ۙ‏ ﴿78:27﴾ وَّكَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًا ؕ‏ ﴿78:28﴾ وَكُلَّ شَىۡءٍ اَحۡصَيۡنٰهُ كِتٰبًا ۙ‏ ﴿78:29﴾ فَذُوۡقُوۡا فَلَنۡ نَّزِيۡدَكُمۡ اِلَّا عَذَابًا‏ ﴿78:30﴾

1 - یہ لوگ کس چیز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟ 2 - کیا اُس بڑی خبر کے بارے میں 3 - جس کے متعلق یہ مختلف چہ میگوئیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں؟ 1 4 - ہر گز نہیں، 2 عنقریب اِنہیں معلوم ہو جائے گا۔ 5 - ہاں، ہر گز نہیں، عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔ 3 6 - کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا، 4 7 - اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا، 5 8 - اور تمہیں(مَردوں اور عورتوں کے) جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا، 6 9 - اور تمہاری نیند کو باعثِ سکون بنایا، 7 10 - اور رات کو پردہ پوش 11 - اور دن کو معاش کا وقت بنایا، 8 12 - اور تمہارے اوپر سات مضبُوط آسمان قائم کیے، 9 13 - اور ایک نہایت روشن اور گرم چراغ پیدا کیا، 10 14 - اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی 15 - تاکہ اس کے ذریعہ سے غلّہ اور سبزی 16 - اور گھنے باغ اُگائیں؟ 11 17 - بے شک فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے ، 18 - جس روز صور میں پھُونک ما ر دی جائے گی، تم فوج در فوج نکل آوٴ گے۔ 12 19 - اور آسمان کھول دیا جائے گا حتٰی کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا، 20 - اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہو جائیں گے۔ 13 21 - در حقیقت جہنّم ایک گھات ہے، 14 22 - سرکشوں کا ٹھکانا، 23 - جس میں وہ مُدّتوں پڑے رہیں گے۔ 15 24 - اُس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ وہ نہ چکھیں گے، 25 - کچھ ملے گا تو بس گرم پانی اور زخموں کا دھوون،16 26 - (اُن کے کرتُوتوں)کا بھر پُور بدلہ۔ 27 - وہ کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے 28 - اور ہماری آیات کو انہوں نے بالکل جھُٹلا دیا تھا، 17 29 - اور حال یہ تھا کہ ہم نے ہر چیز گِن گِن کر لکھ رکھی تھی۔ 18 30 - اب چکھو مزہ، ہم تمہارے لیے عذاب کے سوا کسی چیز میں ہر گز اضافہ نہ کریں گے۔ ؏۱


Notes

1. بڑی خبر سے مراد قیامت اور آخرت کی خبر ہے جس کو اَہلِ مکہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سنتے تھے ، پھر ہر محفل میں اس پر طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہوتی تھیں۔ پُوچھ گچھ سے مُراد یہی چہ میگوئیاں ہیں۔ لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے تھے تو کہتے تھے کہ بھائی، کبھی پہلے بھی تم نے سُنا ہے کہ مر کے کوئی دوبارہ زندہ ہوگا؟ کیا یہ ماننے کے قابل بات ہے کہ گل سڑکر جو ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں ان میں نئے سرے سے جان پڑے گی؟ کیا عقل میں یہ بات سماتی ہے کہ اگلی پچھلی ساری نسلیں اُٹھ کر ایک جگہ جمع ہوں گی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ بڑے بڑے جمے ہوئے پہاڑ ہوا میں روئی کے گالوں کی طرح اُڑنے لگیں گے ؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ چاند سورج اور تارے سب بُجھ کر رہ جائیں اور دنیا کا یہ سارا جما جما یا نظام اُلٹ پلٹ ہوجائے؟ یہ صاحب جو کل تک اچھے خاصے دانا آدمی تھے آج انہیں یہ کیا ہو گیا ہے کہ ہمیں ایسی عجیب اَنہونی خبریں سُنارہے ہیں ۔ یہ جنّت اور یہ دوزخ آخر پہلے کہاں تھیں جن کا ذکر ہم نے کبھی اِن کی زبان سے نہ سُنا تھا؟ اب یہ ایک دم کہاں سے نکل آئی ہیں کہ اِنہوں نے اُن کو عجیب و غریب نقشے ہمارے سامنے کھینچنے شروع کر دیے ہیں؟

ھُمْ فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ”وہ اس کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں کر رہے ہیں“، دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتاہے کہ دنیا کے انجام کے بارے میں یہ لوگ خود بھی کوئی ایک متفق علیہ عقیدہ نہیں رکھتے بلکہ” ان کے درمیان اس کے متعلق مختلف خیالات پائے جاتے ہیں“۔ اُن میں سے کوئی عیسائیوں کے خیالات سے متاثر تھا اور زندگی بعدِ موت کو مانتا تھا مگر یہ سمجھتا تھا کہ وہ دوسری زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوگی۔کوئی آخرت کا قطعی مُنکر نہ تھا مگر اسے شک تھا کہ وہ ہو سکتی ہے یا نہیں ، چنانچہ قرآن مجید ہی میں اس خیال کے لوگوں کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اِنْ نّظُنَّ اِلّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَیْقِنِیْنَ،”ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں ، یقین ہم کو نہیں ہے“(الجاثیہ آیت۳۱)، او ر کوئی بالکل صاف صاف کہتا تھا کہ اِنْ ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِیْنَ، ”جو کچھ بھی ہے بس ہماری یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم ہر گز مرنے کے بعد دوبارہ نہ اُٹھائے جائیں گے“(الانعام۔آیت۲۹)۔ پھر کچھ لوگ ان میں سے دہریے تھے اور کہتے تھے کہ مَا ھِیَ اِلَّا حَیَا تُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَ نَحْیَا وَمَا یُھْلِکْنَا اِلَّا الدَّھْرُ،”زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور گردشِ ایام کے سوا کوئی چیزنہیں جو ہمیں ہلاک کر تی ہو“(الجاثیہ۔۲۴)۔ اور کچھ دوسرے لوگ دہریے تو نہ تھے مگر دوسری زندگی کو نا ممکن قرار دیتے تھے، یعنی ان کے نزدیک یہ خدا کی قدرت سے خارج تھا کہ وہ مرے ہوئے انسانوں کو پھر سے زندہ کر سکے۔ ان کا قول تھا مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ،”کون اِن ہڈیوں کو زندہ کر ے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں؟“(یٰس۔۷۸)۔ یہ اُن کے مختلف اقوال خود ہی اس بات کا ثبوت تھے کہ ان کے پاس اِس مسئلے میں کوئی علم نہ تھا، بلکہ وہ محض گمان و قیاس کے تیر تُکّے چلا رہے تھے،ورنہ علم ہوتا تو سب کسی ایک بات کے قائل ہوتے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد پنجم، الذاریات،حاشیہ۶)۔

2. یعنی آخرت کے متعلق جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں سب غلط ہیں ۔ جو کچھ انہوں سے سمجھ رکھا ہے وہ ہر گز صحیح نہیں ہے۔

3. یعنی وہ وقت دُور نہیں ہے جب وہی چیز حقیقت بن کر اِن کے سامنے آجائے گی جس کے بارے میں یہ فضول چہ میگوئیاں کر رہے ہیں۔ اُس وقت انہیں پتہ چل جائے گا کہ رسُول نے جو خبر ان کو دی تھی وہی صحیح تھی اور قیاس وگمان سے جو باتیں یہ بنا رہے تھے ان کی کوئی حقیقت نہ تھی۔

4. زمین کو انسان کے لیے فرش، یعنی ایک پُرسکون قیام گاہ بنانے میں قدرت و حکمت کے جو کمالات کار فرما ہیں ان پر اس سے پہلے تفہیم القرآن متعدد مقامات پر تفصیلی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر مقاماتِ ذیل ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حواشی۷۳۔۷۴۔۸۱ ۔جلد چہارم، یٰس،حاشیہ۲۹۔المؤمن، حواشی۹۰۔۹۱۔ الزُّخْرُف،حاشیہ۷۔الجاثیہ،حاشیہ۷،جلد پنجم، ق، حاشیہ۱۸۔

5. زمین پر پہاڑ پیدا کرنے کی حکمتوں کے متعلق ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، النحل،حاشیہ۱۲،جلد سوم، النمل،حاشیہ۷۴۔جلد ششم،المُرسلات،حاشیہ۱۵۔

6. انسان کو مردوں اور عورتوں کے جوڑوں کی شکل میں پیدا کرنا اپنے اندر جو عظیم حکمتیں رکھتا ہے ان کی تفصیل کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الفرقان، حاشیہ۶۹، الروم، حواشی۲۸تا۳۰۔ جلد چہارم،یٰس،حاشیہ۳۱۔ الشُّوریٰ، حاشیہ۷۷۔ الزُّخْرُف، حاشیہ۱۲۔ جلد ششم،القیامہ،حاشیہ۲۵۔

7. انسان کو دنیا میں کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس حکمت کے ساتھ اس کی فطرت میں نیند کا ایک ایسا داعیہ رکھ دیا ہے جو ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹے سونے پر مجبُور کر دیتا ہے اس کی تشریح ہم تفہیم القرآن، جلد سوم۔ الروم،حاشیہ۳۳ میں کر چکے ہیں۔

8. یعنی رات کو اِس غرض کے لیے تاریک بنا دیا کہ اس میں تم روشنی سے محفوظ رہ کر زیادہ آسانی کے ساتھ نیند کا سکون حاصل کر سکو، اور دن کو اِس مقصد سے روشن بنا یا کہ اس میں تم زیادہ سہولت کے ساتھ اپنی معاش کے لیے کام کر سکو، زمین پر با قاعدگی کے ساتھ مسلسل رات اور دن کا اُلٹ پھیر کرتے رہنے کے لیے بے شمار فوائد میں سے صرف اِس ایک فائدے کی طرف اشارہ یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ بے مقصد ، یا اتفاقاً نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک بڑی حکمت کام کر رہی ہے جس کا براہ راست تمہارے اپنے مفاد سے گہرا تعلق ہے۔ تمہارے وجود کی ساخت اپنے سکون و راحت کے لیے جس تاریکی کی طالب تھی وہ رات کو ، اور اپنی معیشیت کے لیے جس روشنی کی طالب تھی وہ دن کو مہیّا کی گئی ہے۔ تمہاری ضروریات کے عین مطابق یہ انتظآم خود اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ یہ کسی حکیم کی حکمت کے بغیر نہیں ہوا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، یونس، حاشیہ۶۵۔جلد چہارم،یٰس،حاشیہ۳۲۔المومن،حاشیہ۸۵۔الزُخْرُف، حاشیہ۴)۔

9. مضبوط کالفظ اِس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اُن کی سرحدیں اتنی مستحکم ہیں کہ ان میں ذرہ برابر تغیّر و تبدل نہیں ہونے پاتا اور ان سرحدوں کو پار کر کے عالمِ بالا کے بے شمار ستاروں اور سیاروں میں سے کوئی نہ ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے نہ تمہاری زمین پر آگرتا ہے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ۳۴۔جلد دو۔، الرعد،حاشیہ۲۔۱۔الحجر،حواشی۱۲،۸۔جلد سوم،المومنون، حاشیہ۱۵۔جلد چہارم،لقمان،حاشیہ۱۳۔یٰس،حاشیہ۳۷۔الصّافّات،حواشی۵۔۶۔المومن،حاشیہ۹۰۔جلد پنجم، ق، حواشی۷۔۸)۔

10. مُراد ہے سورج۔ اصل میں لفظ وَھَّاج استعمال ہوا ہے جس کے معنی نہایت گرم کے بھی ہیں اور نہایت روشن کے بھی، اس لیے ترجمہ میں ہم نے دونوں معنی درج کر دیے ہیں۔ اس مختصر سے فقرے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے جس عظیم الشان نشان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اُس کا قُطر زمین کے قُطر سے۱۰۹ گنا اور اس کا حجم زمین کے حجم سے ۳لاکھ۳۳ ہزار گنا زیادہ بڑا ہے۔ س کا درجہ حرارت ایک کروڑ چالیس لاکھ ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ زمین سے ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل دُور ہونے کے باوجود اُس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ انسان اگر برہنہ آنکھ سے اس کی طرف نظر جمانے کی کوشش کرتے تو اپنی بینائی کھو بیٹھے، اور اس کی گرمی کا حال یہ ہے کہ زمین کے بعض حصوں میں اس کی تپش کی وجہ سے درجہ حرارت ۱۴۰ ڈگری ظاہرن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ اللہ ہی کی حکمت ہے کہ اس نے زمین کو اُس سے ٹھیک ایسے فاصلے پر رکھا ہے کہ نہ اُس سے بہت قریب ہونے کے باعث یہ بے انتہا گرم ہے اور نہ بہت دُور ہونے کے باعث بے انتہا سرد، اسی وجہ سے یہاں انسان، حیوان اور نباتات کی زندگی ممکن ہوئی ہے۔ اُسی سے قوّت کے بے حساب خزانے نکل کر زمین پر پہنچ رہے ہیں جو ہمارے لیے سببِ حیات بنے ہوئے ہیں۔ اُسی سے ہماری فصلیں پک رہی ہیں اور ہر مخلوق کوغذا بہم پہنچ رہی ہے۔ اُسی کی حرارت سمندروں کے پانی کو گرم کر کے وہ بھاپیں اُٹھاتی ہے جو ہواوں کے ذریعہ سے زمین کے مختلف حصوں پر پھیلتی اور بارش کی شکل میں برستی ہیں۔ اس سُورج میں اللہ نے ایسی زبردست بھٹی سُلگا رکھی ہے جو اربوں سال سے روشنی ، حرارت اور مختلف اقسام کی شعاعیں سارے نظامِ شمسی میں پھینکے چل رہی ہے۔

11. زمین پر بارش کے انتظام اور نباتات کی روئیدگی میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کے جو جو حیرت انگیز کمالات کا ر فرما ہیں ان پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن کے حسبِ ذیل مقامات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔: جلد دوم، النحل،حاشیہ۵۳الف۔جلد سوم، المومنون، حاشیہ۱۱۷۔الشعراء،حاشیہ۵۔الروم،حاشیہ۳۵۔جلد چہارم،فاطر،حاشیہ۱۹۔یٰس،حاشیہ۲۹ ۔المومن،حاشیہ۲۰۔الزُّخرف ،حواشی۱۰۔ ۱۱۔جلد پنجم،الواقعہ، حواشی۲۸تا۳۰۔

اِن آیات میں پے درپے بہت آثار و شواہد کو پیش کر کے قیامت اور آخرت کے منکرین کو یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم انکھیں کھول کر زمین اور پہاڑوں اور خود اپنی پیدائش اور اپنی نیند اور بیداری اور روز و شب کے اِس انتظام کو دیکھو، کائنات کے بندھے ہوئے نظام اور آسمان کے چمکتے ہوئے سورج کو دیکھو، بادلوں سے برسنے والی بارش اور اس سے پیدا ہونے والی نباتات کو دیکھو، تو تمہیں دوباتیں ان میں نمایاں نظر آئے گی۔ ایک یہ کہ یہ سب کچھ ایک زبردست قدرت کے بغیر نہ وجود میں آسکتا ہے، نہ اِس باقاعدگی کے ساتھ جاری رہ سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے ہر چیز کے اندرایک عظیم حکمت کام کر رہی ہے اور کوئی کام بھی بے مقصد نہیں ہو رہا ہے۔ اب یہ بات صرف ایک نادان ہی کہہ سکتا ہے کہ جو قدرت اِن ساری چیزوں کو وجود میں لانے پر قادر ہے وہ انہیں فنا کر دینے اور دوبارہ اور کسی صورت میں پیدا کر دینے پر قادر نہیں ہے۔ اور یہ بات بھی صرف ایک بے عقل ہی کہہ سکتا ہے کہ جس حکیم نے اس کائنات میں کوئی کام بھی بے مقصد نہیں کیا ہے اس نے اپنی دنیا میں انسان کو سمجھ بوجھ ، خیر وشر کی تمیز، طاعت و عصبان کی آزادی، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرّف کے اختیارات بے مقصد ہی دے ڈالے ہیں، انسان اُس کی دی ہوئی اِن چیزوں کو اچھی طرح استعمال کر ے یا بری طرح ، دونون صورتوں میں اس کا کوئی تمیز نہیں نکلتا ، کوئی بھلائیاں کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی میں مل کر ختم ہو جائے گا اور بُرائیاں کرتے کرتے مر جائے تو بھی مٹی ہی میں مل کر ختم ہو جائے گا، نہ بھلے کوا س کی بھلائی کا کوئی اجر ملے گا، نہ بُرے سے اس کی بُرائی پر کوئی باز پرس ہوگی۔ زندگی بعد موت اور قیامت و آخرت پر یہی دلائل ہیں جو جگہ جگہ قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں :تفہیم القرآن، جلد دوم، الرعد،حاشیہ۷۔جلد سوم۔الحج،حاشیہ۹۔ الروم،حاشیہ۶۔جلد چہارم،سبا ، حواشی۱۰و۱۲۔ الصّافات، حواشی۸۔۹۔

12. اس سے مراد وہ آخری نفخِ صور ہے جس کا آوازہ بلند ہوتے ہی تمام مرے ہوئے انسان یکا یک جی اٹھیں گے ، اور تم سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو اس وقت مخاطب تھے، بلکہ وہ تمام انسان ہیں جوآغاز آفرنیش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہیں(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہم القرآن،جلد دوم،ابراہیم،حاشیہ ۵۷۔جلد سوم،الحج،حاشیہ ۱۔ جلد چہارم،یٰس ، حواشی۴۶۔۴۷۔الزمر،حاشیہ۷۹)۔

13. اس مقام پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہاں بھی قرآن کے دوسرے بہت سی مقامات کی طرح قیامت کے مختلف مراحل کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں اس کیفیت کا ذکر ہے جو آخری نفخِ صور کے وقت پیش آئے گی ، اور بعد کی دو آیتوں میں وہ حالت بیان کی گئی ہے جو دوسرے نفخِ صور کے موقع پر رونما ہو گی۔ اس کی وضاحت ہم تفہیم القرآن،جلد ششم،تفسیر سورہ الحاقہ، حاشیہ۱۰۔میں کر چکے ہیں۔ ”آسمان کھول دیا جائے گا“سے مراد یہ ہے کہ عالمِ بالا میں کوئی بندش اور رکاوٹ باقی نہ رہے گی اور ہر طرف سے ہر آفتِ سمادی اس طرح ٹوٹی پڑے ہوگی کہ معلوم ہوگا گویا اس کے آنے کے لیے سارے دروازے کھلے ہیں اور اس کو روکنے کے لیے کوئی دورازہ بھی بند نہیں رہا ہے۔ پہاڑوں کے چلنے اور سراب بن کر رہ جانے کا مطلب یہ ہے کہ دیکھتے دیکھتے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اڑیں گے اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر اس طرح پھیل جائیں گے کہ جہاں پہلے کبھی پہاڑ تھےوہاں ریت کے وسیع میدانوں کے سوا اور کچھ نہ ہوگا ۔ اسی کیفیت کو سورہ طٰہٰ میں یوں بیان کیا گیا ہے :”یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سے کہو میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بل اور سلوٹ تک نہ دیکھو گے“(آیت ۱۰۵تا۱۰۷ مع حاشیہ۸۳ )۔

14. گھات اس جگہ کو کہتے ہیں جو شکار پھانسنے کے لیے بنائی جاتی ہے تا کہ وہ بے خبری کی حالت میں آئے اور اچانک اس میں پھنس جائے ۔ جہنم کے لیے یہ لفظ اس لیے استعمال کی گیا ہے کہ خدا کے باغی اس سے بے خوف ہو کر دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے اچھل کود کرتے پھر رہے ہیں کہ خدا کی خدائی ان کے لیے ایک کھلی آماجگاہ ہے، اور یہاں کسی پکڑ کا خطرہ نہیں ہے، لیکن جہنم ان کے لیے ایک چھپی ہوئی گھات ہےجس میں وہ یکایک پھنسیں گے اور بس پھنس کر ہی رہ جائیں گے۔

15. ”اصل میں لفظ احقاب استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں پے در پے آنے والے طویل زمانے ، ایسے مسلسل ادوار کے ایک دور ختم ہوتے ہی دوسرا دور شروع ہو جائے ۔ اس لفظ سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنت کی زندگی میں تو ہمیشگی ہو گی مگر جہنم میں ہمیشگی نہیں ہو گی کیونکہ یہ مدتیں خواہ کتنی ہی طویل ہوں، بہر حال جب مدتوں کا استعمال کیا گیا ہے تو اس سے یہی مقصود ہو تا ہے کہ وہ لا متنا ہی نہ ہوں گی بلکہ کبھی نہ کبھی جا کر ختم ہو جائیں گی۔ لیکن یہ استدلال دو وجوہ سے غلط ہے۔ ایک یہ کہ عربی لغت کے لحاظ سے حقب کے لفظ ہی میں یہ مفہوم شامل ہے کہ ایک حقب کے پیچھے دوسرا حقب ہو ، اس لیے ا حقاب لازما ایسے ادوار ہی کے لیے بولا جائے گا جو پے در پے ایک دوسرے کے بعد آتے چلے جائیں گے اور کوئی دور بھی ایسا نہ ہو جس کے پیچھے دوسرا دور نہ آئے۔ دوسرے یہ کہ کسی موضوع کے متعلق قرآن مجید کی کسی آیت میں سے کوئی ایسا مفہوم لینا اصولا غلط ہے جو اسی موضوع کے بارے میں قرآن کے دوسرے بیانات سے متصادم ہوتا ہو۔ قرآن میں ۳۴ مقامات پر اہل جہنم کے لیے خلود(ہمیشگی )کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، تین جگہ صرف لفظ خُلُوْد ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس پر ابداً(ہمیشہ ہمیشہ)کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے ، اور ایک جگہ صاف صاف ارشاد ہوا ہے کہ ”وہ چاہیں گے کہ جہنم سے نکل جائیں، مگر وہ اس سے ہر گز نکلنے والے نہیں ہیں اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے“(المائدہ،آیت۳۷)۔ایک دوسری جگہ فرمایاگیا ہے کہ ”اسی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک کہ زمین و آسمان قائم ہے الّا یہ کہ تیرا رب کچھ نہ چاہے“۔اور یہی بات اہل ِ جنت کے متعلق بھی فرمائی گئی ہے کہ ”جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین و آسمان قائم ہیں اِلّا یہ کہ تیرا رب کچھ نہ چاہے“۔(ہود، آیات۱۰۷۔۱۰۸)۔ان تصریحات کے بعد لفظ احقاب کی بنیاد پر یہ کہنے کی آخر کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ جہنم میں خدا کے باغیوں کا قیام دائمی نہیں ہوگا بلکہ کبھی نہ کبھی ختم ہو جائے گا؟

16. اصل میں لفظ غَسّاق استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق پیپ، لہو، کچ لہو، اور آنکھوں اور کھالوں سے پینے والی اُن تمام رطوبتوں پر ہوتا ہے جو شدید تعذیب کی وجہ سے بہ نکلتی ہوں۔ اس کے علاوہ یہ لفظ ایسی چیز کے لیے بھی بولا جاتا ہے جس میں سخت تعفُّن اور سڑا ند ہو۔

17. یہ ہے وہ سبب جس کی بنا پر وہ جہنم کے اس خوفناک عذاب کے مستحق ہوں گے۔ ایک یہ کہ دنیا میں وہ یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے کہ کبھی وہ وقت آنا ہے جب انہیں خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعہ سے اُن کی ہدایت کے لیے جو آیات بھیجی تھیں انہیں ماننے سے انہوں نے قطعی انکار کر دیا اور ان کو جھوٹ قرار دیا۔

18. یعنی اُن کے اقوال و افعال، ان کی حرکات و سکنات، حتٰی کہ ان کی نیتوں اور خیالات اور مقاصد تک کا مکمل ریکارڈ ہم تیار کرتے جا رہے تھے جس سے کوئی چیز چھوٹی ہوئی نہ تھی ،اور وہ بے وقوف اِس سے بے خبر اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ کسی اندھیر نگری میں جی رہے ہیں جہاں وہ اپنی مرضی اور خواہش سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں ، اُس کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہے۔