Tafheem ul Quran

Surah 78 An-Naba, Ayat 31-40

اِنَّ لِلۡمُتَّقِيۡنَ مَفَازًا ۙ‏ ﴿78:31﴾ حَدَآئِقَ وَاَعۡنَابًا ۙ‏ ﴿78:32﴾ وَّكَوَاعِبَ اَتۡرَابًا ۙ‏ ﴿78:33﴾ وَّكَاۡسًا دِهَاقًا ؕ‏ ﴿78:34﴾ لَا يَسۡمَعُوۡنَ فِيۡهَا لَـغۡوًا وَّلَا كِذّٰبًا​ ۚ‏ ﴿78:35﴾ جَزَآءً مِّنۡ رَّبِّكَ عَطَآءً حِسَابًا ۙ‏ ﴿78:36﴾ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَا الرَّحۡمٰنِ​ لَا يَمۡلِكُوۡنَ مِنۡهُ خِطَابًا​ ۚ‏ ﴿78:37﴾ يَوۡمَ يَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَالۡمَلٰٓـئِكَةُ صَفًّا ؕۙ لَّا يَتَكَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَهُ الرَّحۡمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا​‏ ﴿78:38﴾ ذٰلِكَ الۡيَوۡمُ الۡحَـقُّ​ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا‏  ﴿78:39﴾ اِنَّاۤ اَنۡذَرۡنٰـكُمۡ عَذَابًا قَرِيۡبًا ۖۚ  يَّوۡمَ يَنۡظُرُ الۡمَرۡءُ مَا قَدَّمَتۡ يَدٰهُ وَيَقُوۡلُ الۡـكٰفِرُ يٰلَيۡتَنِىۡ كُنۡتُ تُرٰبًا‏ ﴿78:40﴾

31 - یقیناً متّقیوں 19 کے لیے کامرانی کا ایک مقام ہے، 32 - باغ اور انگور، 33 - اور نوخیز ہم سن لڑکیاں، 20 34 - اور چھلکتے ہوئے جام۔ 35 - وہاں کوئی لغو اور جھُوٹی بات وہ نہ سُنیں گے۔ 21 36 - جزا ء اور کافی انعام 22 تمہارے ربّ کی طرف سے ، 37 - اُس نہایت مہربان خدا کی طرف سے جو زمین اور آسمانوں کا اور ان کے درمیان کی ہر چیز کا مالک ہے جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں۔23 38 - جس روز رُوح 24 اور ملائکہ صف بستہ کھڑے ہوں گے، کوئی نہ بولے گا سوائے اُس کے جسے رحمٰن اجازت دے اور جو ٹھیک بات کہے۔ 25 39 - وہ دن بر حق ہے، اب جس کا جی چاہے اپنے ربّ کی طرف پلٹنے کا راستہ اختیار کر لے۔ 40 - ہم نے تم لوگوں کو اُس عذاب سے ڈرا دیا ہے جو قریب آلگا ہے۔ 26 جس روز آدمی وہ سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے ، اور کافر پکار اُٹھے گا کہ کاش میں خاک ہوتا۔ 27 ؏۲


Notes

19. یہاں متقیوں کا لفظ اُن لوگوں کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے جو کسی حساب کی توقع نہ رکھتے تھے اور جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔ اس لیے لا محالہ اس لفظ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کی آیات کو مانا اور دنیا میں یہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کی کہ اُنہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔

20. اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں ہم سن ہوں گی، اور یہ بھی کہ وہ اُن لوگوں کی ہم سن ہوں گی جن کی زوجیت میں وہ دی جائیں گی۔ سُورہ ص، آیت ۵۲، اور سورہ واقعہ آیت۳۷ میں بھی یہ مضمون گزر چکا ہے۔

21. قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس بات کو جنت کی بڑی نعمتوں میں شمار کیا گیا ہے کہ آدمی کے کان وہاں بیہودہ اور جھوٹی اور گندی باتیں سننے سے محفوظ رہیں گے۔ وہاں کوئی یا وہ گوئی اور فضول گپ بازی نہ ہوگی، کوئی کسی سے نہ جھوٹ بولے گا نہ کسی کو جھٹلائے گا، دنیا میں گالم گلوچ ، بہتان، اِفرا، تُہمت اور الزام تراشیوں کا جو طوفان برپا ہے، اس کا کوئی نام و نشان وہاں نہ ہوگا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن، جلد سوم، مریم حاشیہ۳۸۔جلد پنجم، الواقعہ، حواشی۱۳۔۱۴)۔

22. جزا کے بعد کافی انعام دینے کا ذکر یہ معنی رکھتا ہے کہ اُن کو صرف وہی جزا نہیں دی جائے گی جس کے وہ اپنے نیک اعمال کی بنا پر مستحق ہوں گے، بلکہ اس پر مزید انعام اور کافی انعام بھی انہیں دیا جائے گا۔ اس کے بر عکس اہلِ جہنم کے بارے میں صرت اتنا فرمایا گیا ہے کہ انہیں ان کے کرتوتوں کا بھر پور بدلہ دے دیا جائے گا، یعنی نہ ان کے جرائم سے کم سزا دی جائے گی، نہ اس سے زیادہ۔ یہ بات قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔ مثلاً یونس، آیات۲۶۔۲۷۔ النمل،آیات۸۹۔۹۰۔ القصص، آیت۸۴۔ سبا، آیات۳۳ تا۳۸۔المومن،آیت۴۰۔

23. یعنی میدانِ حشر میں دربارِ الہٰی کے رُعب کا یہ عالم ہوگا کہ اہلِ زمین ہوں یا اہلِ آسمان، کسی کی بھی یہ مجال نہ ہو گی کہ از خود اللہ تعالیٰ کے حضور زبان کھول سکے، یا عدالت کے کام میں مداخلت کر سکے۔

24. اہلِ تفسیر کی اکثریت کا خیال یہی ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں اور ان کا جو بلند مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے اس کی وجہ سے ملائکہ سے الگ ان کا ذکر کیا گیا ہے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المعارج، حاشیہ۳)۔

25. بولنے سے مراد شفاعت ہے، اور فرمایا گیا ہے کہ وہ صرف دوشرطوں کے ساتھ ممکن ہوگی۔ ایک شرط یہ کہ جس شخص کو جس گنہگار کے حق میں شفاعت کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی صرف وہی شخص اُسی کے حق میں شفاعت کر سکے گا۔ دوسری شرط یہ کہ شفاعت کرنے والا بجا اور درست کہے، بے جا نوعیت کی سفارش نہ کرے، اور جس کے معاملہ میں وہ سفارش کر رہا ہو وہ دنیا میں کم از کم کلمہ حق کا قائل رہا ہو، یعنی محض گناہ کار ہو، کافر نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن، جلد اول ، البقرہ، حاشیہ۲۸۱۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ۵۔ہود، حاشیہ۱۰۶۔جلد سوم،مریم،حاشیہ۵۲۔طٰہٰ، حواشی۸۵۔۸۶۔الانبیاء، حاشیہ۲۷۔ جلدچہارم، سبا، حواشی۴۰۔۴۱۔ المومن،حاشیہ۳۲۔الزّخرف،حاشیہ۶۸۔جلد پنجم، النجم، حاشیہ۲۱۔جلد ششم، المدّثّر، حاشیہ۳۶)۔

26. بظاہر ایک آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ جن لوگوں کو خطاب کر کے یہ بات کہی گئی تھی ان کو مرے ہوئے اب ۱۴ سو سال گزر چکے ہیں، اور اب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قیامت آئندہ کتنے سو، یا کتنے ہزار ، یا کتنے لاکھ برس بعد آئے گی۔ پھر یہ بات کس معنی میں کہی گئی ہے کہ جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے و ہ قریب آلگا ہے؟ اور سورہ کے آغاز میں یہ کیسے کہا گیا ہے کہ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو وقت کا احساس صرف اُسی وقت تک رہتا ہے جب تک وہ اِس دنیا میں زمان و مکان کی حدود کے اندر جسمانی طور پر زندگی بسر کر رہاہے۔ مرنے کے بعد جب صرف روح باقی رہ جائے گی، وقت کااحساس و شُعور باقی نہ رہے گا، اور قیامت کے روز جب انسان دوبارہ زندہ ہو کر اٹھے گا اس وقت اسے یوں محسوس ہو گا کہ ابھی سوتے سوتے اسے کسی نے جگا دیا ہے ۔ اس کو یہ احساس بالکل نہیں ہوگا کہ وہ ہزار ہا سال کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل،حاشیہ۲۶۔بنی اسرائیل، حاشیہ۵۶۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۸۰۔جلد چہارم،یٰس، حاشیہ۴۸)۔

27. یعنی دنیا میں پیدا ہی نہ ہوتا، یا مر کر مٹی میں مل جاتا اور دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنے کی نوبت نہ آتی۔