Tafheem ul Quran

Surah 79 An-Nazi'at, Ayat 1-26

وَالنّٰزِعٰتِ غَرۡقًا ۙ‏ ﴿79:1﴾ وَّالنّٰشِطٰتِ نَشۡطًا ۙ‏ ﴿79:2﴾ وَّالسّٰبِحٰتِ سَبۡحًا ۙ‏ ﴿79:3﴾ فَالسّٰبِقٰتِ سَبۡقًا ۙ‏ ﴿79:4﴾ فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا​ ۘ‏ ﴿79:5﴾ يَوۡمَ تَرۡجُفُ الرَّاجِفَةُ ۙ‏ ﴿79:6﴾ تَتۡبَعُهَا الرَّادِفَةُ ؕ‏ ﴿79:7﴾ قُلُوۡبٌ يَّوۡمَـئِذٍ وَّاجِفَةٌ ۙ‏ ﴿79:8﴾ اَبۡصَارُهَا خَاشِعَةٌ​ ۘ‏ ﴿79:9﴾ يَقُوۡلُوۡنَ ءَاِنَّا لَمَرۡدُوۡدُوۡنَ فِى الۡحَـافِرَةِ ؕ‏ ﴿79:10﴾ ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً ؕ‏ ﴿79:11﴾ قَالُوۡا تِلۡكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ​ ۘ‏ ﴿79:12﴾ فَاِنَّمَا هِىَ زَجۡرَةٌ وَّاحِدَةٌ ۙ‏ ﴿79:13﴾ فَاِذَا هُمۡ بِالسَّاهِرَةِ ؕ‏ ﴿79:14﴾ هَلۡ اَتٰٮكَ حَدِيۡثُ مُوۡسٰى​ۘ‏ ﴿79:15﴾ اِذۡ نَادٰٮهُ رَبُّهٗ بِالۡوَادِ الۡمُقَدَّسِ طُوًى​ۚ‏ ﴿79:16﴾ اِذۡهَبۡ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ اِنَّهٗ طَغٰى ۖ‏ ﴿79:17﴾ فَقُلۡ هَلۡ لَّكَ اِلٰٓى اَنۡ تَزَكّٰى ۙ‏ ﴿79:18﴾ وَاَهۡدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخۡشٰى​ۚ‏ ﴿79:19﴾ فَاَرٰٮهُ الۡاٰيَةَ الۡكُبۡرٰى ۖ‏ ﴿79:20﴾ فَكَذَّبَ وَعَصٰى ۖ‏ ﴿79:21﴾ ثُمَّ اَدۡبَرَ يَسۡعٰىۖ‏ ﴿79:22﴾ فَحَشَرَ فَنَادٰىۖ‏ ﴿79:23﴾ فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الۡاَعۡلٰى ۖ‏ ﴿79:24﴾ فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَڪَالَ الۡاٰخِرَةِ وَالۡاُوۡلٰى ؕ‏ ﴿79:25﴾ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَعِبۡرَةً لِّمَنۡ يَّخۡشٰىؕ‏ ﴿79:26﴾

1 - قسم ہے اُن (فرشتوں)کی جو ڈُوب کر کھینچتے ہیں، 2 - اور آہستگی سے نکال لے جاتے ہیں، 3 - اور ( اُن فرشتوں کی جو کائنات میں)تیزی سے تیرتے پھرتے ہیں، 4 - پھر (حکم بجا لانے میں )سبقت کرتے ہیں، 5 - پھر (احکامِ الٰہی کے مطابق)معاملات کا انتظام چلاتے ہیں۔ 1 6 - جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا جھٹکا 7 - اور اس کے پیچھے ایک اور جھٹکا پڑے گا، 2 8 - کچھ دل ہوں گے جو اُس روز خوف سے کانپ رہے ہوں گے، 3 9 - نگاہیں اُن کی سہمی ہوئی ہوں گی۔ 10 - یہ لوگ کہتے ہیں” کیا واقعی ہم پلٹا کر پھر واپس لائے جائیں گے؟” 11 - ”کیا جب ہم کھوکھلی بوسیدہ ہڈیاں بن چکے ہوں گے؟“ 12 - کہنے لگے” یہ واپسی تو پھر بڑے گھاٹے کی ہوگی!“ 4 13 - حالانکہ یہ بس اِتنا کام ہے کہ ایک زور کی ڈانٹ پڑے گی 14 - اور یکایک یہ کُھلے میدان میں موجود ہوں گے۔ 5 15 - 6 کیا تمہیں مُوسیٰؑ کے قصّے کی خبر پہنچی ہے؟ 16 - جب اس کے ربّ نے اُسے طُویٰ کی مقدّس وادی 7 میں پُکارا تھا 17 - کہ” فرعون کے پاس جا، وہ سرکش ہو گیا ہے، 18 - اور اس سے کہہ کیا تُو اِس کے لیے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے 19 - اور میں تیرے ربّ کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اُس کا )خوف تیرے اندر پیدا ہو؟“ 8 20 - پھر موسیٰؑ نے (فرعون کے پاس جا کر)اُس کی بڑی نشانی دکھائی، 9 21 - مگر اُس نے جھُٹلا دیا اور نہ مانا، 22 - پھر چالبازیاں کرنے کے لیے پلٹا 10 23 - اور لوگوں کو جمع کر کے اُس نے پکار کر 24 - کہا” میں تمہارا سب سے بڑا ربّ ہوں“ 11 25 - آخرِ کار اللہ نے اُسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا۔ 26 - در حقیقت اِس میں بڑی عبرت ہے ہر اُس شخص کے لیے جو ڈرے۔ 12 ؏۱


Notes

1. یہاں پانچ اَوصاف رکھنے والی ہستیوں کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔ لیکن بعد کا مضمون اِس امر پر خود دلالت کرتا ہے کہ یہ قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور تمام مرے ہوئے انسان ضرور از سرِ نو زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ اِس کی وضاحت بھی نہیں کی گئی کہ یہ پانچ اوصاف کن ہستیوں کے ہیں، لیکن صحابہ اور تابعین کی بڑی تعداد نے اور اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد فرشتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، مسروق، سعید بن جُبَیر، ابو صالح، ابو الضُّحٰی اور سُدِّی کہتے ہیں کہ ڈو ب کر کھینچنے والوں اور آہستگی سے نکال لے جانے والوں سے مُراد وہ فرشتے ہیں جو موت کے وقت انسان کی جان کو اس کے جسم کی گہرایوں تک اُتر کر اور اس کی رگ رگ سے کھینچ کر نکالتے ہیں۔ تیزی سے تیرتے پھرنے والوں سے مراد بھی حضرت علی، حضرت ابن مسعود، مجاہد، سعید بن جُبَیر اور ابو صالح نے فرشتے ہی لیے ہیں جو احکامِ الہٰی کی تعمیل میں اِس طرح تیزی سے رواں دواں رہتے ہیں جیسے کہ وہ فضا میں تیر رہے ہوں۔ یہی مفہوم” سبقت کرنے والوں“کا حضرت علی، مجاہد، مسروق ، ابو صالح اور حسن بصری نے لیا ہے اور سبقت کرنے سے مراد یہ ہے کہ حکمِ الہٰی کا اشارہ پاتے ہی اُن میں سے ہر ایک اس کی تعمیل کے لیے دوڑ پڑتا ہے۔”معاملات کا انتظام چلانے والوں“ سے مراد بھی فرشتے ہیں، جیسا کہ حضرت علی، مجاہد، عطاء، ابو صالح، حسن بصری، قَتادَہ، ربیع بن انس، اور سُدِّی سے منقول ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ سلطنتِ کائنات کے وہ کارکن ہیں جن کے ہاتھوں دنیا کا سارا انتظام اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چل رہا ہے۔ اِن آیات کے یہ معنی اگرچہ کسی صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہوئے ہیں، لیکن چندا کابر صحابہ نے، اور اُن تابعین نے جو صحا بہ ہی کے شاگرد تھے، جب ان کا یہ مطلب بیان کیا ہے تو گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ علم حضورؐ ہی سے حاصل کیا گیا ہوگا۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اِن فرشتوں کی قسم کس بنا پر کھائی گئی ہے جبکہ یہ خود بھی اُسی طرح غیر محسوس ہیں جس طرح وہ چیز غیر محسوس ہے جس کے واقع ہونے پر ان کو بطور شہادت اور بطورِ استدلال پیش کیا گیا ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے ، واللہ اعلم، کہ اہلِ عرب فرشتوں کی ہستی کے منکر نہ تھے۔ وہ خود اِس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ موت کے وقت انسان کی جان فرشتے ہی نکالتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ فرشتوں کی حرکت انتہائی تیز ہے، زمین سے آسمان تک آناً فاناً وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں اور ہر کام جس کا انہیں حکم دیا جائے بلا تاخیر انجام دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی مانتے تھے کہ یہ فرشتے حکم الہٰی کے تابع ہیں اور کائنات کا انتظام اللہ تعالیٰ ہی کے امر سے چلاتے ہیں، خود مختار اور اپنی مرضی کے مالک نہیں ہیں۔ جہالت کی بنا پر وہ ان کو اللہ کی بیٹیاں ضرور کہتے تھے اور اُن کو معبود بھی بنائے ہوئے تھے، لیکن اُن کا یہ عقیدہ نہیں تھا کہ اصل اختیارات انہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس لیے یہاں وقوعِ قیامت اور حیات بعد الموت پر اُن کے مذکورہ بالا اوصاف سے استدلال اس بنا پر کیا گیا ہے کہ جس خدا کے حکم سے فرشتے تمہاری جان نکالتے ہیں اسی کے حکم سے وہ دوبارہ جان ڈال بھی سکتے ہیں۔ اور جس خدا کے حکم سے وہ کائنات کا انتظام چلا رہے ہیں اسی کے حکم سے ، جب بھی اُس کا حکم ہو، اِس کائنات کو وہ درہم برہم بھی کر سکتے ہیں، اور ایک دوسری دنیا بنا بھی سکتے ہیں۔ اُس کے حکم کی تعمیل میں ان کی طرف سے ذرّہ برابر بھی سُستی یا لمحہ بھر کی تاخیر بھی نہیں ہو سکتی۔

2. پہلے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جو زمین اور اس کی ہر چیز کو تباہ کر دے گا اور دوسرے جھٹکے سے مراد وہ جھٹکا ہے جس کے بعد تمام مُردے زندہ ہو کر زمین سے نکل آئیں گے ۔ اِسی کیفیت کو سُورہ زُمَر میں یوں بیان کیا گیا ہے”اور صور پُھونکا جائے گا تو زمین اور آسمان میں جو بھی ہیں وہ سب مر کر گر جائیں گے سوائے اُن کے جنہیں اللہ(زندہ رکھنا)چاہے۔ پھر ایک دوسرا صُور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ سب اُٹھ کر دیکھنے لگیں گے“۔(آیت۶۸)

3. ”کچھ دل“کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ قرآن مجید کی رو سے صرف کفار و فُجّار اور منافقین ہی پر قیامت کے روز ہوَل طاری ہو گا۔ مومنینِ صالحین اُس ہول سے محفوظ ہوں گے۔ سورہ انبیاء میں ان کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ ”وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا“(آیت۱۰۳)

4. یعنی جب اُن کو جواب دیا گیا کہ ہاں ا یسا ہی ہوگا تو وہ مذاق کے طور پر آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے یا رو، اگر واقعی ہمیں پلٹ کر دوبارہ زندگی کی حالت میں واپس آنا پڑا تب تو ہم مارے گئے، اس کے بعد تو پھر ہماری خیر نہیں ہے۔

5. یعنی یہ لوگ اسے ایک امِر محال سمجھ کر اس کی ہنسی اڑا رہے ہیں، حالانکہ اللہ کے لیے یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے جس کو انجام دینے کے لیے کچھ بڑی لمبی چوڑی تیاریوں کی ضرورت ہو۔ اِس کے لیے صرف ایک ڈانٹ یا جھڑ کی کافی ہے جس کے ساتھ ہی تمہاری خاک یا راکھ، خواہ کہیں پڑی ہو ، ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہو جائے گی اور تم یکایک اپنے آپ کو زمین کی پیٹھ پر زندہ موجود پاؤ گے۔ اِس واپسی کو گھاٹے کی واپسی سمجھ کر چاہے تم اِس سے کتنا ہی فرار کرنے کی کوشش کرو، یہ تو ہو کر رہنی ہے ، تمہارے انکار یا فرار یا تمسخر سے یہ رُک نہیں سکتی۔

6. چونکہ کفّار ِ مکّہ کا قیامت اور آخرت کو نہ ماننا اور اس کا مذاق اُڑانا در اصل کسی فلسفے کو رد کرنا نہیں تھا بلکہ اللہ کے رسول کو جھٹلانا تھا، اور جو چالیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چل رہے تھے وہ کسی عام آدمی کے خلاف نہیں بلکہ اللہ کے رسول کی دعوت کو زک دینے کے لیے تھیں، اس لیے وقوعِ آخرت کے مزید دلائل دینے سے پہلے اُن کو حضرت موسٰی اور فرعون کا قصّہ سنا یا جا رہا ہے تا کہ وہ خبر دار ہو جائیں کہ رسالت سے ٹکرانے اور رسول کے بھیجنے والے خدا کے مقابلے میں سر اٹھانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔

7. وادی مقدّسِ طُویٰ کے معنی بالعموم مفسّرین نے یہ بیان کیے ہیں کہ ”وہ مقدّس وادی جس کا نام طُویٰ تھا “۔ لیکن اس کے علاوہ اس کے دو معنی اور بھی بیان کیے گئے ہیں ۔ ایک یہ کہ”وہ وادی جو دومرتبہ مقدّس کی گئی“، کیونکہ ایک دفعہ اُسے اُس وقت مقدس کیا گیا جب پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ نے وہاں حضرت موسیٰ کو مخاطب فرمایا، اور دوسری دفعہ اسے تقدیس کا شرف اُس وقت بخشا گیا جب حضرت موسیٰ مصر سے بنی اسرائیل کو نکال کر اس وادی میں لائے ۔ دوسرے یہ کہ ”رات کے وقت وادی مقدس میں پُکارا“۔ عربی میں محاورہ ہے جاءَ بعد طُوی، یعنی فلاں شخص میرے پا س رات کا کچھ حصّہ گزرنے کے بعد آیا۔

8. یہاں چند باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں: (۱) حضرت موسیٰ کو منصبِ نبوت پر مقرر کرتے وقت جو باتیں اُن کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہوئی تھیں اُن کو قرآن مجید میں حسبِ موقع کہیں مختصر اور کہیں مفصّل بیان کیا گیا ہے ۔ یہاں موقع اختصار کا طالب تھا، اس لیے اُن کا صرف خلاصہ بیان کیا گیا ہے۔ سورہ طٰہٰ، آیات۹ تا ۴۸، سورہ شعراء ، آیات۱۰تا۱۷، سورہ نمل، آیات۷تا ۱۲، اور سورہ قصص، آیات۲۹تا ۳۵ میں ان کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ (۲) فرعون کی جس سرکشی کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خالق اور خلق ،دونوں کے مقابلے میں سرکشی کرنا ہے ۔ خالق کے مقابلے میں اُس سرکشی کا ذکر تو آگے آرہا ہے کہ اس نے اپنی رعیت کو جمع کر کے اعلان کیا کہ” میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں“۔ اور خلق کے مقابلے میں اس کی سرکشی یہ تھی کہ اس نے اپنی مملکت کے باشندوں کو مختلف گروہوں اور طبقوں میں بانٹ رکھا تھا، کمزور طبقوں پر وہ سخت ظلم و ستم ڈھا رہا تھا، اور اپنی پوری قوم کو بیوقوف بنا کر اس نے غلام بنا رکھا تھا ، جیسا کہ سُورہ قصص آیت۴ اور سُورہ زُخْرُف آیت ۵۴ میں بیان کیا گیا ہے۔ (۳) حضرت موسیٰ ؑ کو ہدایت فرمائی گئی تھی کہ فَقُوْ لَا لَہُ قَوْلاً لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشیٰ،”تم اور ہارون دونو ں بھائی اُس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا ، شاید کہ وہ نصیحت قبول کر ے اور خدا سے ڈرے“(القَصَص، آیت۴۴) اِس نرم کلام کا ایک نمونہ تو اِن آیات میں دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مبلّغ کو کسی بگڑے ہوئے آدمی کی ہدایت کے لیے کس حکمت کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہیے۔ دوسرے نمونے سورہ طٰہٰ، آیات۴۹تا۵۲، الشعراء،۲۳تا۲۸، اور القصص، آیت ۳۷ میں دیے گئے ہیں۔ یہ منجملہ اُن آیات کے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حکمت ِ تبلیغ کی تعلیم دی ہے۔ (۴) حضرت موسٰی صرف بنی اسرائیل کی رہائی کےلیے ہی فرعون کے پاس نہیں بھیجے گئے تھے، جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے ، بلکہ ان کی بِعثت کا پہلا مقصد فرعون اور اس کی قوم کو راہ راست دکھانا تھا، اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ اگر وہ راہ راست قبول نہ کرے تو بنی اسرائیل کو ( جو اصل میں ایک مسلمان قوم تھے) اُس کی غلامی سے چُھڑا کر مصر سے نکال لائیں۔ یہ بات اِن آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ اِن میں سرے سے بنی اسرائیل کی رہائی کا ذکر ہی نہیں ہے بلکہ حضرت موسیٰ کو فرعون کے سامنے سے صرف حق کی تبلیغ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اور اُن مقامات سے بھی ا س کا ثبوت ملتا ہے حہاں حضرت موسیٰ نے تبلیغ اسلام بھی کی ہے اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ بھی فرمایا ہے۔ مثلاً ملا حظہ ہو ( الاَعراف، آیات۱۰۴۔۱۰۵۔طٰہٰ، آیات۴۷ تا ۵۲۔ الشعراء، آیات۱۶۔۱۷و۲۳ تا۲۸۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، یونس، حاشیہ۷۴)۔ (۵) یہاں پاکیزگی (تَزَ کِّی) اختیار کرنے کا مطلب عقیدے اور اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کرنا، یا دوسرے الفاظ میں اسلام قبول کر لینا ہے۔ ابن زید کہتے ہیں کہ قرآن مجید جہاں بھی تز کِّی کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس سے مراد اسلام قبول کرنا ہی ہے۔ چنانچہ وہ مثال میں قرآن مجید کی حسبِ ذیل تین آیات کو پیش کرتے ہیں۔ وَ ذٰ لِکَ جَزَآ ؤُ مَنْ تَزَکّٰی، ” اور یہ جزا ہے اس کی جو پاکیزگی اختیار کرے“۔ یعنی اسلام لے آئے۔ وَمَا یُدْ رِیْکَ لَعَلَّہُ یَزَّکّٰی، اور ”تمہیں کیا خبر شاید کہ وہ پاکیزگی اختیار کرے“، یعنی مسلمان اسلام لے آئے۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی،” اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی اختیار نہ کرے“یعنی مسلمان نہ ہو(ابن جریر)۔

(۶) یہ ارشاد کہ ”میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تو (اس کا خوف)تیرے دل میں پیدا ہو“، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تو اپنے رب کو پہچان لے گا اور تجھے معلو م ہو جائے گا تو اُس کا بندہ ہے، مردِ آزاد نہیں ہے، تو لازماً تیرے دل میں اُس کا خوف پیدا ہوگا، اور خوفِ خدا ہی وہ چیز ہے جس پر دنیا میں آدمی کے رویّے کے صحیح ہونے کا انحصار ہے۔ خدا کی معرفت اور اس کے خوف کے بغیر کسی پاکیزگی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔

9. بڑی نشانی سے مراد عصا کا اژدہا بن جانا ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک بیجان لاٹھی سب دیکھنے والوں کی آنکھوں کے سامنے عَلانیہ اژدہا بن جائے، جادوگر اُس کے مقابلے میں لاٹھیوں اور رسیّوں کے جو مصنوعی اژدھے بنا کر دکھائیں ان سب کو وہ نگل جائے، اور پھر حضرت موسیٰ جب اس کو پکڑ کر اٹھالیں تو وہ پھر لاٹھی کی لاٹھی بن کر رہ جائے۔ یہ اس بات کی صریح علامت تھی کہ وہ اللہ رب العالمین ہی ہے جس کی طرف سے حضرت موسیٰ بھیجے گئے ہیں۔

10. اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اس نے تمام مصر سے ماہر جادوگروں کو بلوایا اور ایک مجمع عام میں ان سے لاٹھیوں اور رسیّوں کے اژدہے بنوا کر دکھائے تا کہ لوگوں کو یقین آجائے کہ موسیٰ علیہ السلام کوئی نبی نہیں بلکہ ایک جادوگر ہیں، اور لاٹھی کا اژدہا بنانے کا جو کرشمہ انہوں نے دکھایا ہے وہ دوسرے جادوگر بھی دکھا سکتے ہیں۔ لیکن اس کی یہ چال اُلٹی پڑی اور جادوگروں نے شکست کھا کر خود تسلیم کر لیا کہ موسٰی علیہ السلام نے جو کچھ دکھا یا ہے وہ جادو نہیں بلکہ معجزہ ہے۔

11. فرعون کا یہ دعویٰ کئی مقامات پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک موقع پر اس نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ”اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو خدا بنا یا تو میں تمہیں قید کر دوں گا“(الشعراء، آیت۲۹)۔ ایک اور موقع پر اس نے اپنے دربار میں لوگوں کو خطاب کرکے کہا” اے سردار انِ قوم ، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور خدا بھی ہے“(القصص،آیت۳۸)۔ ان ساری باتوں سے فرعون کا یہ مطلب نہ تھا، اور نہیں ہو سکتا تھا کہ وہی کائنات کا خالق ہے اور اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر اور خود رب العالمین ہونے کا مدعی تھا۔ یہ مطلب بھی نہ تھا کہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مذہبی معنوں میں لوگوں کا معبود قرار دیتا تھا۔قرآن مجید ہی میں اِس بات کی شہادت موجود ہے کہ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے وہ خود دوسرے معبُودوں کی پرستش کرتا تھا، چنانچہ اس کے اہلِ دربار ایک موقع پر اس کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ”کیا آپ موسیٰ اور اس کی قوم کو یہ آزادی دیتے چلے جائیں گے کہ وہ ملک میں فساد پھیلائیں اور آپ کو اور آپ کے معبودوں کو چھوڑ دیں“؟(الاعراف، آیت۱۲۷)۔ اور قرآن میں فرعون کا یہ قول بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر موسیٰ خدا کا بھیجا ہوا ہوتا تو کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے؟ یا اس کے ساتھ ملائکہ اس کی اردلی میں کیوں نہ آئے؟(الزخرف،آیت۵۳)۔ پس درحقیقت وہ مذہبی معنی میں نہیں بلکہ سیاسی معنی میں اپنے آپ کو الٰہ اور ربِّ اعلیٰ کہتا تھا، یعنی اس کا مطلب یہ تھا کہ اقتدارِ اعلیٰ کا مالک میں ہوں، میرے سوا کسی کو میری مملکت میں حکم چلانے کا حق نہیں ہے، اور میرے اوپر کوئی بالا تر طاقت نہیں ہے جس کا فرمان یہاں جاری ہو سکتا ہو(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ،تفہیم القرآن،جلد دوم، الاعراف، حاشیہ۸۵۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۲۱۔الشعراء، حواشی۲۶،۲۴۔القصص، حواشی۵۲۔۵۳۔جلد چہارم،الزخرف، حاشیہ۴۹)۔

12. یعنی خدا کے رسول کو جُھٹلانے کے اُس انجام سے ڈر ے جو فرعون دیکھ چکا ہے۔