Tafheem ul Quran

Surah 79 An-Nazi'at, Ayat 27-46

ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ​ ؕ بَنٰٮهَا‏ ﴿79:27﴾ رَفَعَ سَمۡكَهَا فَسَوَّٮهَا ۙ‏ ﴿79:28﴾ وَ اَغۡطَشَ لَيۡلَهَا وَاَخۡرَجَ ضُحٰٮهَا‏ ﴿79:29﴾ وَالۡاَرۡضَ بَعۡدَ ذٰلِكَ دَحٰٮهَا ؕ‏ ﴿79:30﴾ اَخۡرَجَ مِنۡهَا مَآءَهَا وَمَرۡعٰٮهَا‏ ﴿79:31﴾ وَالۡجِبَالَ اَرۡسٰٮهَا ۙ‏ ﴿79:32﴾ مَتَاعًا لَّـكُمۡ وَلِاَنۡعَامِكُمۡؕ‏ ﴿79:33﴾ فَاِذَا جَآءَتِ الطَّآمَّةُ الۡكُبۡرٰى ۖ‏ ﴿79:34﴾ يَوۡمَ يَتَذَكَّرُ الۡاِنۡسَانُ مَا سَعٰىۙ‏ ﴿79:35﴾ وَبُرِّزَتِ الۡجَحِيۡمُ لِمَنۡ يَّرٰى‏ ﴿79:36﴾ فَاَمَّا مَنۡ طَغٰىۙ‏ ﴿79:37﴾ وَاٰثَرَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا ۙ‏ ﴿79:38﴾ فَاِنَّ الۡجَحِيۡمَ هِىَ الۡمَاۡوٰىؕ‏ ﴿79:39﴾ وَاَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفۡسَ عَنِ الۡهَوٰىۙ‏ ﴿79:40﴾ فَاِنَّ الۡجَـنَّةَ هِىَ الۡمَاۡوٰىؕ‏ ﴿79:41﴾ يَسۡـئَلُوۡنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرۡسٰٮهَا ؕ‏ ﴿79:42﴾ فِيۡمَ اَنۡتَ مِنۡ ذِكۡرٰٮهَاؕ‏ ﴿79:43﴾ اِلٰى رَبِّكَ مُنۡتَهٰٮهَاؕ‏ ﴿79:44﴾ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُنۡذِرُ مَنۡ يَّخۡشٰٮهَاؕ‏ ﴿79:45﴾ كَاَنَّهُمۡ يَوۡمَ يَرَوۡنَهَا لَمۡ يَلۡبَثُوۡۤا اِلَّا عَشِيَّةً اَوۡ ضُحٰٮهَا‏  ﴿79:46﴾

27 - 13 کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ 14 اللہ نے اُس کو بنایا، 28 - اُس کی چھت خُوب اُونچی اُٹھائی پھر اُس کا توازن قائم کیا، 29 - اور اُس کی رات ڈھانکی اور اُس کا دن نکالا۔ 15 30 - اِس کے بعد زمین کو اس نے بچھایا، 16 31 - اُس کے اندر اُس کا پانی اور چارہ نکالا،17 32 - اور پہاڑ اس میں گاڑ دیے 33 - سامانِ زیست کے طور پر تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے۔ 18 34 - پھر جب وہ ہنگامہٴِ عظیم برپا ہوگا،19 35 - جس روز انسان اپنا سب کیا دھرا یاد کرے گا، 20 36 - اور ہر دیکھنے والے کے سامنے دوزخ کھول کر رکھ دی جائے گی، 37 - تو جس نے سرکشی کی تھی 38 - اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، 39 - دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔ 40 - اور جس نے اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بُری خواہشات سے باز رکھا تھا ، 41 - جنّت اس کا ٹھکانا ہوگی۔ 21 42 - یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ”آخر وہ گھڑی کب آکر ٹھہرے گی؟“ 22 43 - تمہارا کیا کام کہ اُس کا وقت بتاوٴ۔ 44 - اس کا علم تو اللہ پر ختم ہے۔ 45 - تم صرف خبردار کرنے والے ہو ہر اُس شخص کو جو اُس کا خوف کرے۔ 23 46 - جس روز یہ لوگ اُسے دیکھ لیں گے تو انہیں یوں محسوس ہو گا کہ (یہ دنیا میں یا حالتِ موت میں) بس ایک دن کے پچھلے پہر یا اگلے پہر تک ٹھہرے ہیں۔24 ؏۲


Notes

13. اب قیامت اور حیات بعد الموت کے ممکن اور مقتضائے حکمت ہونے کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں۔

14. تخلیق سے مراد انسانوں کی دوبارہ تخلیق ہے اور آسمان سے مراد وہ پُورا عالمِ بالا ہے جس میں بے شمار ستارے اور سیّارے ، بے حدوحساب شمسی نظام اور اَن گنت کہکشاں پائے جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو کوئی بڑا ہی امرِ محال سمجھتے ہو، اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں تک بوسیدہ ہو چکی ہوں گی اُس حالت میں ہمارے پر اگندہ اجزائے جسم پھر سے جمع کر دیے جائیں اور ان میں جان ڈال دی جائے، کبھی اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اِس عظیم کائنات کا بنا نا زیادہ سخت کام ہے یا تمہیں ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد دوبارہ اِسی شکل میں پیدا کردینا؟ جس خدا کے لیے وہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے لیے آخر یہ کیوں ایسا مشکل کام ہے کہ وہ اِس پر قادر نہ ہوسکے؟ حیات بعد الموت پر یہی دلیل قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے ۔ مثلاً سورہ یٰس میں ہے”اور کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اِس پر قادر نہیں ہے کہ اِن جیسوں کو (پھر سے ) پیدا کردے ؟ کیوں نہیں ، وہ تو بڑا زبردست خالق ہے، تخلیق کے کام کو خوب جانتا ہے“(آیت۸۱)۔ اور سُورہ مومن میں فرمایا۔”یقیناً آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں“(آیت۵۷)۔

15. رات اور دن کو آسمان کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، کیونکہ آسمان کا سورج غروب ہونے سے ہی رات آتی ہے اور اسی کے طُلوع ہونے سے دن نکلتا ہے۔ رات کے لیے ڈھانکنے کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ سورج غروب ہونے کے بعد رات کی تاریکی اس طرح زمین پر چھا جاتی ہے جیسے اُوپر سے اس پر پردہ ڈال کر ڈھانک دیا گیا ہو۔

16. ”اس کے بعد زمین کو بچھانے“کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین پیدا کی، بلکہ یہ ایسا ہی طرز بیان ہے جیسے ہم ایک بات کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں”پھر یہ بات غور طلب ہے“۔اس سے مقصود ان دونوں باتوں کے درمیان واقعاتی ترتیب بیان کرنا نہیں ہوتا کہ پہلے یہ بات ہوئی اور اس کے بعد دوسری بات، بلکہ مقصود ایک بات کے بعد دوسری بات کی توجہ دلا نا ہوتا ہےاگر چہ دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہوں۔ اِس طرز بیان کی متعدد نظیریں خود قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً سُورہ قلم میں فرمایا عُتُلٍّ بَعْدَ ذٰ لِکَ زَنِیْمٌ”جفا کار ہے اور اس کے بعد بد اصل“۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ جفا کار بنا اور اس کے بعد بد اصل ہوا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جفا کار ہے اور اس پر مزید یہ کہ بد اصل بھی ہے ۔ اسی طرح سورہ بلد میں فرمایا فَکُ رَقَبَۃٍ.....ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ۔” غلام آزاد کرے...... پھر ایمان لانے والوں میں سے ہو“۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے وہ نیک اعمال کرے، پھر ایمان لائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُن نیک اعمال کے ساتھ ساتھ اس میں مومن ہونے کی صفت بھی ہو۔ اِ س مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن میں کہیں زمین کی پیدائش کا ذکر پہلےکیا گیا ہے اور آسمان کی پیدائش کا ذکر بعد میں، جیسے سورہ بقرہ آیت۲۹ میں ہے، اور کسی جگہ آسمان کی پیدائش کا ذکر پہلے اور زمین کی پیدائش کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے، جیسے اِن آیات میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ دراصل تضاد نہیں ہے۔ اِن مقامات میں سے کسی جگہ بھی مقصود کلام یہ بتانا نہیں ہے کہ کسے پہلے بنا یا گیا اور کسے بعد میں بلکہ جہاں موقع و محل یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں ، اور جہاں سلسلہ کلام اِس بات کاتقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو اُن نعمتوں کا احساس دلایا جائے جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کے ذکر کو آسمانوں کے ذکر پر مقدم رکھا گیا ہے( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد چہارم، حٰم السجّدہ، حواشی۱۳۔۱۴)۔

17. چارہ سے مراد اِس جگہ صرف جانوروں کا چارہ نہیں ہے بلکہ وہ تمام نباتات مراد ہیں جو انسان اور حیوان دونوں کی غذا کے کام آتے ہیں۔ رَعی اور رتُع اگرچہ بالعموم عربی زبان میں جانوروں کے چَرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں مگر کبھی کبھی انسان کے لیے بھی استعمال کر لیے جاتے ہیں، مثلاً سورہ یوسف میں آیا ہے کہ حضرت یوسف کو ہمارے ساتھ بھیج دیں کہ کچھ چَر چُگ لے اور کھیلے“(آیت۱۲)۔یہاں بچے کے لیے چَرنے(رَتُع) کا لفظ جنگل میں چل پھر کر پھل توڑنے اور کھانے کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

18. ان آیات میں قیامت اور حیات بعد الموت کے لیے دو حیثیتوں سے استد لال کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ اُس خدا کی قدرت سے اِن کا برپا کرنا ہر گز بعید نہیں ہے جس نے یہ وسیع و عظیم کائنات اِس حیرت انگیز توازن کے ساتھ اور یہ زمین اِس سرو سامان کے ساتھ بنائی ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ کے کمالِ حکمت کے جو آثار اِس کائنات اور اِس زمین میں صریحاً نظر آرہے ہیں وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہاں کوئی کام بے مقصد نہیں ہو رہا ہے۔ عالمِ بالا میں بے شمار ستاروں اور سیاروں اور کہکشانوں کے درمیان جو توازُن قائم ہے وہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ سب کچھ الل ٹپ نہیں ہو گیا ہے بلکہ کوئی بہت سوچا سمجھا منصوبہ اِس کے پیچھے کار فرما ہے۔ یہ رات اور دن کا باقاعدگی سے آنا اس بات پر گواہ ہے کہ زمین کو آباد کرنے کے لیے یہ نظم کمال درجہ دانائی کے ساتھ قائم کیا گیاہے۔ خود اسی زمین پر وہ خطے بھی موجود ہیں۔ جہاں ۲۴ گھنٹے کے اندردن اور رات کا الٹ پھیر ہو جاتا ہے اور وہ خطّے بھی موجود ہیں جہاں بہت لمبی راتیں ہوتی ہیں۔ زمین کی آبادی کا بہت بڑ ا حصّہ پہلی قسم کے خطّوں میں ہے، اور جہاں رات اور دن جتنے زیادہ لمبے ہوتے جاتے ہیں وہاں زندگی زیادہ سے زیادہ دشوار اور آبادی کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ ۶ مہینے کے دن اور ۶ مہینے کی راتین رکھنے والے علاقے آبادی کے بالکل قابل نہیں ہیں۔ یہ دونوں نمونے اِسی زمین پر دکھا کر اللہ تعالیٰ نے اِس حقیقت کی شہادت پیش کر دی ہے کہ رات اور دن کی آمد ورفت کا یہ باقاعدہ انتظام کچھ اتفاقاً نہیں ہو گیا ہے بلکہ یہ زمین کو آبادی کے قابل بنانے کے لیے بڑی حکمت کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ایک اندازے کے مطابق کیا گیا ہے ۔ اِسی طرح زمین کو اس طرح بچھانا کہ وہ قابلِ سکونت بن سکے، اِس میں وہ پانی پیدا کرنا جو انسان اور حیوان کے لیے پینے کے قابل اور نباتات کے لیے روئیدگی کے قابل ہو، اِس میں پہاڑوں کاجمانا اور وہ تمام چیزیں پیدا کرنا جو انسان اور ہر قسم کے حیوانات کے لیے زندگی بسر کرنے کے ذریعہ بن سکیں،یہ سارے کام اس بات کی صریح علامت ہیں کہ یہ اتفاقی حوادث یا کسی کھلنڈر ے کے بے مقصد کام نہیں ہیں، بلکہ ان میں سے ہر کام ایک بہت بڑی حکیم و دانا ہستی نے بامقصد کیا ہے۔ اب یہ ہر صاحبِ عقل آدمی کے خود سوچنے کی بات ہے کہ آیا آخرت کا ہونا حکمت کا تقاضا ہے یا نہ ہونا؟ جو شخص اِن ساری چیزوں کو دیکھنے کے با وجود یہ کہتا ہے کہ آخرت نہیں ہو گی وہ گویا یہ کہتا ہے کہ یہاں اور سب کچھ تو حکمت اور مقصد یت کے ساتھ ہو رہا ہے، مگر زمین پر انسان کو ذی ہوش اور با اختیار بنا کر پیدا کرنا بے مقصد اور بے حکمت ہے۔کیونکہ اس سے بڑی بے مقصد اور بے حکمت بات نہیں ہوسکتی کہ اِس زمین میں تصرّف کے وسیع اختیارات دے کر انسان کو یہاں ہر طرح کے اچھے اور برے کام کرنے کا موقع تو دے دیا جائے مگر کبھی اس کا محاسبہ نہ کیا جائے۔

19. اس سے مراد ہے قیامت اس کے لیے الطَّآمَّۃُ الْکُبْریٰ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ طامّہ بجائے خود کسی ایسی بڑی آفت کو کہتے ہیں جو سب پر چھا جائے۔ اس کے بعد اس کے لیے کُبّریٰ کا لفظ مزید استعمال کیا گیا ہے جس سے خود بخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی شدت کا تصور دلانے کے لیے محض لفظ طامّہ بھی کافی نہیں ہے۔

20. یعنی جب انسان دیکھ لے گا وہی محاسبہ کا دن آگیا ہے جس کی اُسے دنیا میں خبر دی جا رہی تھی، تو قبل اس کے کہ اُس کا نامہ اعمال اس کےہاتھ میں دیا جائے، اسے ایک ایک کر کے اپنی وہ سب حرکتیں یا دآنے لگیں گی جو وہ دنیا میں کر کے آیا ہے۔ بعض لوگوں کو یہ تجربہ خود اِس دنیا میں بھی ہوتا ہے کہ اگر یکایک کسی وقت وہ کسی ایسے خطرے سے دو چار ہوجاتے ہیں جس میں مَوت ان کو بالکل قریب کھڑی نظر آ نے لگتی ہے تو اپنی پُوری زندگی کی فلم اُن کی چشمِ تصوّر کے سامنے یک لخت پھر جاتی ہے۔

21. یہاں چند مختصر الفاظ میں بتا دیا گیا ہے کہ آخرت میں اصل فیصلہ کس چیز پر ہونا ہے۔ دنیا میں زندگی کا ایک رویّہ ہے کہ آدمی بندگی کی حد سے تجاوز کرکے اپنے خدا کے مقابلے میں سر کشی کر ے اور یہ طے کر لے کہ اِسی دنیا کے فائدے اور لذتیں اُسے مطلوب ہیں خواہ کسی طرح بھی وہ حاصل ہوں۔ دوسرا رویّہ یہ ہے کہ یہاں زندگی بسر کرتے ہوئے آدمی اِس بات کو پیشِ نظر رکھے کہ آخر کار ایک دن اسے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ہے ، اور نفس کی بُری خواہشات کو پُورا کرنے سے اِس لیے باز رہے کہ اگر یہاں اُس نے اپنے نفس کا کہا مان کر کوئی نا جائز فائدہ کما لیا یا کوئی نا روالذت حاصل کرلی تو اپنے رب کو کیا جواب دے گا۔ آخرت میں فیصلہ اِس بات پر ہونا ہے کہ انسان نے اِن دونوں میں سےکونسا رویّہ دنیامیں اختیار کیا۔ پہلا رویّہ اختیار کیا ہو تو اس کا مستقل ٹھکانا دوزخ ہے، اور دوسرا رویّہ اختیار کیا ہو تو اس کی مستقل جائے قیام جنّت۔

22. کُفّارمکّہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال بار بار کرتے تھے اور اس سے مقصود قیامت کی آمد کا وقت اور اس کی تاریخ معلوم کرنا نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کا مذاق اڑانا ہوتا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظ ہو، تفہیم القرآن ،جلد ششم، تفسیرسورہ ملک، حاشیہ۳۵)۔

23. اِس کی تشریح بھی ہم تفسیر سُورہ ملک، حاشیہ ۳۶ میں کر چکے ہیں۔ رہا یہ ارشاد کہ تم ہر اُس شخص کو خبر دار کردینے والے ہو جو اس کا خوف کر ے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خوف نہ کرنے والوں کو خبر دار کرنا تمہارا کام نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے خبر دار کرنے کا فائدہ اسی کو پہنچے گا جو اُس دن کے آنے کا خوف کرے۔

24. یہ مضمون اس سے پہلے کئی جگہ قرآن میں بیان ہو چکا ہے اور ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دو، یونس، حاشیہ۵۳۔بنی اسرائیل، حاشیہ۵۶۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۸۰۔ المومنون،حاشیہ۱۰۱۔ الروم،حواشی۸۱۔۸۲۔جلد چہارم ،یٰس،حاشیہ۴۸۔اس کے علاوہ یہ مضمون سورہ احقاف آیت ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے جس کی تشریح ہم نے وہاں نہیں کی کیونکہ پہلےکئی جگہ تشریح ہو چکی تھی۔