Tafheem ul Quran

Surah 8 Al-Anfal, Ayat 11-19

اِذۡ يُغَشِّيۡكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنۡهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيۡكُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّيُطَهِّرَكُمۡ بِهٖ وَيُذۡهِبَ عَنۡكُمۡ رِجۡزَ الشَّيۡطٰنِ وَلِيَرۡبِطَ عَلٰى قُلُوۡبِكُمۡ وَيُثَبِّتَ بِهِ الۡاَقۡدَامَؕ‏ ﴿8:11﴾ اِذۡ يُوۡحِىۡ رَبُّكَ اِلَى الۡمَلٰۤـئِكَةِ اَنِّىۡ مَعَكُمۡ فَثَبِّتُوا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا​ ؕ سَاُلۡقِىۡ فِىۡ قُلُوۡبِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا الرُّعۡبَ فَاضۡرِبُوۡا فَوۡقَ الۡاَعۡنَاقِ وَاضۡرِبُوۡا مِنۡهُمۡ كُلَّ بَنَانٍؕ‏ ﴿8:12﴾ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ شَآ قُّوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ​ ۚ وَمَنۡ يُّشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿8:13﴾ ذٰ لِكُمۡ فَذُوۡقُوۡهُ وَاَنَّ لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابَ النَّارِ‏ ﴿8:14﴾ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِيۡتُمُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡهُمُ الۡاَدۡبَارَ​ۚ‏ ﴿8:15﴾ وَمَنۡ يُّوَلِّهِمۡ يَوۡمَـئِذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوۡ مُتَحَيِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَمَاۡوٰٮهُ جَهَـنَّمُ​ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿8:16﴾ فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡهُمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمۡ وَمَا رَمَيۡتَ اِذۡ رَمَيۡتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى​ ۚ وَلِيُبۡلِىَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡهُ بَلَاۤءً حَسَنًا​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿8:17﴾ ذٰ لِكُمۡ وَاَنَّ اللّٰهَ مُوۡهِنُ كَيۡدِ الۡـكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿8:18﴾ اِنۡ تَسۡتَفۡتِحُوۡا فَقَدۡ جَآءَكُمُ الۡفَتۡحُ​ۚ وَاِنۡ تَنۡتَهُوۡا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ​ۚ وَ اِنۡ تَعُوۡدُوۡا نَـعُدۡ​ۚ وَلَنۡ تُغۡنِىَ عَنۡكُمۡ فِئَتُكُمۡ شَيۡـئًـا وَّلَوۡ كَثُرَتۡۙ وَاَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿8:19﴾

11 - اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا،8 اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمہاری ہمّت بندھائے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے قدم جمادے۔9 12 - اور وہ وقت جبکہ تمہارا ربّ فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ”میں تمہارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رُعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاوٴ۔“10 13 - یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول ؐ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسول ؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے11 ۔۔۔۔ 14 - 12یہ ہے تم لوگوں کی سزا، اب اس کا مزہ چکھو، اور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔ 15 - اے ایمان والو ، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دوچار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو۔ 16 - جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیرے ۔۔۔۔ اِلّا یہ کہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے ۔۔۔۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھِر جائے گا، اُس کا ٹھکانا جہنّم ہوگا، اور وہ بہت بُری جائے بازگشت ہے۔13 17 - پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تُو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا14 ( اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے)تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقیناً اللہ سُننے اور جاننے والا ہے۔ 18 - یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے۔ 19 - (ان کافروں سے کہہ دو)”اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آگیا۔15 اب باز آجاوٴ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اُسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آسکے گی، اللہ مومنوں کے ساتھ ہے۔“ ؏ ۲


Notes

8. یہی تجربہ مسلمانوں کو اُحد کی جنگ میں پیش آیا جیسا کہ سورہ آل عمران آیت ١۵۴ میں گزر چکا ہے۔ اور دونوں مواقع پر وجہ وہی ایک تھی کہ جو موقع شدت خوف اور گھبراہٹ کا تھا اس وقت اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسے اطمینان سے بھر دیا کہ ان پر غنودگی طاری ہونے لگی۔

9. یہ اُس رات کا واقعہ ہے جس کی صبح کو بدر کی لڑائی پیش آئی۔ اس بارش کے تین فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو پانی کی کافی مقدار مل گئی اور انہوں نے فوراً حوض بنا بنا کر بارش کا پانی روک لیا۔ دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ وادی کے بالائی حصے پر تھے اس لیے بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمین اتنی مضبوط ہو گئی کہ قدم اچھی طرح جم سکیں اور نقل و حرکت بآسانی ہو سکے۔ تیسرے یہ کہ لشکر کفار نشیب کی جانب تھا اس لیے وہاں اس بارش کی بدولت کیچڑ ہو گئی اور پاؤں دھنسنے لگے۔

شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست سے مراد وہ ہر اس اور گھبراہٹ کی کیفیت تھی جس میں مسلمان ابتداءً مبتلا تھے۔

10. جو اصولی باتیں ہم کو قرآن کے ذریعہ سے معلوم ہیں ان کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتوں سے قتال میں یہ کام نہیں لیا گیا ہوگا کہ وہ خود حرب و ضرب کاکام کریں، بلکہ شاید اس کی صورت یہ ہوگی کہ کفار پر جو ضرب مسلمان لگائیں وہ فرشتوں کی مدد سے ٹھیک بیٹھے اور کاری لگے۔ واللہ اعلم بالصواب۔

11. یہاں تک جنگ بدر کے جن واقعات کو ایک ایک کرکے یاد دلایا گیا ہے اس سے مقصود دراصل لفظ ”انفال“کی معنویت واضح کرنا ہے۔ ابتدا میں ارشاد ہوا تھا کہ اس مال غنیمت کو اپنی جانفشانی کا ثمرہ سمجھ کر اس کے مالک و مختار کہاں بنے جاتے ہو، یہ تو دراصل عطیہ الہٰی ہے اور معطی خود ہی اپنے مال کا مختار ہے۔ اب اس کے ثبوت میں یہ واقعات گنائے گئے ہیں کہ اس فتح میں خود ہی حساب لگا کر دیکھ لو کہ تمہاری اپنی جانفشانی اور جرأت وجسارت کا کتنا حصہ تھا اور اللہ کی عنایت کا کتنا حصہ۔

12. خطاب کا رُخ یکایک کفار کی طرف پھر گیا ہے جن کے مستحق سزا ہونے کا ذکر اوپر کے فقرے میں ہوا تھا۔

13. دشمن کے شدید دباؤ پر مرتب پسپائی(Orderly retreat )ناجائز نہیں ہےجبکہ اس کا مقصود اپنے عقبی مرکز کی طرف پلٹنا یا اپنی ہی فوج کے کسی دوسرے حصہ سے جا ملنا ہو۔ البتہ جو چیز حرام کی گئی ہے وہ بھگدڑ(Rout ) ہے جو کسی جنگی مقصد کے لیے نہیں بلکہ محض بزدلی و شکست خوردگی کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس لیے ہوا کرتی ہے کہ بھگوڑے آدمی کو اپنے مقصد کی بہ نسبت جان زیادہ پیاری ہوتی ہے۔ اس فرار کو بڑے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تین گناہ ایسے ہیں کہ ان کے ساتھ کوئی نیکی فائدہ نہیں دیتی۔ ایک شرک، دوسرے والدین کی حق تلفی، تیسرے میدان قتال فی سبیل اللہ سے فرار۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ نے سات بڑے گناہوں کا ذکر کیا ہے جو انسان کے لیے تباہ کن اوراس کے انجام اُخروی کے لیے غارتگر ہیں۔ ان میں سے ایک یہ گناہ بھی ہے کہ آدمی کفر و اسلام کی جنگ میں کفار کے آگے پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اس فعل کو اتنا بڑا گناہ قرار دینے کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ یہ ایک بزدلانہ فعل ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک شخص کا بھگوڑا پن بسا اوقات ایک پوری پلٹن کو، اور ایک پلٹن کا بھگوڑا پن ایک پوری فوج کو بدحواس کرکے بھگا دیتا ہے۔ اور پھر جب ایک دفعہ کسی فوج میں بھگدڑ پڑ جائے تو کہا نہیں جا سکتا کہ تباہی کس حد پر جا کر ٹھیرے گی۔ اس طرح کی بھگدڑ صرف فوج ہی کے لیے تباہ کن نہیں ہے بلکہ اُس ملک کے لیے بھی تباہ کن ہے جس کی فوج ایسی شکست کھائے۔

14. معرکہ بدر میں جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے اور عام زدوخورد کا موقع آگیا تو حضور ؐ نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھتِ الوُجُوہ کہتے ہوئے کفار کی طرف پھینکی اور اس کے ساتھ ہی آپ کے اشارے سے مسلمان یکبار گی کفار پر حملہ آور ہوئے۔ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔

15. مکہ سے روانہ ہوتے وقت مشرکین نے کعبہ کے پردے پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ خدایادونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطاکر ۔ اورابو جہل نے خاص طور پر کہا تھا کہ خدایا ہم میں سے جو برسر حق ہواسے فتح دے اور جو بر سرِ ظلم ہواسے رسوا کردے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منہ مانگی دعائیں حرف بحرف پوری کردیں اور فیصلہ کر کے بتا دیا کہ دونوں میں سے کون اچھا اوربر سرِ حق ہے۔