Tafheem ul Quran

Surah 8 Al-Anfal, Ayat 29-37

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّـكُمۡ فُرۡقَانًا وَّيُكَفِّرۡ عَنۡكُمۡ سَيِّاٰتِكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ​ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ‏ ﴿8:29﴾ وَاِذۡ يَمۡكُرُ بِكَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِيُثۡبِتُوۡكَ اَوۡ يَقۡتُلُوۡكَ اَوۡ يُخۡرِجُوۡكَ​ؕ وَيَمۡكُرُوۡنَ وَيَمۡكُرُ اللّٰهُ​ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الۡمٰكِرِيۡنَ‏  ﴿8:30﴾ وَاِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتُنَا قَالُوۡا قَدۡ سَمِعۡنَا لَوۡ نَشَآءُ لَـقُلۡنَا مِثۡلَ هٰذَٓا​ ۙ اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿8:31﴾ وَاِذۡ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنۡ كَانَ هٰذَا هُوَ الۡحَـقَّ مِنۡ عِنۡدِكَ فَاَمۡطِرۡ عَلَيۡنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَ لِيۡمٍ‏ ﴿8:32﴾ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ وَاَنۡتَ فِيۡهِمۡ​ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ مُعَذِّبَهُمۡ وَهُمۡ يَسۡتَغۡفِرُوۡنَ‏ ﴿8:33﴾ وَمَا لَهُمۡ اَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللّٰهُ وَهُمۡ يَصُدُّوۡنَ عَنِ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ وَمَا كَانُوۡۤا اَوۡلِيَآءَهٗ​ ؕ اِنۡ اَوۡلِيَآؤُهٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿8:34﴾ وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمۡ عِنۡدَ الۡبَيۡتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصۡدِيَةً​  ؕ فَذُوۡقُوا الۡعَذَابَ بِمَا كُنۡتُمۡ تَكۡفُرُوۡنَ‏ ﴿8:35﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ لِيَـصُدُّوۡا عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ ؕ فَسَيُنۡفِقُوۡنَهَا ثُمَّ تَكُوۡنُ عَلَيۡهِمۡ حَسۡرَةً ثُمَّ يُغۡلَبُوۡنَ ؕ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِلٰى جَهَـنَّمَ يُحۡشَرُوۡنَۙ‏ ﴿8:36﴾ لِيَمِيۡزَ اللّٰهُ الۡخَبِيۡثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَ يَجۡعَلَ الۡخَبِيۡثَ بَعۡضَهٗ عَلٰى بَعۡضٍ فَيَرۡكُمَهٗ جَمِيۡعًا فَيَجۡعَلَهٗ فِىۡ جَهَـنَّمَ​ؕ اُولٰٓـئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ‏ ﴿8:37﴾

29 - اے ایمان لانے والو، اگر تم خدا ترسی اختیار کرو گے تو اللہ تمہارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا 24اور تمہاری بُرائیوں کو تم سے دور کرے گا، اور تمہارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ 30 - وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں۔25وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہترین چال چلنے والا ہے۔ 31 - جب ان کو ہماری آیات سُنائی جاتی تھیں تو کہتے تھے کہ ”ہاں سُن لیا ہم نے، ہم چاہیں تو ایسی ہی باتیں ہم بھی بنا سکتے ہیں، یہ تو وہی پُرانی کہانیاں ہیں جو پہلے سے لوگ کہتے چلے آرہے ہیں۔“ 32 - اور وہ بات بھی یاد ہے جو اُنہوں نے کہی تھی کہ ” خدایا اگر یہ واقعی حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا کوئی دردناک عذاب ہم پر لے آ۔“26 33 - اُس وقت تو اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جبکہ تُو ان کے درمیان موجود تھا۔ اور نہ اللہ کا یہ قاعدہ ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ اُن کو عذاب دیدے۔27 34 - لیکن اب کیوں نہ وہ ان پر عذاب نازل کرے جبکہ وہ مسجدِ حرام کا راستہ روک رہے ہیں، حالانکہ وہ اس مسجد کے جائز متولّی نہیں ہیں۔ اس کے جائز متولّی تو صرف اہلِ تقوٰی ہی ہو سکتے ہیں، مگر اکثر لوگ اس بات کو نہیں جانتے۔ 35 - بیت اللہ کے پاس ان لوگوں کی نماز کیا ہوتی ہے ، بس سیٹیاں بجاتے اور تالیاں پیٹتے ہیں28، پس اب لو، اِس عذاب کا مزہ چکھو اپنے اُس انکارِ حق کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو۔29 36 - جن لوگوں نے حق کو ماننے سے انکار کیا ہے وہ اپنے مال خدا کے راستے سے روکنے کے لیے صَرف کر رہے ہیں اور ابھی وہ خرچ کرتے رہیں گے۔ مگر آخرِ کار یہی کوششیں ان کے لیے پچھتاوے کا سبب بنیں گی ، پھر وہ مغلوب ہوں گے، پھر یہ کافر جہنم کی طرف گھیر لائے جائیں گے 37 - تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے اور ہر قسم کی گندگی کو ملا کر اکٹھا کرے پھر اس پلندے کو جہنم میں جھونک دے، یہی لوگ اصلی دیوالیے ہیں۔30 ؏ ۴


Notes

24. کسوٹی اُس چیز کو کہتے ہیں جو کھرے اور کھوٹے کے امتیاز کو نمایاں کرتی ہے۔ یہی مفہوم”فرقان“کا بھی ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے۔ ارشاد الہٰی کا منشا یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں اللہ سے ڈرتے ہو ئے کام کرو تو تمہاری دلی خواہش یہ ہو کہ تم سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہونے پائے جو رضائے الہٰی کے خلاف ہو، تو اللہ تعالیٰ تمہارے اندر وہ قوت تمیز پیدا کردے گا جس سے قدم قدم پر تمہیں خود یہ معلوم ہوتا رہے گا کہ کونسا رویہ صحیح ہے اور کونسا غلط ، کس رویہ میں خدا کی رضا ہے اور کس میں اس کی ناراضی۔ زندگی کے ہر موڑ ، ہر دوراہے، ہر نشیب اور ہر فراز پر تمہاری اندرونی بصیرت تمہیں بتانے لگے گی کہ کدھر قدم اُٹھانا چاہے اور کدھر نہ اٹھانا چاہیے، کونسی راہ حق ہے اور خدا کی طرف جاتی ہے اور کونسی راہ باطل ہے اور شیطان سے ملاتی ہے۔

25. یہ اس موقع کا ذکر ہے جبکہ قریش کا یہ اندیشہ یقین کی حد کو پہنچ چکا تھا کہ اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ چلے جائیں گے۔ اس وقت وہ آپس میں کہنے لگے اکہ اگر یہ شخص مکہ سے نکل گیا تو پھر خطرہ ہمارے قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے معاملہ میں ایک آخری فیصلہ کرنے کے لیے دار النَّددَہ میں تمام رؤسائے قوم کا ایک اجتماع کیا اور اس امر پر باہم مشاورت کی کہ اس خطرے کا سدّباب کس طرح کیا جا ئے۔ ایک فریق کی رائے یہ تھی کہ اس شخص کو بیڑیاں پہنا کر ایک جگہ قید کر دیا جائے اور جیتے جی رہا نہ کیا جائے۔ لیکن اس رائے کو قبول نہ کیا گیا کیونکہ کہنے والوں نے کہا کہ اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے جو ساتھی قید خانے سے باہر ہونگے وہ برابر اپنا کام کرتے رہیں گے اور جب ذرا بھی قوت پکڑ لیں گے تو اسے چھڑانے کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے میں بھی دریغ نہ کریں گے۔ دوسرے فریق کی رائے یہ تھی کہ اسے اپنے ہاں سے نکال دو ۔ پھر جب یہ ہمارے درمیان نہ رہے تو ہمیں اس سے کچھ بحث نہیں کہ کہاں رہتا ہے اور کیا کرتا ہے ، بہر حال اس کے وجود سے ہمارے نظام زندگی میں خلل پڑنا تو بند ہو جائے گا۔ لیکن اسے بھی یہ کہہ کر رد کر دیا گیا کہ یہ شخص جادو بیان آدمی ہے ، دلوں کو موہنے میں اسے بلا کا کمال حاصل ہے، اگر یہ یہاں سے نکل گیا تو نہ معلوم عرب کے کن کن قبیلوں کو اپنا پیرو بنالے گا اور پھر کتنی قوت حاصل کرکے قلب عرب کو اپنے اقتدار میں لانے کے لیے تم پر حملہ آور ہو گا ۔ آخر کار ابو جہل نے یہ رائے پیش کی کہ ہم اپنے تمام قبیلوں میں سے ایک ایک عالی نسبت تیزدست جوان منتخب کریں اور یہ سب مل کر یک بارگی محمد ؐ پر ٹوٹ پڑیں اور اسے قتل کر ڈالیں۔ اس طرح محمد ؐ کا خون تمام قبیلوں پر تقسیم ہو جائے گا اور بنو عبد مناف کے لیے ناممکن ہو جائے گا کہ سب سے لڑ سکیں اس لیے مجبوراً خوں بہا پر فیصلہ کرنے کے لیے راضی ہوجائیں گے۔ اس رائے کو سب نے پسند کیا، قتل کے لیے آدمی بھی نامزد ہوگئے اور قتل کا وقت بھی مقرر کر دیا گیا،حتیٰ کہ جو رات اس کام کے لیے تجویز کی گئی تھی اس میں ٹھیک وقت پر قاتلوں کا گروہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچ بھی گیا، لیکن ان کا ہاتھ پڑنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آنکھوں میں خاک جھونک کر نکل گئے اور ان کی بنی بنائی تدبیر عین وقت پر ناکام ہو کر رہ گئی۔

26. یہ بات وہ دعا کے طور پر نہیں کہتے تھے بلکہ چیلنج کے انداز میں کہتے تھے۔ یعنی ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر واقعی یہ حق ہوتا اور خدا کی طرف سے ہوتا تو اس کے جھٹلانے کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم پر آسمان سے پتھر برستے اور عذاب الیم ہمارے اوپر ٹوٹ پڑتا۔ مگر جب ایسا نہیں ہوتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ نہ حق ہے نہ منِ جانب اللہ ہے۔

27. یہ ان کے اس سوال کا جواب ہے جو ان کی اوپر والی ظاہری دعامیں متضمن تھا ۔ اس جواب میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکی دور میں کیوں عذاب نہیں بھیجا۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ جب تک نبی کسی بستی میں موجود ہو اور حق کی طرف دعوت دے رہا ہو اس وقت تک بستی کے لوگوں کو مہلت دی جاتی ہے اور عذاب بھیج کر قبل از وقت ان سے اصلاح پذیری کا موقع سلب نہیں کر لیاجاتا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب تک بستی میں سے ایسے لوگ پے در پے نکلتے چلے آرہے ہوں جو اپنی سابقہ غفلت اور غلط روی پر متنبہ ہو کر اللہ سے معافی کی درخواست کرتے ہوں اور آئندہ کے لیے اپنے رویہ کی اصلاح کر لیتے ہوں، اس وقت تک کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ خواہ مخواہ اس بستی کو تباہ کر کے رکھ دے۔ البتہ عذاب کا اصلی وقت وہ ہوتا ہے جب نبی اس بستی پر حجّت پوری کرنے کے بعد مایوس ہو کر وہاں سے نکل جائے یا نکال دیا جائے یا قتل کر ڈالا جائے، اور وہ بستی اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دے کہ وہ کسی صالح عنصر کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

28. یہ اشارہ اس غلط فہمی کی تردید میں ہے جو لوگوں کے دلوں میں چھپی ہوئی تھی اور جس سے عام طور پر اہلِ عرب دھوکا کھارہے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ قریش چونکہ بیت اللہ کے مجاور اور متولی ہیں اور وہاں عبادت بجا لاتے ہیں اس لیے ان پر اللہ کا فضل ہے ۔ اس کے رد میں فرمایا کہ محض میراث میں مجاورت اور تو لیت پالینے سے کوئی شخص یا گروہ کسی عبادتگاہ کا جائز مجاورومتولی نہیں ہو سکتا ۔ جائز مجاور و متولی تو صرف خدا ترس اور پر ہیز گار لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔اور ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ ایک جماعت کو، جو خالص خدا کی عبادت کر نے والی ہے ، اُس عبادت گاہ میں آنے سے روکتے ہیں جو خا لص خدا کی عبادت ہی کے لیے وقف کی گئی تھی۔ اس طرح یہ متولی اور خادم بن کر ہنے کے بجائے اس عبادت گاہ کے مالک بن بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو اس بات کا مختار سمجھنے لگے ہیں کہ جس سے یہ ناراض ہوں اسے عبادت گاہ میں نہ آنے دیں۔ یہ حرکت ان کے ناخدا ترس اور نا پر ہیز گار ہونے کے صریح دلیل ہے۔ رہی ان کی عبادت جو وہ بیت اللہ میں کرتے ہیں تو اس کے اندر نہ خضوع و خشوع ہے، نہ تو جہ الی اللہ ہے، نہ ذکر الہٰی ہے، بس ایک بے معنی شور و غل اور لہو و لعب ہے جس کا نام انہوں نے عبادت رکھ چھوڑا ہے۔ ایسی نام و نہاد خدمت بیت اللہ اور ایسی جھوٹی عبادت پر آخر یہ فضلِ الہٰی کے مستحق کیسے ہوگئے اور یہ چیز انہیں عذاب الہٰی سے کیونکر محفوظ رکھ سکتی ہے؟

29. وہ سمجھتے تھے کہ عذاب ِ الہٰی صرف آسمان سے پتھروں کی شکل میں یا کسی اور طرح قوائے فطرت کے ہیجان ہی کی شکل میں آیا کرتا ہے۔ مگر یہاں انہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ بدر میں اُن کی فیصلہ کن شکست ، جس کی وجہ سے اسلام کے لیے زندگی کا اور قدیم نظام جاہلیت کے لیے موت کا فیصلہ ہوا ہے، دراصل ان کے حق میں اللہ کا عذاب ہی ہے۔

30. اس سے بڑھ کر دیوالیہ پن اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان جس راہ میں اپنا تمام وقت ، تمام محنت ، تمام قابلیت، اور پورا سرمایہ زندگی کھپا دے اُس کی انتہا پر پہنچ کر اسے معلوم ہو کہ وہ اسے سیدھی تباہی کی طرف لے آئی ہے اور اس راہ میں جو کچھ اس نے کھپا یا ہے اس پر کوئی سود یا منافع پانے کے بجائے اسے اُلٹا جرمانہ بھگتنا پڑے گا۔