Tafheem ul Quran
Surah 8 Al-Anfal, Ayat 38-40
قُلْ لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ يَّنۡتَهُوۡا يُغۡفَرۡ لَهُمۡ مَّا قَدۡ
سَلَفَۚ وَاِنۡ يَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِيۡنَ ﴿8:38﴾
وَقَاتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ كُلُّهٗ
لِلّٰهِۚ فَاِنِ انْـتَهَوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ﴿8:39﴾
وَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ مَوۡلٰٮكُمۡؕ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰى
وَنِعۡمَ النَّصِيۡرُ ﴿8:40﴾
38 - اے نبی ؐ ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آجائیں تو جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن یہ اگر اُسی پچھلی روِش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا وہ سب کو معلوم ہے۔
39 - اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔31 پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو اُن کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے،
40 - اور وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے۔
Notes
31. یہاں پھر مسلمانوں کی جنگ کے اُسی ایک مقصد کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے سورة بقرۃ آیت ۱۹۳ میں بیان کیا گیا تھا۔ اس مقصد کا سلبی جز یہ ہے کہ فتنہ باقی نہ رہ رہے، اور ایجابی جزء یہ ہے کہ دین بالکل اللہ کے لیے ہو جائے بس یہی ایک اخلاقی مقصد ایسا ہے جس کے لیے لڑنا اہل ایمان کے لیے جائز بلکہ فرض ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے مقصد کی لڑائی جائزنہیں ہے اور نہ اہل ایمان کو زیبا ہے کہ اُس میں کسی طرح حصہ لیں ۔(تشریح کے یے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حواشی ۲۰۴ و ۲۰۵)