Tafheem ul Quran

Surah 8 Al-Anfal, Ayat 38-44

قُلْ لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ يَّنۡتَهُوۡا يُغۡفَرۡ لَهُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَۚ وَاِنۡ يَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِيۡنَ‏ ﴿8:38﴾ وَقَاتِلُوۡهُمۡ حَتّٰى لَا تَكُوۡنَ فِتۡنَةٌ وَّيَكُوۡنَ الدِّيۡنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ​ۚ فَاِنِ انْـتَهَوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿8:39﴾ وَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ مَوۡلٰٮكُمۡ​ؕ نِعۡمَ الۡمَوۡلٰى وَنِعۡمَ النَّصِيۡرُ‏ ﴿8:40﴾ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَلِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ اِنۡ كُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰهِ وَمَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا يَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ يَوۡمَ الۡتَقَى الۡجَمۡعٰنِ​ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿8:41﴾ اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَةِ الدُّنۡيَا وَهُمۡ بِالۡعُدۡوَةِ الۡقُصۡوٰى وَ الرَّكۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡكُمۡ​ؕ وَلَوۡ تَوَاعَدْتُّمۡ لَاخۡتَلَفۡتُمۡ فِى الۡمِيۡعٰدِ​ۙ وَلٰـكِنۡ لِّيَقۡضِىَ اللّٰهُ اَمۡرًا كَانَ مَفۡعُوۡلًا ۙ لِّيَهۡلِكَ مَنۡ هَلَكَ عَنۡۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحۡيٰى مَنۡ حَىَّ عَنۡۢ بَيِّنَةٍ​ ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌۙ‏ ﴿8:42﴾ اِذۡ يُرِيۡكَهُمُ اللّٰهُ فِىۡ مَنَامِكَ قَلِيۡلًا ؕ وَّلَوۡ اَرٰٮكَهُمۡ كَثِيۡرًا لَّـفَشِلۡـتُمۡ وَلَـتَـنَازَعۡتُمۡ فِى الۡاَمۡرِ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَ​ؕ اِنَّهٗ عَلِيۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ‏ ﴿8:43﴾ وَ اِذۡ يُرِيۡكُمُوۡهُمۡ اِذِ الۡتَقَيۡتُمۡ فِىۡۤ اَعۡيُنِكُمۡ قَلِيۡلًا وَّيُقَلِّلُكُمۡ فِىۡۤ اَعۡيُنِهِمۡ لِيَـقۡضِىَ اللّٰهُ اَمۡرًا كَانَ مَفۡعُوۡلًا ؕ وَاِلَى اللّٰهِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ‏ ﴿8:44﴾

38 - اے نبی ؐ ، ان کافروں سے کہو کہ اگر اب بھی باز آجائیں تو جو کچھ پہلے ہوچکا ہے اس سے درگزر کر لیا جائے گا، لیکن یہ اگر اُسی پچھلی روِش کا اعادہ کریں گے تو گزشتہ قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا وہ سب کو معلوم ہے۔ 39 - اے ایمان لانے والو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہو جائے۔31 پھر اگر وہ فتنہ سے رُک جائیں تو اُن کے اعمال کا دیکھنے والا اللہ ہے، 40 - اور وہ نہ مانیں تو جان رکھو کہ اللہ تمہارا سرپرست ہے اور وہ بہترین حامی و مددگار ہے۔ 41 - [الجزء ۱۰] اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مالِ غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصّہ اللہ اور اس کےرسول ؐ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے،32 اگر تم ایمان لائے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو فیصلے کے روز، یعنی دونوں فوجوں کی مڈ بھیڑ کے دن، ہم نے اپنے بندے پر نازل کی تھی،33 (تو یہ حصّہ بخوشی ادا کرو)۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 42 - یاد کرو وہ وقت جبکہ تم وادی کے اِس جانب تھے اور وہ دُوسری جانب پڑاوٴ ڈالے ہوئے تھے اور قافلہ تم سے نیچے (ساحل )کی طرف تھا۔ اگر کہیں پہلے سے تمہارے اور ان کے درمیان مقابلہ کی قرار داد ہوچکی ہوتی تو تم ضرور اس موقع پر پہلو تہی کرجاتے، لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لیے تھا کہ جس بات کا فیصلہ اللہ کر چکا تھا اسے ظہور میں لے آئے تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ زندہ رہے 34، یقیناً خدا سُننے اور جاننے والا ہے۔35 43 - اور یاد کرو وہ وقت جبکہ اے نبی ؐ ، خدا اُن کو تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا۔36 اگر کہیں وہ تمہیں اُن کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لڑائی کے معاملہ میں جھگڑا شروع کر دیتے، لیکن اللہ ہی نے اِس سے تمہیں بچایا، یقیناً وہ سینوں کا حال تک جانتا ہے۔ 44 - اور یاد کرو جب کہ مقابلے کے وقت خدا نے تم لوگوں کی نگاہوں میں دشمنوں کو تھوڑا دکھایا اور ان کی نگاہوں میں تمہیں کم کر کے پیش کیا، تاکہ جو بات ہوئی تھی اُسے اللہ ظہور میں لے آئے، اور آخرِ کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ؏ ۵


Notes

31. یہاں پھر مسلمانوں کی جنگ کے اُسی ایک مقصد کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے سورة بقرۃ آیت ۱۹۳ میں بیان کیا گیا تھا۔ اس مقصد کا سلبی جز یہ ہے کہ فتنہ باقی نہ رہ رہے، اور ایجابی جزء یہ ہے کہ دین بالکل اللہ کے لیے ہو جائے بس یہی ایک اخلاقی مقصد ایسا ہے جس کے لیے لڑنا اہل ایمان کے لیے جائز بلکہ فرض ہے۔ اس کے سوا کسی دوسرے مقصد کی لڑائی جائزنہیں ہے اور نہ اہل ایمان کو زیبا ہے کہ اُس میں کسی طرح حصہ لیں ۔(تشریح کے یے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، حواشی ۲۰۴ و ۲۰۵)

32. یہاں اُس مال غنیمت کی تقسیم کا قانون بتایا ہے جس کے متعلق تقریر کی ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کا انعام ہے جس کے بارے میں فیصلہ کرنے کااختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے۔ اب وہ فیصلہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑائی کے بعد تمام سپاہی ہر طرح کا مال غنیمت لا کر امیر یا امام کے سامنے رکھ دیں اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھیں ۔ پھر اس مال میں سے پانچواں حصہ اُن اغراض کے لیے نکال لیا جائے جو آیت میں بیان ہوئی ہیں، اور باقی چار حصے ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا ہو۔ چنانچہ اس آیت کےمطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لڑائی کے بعد اعلان فرمایا کرتے تھے کہ ان ھٰذہ غنائمکم و انہ لیس لے فیھا الا نصیبی معکم الخمس ولاخمس مردود علیکم جا دو ا الخیط المخیط و اکبر من ذٰلک و اصغر ولا تغلوا جان الغلول عار و نار۔”یہ غنائم تمہارے ہی لیے ہیں، میری اپنی ذات کا ان میں کوئی حصہ نہیں ہے بجز خمس کے اور وہ خمس بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پر صرف کر دیا جاتا ہے ۔“ لہٰذا ایک ایک سوئی اورایک ایک تاگا تک لا کررکھ دو، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز چھپا کر نہ رکھو کہ ایسا کرنا شرمناک ہے اور اس کا نتیجہ دوزخ ہے۔

اس تقسیم میں اللہ اور رسول کا حصہ ایک ہی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ خمس کا ایک جزء اعلاء کلمتہ اللہ اور اقامت دینِ حق کے کام میں صرف کیا جائے

رشتہ داروں سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو حضور ہی کے رشتہ دار تھے کیونکہ جب آپ اپنا سارا وقت دین کےکام میں صرف فرماتے تھے اور اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ رہا تھا تو لامحالہ اس کا انتظام ہونا چاہیے تھا کہ آپ کی اور آپ کے اہل و عیال اور اُن دوسرے اقربا کی، جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی، ضروریات پوری ہوں اس لیے خمس میں آپ کے اقربا کا حصہ رکھا گیا۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضور کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا یہ حصہ کس کو پہنچتا ہے۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حصہ منسوخ ہو گیا۔ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ حضور کے بعد یہ حصہ اس شخص کے اقربا کو پہنچے گا جو حضور کی جگہ خلافت کی خدمت انجام دے۔ تیسرے گروہ کے نزدیک یہ حصہ خاندان نبوت کے فقراء میں تقسیم کیا جاتا رہے گا۔ جہاں تک میں تحقیق کر سکا ہوں خلفاء راشدین کے زمانہ میں اسی تیسری رائے پر عمل ہوتا تھا۔

33. یعنی وہ تائید وہ نصرت جس کی بدولت تمہیں فتح حاصل ہوئی۔

34. یعنی ثابت ہو جائے کہ جو زندہ رہا اسے زندہ ہی رہنا چاہیے تھا اور جو ہلاک ہوا اسے ہلاک ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں زندہ رہنے والے اور ہلاک ہونے والے سے مراد افراد نہیں ہیں بلکہ اسلام اور جاہلیت ہیں۔

35. یعنی خدا اندھا، بہرا، بے خبر خدا نہیں ہے بلکہ دانا و بینا ہے ۔ اس کی خدا ئی میں اندھا دُھند کام نہیں ہو رہا ہے۔

36. یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ سے نکل رہے تھے یا راستہ میں کسی منزل پر تھے اور یہ متحقق نہ ہوا تھا کہ کفار کا لشکر فی الواقع کتنا ہے ۔ اس وقت حضور ؐ نے خواب میں اس لشکر کو دیکھا اور جو منظر آپ کے سامنے پیش کیا گیا اس سے آپ نے اندازہ لگایا کہ دشمنوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہیں ہے ۔ یہی خواب آپ نے مسلمانوں کو سنا دیا اور اس سے ہمت پا کر مسلمان آگے بڑھتے چلے گئے۔