32. یہاں اُس مال غنیمت کی تقسیم کا قانون بتایا ہے جس کے متعلق تقریر کی ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کا انعام ہے جس کے بارے میں فیصلہ کرنے کااختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے۔ اب وہ فیصلہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑائی کے بعد تمام سپاہی ہر طرح کا مال غنیمت لا کر امیر یا امام کے سامنے رکھ دیں اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھیں ۔ پھر اس مال میں سے پانچواں حصہ اُن اغراض کے لیے نکال لیا جائے جو آیت میں بیان ہوئی ہیں، اور باقی چار حصے ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا ہو۔ چنانچہ اس آیت کےمطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لڑائی کے بعد اعلان فرمایا کرتے تھے کہ ان ھٰذہ غنائمکم و انہ لیس لے فیھا الا نصیبی معکم الخمس ولاخمس مردود علیکم جا دو ا الخیط المخیط و اکبر من ذٰلک و اصغر ولا تغلوا جان الغلول عار و نار۔”یہ غنائم تمہارے ہی لیے ہیں، میری اپنی ذات کا ان میں کوئی حصہ نہیں ہے بجز خمس کے اور وہ خمس بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پر صرف کر دیا جاتا ہے ۔“ لہٰذا ایک ایک سوئی اورایک ایک تاگا تک لا کررکھ دو، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز چھپا کر نہ رکھو کہ ایسا کرنا شرمناک ہے اور اس کا نتیجہ دوزخ ہے۔
اس تقسیم میں اللہ اور رسول کا حصہ ایک ہی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ خمس کا ایک جزء اعلاء کلمتہ اللہ اور اقامت دینِ حق کے کام میں صرف کیا جائے
رشتہ داروں سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو حضور ہی کے رشتہ دار تھے کیونکہ جب آپ اپنا سارا وقت دین کےکام میں صرف فرماتے تھے اور اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ رہا تھا تو لامحالہ اس کا انتظام ہونا چاہیے تھا کہ آپ کی اور آپ کے اہل و عیال اور اُن دوسرے اقربا کی، جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی، ضروریات پوری ہوں اس لیے خمس میں آپ کے اقربا کا حصہ رکھا گیا۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضور کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا یہ حصہ کس کو پہنچتا ہے۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حصہ منسوخ ہو گیا۔ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ حضور کے بعد یہ حصہ اس شخص کے اقربا کو پہنچے گا جو حضور کی جگہ خلافت کی خدمت انجام دے۔ تیسرے گروہ کے نزدیک یہ حصہ خاندان نبوت کے فقراء میں تقسیم کیا جاتا رہے گا۔ جہاں تک میں تحقیق کر سکا ہوں خلفاء راشدین کے زمانہ میں اسی تیسری رائے پر عمل ہوتا تھا۔
33. یعنی وہ تائید وہ نصرت جس کی بدولت تمہیں فتح حاصل ہوئی۔
34. یعنی ثابت ہو جائے کہ جو زندہ رہا اسے زندہ ہی رہنا چاہیے تھا اور جو ہلاک ہوا اسے ہلاک ہی ہونا چاہیے تھا۔ یہاں زندہ رہنے والے اور ہلاک ہونے والے سے مراد افراد نہیں ہیں بلکہ اسلام اور جاہلیت ہیں۔
35. یعنی خدا اندھا، بہرا، بے خبر خدا نہیں ہے بلکہ دانا و بینا ہے ۔ اس کی خدا ئی میں اندھا دُھند کام نہیں ہو رہا ہے۔
36. یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ سے نکل رہے تھے یا راستہ میں کسی منزل پر تھے اور یہ متحقق نہ ہوا تھا کہ کفار کا لشکر فی الواقع کتنا ہے ۔ اس وقت حضور ؐ نے خواب میں اس لشکر کو دیکھا اور جو منظر آپ کے سامنے پیش کیا گیا اس سے آپ نے اندازہ لگایا کہ دشمنوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہیں ہے ۔ یہی خواب آپ نے مسلمانوں کو سنا دیا اور اس سے ہمت پا کر مسلمان آگے بڑھتے چلے گئے۔