Tafheem ul Quran

Surah 8 Al-Anfal, Ayat 45-48

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِيۡتُمۡ فِئَةً فَاثۡبُتُوۡا وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ​ۚ‏ ﴿8:45﴾ وَاَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَتَذۡهَبَ رِيۡحُكُمۡ​ وَاصۡبِرُوۡا​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ​ۚ‏ ﴿8:46﴾ وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ بَطَرًا وَّرِئَآءَ النَّاسِ وَ يَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ؕ وَاللّٰهُ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ مُحِيۡطٌ‏  ﴿8:47﴾ وَاِذۡ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيۡطٰنُ اَعۡمَالَهُمۡ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَـكُمُ الۡيَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَاِنِّىۡ جَارٌ لَّـكُمۡ​ۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَيۡهِ وَقَالَ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّنۡكُمۡ اِنِّىۡۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّىۡۤ اَخَافُ اللّٰهَ​ؕ وَاللّٰهُ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏ ﴿8:48﴾

45 - اے ایمان لانے والو، جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو ، توقع ہے کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوگی۔ 46 - اور اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی ۔ صبر سے کام لو،37 یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ 47 - اور اُن لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کرو جو اپنے گھروں سے اِتراتے اور لوگوں کو اپنی شان دِکھاتے ہوئے نکلے اور جن کی روش یہ ہے کہ اللہ کے راستے سے روکتے ہیں،38 جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ اللہ کی گرفت سے باہر نہیں ہے۔ 48 - ذرا خیال کرو اس وقت کا جب کہ شیطان نے ان لوگوں کے کرتُوت ان کی نگاہوں میں خوشنما بنا کر دکھائے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور یہ کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مگر جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ اُلٹے پاوٴں پھر گیا اور کہنے لگا کہ میرا تمہارا ساتھ نہیں ہے ، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم لوگ نہیں دیکھتے، مجھے خدا سے ڈر لگتا ہے اور خدا بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔ ؏ ۶


Notes

37. یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھو۔ جلد بازی ، گھبراہٹ، ہِراس،طمع اور نا مناسب جوش سے بچو۔ ٹھنڈے دل اور جچی تلی قوت فیصلہ کےساتھ کام کرو۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیظ و غضب کا ہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سرزد نہ کرانے پائے۔ مصائب کا حملہ ہواور حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں تو اضطراب میں تمہارے حواس پر اگندہ نہ ہو جائیں۔ حصول مقصد کے شوق سے بے قرار ہو کر یا کسی نیم پختہ تدبیر کو سر سری نظر میں کارگر دیکھ کر تمہارے ارادے شتاب کاری سے مغلوب نہ ہوں۔ اور اگر کبھی دنیوی فوائد و منافع اور لذاتِ نفس کی تر غیبات تمہیں اپنی طرف لبھا رہی ہوں تو ان کے مقابلہ میں بھی تمہارا نفس اس درجہ کمزور نہ ہو کہ بے اختیار ان کیطرف کھینچ جاؤ۔ یہ تمام مفہومات صرف ایک لفظ”صبر“میں پوشیدہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان تمام حیثیات سے صابر ہوں ، میری تائید انہی کو حاصل ہے۔

38. اشارہ ہے کفار قریش کی طرف، جن کا لشکر مکہ سےا س شان سے نکلا تھا کہ گانے بجانے والی لونڈیاں ساتھ تھیں، جگہ جگہ ٹھیر کر رقص وسردد اور شراب نوشی کی محفلیں برپا کرتے جا رہے تھے، جو جو قبیلے اور قریے راستہ میں ملتے تھے ان پر اپنی طاقت و شوکت اور اپنی کثرت تعداد اور اپنے سروسامان کا رعب جماتے تھے اور ڈینگیں مارتے تھے کہ بھلا ہمارے مقابلہ میں کون سر اٹھا سکتا ہے۔ یہ تو تھی ان کی اخلاقی حالت۔، اور اس پر مزید لعنت یہ تھی کہ ان کے نکلنے کا مقصد ان کے اخلاق سے بھی زیادہ ناپاک تھا۔ وہ اس لیے جان و مال کی بازی لگانے نہیں نکلے تھے کہ حق اور راستی اور انصاف کا علم بلند ہو، بلکہ اس لیے نکلے تھے کہ ایسا نہ ہونے پائے، ور وہ اکیلا گروہ بھی جو دنیا میں اس مقصد حق کے لیے اٹھا ہے ختم کر دیا جائے تا کہ اس علم کو اٹھا نے والا دنیا بھر میں کوئی نہ رہے۔ اس پر مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ تم کہیں ایسے نہ بن جانا۔ تمہیں اللہ نے ایمان اور حق پرستی کی جو نعمت عطا کی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمہارے اخلاق بھی پا کیزہ ہوں اور تمہارا مقصد جنگ بھی پاک ہو۔

یہ ہدایت اُسی زمانہ کے لیے نہ تھی، آج کے لیے بھی ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔ کفار کی فوجوں کا جو حال اُس وقت تھا وہی آج بھی ہے۔ قحبہ خانے اور فواحش کے اڈے اور شراب کے پیپے ان کے ساتھ جزولا نیفک کی طرح لگے رہتے ہیں۔ خفیہ طور پر نہیں۔ بلکہ علی الاعلان نہایت بے شرمی کے ساتھ وہ عورتوں اور شراب کا زیادہ سے زیادہ راشن مانگتے ہیں اور ان کے سپاہیوں کو خود اپنی قوم ہی سے یہ مطالبہ کرنے میں باک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو بڑی سے بڑی تعداد میں ان کی شہوات کا کھلونا بننے کے لیے پیش کرے۔ پھر بھلا کوئی دوسری قوم ان سے کیا امید کر سکتی ہے کہ یہ اس کو اپنی اخلاقی گندگی کی سنڈاس بنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں گے ۔ رہا ان کا تکبر اور تفاخر تو ان کے ہر سپاہی اور ہر افسر کی چال ڈھال اور انداز گفتگو میں وہ نمایاں دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں سے ہر قوم کے مدبرین کی تقریروں میں لا غالب لکم الیوم اور من اشد منا قوة کی ڈینگیں سُنی جا سکتی ہیں۔ان اخلاقی نجاستوں سے زیادہ نا پاک ان کے مقاصد جنگ ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نہایت مکاری کے ساتھ دنیا کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے پیش نظر انسانیت کی فلاح کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ مگر درحقیقت ان کے پیش نظر ایک فلاح انسانیت ہی نہیں ہے، باقی سب کچھ ہے۔ ان کی لڑائی کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا نے اپنی زمین میں جو کچھ سارے انسانوں کے لیے پیدا کیا ہے اس پر تنہاان کی قوم متصرف ہو اور دوسرے اس کے چاکر اور دست نگر بن کر رہیں۔ پس اہل ایمان کو قرآن کی یہ دائمی ہدایت ہے کہ ان فساق و فجار کے طور طریقوں سے بھی بچیں اور اُن ناپاک مقاصد میں بھی اپنی جان و مال کھپانے سے پر ہیز کریں جن کے لیے یہ لوگ لڑتے ہیں۔