Tafheem ul Quran

Surah 8 Al-Anfal, Ayat 49-58

اِذۡ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ غَرَّ هٰٓؤُلَاۤءِ دِيۡنُهُمۡؕ وَمَنۡ يَّتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿8:49﴾ وَ لَوۡ تَرٰٓى اِذۡ يَتَوَفَّى الَّذِيۡنَ كَفَرُوا​ ۙ الۡمَلٰٓـئِكَةُ يَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡهَهُمۡ وَاَدۡبَارَهُمۡۚ وَذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِيۡقِ‏ ﴿8:50﴾ ذٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَيۡدِيۡكُمۡ وَاَنَّ اللّٰهَ لَـيۡسَ بِظَلَّامٍ لِّـلۡعَبِيۡدِۙ‏  ﴿8:51﴾ كَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ​ۙ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ؕ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوۡبِهِمۡ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ قَوِىٌّ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ‏  ﴿8:52﴾ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمۡ يَكُ مُغَيِّرًا نِّـعۡمَةً اَنۡعَمَهَا عَلٰى قَوۡمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِهِمۡ​ۙ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌۙ‏ ﴿8:53﴾ كَدَاۡبِ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ​ۙ وَالَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ​ؕ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمۡ فَاَهۡلَكۡنٰهُمۡ بِذُنُوۡبِهِمۡ وَاَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ​ۚ وَكُلٌّ كَانُوۡا ظٰلِمِيۡنَ‏ ﴿8:54﴾ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنۡدَ اللّٰهِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا فَهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ​ ۖ​ ۚ‏ ﴿8:55﴾ اَلَّذِيۡنَ عَاهَدْتَّ مِنۡهُمۡ ثُمَّ يَنۡقُضُوۡنَ عَهۡدَهُمۡ فِىۡ كُلِّ مَرَّةٍ وَّهُمۡ لَا يَـتَّـقُوۡنَ‏ ﴿8:56﴾ فَاِمَّا تَثۡقَفَنَّهُمۡ فِى الۡحَـرۡبِ فَشَرِّدۡ بِهِمۡ مَّنۡ خَلۡفَهُمۡ لَعَلَّهُمۡ يَذَّكَّرُوۡنَ‏ ﴿8:57﴾ وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذۡ اِلَيۡهِمۡ عَلٰى سَوَآءٍ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡخَآئِنِيۡنَ‏ ﴿8:58﴾

49 - جب کہ منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں کو روگ لگا ہوا ہے، کہہ رہے تھے کہ اِن لوگوں کو تو اِن کے دین نے خبط میں مبتلا کر رکھا ہے۔39 حالانکہ اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ 50 - کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جب کہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے! وہ ان کے چہروں اور ان کے کُولہوں پر ضربیں لگانے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ”لو اب چلنے کی سزا بُھگتو، 51 - یہ وہ جزا ہے جس کا سامان تمہارے اپنے ہاتھوں نے پیشگی مہیّا کر رکھا تھا، ورنہ اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔“ 52 - یہ معاملہ ان کے ساتھ اُسی طرح پیش آیا جس طرح آلِ فرعون اور ان سے پہلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ پیش آتا رہا ہے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو ماننے سےانکار کیا اور اللہ نے ان کے گناہوں پر انہیں پکڑ لیا۔ اللہ قوت رکھتا ہے اور سخت سزا دینے والا ہے۔ 53 - یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی۔40 اللہ سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ 54 - آلِ فرعون اور ان سے پہلے کی قوموں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ اِسی ضابطہ کے مطابق تھا۔ انہوں نے اپنے ربّ کی آیات کو جھٹلایا تب ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں ہلاک کیا اور آلِ فرعون کو غرق کر دیا۔ یہ سب ظالم لوگ تھے۔ 55 - یقیناً اللہ کے نزدیک زمین پر چلنے والی مخلوق میں سب سے بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو ماننے سے انکار کر دیا پھر کسی طرح وہ اسے قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ 56 - (خصوصاً)ان میں سے وہ لوگ جن کے ساتھ تُو نے معاہدہ کیا پھر وہ ہر موقع پر اس کو توڑتے ہیں اور ذرا خدا کا خوف نہیں کرتے۔ 41 57 - پس اگر یہ لوگ تمہیں لڑائی میں مل جائیں تو ان کی ایسی خبر لو کہ ان کے بعد جو دوسرے لوگ ایسی روش اختیار کرنے والے ہوں ان کے حواس باختہ ہو جائیں۔42 توقع ہے کہ بد عہدوں کے اِس انجام سے وہ سبق لیں گے۔ 58 - اور اگر کبھی تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کے عَلانیہ اس کے آگے پھینک دو43، یقیناً اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا۔ ؏ ۷


Notes

39. یعنی مدینہ کے منافقین اور وہ سب لوگ جو دنیا پر ستی اور خدا سے غفلت کے مرض میں گرفتار تھے، یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سروسامان جماعت قریش جیسی زبردست طاقت سے ٹکرا نے کے لیے جارہی ہے، آپس میں کہتے تھے کہ یہ لوگ اپنے دینی جوش میں دیوانے ہو گئے ہیں، اس معرکہ میں ان کی تباہی یقینی ہے، مگر اس نبی نے کچھ ایسا افسوں ان پر پھونک رکھا ہے کہ ان کی عقل خبط ہو گئی ہے اور آنکھوں دیکھے یہ موت کے منہ میں چلے جارہے ہیں۔

40. یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی نعمت کا غیر مستحق نہیں بنا دیتی اللہ اس سے اپنی نعمت سلب نہیں کیا کرتا۔

41. یہاں خاص طور پر اشارہ ہے یہود کی طرف، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد سب سے پہلے انہی کے ساتھ حسن جوار اور باہمی تعاون و مددگاری کا معاہدہ کیا تھا اور اپنی حد تک پوری کوشش کی تھی کہ ان سے خوشگوار تعلقات قائم رہیں۔ نیز دینی حیثیت سے بھی آپ یہود کو مشرکین کی بہ نسبت اپنے قریب تر سمجھتے تھے اور ہر معاملہ میں مشرکین کے بالمقابل اہل کتاب ہی کے طریقہ کو ترجیح دیتے تھے۔ لیکن اُن کے علماء اور مشائخ کو توحیدِ خالص اور اخلاق صالحہ کی وہ تبلیغ اور اعتقادی و عملی گمراہیوں پر وہ تنقید اور اقامت دین حق کی وہ سعی، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے تھے، ایک آن نہ بھاتی تھی اور ان کی پیہم کوشش یہ تھی کہ یہ نئی تحریک کسی طرح کامیاب نہ ہونے پائے۔ اسی مقصد کے لیے وہ مدینہ کے منافق مسلمانوں سے ساز باز کرتے تھے۔اسی کے لیے وہ اَوس اور خَزرَج کے لوگوں میں ان پرانی عدادتوں کو بھڑکاتے تھے جوا سلام سے پہلے ان کے درمیان کشت و خون کی موجب ہوا کرتی تھیں۔اسی کے لیے قریش اور دوسرے مخالف ِ اسلام قبیلوں سے ان کی خفیہ سازشیں چل رہی تھیں اور یہ حرکات اُس معاہد ہ دوستی کے باوجود ہو رہی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے درمیان لکھا جا چکا تھا ۔ جب جنگ بدر واقع ہوئی تو ابتدا میں ان کو توقع تھی کہ قریش کی پہلی ہی چوٹ اس تحریک کا خاتمہ کر دے گی۔ لیکن جب نتیجہ ان کی توقعات کے خلاف نکلا تو اُن کے سینوں کی آتشِ حسد اور زیادہ بھڑک اُٹھی ۔ انہوں نے اس اندیشہ سے کہ بدر کی فتح کہیں اسلام کی طاقت کو ایک مستقل ”خطرہ“ نہ بنا دےاپنی مخالفانہ کوششوں کو تیز تر کر دیا ۔ حتٰی کہ اُن کا ایک لیڈر کعب بن اشرف(جو قریش کی شکست سنتے ہی چیخ اُٹھا تھا کہ آج زمین کا پیٹ ہمارے لیے اُس کی پیٹھ سے بہتر ہے) خود مکہ گیا اور وہاں سے اس نے ہیجان انگیز مرثیے کہہ کہہ کر قریش کو انتقام کا جوش دلا یا۔ اس پر بھی ان لوگوں نے بس نہ کی۔ یہودیوں کے قبیلہ بنی قینُقاع نے معاہدہ حسنِ جوار کے خلاف ان مسلمان عورتوں کو چھیڑنا شروع کیا جو ان کی بستی میں کسی کام سے جاتی تھیں۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حرکت پر ملامت کی تو انہوں نے جواب میں دھمکی دی کہ” یہ قریش نبا شد، ہم لڑنے مرنے والے لوگ ہیں اور لڑنا جانتے ہیں۔ ہمارے مقابلہ میں آؤ گے تب تمہیں پتہ چلے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔“

42. اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی قوم سے ہمارا معاہدہ ہو اور پھر وہ اپنی معاہدانہ ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر ہمارے خلاف کسی جنگ میں حصہ لے، تو ہم بھی معاہدے کی اخلاقی ذمہ داریوں سے سُبک دوش ہو جائیں گے اور ہمیں حق ہوگا کہ اس سے جنگ کریں ۔ نیز اگر کسی قوم سے ہماری لڑائی ہو رہی ہو اور ہم دیکھیں کہ دشمن کے ساتھ ایک ایسی قوم کے افراد بھی شریک جنگ ہیں جس سے ہمارا معاہدہ ہے، تو ہم ان کو قتل کرنے اور ان سے دشمن کا سا معاملہ کرنے میں ہر گز کوئی تامل نہ کریں گے، کیونکہ انہوں نے اپنی انفرادی حیثیت میں اپنی قوم کے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے اپنے آپ کو اس کا مستحق نہیں رہنے دیا ہے کہ ان کی جان و مال کے معاملہ میں اس معاہدے کا احترام ملحوظ رکھا جائے جو ہمارے اور ان کی قوم کے درمیان ہے۔

43. اس آیت کے رو سے ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز نہیں ہے کہ اگر کسی شخص یا گروہ یا ملک سے ہمارا معاہدہ ہو اور ہمیں اس کے طرزِ عمل سے یہ شکایت لاحق ہو جائے کہ وہ عہد کی پابندی میں کو تا ہی برت رہا ہے ، یا یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ وہ موقع پاتے ہی ہمارے ساتھ غداری کر بیٹھے گا، تو ہم اپنی جگہ خود فیصلہ کر لیں کہ ہمارے اور اس کے درمیان معاہدہ نہیں رہا اور یکایک اس کے ساتھ وہ طرز عمل اختیار کرنا شروع کردیں جو معاہدہ نہ ہونے کہ صورت ہی میں کیا جاسکتا ہو۔ اس کے برعکس ہمیں اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب ایسی صورت پیش آئے تو ہم کوئی مخالفانہ کاروائی کرنے سے پہلے فریق ثانی کو صاف صاف بتا دیں کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اب معاہدہ باقی نہیں رہا، تا کہ فسخ معاہدہ کا جیسا علم ہم کو حاصل ہے ویسا ہی اس کو بھی ہو جائے اور وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ معاہدہ اب بھی باقی ہے۔ اسی فرمان الہٰی کے مطابق بنی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی بین الاقوامی پالیسی کا یہ مستقل اصول قرار دیا تھا کہ من کان بینہ وبین قوم عھد فلا یحلن عقدہ حتی ینقضی امدھا او ینبذ الیھم عل سواء۔”جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو اسے چاہیے کہ معاہدہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے عہد کا بند نہ کھولے۔ یا نہیں تو ان کا عہد برابری کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کی طرف پھینک دے “۔ پھر اسی قاعدے کو آپ نے اور زیادہ پھیلا کر تمام معاملات میں عام اصول یہ قائم کیا تھا کہ لا تخن من خانک”جو تجھ سے خیانت کرے تو اس سےخیانت نہ کر“۔ اور یہ اصول صرف وعظوں میں بیان کرنے اور کتابوں کی زینت بننے کے لیے نہ تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی اس کی پابندی کی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد بادشاہی میں سرحد روم پر فوجوں کا اجتماع اس غرض سے کرنا شروع کیا کہ معاہدہ کی مدت ختم ہوتے ہی یکایک رومی علاقہ پر حملہ کر دیا جائے تو ان کی اس کاروائی پر عمروبن عَنبَسَہ صحابی ؓ نے سخت احتجاج کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی حدیث سنا کر کہا کہ معاہدہ کی مدت کے اندر یہ معاندانہ طرز عمل اختیار کرنا غداری ہے۔ آخر کار امیر معاویہ کو اس اصول کے آگے سر جھکا دینا پڑا اور سرحد پر اجتماع فوج روک دیا گیا۔

یک طرفہ فسخِ معاہدہ اور اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دینے کا طریقہ قدیم جاہلیت میں بھی تھا اور زمانہ حال کی مہذب جاہلیت میں بھی اس کا رواج موجود ہے۔ چنانچہ اس کی تازہ ترین مثالیں جنگ عظیم نمبر ۲ میں روس پر جرمنی کے حملے اور ایران کے خلاف روس و بر طانیہ کی فوجی کاروائی میں دیکھی گئی ہیں۔ عمو ماً اس کاروائی کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ حملہ سے پہلے مطلع کر دینے سے دوسرا فریق ہوشیار ہو جاتا اور سخت مقابلہ کرتا، یا اگر ہم مداخلت نہ کرتے تو ہمارا دشمن فائدہ اٹھا لیتا لیکن اس قسم کے بہانے اگر اخلاقی ذمہ داریوں کو ساقط کر دینے کے لیے کافی ہوں تو پھر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی بہانے نہ کیا جا سکتا ہو۔ ہر چور، ہر ڈاکو، ہر زانی، ہر قاتل، ہر جعلساز اپنے جرائم کے لیے ایسی ہی کوئی مصلحت بیان کر سکتا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ یہ لوگ بین الاقوامی سوسائٹی میں قوموں کے لیے اُن بہت سے افعال کو جائز سمجھتے ہیں جو خود ان کی نگاہ حرام ہیں جب کہ ان کا ارتکاب قومی سو سائٹی میں افراد کی جانب سے ہو۔

اس موقع پر یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون صرف ایک صورت میں بلا اطلاع حملہ کرنے کو جائز رکھتا ہے، اور وہ صورت یہ ہے کہ فریق ثانی علی العلان معاہدہ کو توڑ چکا ہو اور اس نے صریح طور پر ہمارے خلاف معاندانہ کارردائی کی ہو۔ ایسی صورت میں یہ ضروری نہیں رہتا کہ ہم اسے آیت مذکورہ بالا کے مطابق فسخ معاہدہ کا نوٹس دیں، بلکہ ہمیں اس کے خلاف بلا اطلاع جنگی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ فقہائے اسلام نے یہ استثنائی حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل سے نکالا ہے کہ قریش نے جب بنی خُزاعہ کے معاملہ میں صلح حُدَیبیہ کو علانیہ توڑ دیا تو آپ نے پھر انہیں فسخ معاہدہ کا نوٹس دینے کی کوئی ضرورت نہ سمجھی، بلکہ بلا اطلاع مکہ پر چڑھائی کر دی۔ لیکن اگر کسی موقع پر ہم اس قاعدہ استثناء سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو لازم ہے کہ وہ تمام حالات ہمارے پیش نظر رہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کارروائی کی تھی، تا کہ پیروی ہو تو آپ کے پورے طرز عمل کی ہو نہ کہ اس کے کسی ایک مفید مطلب جزء کی۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ:

اولاً، قریش کی خلاف ورزی عہد ایسی صریح تھی کہ اس کے نقض عہد ہونے میں کسی کلام کا موقع نہ تھا۔خود قریش کے لوگ بھی اس کے معترف تھے کہ واقعی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ انہوں نے خود ابو سفیان کو تجدید عہد کے لیے مدینہ بھیجا تھا جس کے صاف معنی یہی تھے کہ اُن کے نزدیک بھی عہد باقی نہیں رہا تھا۔ تا ہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ناقضِ عہد قوم کو خود بھی اپنے نقضِ عہد کا اعتراف ہو۔ البتہ یہ یقیناً ضروری ہے کہ نقضِ عہد بالکل صریح اور غیر مشتبہ ہو۔

ثانیاً، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے عہد ٹوٹ جانے کے بعد پھر اپنی طرف سے صرا حتہً یا اشارةً وکنایتہً ایسی کوئی بات نہیں کی کہ جس سے یہ ایماء نکلتا ہو کہ اس بد عہدی کے باوجود آپ ابھی تک اُن کو ایک معاہد قوم سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ آپ کے معاہدانہ روابط اب بھی قائم ہیں۔ تمام روایات بالاتفاق یہ بتاتی ہیں کہ جب ابو سفیان نے مدینہ آکر تجدید معاہدہ کی درخواست پیش کی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔

ثالثاً، قریش کے خلاف جنگی کارروائی آپ نے خود کی اور کھلم کھلا کی۔ کسی ایسی فریب کاری کا شائبہ تک آپ کے طرز عمل نہیں پایا جاتا کہ آپ نے بظاہر صلح اور بباطن جنگ کا کوئی طریقہ استعمال فرمایا ہو۔

یہ اس معاملہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے ، لہٰذا آیت مذکورہ بالا کے حکم عام سے ہٹ کر اگر کوئی کارروائی کی جا سکتی ہے تو ایسے ہی مخصوص حالات میں کی جاسکتی ہے اور اسی سیدھے سیدھے شریفانہ طریقہ سے کی جا سکتی ہے جو حضور نے اختیار فرمایا تھا۔

مزید براں اگر کسی معاہد قوم سے کسی معاملہ میں ہماری نزاع ہو جائے اور ہم دیکھیں کہ گفت وشنید یا بین الاقوامی ثالثی کے ذریعہ سے وہ نزاع طے نہیں ہوتی، یا یہ کہ فریق ثانی اس کو بزور طے کرنے پر تُلا ہوا ہے، تو ہمارے لیے یہ بالکل جائز ہے کہ ہم اس کو طے کرنے میں طاقت استعمال کریں۔لیکن آیت مذکورہ بالا ہم پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ ہمارا یہ استعمال طاقت صاف صاف اعلان کے بعد ہونا چاہیے اور کھلم کھلا ہونا چاہیے۔ چوری چھپے ایسی جنگی کاروائیاں کرنا جن کا علانیہ اقرار کرنے کے لیے ہم تیار نہ ہوں، ایک بد اخلاقی ہے جس کی تعلیم اسلام نے ہم کو نہیں دی ہے۔