Tafheem ul Quran

Surah 8 Al-Anfal, Ayat 59-64

وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا سَبَقُوۡا​ ؕ اِنَّهُمۡ لَا يُعۡجِزُوۡنَ‏  ﴿8:59﴾ وَاَعِدُّوۡا لَهُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّةٍ وَّمِنۡ رِّبَاطِ الۡخَـيۡلِ تُرۡهِبُوۡنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَاٰخَرِيۡنَ مِنۡ دُوۡنِهِمۡ​ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَهُمُ​ ۚ اَللّٰهُ يَعۡلَمُهُمۡ​ؕ وَمَا تُـنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ يُوَفَّ اِلَيۡكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ‏ ﴿8:60﴾ وَاِنۡ جَنَحُوۡا لِلسَّلۡمِ فَاجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ​ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ‏ ﴿8:61﴾ وَاِنۡ يُّرِيۡدُوۡۤا اَنۡ يَّخۡدَعُوۡكَ فَاِنَّ حَسۡبَكَ اللّٰهُ​ؕ هُوَ الَّذِىۡۤ اَيَّدَكَ بِنَصۡرِهٖ وَبِالۡمُؤۡمِنِيۡنَۙ‏ ﴿8:62﴾ وَاَلَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ​ؕ لَوۡ اَنۡفَقۡتَ مَا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا مَّاۤ اَلَّفۡتَ بَيۡنَ قُلُوۡبِهِمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيۡنَهُمۡ​ؕ اِنَّهٗ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿8:63﴾ يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ حَسۡبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏  ﴿8:64﴾

59 - منکرینِ حق اِس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ وہ بازی لے گئے، یقیناً وہ ہم کو ہرا نہیں سکتے۔ 60 - اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیّا رکھو 44تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوف زدہ کر دو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہو گا۔ 61 - اور اے نبی ؐ ، اگر دشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہو جاوٴ اور اللہ پر بھروسہ کرو، یقیناً وہی سب کچھ سُننے اور جاننے والا ہے۔ 62 - اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمہارے لیے اللہ کافی ہے۔45 وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائید کی 63 - اور مومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے۔ تم رُوئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو اِن لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے46، یقیناً وہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ 64 - اے نبی ؐ ، تمہارے لیے اور تمہارے پیرو اہلِ ایمان کے لیے تو بس اللہ کافی ہے۔ ؏ ۸


Notes

44. اس سے مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس سامان ِ جنگ اور ایک مستقل فوج(Standing army ) ہر وقت تیار رہنی چاہیے تاکہ بوقت ضرورت فوراً جنگی کارروائی کر سکو۔ یہ نہ ہو کہ خطرہ سر پر آنے کے بعد گھبراہٹ میں جلدی جلدی رضا کار اور اسلحہ اور سامان رسد جمع کرنے کی کوشش کی جائے اور اس اثنا میں کہ یہ تیاری مکمل ہو، دشمن اپنا کام کر جائے۔

45. یعنی بین الاقوامی معاملات میں تمہاری پا لیسی بزدلانہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ خدا کے بھروسہ پر بہادرانہ اور دلیرانہ ہونی چاہیے۔ دشمن جب گفتگوئے مصالحت کی خواہش ظاہر کرے، بے تکلف اس کے لیے تیار ہو جاؤ اور صلح کے لیے ہاتھ بڑھانے سے اس بنا پر انکار نہ کرو کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ صلح نہیں کرنا چاہتا بلکہ غداری کا ارادہ رکھتا ہے ۔ کسی کی نیت بہر حال یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکتی ۔ اگر وہ واقعی صلح ہی کی نیت رکھتا ہو تو تم خواہ مخواہ اس کی نیت پر شبہ کر کے خونریزی کو طول کیوں دو۔ اور اگر وہ غدر کی نیت رکھتا ہو تو تمہیں خدا کے بھروسے پر بہادر ہونا چاہیے۔ صلح کے لیے بڑھنے والے ہاتھ کے جواب میں ہاتھ بڑھاؤ تا کہ تمہاری اخلاقی بر تری ثابت ہو، اور لڑائی کے لیے اٹھنے والے ہاتھ کو اپنی قوت بازو سے توڑ کر پھینک دو تا کہ کبھی کوئی غدار قوم تمہیں نرم چارہ سمجھنے کی جرﺍت نہ کرے۔

46. اشارہ ہے اُس بھائی چارے اور الفت و محبت کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والے اہل عرب کے درمیان پیدا کر کے ان کو ایک مضبوط جتھا بنا دیا تھا، حالانکہ اس جتھے کے افراد اُن مختلف قبیلوں سے نکلے ہوئے تھے جن کے درمیان صدیوں سے دشمنیاں چلی آرہی تھیں۔ خصوصیت کے ساتھ اللہ کا یہ فضل اوس و خزرج کے معاملہ میں تو سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ یہ دونوں قبیلے دو ہی سال پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور مشہور جنگ بُعاث کو کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے جس میں اًوس نے خزرج کو اور خزرج نے اوس کو گویا صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا تہیہ کر لیا تھا۔ ایسی شدید عداوتوں کو دو تین سال کے اندر گہری دوستی و برادری میں تبدیل کر دینا اور ان متنا فر اجزا کو جوڑ کر ایسی ایک بنیان مرصوص بنا دینا جیسی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلامی جماعت تھی، یقیناً انسان کی طاقت سے بالا تر تھا اور دنیوی اسباب کی مدد سے یہ عظیم الشان کارنامہ انجام نہیں پا سکتا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہماری تائید و نصرت نے یہ کچھ کر دکھا یا ہے تو آئندہ بھی تمہاری نظر دنیوی اسباب پر نہیں بلکہ خدا کی تائید پر ہونی چاہیے کہ جو کچھ کام بنے گا اسی سے بنے گا۔