Tafheem ul Quran

Surah 8 Al-Anfal, Ayat 65-69

يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ عَلَى الۡقِتَالِ​ ؕ اِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ عِشۡرُوۡنَ صَابِرُوۡنَ يَغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ​ ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَ لۡفًا مِّنَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿8:65﴾ اَلۡـٰٔـنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنۡكُمۡ وَعَلِمَ اَنَّ فِيۡكُمۡ ضَعۡفًا​ؕ فَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغۡلِبُوۡا مِائَتَيۡنِ​ۚ وَاِنۡ يَّكُنۡ مِّنۡكُمۡ اَلۡفٌ يَّغۡلِبُوۡۤا اَلۡفَيۡنِ بِاِذۡنِ اللّٰهِؕ وَ اللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ‏  ﴿8:66﴾ مَا كَانَ لِنَبِىٍّ اَنۡ يَّكُوۡنَ لَهٗۤ اَسۡرٰى حَتّٰى يُثۡخِنَ فِى الۡاَرۡضِ​ؕ تُرِيۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡيَا ۖ  وَاللّٰهُ يُرِيۡدُ الۡاٰخِرَةَ​ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿8:67﴾ لَوۡلَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمۡ فِيۡمَاۤ اَخَذۡتُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿8:68﴾ فَكُلُوۡا مِمَّا غَنِمۡتُمۡ حَلٰلاً طَيِّبًا ۖ  وَّاتَّقُوا اللّٰهَ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿8:69﴾

65 - اے نبی ؐ ، مومنوں کو جنگ پر اُبھارو۔ اگر تم میں سے بیس آدمیں صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرینِ حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ 47 66 - اچھا، اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے،48 اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔ 67 - کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کُچل نہ دے۔ تم لوگ دُنیا کے فائدے چاہتے ہو ، حالانکہ اللہ کے پیشِ نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ 68 - اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم لوگوں نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔ 69 - پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاوٴ کہ وہ حلال اور پاک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو49، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏ ۹


Notes

47. آج کل کی اصطلاح میں جس چیز کو قوتِ معنوی یا قوتِ اخلاقی (Morale )کہتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسی کو فقہ و فہم اور سمجھ بوجھ (Understanding ) سے تعبیر کیا ہے، اور یہ لفظ اس مفہوم کے لیے جدید اصطلاح سے زیادہ سائنٹیفک ہے۔ جو شخص اپنے مقصد کا صحیح شعور رکھتا ہو اور ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر اس لیے لڑ رہا ہو کہ جس چیز کے لیے وہ جان کی بازی لگانے آیا ہے وہ اس کی انفرادی زندگی سے زیادہ قیمتی ہے اور اس کے ضائع ہو جانے کے بعد جینا بے قیمت ہے، وہ بے شعوری کے ساتھ لڑنے والے آدمی سے کئی گنی زیادہ طاقت رکھتا ہے اگر چہ جسمانی طاقت میں دونوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہو۔ پھر جس شخص کو حقیقت کا شعور حاصل ہو، جو اپنی ہستی اور خدا کی ہستی اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق اور حیات دنیا کی حقیقت اور موت کی حقیقت اور حیات بعد موت کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہو اور جسے حق اور باطل کے فرق اور غلبہ باطل کے نتائج کا بھی صحیح ادراک ہو، اس کی طاقت کو تو وہ لوگ بھی نہیں پہنچ سکتے جو قومیت یا وطنیت یا طبقاتی نزاع کا شعور لیے ہوئے میدان میں آئیں اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والے مومن اور ایک کافر کے درمیان حقیقت کے شعور اور عدم شعور کی وجہ سے فطرةً ایک اوردس کی نسبت ہے۔ لیکن یہ نسبت صرف سمجھ بوجھ سے قائم نہیں ہوتی بلکہ اس کے ساتھ صبر کی صفت بھی ایک لازمی شرط ہے۔

48. اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے ایک اور دس کی نسبت تھی اور اب چونکہ تم میں کمزوری آگئی ہے اس لیے ایک اور دو کی نسبت قائم کر دی گئی ہے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اصولی اور معیاری حیثیت سے تو اہل ایمان اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت ہے، لیکن چونکہ ابھی تم لوگوں کی اخلاقی تربیت مکمل نہیں ہوئی ہے اور ابھی تک تمہارا شعور اور تمہاری سمجھ بوجھ کا پیمانہ بلوغ کی حد کو نہیں پہنچا ہے اس لیے سردست بر سبیلِ تنزل تم سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے سے دوگنی طاقت سے ٹکرانے میں تو تمہیں کوئی تامل نہ ہونا چاہیے۔ خیال رہے کہ یہ ارشادسن۲ ھجری کا ہے جب کہ مسلمانوں میں بہت سے لوگ ابھی تازہ تازہ ہی داخلِ اسلام ہوئے تھے اور ان کی تربیت ابتدائی حالت میں تھی۔ بعد میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی میں یہ لوگ پختگی کو پہنچ گئے تو فی الواقع ان کے اور کفار کے درمیان ایک اور دس ہی کی نسبت قائم ہوگئی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آخر عہد اور خلفائے راشدین کے زمانہ کی لڑائیوں میں بارہا اس کا تجربہ ہوا ہے۔

49. اس آیت کی تفسیر میں اہل تاویل نے جو روایات بیان کی ہیں وہ یہ ہیں کہ جنگ بدر میں لشکر قریش کے جو لوگ گرفتار ہوئے تھے ان کے متعلق بعد میں مشورہ ہوا کہ ان کےساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے رائے دی کہ فدیہ لےکر چھوڑ دیا جائے، اور حضرت عمر ؓ نے کہا کہ قتل کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر ؓ کی رائے قبول کی اور فدیہ کا معاملہ طے کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات بطور عتاب نازل فرمائیں۔ مگر مفسرین آیت کے اس فقرے کی کوئی معقول تاویل نہیں کر سکے ہیں کہ ”اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا۔“وہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد تقدیر الہٰی ہے، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ پہلے ہی یہ ارادہ فرماچکا تھا کہ مسلمانوں کے لیے غنائم کو حلال کر دے گا۔ لیکن یہ ظاہر ہےکہ جب تک وحی تشریعی کے ذریعہ سےکسی چیز کی اجازت نہ دی گئی ہو، اس کا لینا جائز نہیں ہو سکتا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پوری اسلامی جماعت اس تاویل کی رو سے گناہ گار قرار پاتی ہے اور ایسی تاویل کو اخبار آحاد کے اعتماد پر قبول کر لینا ایک بڑی ہی سخت بات ہے۔

میرے نزدیک اس مقام کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ جنگ بدر سے پہلے سورہ محمد میں جنگ کے متعلق جو ابتدائی ہدایات دی گئی تھیں، ان میں یہ ارشاد ہوا تھا کہ فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ حَتّٰۤی اِذَ ۤااَثۡخَنۡتُمُوۡ ھُمۡ فَشُدُّوا الوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا بَعۡدُ وَاِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَھَا (آیت ۴) اس ارشاد میں جنگی قیدیوں سے فدیہ وصول کرنے کی اجازت تو دے دی گئی تھی لیکن اس کے ساتھ شرط یہ لگائی گئی تھی کہ پہلے دشمن کی طاقت کو اچھی طرح کچھ دیاجائے پھر قیدی پکڑنے کی فکر کی جائے۔ اس فرمان کی رو سے مسلمانوں نے بدر میں جو قیدی گرفتار کیے اور اس کے بعد ان سےجو فدیہ وصول کیا وہ تھا تو اجازت کے مطابق، مگر غلطی یہ ہوئی کہ ”دشمن کی طاقت کو کچل دینے “کی جو شرط مقدم رکھی گئی تھی اسے پورا کرنے میں کوتا ہی کی گئی۔ جنگ میں جب قریش کی فوج بھاگ نکلی تو مسلمانوں کا یک بڑا گروہ غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگ گیا اور بہت کم آدمیوں نے دشمنوں کا کچھ دور تک تعاقب کیا۔ حالاں کہ اگر مسلمان پوری طاقت سے اُن کا تعاقب کرتے تو قریش کی طاقت کا اسی روز خاتمہ ہو گیا ہوتا۔ اسی پر اللہ تعالیٰ عتاب فرمارہا ہے اور یہ عتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں پر ہے۔ فرمان مبارک کا منشا یہ ہے کہ ”تم لوگ ابھی نبی کے مشن کو اچھی طرح نہیں سمجھے ہو۔ نبی کا اصل کام یہ نہیں ہے کہ فدیے اور غنائم وصول کرکے خزانے بھرے، بلکہ اس کے نصب العین سے جو چیز براہ راست تعلق رکھتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ کفر کی طاقت ٹوٹ جائے۔ مگر تم لوگوں پر بار بار دنیا کا لالچ غالب ہو جاتا ہے۔ پہلے دشمن کی اصل طاقت کے بجائے قافلے پر حملہ کرنا چاہا، پھر دشمن کا سر کچلنے کے بجائے غنیمت لوٹنے اور قیدی پکڑنے میں لگ گئے، پھر غنیمت پر جھگڑنے لگے۔ اگر ہم پہلے فدیہ وصول کرنے کی اجازت نہ دے چکے ہوتے تو اس پر تمہیں سخت سزا دیتے ۔ خیر اب جو کچھ تم نے لیا ہے وہ کھا لو، مگر آئندہ ایسی روش سے بچتے رہو جو خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ہے“۔ اس رائے پر پہنچ چکا تھا کہ امام جصاص کی کتاب احکام القرآن میں یہ دیکھ کر مجھے مزید اطمینان حاصل ہوا کہ امام موصوف بھی اس تاویل کو کم از کم قابل لحاظ ضرور قرار دیتے ہیں۔ پھر سیرت ابن ہشام میں یہ روایت نظر سے گزری کہ جس وقت مجاہدینِ اسلام مال غنیمت لوٹنے اور کفار کے آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر باندھنے میں لگے ہوئے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت سعد بن معاذ کے چہرے پر کچھ کراہت کے آثار ہیں۔ حضور نے ان سے دریافت فرمایا کہ ”اے سعد، معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی یہ کارروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے“۔ انہوں نےعرض کیا ”جی ہاں یا رسول اللہ، یہ پہلا معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے، اس موقع پر انہیں قیدی بنا کر ان کی جانیں بچا لینے سے زیادہ بہتر یہ تھا کہ ان کو خوب کچل ڈالا جاتا“ ۔ ( سیرت ابن ہشام جلد ۲ ۔ صفحہ ۲۸۰ ، ۲۸۱)