Tafheem ul Quran

Surah 8 Al-Anfal, Ayat 70-75

يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّمَنۡ فِىۡۤ اَيۡدِيۡكُمۡ مِّنَ الۡاَسۡرٰٓىۙ اِنۡ يَّعۡلَمِ اللّٰهُ فِىۡ قُلُوۡبِكُمۡ خَيۡرًا يُّؤۡتِكُمۡ خَيۡرًا مِّمَّاۤ اُخِذَ مِنۡكُمۡ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿8:70﴾ وَاِنۡ يُّرِيۡدُوۡا خِيَانَـتَكَ فَقَدۡ خَانُوا اللّٰهَ مِنۡ قَبۡلُ فَاَمۡكَنَ مِنۡهُمۡ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿8:71﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيۡنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤـئِكَ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ​ؕ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَمۡ يُهَاجِرُوۡا مَا لَـكُمۡ مِّنۡ وَّلَايَتِهِمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ حَتّٰى يُهَاجِرُوۡا​ ۚ وَاِنِ اسۡتَـنۡصَرُوۡكُمۡ فِى الدِّيۡنِ فَعَلَيۡكُمُ النَّصۡرُ اِلَّا عَلٰى قَوۡمٍۢ بَيۡنَكُمۡ وَبَيۡنَهُمۡ مِّيۡثَاقٌ ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ‏ ﴿8:72﴾ وَالَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ​ؕ اِلَّا تَفۡعَلُوۡهُ تَكُنۡ فِتۡنَةٌ فِى الۡاَرۡضِ وَفَسَادٌ كَبِيۡرٌؕ‏ ﴿8:73﴾ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَهَاجَرُوۡا وَجٰهَدُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَالَّذِيۡنَ اَاوَوْا وَّنَصَرُوۡۤا اُولٰۤـئِكَ هُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا​ ؕ لَّهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّرِزۡقٌ كَرِيۡمٌ‏ ﴿8:74﴾ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَهَاجَرُوۡا وَجَاهَدُوۡا مَعَكُمۡ فَاُولٰۤـئِكَ مِنۡكُمۡ​ؕ وَاُولُوا الۡاَرۡحَامِ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلٰى بِبَعۡضٍ فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿8:75﴾

70 - اے نبی ؐ ، تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں ان سے کہو کہ اگر اللہ کو معلوم ہوا کہ تمہارے دلوں میں کچھ خیر ہے تو وہ تمہیں اُس سے بڑھ چڑھ کر دے گا جو تم سے لیا گیا ہے اور تمہاری خطائیں معاف کرے گا ، اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ 71 - لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اِس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کر چکے ہیں ، چنانچہ اُسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آگئے، اللہ سب کچھ جانتا اور حکیم ہے۔ 72 - جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے ، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام میں)آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آجائیں۔50 ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔51 جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے دیکھتا ہے۔ 73 - جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد بر پا ہو گا۔52 74 - جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے خطاوٴں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے۔ 75 - اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کر کے آگئے اور تمہارے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔ مگر اللہ کی کتاب میں خون کے رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں،53 یقیناً اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ؏ ۱۰


Notes

50. یہ آیت اسلام کے دستوری قانون کی ایک اہم دفعہ ہے۔ اس میں یہ اصول مقرر کیا گیا ہے کہ ”ولایت“کا تعلق صرف اُن مسلمانوں کے درمیان ہوگا جو یا تو دارالاسلام کے باشندے ہوں، یا اگر باہر سے آئیں تو ہجرت کر کے آجائیں۔ باقی رہے وہ مسلمان جو اسلامی ریاست کے حدودِارضی سے باہر ہوں، تو ان کے ساتھ مذہبی اخوت تو ضرور قائم رہے گی، لیکن”ولایت“کا تعلق نہ ہوگا، اور اسی طرح ان مسلمانوں سے بھی یہ تعلق ولایت نہ رہے گا جو ہجرت کر کے نہ آئیں بلکہ دارالکفر کی رعایا ہونے کی حیثیت سے دارالاسلام میں آئیں۔” ولایت“کا لفظ عربی زبان میں حمایت، نصرت، مددگاری، پشتیبانی، دوستی قرابت، سرپرستی اور اس سے ملتے جلتے مفہوما ت کے لیے بولاجاتا ہے۔ اور اس آیت کے سیاق و سباق میں صریح طور پر اس سے مراد وہ رشتہ ہے جو ایک ریاست کا اپنے شہریوں سے ، اور شہریوں کا اپنی ریاست سے، اور خود شہریوں کا آپس میں ہوتا ہے۔ پس یہ آیت ”دستوری و سیاسی ولایت“ کو اسلامی ریاست کے ارضی حدود تک محدود کر دیتی ہے، اور ان حدود سے باہر کے مسلمانوں کو اس مخصوص رشتہ سے خارج قرار دیتی ہے ۔ اس عدم ولایت کے قانونی نتائج بہت وسیع ہیں جن کی تفصیلات بیان کرنے کا یہاںموقع نہیں ہے۔ مثال کے طور پر صرف اتنا اشارہ کافی ہوگا کہ اسی عدم ولایت کی بنا پر دارالکفر اور دارالا سلام کے مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے، ایک دوسرے کے قانونی ولی(Guardian ) نہیں بن سکتے، با ہم شادی بیاہ نہیں کر سکتے، اور اسلامی حکومت کسی ایسے مسلمان کو اپنے ہاں ذمہ داری کا منصب نہیں دے سکتی جس نے دارالکفر سےشہریت کا تعلق نہ توڑا ہو۔ علاوہ بریں یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔”میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو“۔ اس طرح اسلامی قانون نے اُس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے ۔ کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑجاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔

51. اوپر کی آیت میں دارالاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ”سیاسی ولایت“ کے رشتہ سے خارج قرار دیا گیا تھا۔ اب یہ آیت اس امر کی توضیح کر تی ہے کہ اس رشتہ سے خارج ہونے کے باوجود وہ ”دینی اخوت“ کے رشتہ سے خارج نہیں ہیں۔ اگر کہیں ان پر ظلم ہو رہا ہو اور وہ اسلامی برادری کے تعلق کی بنا پر دارالاسلام کی حکومت اور اس کے باشندوں سے مدد مانگیں تو ان کا فرض ہے کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کی مدد کریں۔ لیکن اس کے بعد مزید توضیح کرتے ہوئے فرمایاگیا کہ ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دُھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دارالاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جاسکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔

آیت میں معاہدہ کے لیے”میثاق“کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس کا مادہ”وثوق“ ہے جو عربی زبان کی طرح اردو زبان میں بھی بھروسے اور اعتماد کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ میثاق ہر اس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے، قطع نظر اس سے کہ ہمارا اُس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہد وپیمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔

پھر آیت میں بینکم و بینھم میثاق کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، یعنی ”تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو“۔ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم حکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دوقوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاقی ذمہ داریوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں۔ اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ان کی اخلاقی ذمہ داریوں سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبک دوش رہیں۔ البتہ حکومتِ دارالاسلام کے معاہدات کی پانبدیاں صرف اُن مسلمانوں پر ہی عائد ہوں گی جو اس حکومت کے دائرہ عمل میں رہتے ہوں اس دائرے سے باہر دنیا کے باقی مسلمان کسی طرح بھی ان ذمہ داریوں میں شریک نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں جو صلح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ سے کی تھی اس کی بنا پر کوئی پابندی حضرت ابوبصیر اور ابو جَندل اور اُن دوسرے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوئی جو دارالاسلام کی رعایا نہ تھے۔

52. اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ جس طرح کفار ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں اگر تم اہل ایمان اُسی طرح آپس میں ایک دوسرے کی حمایت نہ کرو تو زمین میں فتنہ اور فسادِ عظیم برپا ہوگا۔ اور اگر اس کا تعلق اُن تمام ہدایات سے مانا جائے جو آیت ۷۲ سے یہاں تک دی گئی ہیں تو اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر دارالاسلام کے مسلمان ایک دوسرے کے ولی نہ بنیں، اور اگر ہجرت کر کے دارالاسلام میں نہ آنے والے اور دارالکفر میں مقیم رہنے والے مسلمانوں کو اہل دارالاسلام اپنی سیاسی ولایت سے خارج نہ سمجھیں ، اور اگر باہر کے مظلوم مسلمانوں کے مدد مانگنے پر ان کی مدد نہ کی جائے، اور اگر اس کے ساتھ ساتھ اس قاعدے کی پابندی بھی نہ کی جائے کہ جس قوم سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو اس کے خلاف مدد مانگنے والے مسلمانوں کی مدد نہ کی جائے گی، اور اگر مسلمان کافروں سے موالاة کا تعلق ختم نہ کریں، تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا۔

53. مراد یہ ہے کہ اسلامی بھائی چارے کی بنا پر میراث قائم نہ ہوگی اور نہ وہ حقوق جو نسب اور مصاہرت کے تعلق کی بنا پر عائد ہوتے ہیں، دینی بھائیوں کو ایک دوسرے کے معاملہ میں حاصل ہوں گے۔ ان امور میں اسلامی تعلق کے بجائے رشتہ داری کا تعلق ہی قانونی حقوق کی بنیاد رہے گا۔ یہ ارشاد اس بنا پر فرمایا گیا ہے کہ ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان جو مواخاة کرائی تھی اس کی وجہ سے بعض لوگ یہ خیال کر رہے تھے کہ یہ دینی بھائی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے۔