1. سورج کے بے نور کر دیے جانے کے لیے یہ ایک بے نظیر استعارہ ہے۔ عربی زبان میں تکویر کے معنی میں لپیٹنے کے ہیں۔ سر پر عمامہ باندھنے کے لیے تکویر العمامہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے اُس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی ہے عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا، اس کی روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا۔
2. یعنی وہ بندش جس نے اُن کو اپنے اپنے مدار اور مقام پر باندھ رکھا ہے، کھل جائے گی اور سب تارے سیّارے کا ئنات میں منتشر ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ اِنکدار میں کدورت کا مفہوم بھی شامل ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف منتشر ہی نہیں ہو ں گے بلکہ تاریک بھی ہو جائیں گے۔
3. دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ کشش بھی ختم ہو جائے گی جس کی بدولت پہاڑوزنی ہیں اور جمے ہوئے ہیں۔ پس جب وہ باقی نہ رہے گی تو سارے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور بے وزن ہو کر زمین پر اِس طرح چلنے لگیں گے جیسے فضا میں بادل چلتے ہیں۔
4. عربوں کو قیامت کی سختی کا تصور دلانے کے لیے یہ بہترین طرز بیان تھا۔ موجودہ زمانے کے ٹرک اور بسیں چلنے سے پہلے اہلِ عرب کے لیے اُس اونٹنی سے زیادہ قیمتی مال اور کوئی نہ تھا جو بچہ جننے کےقریب ہو۔ اِ س حالت میں اس کی بہت زیادہ حفاظت اور دیکھ بھال کی جاتی تھی تا کہ وہ کھوئی نہ جائے، کوئی اسے چرا نہ لے ، یا اور کسی طرح وہ ضائع نہ ہو جائے۔ ایسی اونٹنیوں سے لوگوں کا غافل ہو جانا گویا یہ معنی رکھتا تھا کہ اُس وقت کچھ ایسی سخت افتاد لوگوں پر پڑے گی کہ انہیں اپنے اِس عزیز ترین مال کی حفاظت کا بھی ہوش نہ رہے گا۔
5. دنیا میں جب کوئی عام مصیبت کا موقع آتا ہے تو ہر قسم کے جانور بھاگ کر ایک جگہ اکھٹے ہو جاتے ہیں۔ اُس وقت نہ سانپ ڈستا ہے ، نہ شیر پھاڑتا ہے۔
6. اصل میں لفظ سُجِّرَتْ استعمال کیا گیا ہے جو تَسجیر سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے ۔ تَسجیر عربی زبان میں تنور کے اندر آگ دَہکانے کے لیےبولا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے روز سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ لیکن اگر پانی کی حقیقت لوگو ں کی نگاہ میں ہوتو اس میں کوئی بھی چیز قابل تعجب محسوس نہ ہوگی۔ یہ سراسر اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے کہ اس نے آکسیجن اور ھائیڈ روجن ، دو ایسی گیسوں کو باہم ملایا جن میں سے ایک آگ بھڑ کانے والی اور دوسری بھڑک اٹھنے والی ہے، اور ان دونو ں کی ترکیب سے پانی جیسا مادہ پیدا کیا جو آگ بجھانے والا ہے۔ اللہ کی قدرت کا ایک اشارہ اِس بات کے لیے بالکل کافی ہے کہ وہ پانی کی اِس ترکیب کو بدل ڈالے اور یہ دونوں گیسیں ایک دوسرے سے الگ ہو کر بھڑکنے اور بھڑکانے میں مشغول ہو جائیں جو ان کی اصل بنیادی خاصیت ہے۔
7. یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے۔
8. یعنی انسان ازسر نوا ُسی طرح زندہ کیے جائیں گے جس طرح وہ دنیا میں مرنے سے پہلے جسم و روح کے ساتھ زندہ تھے۔
9. اس آیت کے اندازِ بیان میں ایسی شدید غضبناکی پائی جاتی ہے جس سے زیادہ سخت غضبناکی کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔ بیٹی کو زندہ گاڑنے والے ماں باپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایسے قابل نفرت ہوں گے کہ ان کو مخاطب کر کے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم نے اِس معصوم کو کیوں قتل کیا، بلکہ ان سے نگاہ پھیر کر معصوم بچی سے پوچھا جائے گا کہ تو بے چاری آخر کس قصور میں ماری گئی، اور وہ اپنی داستان سنائے گی کہ ظالم ماں باپ نے اس کے ساتھ کیا ظلم کیا اور کس طرح اسے زندہ دفن کر دیا۔ اس کے علاوہ اس مختصر سی آیت میں دو بہت بڑے مضمون سمیٹ دیے گئے ہیں جو الفاظ میں بیان کیے بغیر خود بخود اس کے فَحویٰ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس میں اہل عرب کو یہ احساس دلا یا گیا ہے کہ جاہلیت نے ان کو اخلاقی پستی کی کس انتہا پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنی ہی اولاد کو اپنے ہاتھوں زندہ در گور کرتے ہیں، پھر بھی انہیں اصرار ہے کہ اپنی اِسی جاہلیت پر قائم رہیں گے اور اُس اصلاح کو قبول نہ کریں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بگڑے ہوئے معاشرے میں کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اِس میں آخرت کے ضروری ہونے کی ایک صریح دلیل پیش کی گئی ہے۔ جس لڑکی کو زندہ دفن کر دیا گیا، آخر اس کی کہیں تو دادرسی ہونی چاہیے، اور جن ظالموں نے یہ ظلم کیا ، آخر کبھی تو وہ وقت آنا چاہیے جب ان سے اِس بے دردانہ ظلم کی باز پرس کی جائے۔ دفن ہونے والی لڑکی کی فریاد دنیا میں تو کوئی سننے والا نہ تھا۔ جاہلیت کے معاشرے میں اِس فعل کو بالکل جائز کر رکھا گیا تھا۔ نہ ماں باپ کو اس پر کوئی شرم آتی تھی۔ نہ خاندان میں کوئی ان کو ملامت کرنے والا تھا۔ نہ معاشرے میں کوئی اس پر گرفت کرنے والا تھا۔ پھر کیا خدا کی خدائی میں یہ ظلمِ عظیم بالکل ہی بے داد رہ جانا چاہیے؟
عرب میں لڑکیوں کو زندہ دفن کر نے کا یہ بے رحمانہ طریقہ قدیم زمانے میں مختلف وجوہ سے رائج ہو گیا تھا۔ ایک، معاشی خستہ حالی جس کی وجہ سے لوگ چاہتے تھے کہ کھانے والے کم ہوں اور اولاد کو پالنے پوسنے کا بار اُن پر نہ پڑے۔ بیٹوں کو تو اس امید پر پال لیا جاتا تھا کہ بعد میں وہ حصول معیشیت میں ہاتھ بٹائیں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ انہیں جوان ہونے تک پالنا پڑے گا اور پھر انہیں بیاہ دینا ہو گا۔ دوسرے ،عام بد امنی جس کی وجہ سے بیٹوں کو اس لیے پالا جاتا تھا کہ جس کے جتنے زیادہ بیٹے ہوں گے اس کے اتنے ہی حامی و مدد گار ہوں گے، مگر بیٹیوں کو اس لیے ہلاک کر دیا جاتا تھا کہ قبائلی لڑائیوں میں الٹی ان کی حفاظت کرنی پڑتی تھی اور دفاع میں وہ کسی کام نہ آسکتی تھیں۔ تیسرے عام بد امنی کا ایک شاخسانہ یہ بھی تھا کہ دشمن قبیلے جب ایک دوسرے پر اچانک چھاپے مارتے تھے تو جو لڑکیاں بھی ان کے ہاتھ لگتی تھیں انہیں لے جا کر وہ یا تو لونڈیاں بنا کر رکھتے تھے یا کہیں بیچ ڈالتے تھے۔ ان وجوہ سے عرب میں یہ طریقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو زچگی کے وقت ہی عورت کے آگے گڑھا کھود رکھا جاتا تھا کہ اگر لڑکی پیدا ہو تو اسی وقت اسے گڑھے میں پھینک کر مٹی ڈال دی جائے۔ اور کبھی اگر ماں اس پر راضی نہ ہوتی یا اس کے خاندان والے اس میں مانع ہوتے تو باپ بادلِ نا خواستہ اسے کچھ مدت تک پالتا اور پھر کسی وقت صحرا میں لے جا کر زندہ دفن کر دیتا۔ اس معاملہ میں جو شقادت برتی جاتی تھی اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ بیان کیا۔ سُنَنِ دارِمی کے پہلے ہی باب میں یہ حدیث منقول ہے کہ ایک شخص نے حضورؐ سے اپنے عہد جاہلیت کا یہ واقعہ بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت مانوس تھی۔ جب میں اس کو پکارتا تو دوڑی دوڑی میرے پاس آتی تھی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ لے کر چل پڑا۔ راستہ میں ایک کنواں آیا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔آخری آواز جو اس کی میرے کانوں میں آئی وہ تھی ہائے ابّا۔ ہائے ابّا۔ یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو دیے اور آپ کے آنسو بہنے لگے۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا اے شخص تو نے حضورؐ کو غمگین کر دیا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ اسے مت روکو، جس چیز کا اِسے سخت احساس ہے اُس کے بارے میں اِسے سوال کرنے دو۔ پھر آپ نے اس سے فرما یا کہ اپنا قصہ پھر بیان کر۔ اس نے دوبارہ اسے بیان کیا اور آپ سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسووں سے تر ہو گئی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جاہلیت میں جو کچھ ہو گیا اللہ نے اسے معا ف کر دیا، اب نئے سرےسے اپنی زندگی کا آغاز کر۔
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ اہلِ عرب اِس انتہائی غیر انسانی فعل کی قباحت کا سرے سے کوئی احساس ہی نہ رکھتے تھے۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی معاشرہ خواہ کتنا ہی بگڑ چکا ہو، وہ ایسے ظالمانہ افعال کی برائی کے احساس سے بالکل خالی نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے قرآن پا ک میں اِس فعل کی قباحت پر کوئی لمبی چوڑی تقریر نہیں کی گئی ہے، بلکہ رونگٹے کھرے کر دینے والے الفاظ میں صرف اتنی بات کہہ کر چھوڑ دیا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا۔ جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قصور میں ماری گئی۔ عرب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو زمانہ جاہلیت میں اس رسم کی قباحت کا احساس تھا۔ طَبرانی کی روایت ہے کہ فَرَزْدَق شاعر کے دادا صَعْصَعہ بن ناجیتہ المُجاشعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ، میں نے جاہلیت کے زمانے میں جو کچھ اچھے اعمال بھی کیے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے ۳۶۰ لڑکیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچا لیا اور ہر ایک کی جان بچانے کے لیے دو دو اونٹ فدیے میں دیے۔ کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟حضورؐ نے فرمایا ہاں تیرے لیے اجر ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ نے تجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی۔
درحقیقت یہ اسلام کی برکتوں میں سے ایک بڑی برکت ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ عرب سےاس انتہائی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا، بلکہ اِس تخیل کو مٹایا کہ بیٹی کی پیدائش کوئی حادثہ اور مصیبت ہے جسے بادلِ ناخواستہ برداشت کیا جائے۔ اس کے بر عکس اسلام نے یہ تعلیم دی کہ بیٹیوں کو پرورش کرنا ، انہیں عمدہ تعلیم و تربیت دینا اور انہیں اس قابل بنا نا کہ وہ ایک اچھی گھر والی بن سکیں، بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملہ میں لڑکیوں کے متعلق لوگوں کے عام تصوُّر کو جس طرح بدلا ہے اس کا اندازہ آپؐ کے ان بہت سے ارشادات سے ہو سکتا ہے جو احادیث میں منقول ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل میں ہم آپؐ کے چند ارشادات نقل کرتے ہیں:
مَن ابتُلِیَ من ھٰذہ البنات بِشیٍٔ فاحسن الیھنّ کن لہٗ سِتْرًا من النّار۔(بخاری ۔مسلم)
جو شخص اِن لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر وہ اِن سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آ گ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔
من عال جاریتین حتّٰی تبلُغَا جاء یوم القیٰمۃ اناو ھٰکذا وضم اصابعہٗ (مسلم)
جس نے دو لڑکیوں کو پرورش کیا یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو قیامت کے روز میرے ساتھ وہ اس طرح آئے گا، یہ فرما کر حضورؐ نے اپنی انگلیوں کو جوڑ کر بتایا۔
من عال ثلٰث بنات او مثلھن من الا خوات فا دّ بھن و رحمھن حتّٰی یغیْھن اللہ اوجب اللہ لہ الجنّۃ۔ فقال رجل یا رسول اللہ او اثنتین ۹ قال او اثنتین حتّی لو قالو او واحدۃ لقال واحدۃ۔ (شرح السّنۃ)
جس شخص نے تین بیٹیوں ، یا بہنوں کو پرورش کیا، ان کو اچھا ادب سکھایا اور ان سے شفقت کا برتاؤ کیا یہاں تک کہ وہ اس کی مدد کی محتاج نہ رہیں تو اللہ اس کے لیے جنت واجب کردیگا۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اور دو ۔حضورؐ نے فرمایا اور دو بھی۔ حدیث کے راوی ابن عباس کہتے ہیں کہ اگر لوگ اس وقت ایک کے متعلق پوچھتے تو حضورؐ اس کے بارے میں بھی یہی فرماتے۔
من کانت لہ انثٰی فلم یئد ھا ولم یھنھا ولم یؤثر ولدہ علیھا ادخلہ اللہ الجِنّۃ۔ (ابو داؤد)
جس کے ہاں لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ دفن نہ کرے، نہ ذلیل کر کے رکھے، نہ بیٹے کو اُس پر ترجیح دے اللہ اسے جنّت میں داخل کرے گا۔
من کان لہ ثلاث بنات و صبر علیھنّ وکسا ھُن من جِدَتِہٖ کن لہ حِجاَ بًا مّن النار (بخاری فی الادب المفرد۔ ابن ماجہ)
جس کے ہاں تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے اور اپنی وسعت کے مطابق ان کو اچھے کپڑے پہنائے وہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔
ما من مسْلم تد رکہ ابنتان فیحسن صحبتھما الا اد خلتا ہ الجنّۃ۔ (بخاری، ادب المفرد)
جس مسلمان کے ہاں دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی طرح رکھے وہ اسے جنت میں پہنچائیں گی۔
انّ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لسُر ا قۃ بن جُعْشم الا اد لک علی اعظم الصدقۃ او من اعظم الصد قۃ قال بلیٰ یا رسول اللہ قال ابنتک المردودۃ الیک لیس لھا کا سب غیرک۔ (ابن ماجہ۔ بخاری فی الادب المفرد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سُراقہ بن جُعْشم سے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ سب سے بڑا صدقہ (یا فرمایابڑے صدقوں میں سے ایک) کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیے یا رسول اللہ۔ فرمایا تیری وہ بیٹی جو (طلاق پا کر یا بیوہ ہو کر) تیری طرف پلٹ آئے اور تیرے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو۔
یہی وہ تعلیم ہے جس نے لڑکیوں کے متعلق لوگوں کا نقطئہ نظر صرف عرب ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی اُن تمام قوموں میں بد ل دیا جو اسلام کی نعمت سے فیض یاب ہوتی چلی گئیں۔
10. یعنی جو کچھ اب نگاہوں سے پوشیدہ ہے وہ سب عیاں ہو جائے گا۔ اب تو صرف خلا نظر آتا ہے یا پھر بادل ، گرد و غبار ، چاند ، سورج اور تارے ۔ لیکن اُس وقت خدا کی خدائی اپنی اصل حقیقت کے ساتھ سب کے سامنے بے پر دہ ہو جائے گی۔
11. یعنی میدان حشر میں لوگوں کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہوگی اُس وقت جہنم کی دھکتی ہوئی آگ بھی سب کو نظر آ رہی ہو گی اور جنت بھی اپنی ساری نعمتوں کے ساتھ سب کے سامنے موجود ہوگی تا کہ بد بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے محروم ہو کر کہاں جانے والے ہیں، اور نیک بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے بچ کر کن نعمتوں سے سرفراز ہونے والےہیں۔
12. یعنی تم لوگوں کا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ کسی دیوانے کی بڑ ہے یا کوئی شیطانی وسوسہ ہے۔
13. یہ قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ آگے کی آیات میں بیان کی گئی ہے ۔ مطلب اِس قسم کا یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تاریکی میں کوئی خواب نہیں دیکھا ہے بلکہ جب تارے چھپ گئے تھے، رات رخصت ہوگئی تھی اور صبح روشن نمو دار ہوگئی تھی، اُس وقت کھلے آسمان پر اُنہوں نے خدا کے فرشتے کو دیکھا تھا۔ اس لیے وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ اُن کے آنکھوں دیکھے مشاہدے اور پورے ہو ش گوش کے ساتھ دن کی روشنی میں پیش آنے والے تجربے پر مبنی ہے۔
14. اس مقام پر بزرگ پیغامبر (رسول کریم) سے مراد وحی لانے والا فرشتہ ہے جیسا کہ آگے کی آیات سے بصراحت معلوم ہو رہا ہے۔ اور قرآن کو پیغام بر کا قول کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اس فرشتے کا اپنا کلام ہے، بلکہ ”قول ِ پیغامبر“ کے الفاظ خود ہی یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ اُس ہستی کا کلام ہے جس نے اسے پیغامبر بنا کر بھیجا ہے۔ سورہ الحاقّہ آیت ۴۰ میں اِسی طرح قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قول کہا گیا ہے اور وہاں بھی مراد یہ نہیں ہے کہ یہ حضورؐ کا اپنا تصنیف کر دہ ہے بلکہ اسے” رسولِ کریم“کا قول کہہ کر وضاحت کر دی گئی ہے کہ اس چیز کو حضورؐ خدا کے رسول کی حیثیت سے پیش کر رہےہیں نہ کہ محمدؐ بن عبداللہ کی حیثیت سے دونوں جگہ قول کو فرشتے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس بنا پر کیا گیا ہے کہ اللہ کا پیغام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیغام لانے والے فرشتے کی زبان سے، اور لوگوں کے سامنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا ہو رہا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن ، جلد ششم، الحاقّہ، حاشیہ ۲۲)۔
15. سورہ نجم آیات۴۔۵ میں اِسی مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۙ۰۰۴عَلَّمَهٗ شَدِيْدُ الْقُوٰى ۙ۰۰۵”یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے ، اُس زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے“۔ یہ بات درحقیقت متشابہات میں سے ہے کہ جبریل علیہ السلام کی اِن زبردست قوتوں اور ان کی اِس عظیم توانائی سے کیا مراد ہے۔ بہر حال اس سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ فرشتوں میں بھی وہ اپنی غیر معمولی طاقتوں کے اعتبار سے ممتاز ہیں۔ مسلم، کتاب الایمان میں حضرت عائشہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول نقل کرتی ہیں کہ میں نے دومرتبہ جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا ہے، اُن کی عظیم ہستی زمین و آسمان کے درمیان ساری فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ بخاری، مسلم ، ترمذی، اور مُسند احمد میں حضرت عبد اللہ بنؓ مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اِس شان میں دیکھا کہ ان کے چھ سو پَر تھے۔ اس سے کچھ ان کی زبردست طاقت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
16. یعنی وہ فرشتوں کا افسر ہے۔ تمام فرشتے اُس کے حکم کے تحت کام کرتے ہیں۔
17. یعنی وہ اپنی طرف سے کوئی بات خدا کی وحی میں ملا دینے والا نہیں ہے ، بلکہ ایسا امانت دار ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ارشاد ہوتا ہے اُسے جوں کا توں پہنچا دیتا ہے۔
18. رفیق سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اور آپ کو اہل ِ مکّہ کا رفیق کہہ کر دراصل اُنہیں اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ آپؐ اُن کے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں ہیں، بلکہ اُنہی کے ہم قوم اور ہم قبیلہ ہیں۔ اُنہی کے درمیان ایسے شخص کو جانتے بوجھتے مجنون کہتے ہوئے اُنہیں کچھ تو شرم آنی چاہیے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد پنجم، النجم، حواشی۲۔۳)۔
19. سورہ نجم آیات۷ تا ۹ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس مشاہدے کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن ،جلد پنجم، النجم، حواشی۷۔۸)۔
20. یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھتے۔ غیب کے جو حقائق بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کھولے گئے ہیں ، خواہ وہ اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں ہوں ، یا فرشتوں کے بارے میں، یا زندگی بعدِ موت اور قیامت اور آخرت اور جنّت اور دوزخ کے بارے میں، سب کچھ تمہارے سامنے بے کم و کاست بیان کر دیتے ہیں۔
21. یعنی تمہار ا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی شیطان آکر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں یہ باتیں پھونک دیتا ہے ۔ شیطان کا آخر یہ کام کب ہو سکتا ہے کہ انسان کو شرک اور بت پرستی اور دہریت و الحاد سے ہٹا کر خدا پرستی اور توحید کی تعلیم دے۔ انسان کو شتر بے مہار بن کر رہنے کے بجائے خدا کے حضور ذمّہ داری اور جواب دہی کا احساس دلائے۔ جاہلانہ رسموں اور ظلم اور بد اخلاقی اور بد کر داری سے منع کر کے پاکیزہ زندگی، عدل اور تقویٰ اور اخلاقِ فاضلہ کی طرف رہنمائی کرے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشُعَراء، آیات ۲۱۰- تا ۲۱۲ مع حواشی ۱۳۰ تا ۱۳۳، اور آیات۲۲۱ تا ۲۲۳ مع حواشی۱۴۰تا۱۴۱)۔
22. بالفاظ دیگر یہ کلام نصیحت ہے تو ساری نوع انسانی کے لیے مگر اس سے فائدہ وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو خود راست روی اختیار کر نا چاہتا ہو۔ انسان کا طالبِ حق اور راستی پسند ہونا اِس سے فائدہ اٹھانے کے لیے شرطِ اول ہے۔
23. یہ مضمون اِس سے پہلے سورہ مدّثّر آیت ۵۶، اور سورہ دَھر آیت۳۰ میں گزر چکا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المدّثّر، حاشیہ ۴۱۔