Tafheem ul Quran

Surah 83 Al-Mutaffifin, Ayat 1-36

وَيۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِيۡنَۙ‏ ﴿83:1﴾ الَّذِيۡنَ اِذَا اكۡتَالُوۡا عَلَى النَّاسِ يَسۡتَوۡفُوۡنَۖ‏ ﴿83:2﴾ وَاِذَا كَالُوۡهُمۡ اَوْ وَّزَنُوۡهُمۡ يُخۡسِرُوۡنَؕ‏ ﴿83:3﴾ اَلَا يَظُنُّ اُولٰٓـئِكَ اَنَّهُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَۙ‏ ﴿83:4﴾ لِيَوۡمٍ عَظِيۡمٍۙ‏ ﴿83:5﴾ يَّوۡمَ يَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَؕ‏ ﴿83:6﴾ كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الۡفُجَّارِ لَفِىۡ سِجِّيۡنٍؕ‏ ﴿83:7﴾ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا سِجِّيۡنٌؕ‏ ﴿83:8﴾ كِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌؕ‏ ﴿83:9﴾ وَيۡلٌ يَّوۡمَـئِذٍ لِّلۡمُكَذِّبِيۡنَۙ‏ ﴿83:10﴾ الَّذِيۡنَ يُكَذِّبُوۡنَ بِيَوۡمِ الدِّيۡنِؕ‏ ﴿83:11﴾ وَمَا يُكَذِّبُ بِهٖۤ اِلَّا كُلُّ مُعۡتَدٍ اَثِيۡمٍۙ‏ ﴿83:12﴾ اِذَا تُتۡلٰى عَلَيۡهِ اٰيٰتُنَا قَالَ اَسَاطِيۡرُ الۡاَوَّلِيۡنَؕ‏ ﴿83:13﴾ كَلَّا​ بَلۡ رَانَ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ مَّا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿83:14﴾ كَلَّاۤ اِنَّهُمۡ عَنۡ رَّبِّهِمۡ يَوۡمَـئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ​ؕ‏ ﴿83:15﴾ ثُمَّ اِنَّهُمۡ لَصَالُوا الۡجَحِيۡمِؕ‏ ﴿83:16﴾ ثُمَّ يُقَالُ هٰذَا الَّذِىۡ كُنۡتُمۡ بِهٖ تُكَذِّبُوۡنَؕ‏ ﴿83:17﴾ كَلَّاۤ اِنَّ كِتٰبَ الۡاَبۡرَارِ لَفِىۡ عِلِّيِّيۡنَؕ‏ ﴿83:18﴾ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا عِلِّيُّوۡنَؕ‏ ﴿83:19﴾ كِتٰبٌ مَّرۡقُوۡمٌۙ‏ ﴿83:20﴾ يَّشۡهَدُهُ الۡمُقَرَّبُوۡنَؕ‏ ﴿83:21﴾ اِنَّ الۡاَبۡرَارَ لَفِىۡ نَعِيۡمٍۙ‏ ﴿83:22﴾ عَلَى الۡاَرَآئِكِ يَنۡظُرُوۡنَۙ‏ ﴿83:23﴾ تَعۡرِفُ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ نَضۡرَةَ النَّعِيۡمِ​ۚ‏ ﴿83:24﴾ يُسۡقَوۡنَ مِنۡ رَّحِيۡقٍ مَّخۡتُوۡمٍۙ‏ ﴿83:25﴾ خِتٰمُهٗ مِسۡكٌ ​ؕ وَفِىۡ ذٰلِكَ فَلۡيَتَنَافَسِ الۡمُتَنـَافِسُوۡنَؕ‏ ﴿83:26﴾ وَ مِزَاجُهٗ مِنۡ تَسۡنِيۡمٍۙ‏ ﴿83:27﴾ عَيۡنًا يَّشۡرَبُ بِهَا الۡمُقَرَّبُوۡنَؕ‏ ﴿83:28﴾ اِنَّ الَّذِيۡنَ اَجۡرَمُوۡا كَانُوۡا مِنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يَضۡحَكُوۡنَ  ۖ‏ ﴿83:29﴾ وَاِذَا مَرُّوۡا بِهِمۡ يَتَغَامَزُوۡنَ  ۖ‏ ﴿83:30﴾ وَاِذَا انۡقَلَبُوۡۤا اِلٰٓى اَهۡلِهِمُ انْقَلَبُوۡا فَكِهِيۡنَ  ۖ‏ ﴿83:31﴾ وَاِذَا رَاَوۡهُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّ هٰٓؤُلَاۤءِ لَـضَآلُّوۡنَۙ‏ ﴿83:32﴾ وَمَاۤ اُرۡسِلُوۡا عَلَيۡهِمۡ حٰفِظِيۡنَۙ‏ ﴿83:33﴾ فَالۡيَوۡمَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنَ الۡكُفَّارِ يَضۡحَكُوۡنَۙ‏ ﴿83:34﴾ عَلَى الۡاَرَآئِكِۙ يَنۡظُرُوۡنَؕ‏ ﴿83:35﴾ هَلۡ ثُوِّبَ الۡكُفَّارُ مَا كَانُوۡا يَفۡعَلُوۡنَ‏ ﴿83:36﴾

1 - تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے۔ 1 2 - جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں، 3 - اور جب ان کو ناپ کو یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں۔ 2 4 - کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ 3 یہ اُٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟ 5 - ایک بڑے دن 6 - اُس دن جبکہ سب لوگ ربّ العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ 7 - ہر گز نہیں، 4 یقیناً بدکاروں کا نامہٴ اعمال قیدخانے کے دفتر میں ہے۔ 5 8 - اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ قید خانے کا دفتر کیا ہے؟ 9 - ایک کتاب ہے لکھی ہوئی۔ 10 - تباہی ہے اُس روز جھُٹلانے والوں کے لیے 11 - جو روزِ جزا کو جھُٹلاتے ہیں۔ 12 - اور اُسے نہیں جھُٹلاتا مگر ہر وہ شخص جو حد سے گزر جانے والا بدعمل ہے۔ 13 - اُسے جب ہماری آیات سُنائی جاتی ہیں 6 تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کی کہانیاں ہیں۔ 14 - ہر گز نہیں، بلکہ دراصل اِن لوگوں کے دلوں پر اِن کے بُرے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔ 7 15 - ہر گز نہیں، بالیقین اُس روز یہ اپنے ربّ کی دید سے محروم رکھے جائیں گے، 8 16 - پھر یہ جہنّم میں جا پڑیں گے، 17 - پھر اِن سے کہا جائے گا کہ یہ وہی چیز ہے جسے تم جھُٹلایا کرتے تھے۔ 18 - ہر گز نہیں، 9 بے شک نیک آدمیوں کا نامہٴ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے۔ 19 - اور تمہیں کیا خبر کہ کیا ہے وہ بلند پایہ لوگوں کا دفتر؟ 20 - ایک لکھی ہوئی کتاب ہے 21 - جس کی نگہداشت مقرب فرشتے کرتے ہیں۔ 22 - بے شک نیک لوگ بڑے مزے میں ہوں گے، 23 - اُونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے، 24 - ان کے چہروں پر تم خوشحالی کی رونق محسوس کرو گے۔ 25 - ان کو نفیس ترین سر بند شراب پلائی جائے گی 26 - جس پر مُشک کی مُہر لگی ہوگی۔10 جو لوگ دُوسروں پر بازی لے جانا چاہتے ہوں وہ اِس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔ 27 - اُس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہوگی، 11 28 - یہ ایک چشمہ ہے جس کے پانی کے ساتھ مقَرَّب لوگ شراب پئیں گے۔ 29 - مجرم لوگ دنیا میں ایمان لانے والوں کا مذاق اُڑاتے تھے، 30 - جب اُن کے پاس سے گزرتے تو آنکھیں مار مار کر اُن کی طرف اشارے کرتے تھے، 31 - اپنے گھروں کی طرف پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے، 12 32 - اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے تھے کہ یہ بہکے ہوئے لوگ ہیں، 13 33 - حالانکہ وہ اُن پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ 14 34 - آج ایمان لانے والے کُفّار پر ہنس رہے ہیں ، 35 - مسندوں پر بیٹھے ہوئے ان کا حال دیکھ رہے ہیں، 36 - مِل گیا نا کافروں کو اُن حرکتوں کا ثواب جو وہ کیا کرتے تھے۔ 15 ؏۱


Notes

1. اصل میں لفظ مُطَفِّفِیْن استعمال کیا گیا ہے جو تَطْفِیْف سے مشتق ہے عربی زبان میں طَفَیْف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور تطیف کا لفظ اصطلاحاً ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ، کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا اڑا تا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اُسے کیا اور کتنا گھاٹا دے گیا ہے۔

2. قرآن مجید میں جگہ جگہ ناپ تول میں کمی کرنے کی سخت مُذمّت اور صحیح ناپنے اور تولنے کی سخت تاکید کی گئی ہے ۔ سورہ انعام میں فرمایا”انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو، ہم کسی شخص کو اس کی مقدرت سے زیادہ کا مکلّف نہیں ٹھیراتے“(آیت۱۵۲)۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوا” جب ناپو تو پورا ناپو اور صحیح ترازو سے تولو“(آیت۲۵)۔ سورہ رحمان میں تاکید کی گئی کہ ”تولنے میں زیادتی نہ کرو، ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ وزن کرو اور ترازو میں گھاٹا نہ دو“(آیات۸۔۹)۔ قوم ِ شعیب پر جس جرم کی وجہ سے عذاب نازل ہوا وہ یہی تھا کہ اُس کے اندر ناپ تول میں کمی کرنے کا مرض عام طور پر پھیلا ہوا تھا اور حضرت شعیب کی پے در پے نصیحتوں کے با وجود یہ قوم اِس جرم سے باز نہ آتی تھی۔

3. روز قیامت کو بڑا دن اس بنا پر کہا گیا ہے کہ اس میں تمام انسانوں اور جنوں کا حساب خدا کی عدالت میں بیک وقت لیا جائے گا اور عذاب و ثواب کے اہم ترین فیصلے کیے جائیں گے۔

4. یعنی اِ ن لوگوں کا یہ گمان غلط ہے کہ دنیا میں اِن جرائم کا ارتکاب کرنے کے بعد یہ یونہی چھوٹ جائیں گے اور کبھی اِن کو اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حا ضر نہ ہونا پڑے گا۔

5. اصل میں لفظ سِجِّیْن استعمال ہوا ہے جو سِجْن(جیل قید خانے ) سے ماخوذ ہے اور آگے اُس کو جو تشریح کی گئی ہے اس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد وہ رجسٹر ہے جس میں سزا کے مستحق لوگوں کے اعمال نامے میں درج کیے جا رہے ہیں۔

6. یعنی وہ آیات جن میں روزِ جزا کی خبر دی گئی ہے۔

7. یعنی جزا وسزا کو افسانہ قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ، لیکن جس وجہ سے یہ لوگ اسے افسانہ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جن گناہوں کا یہ ارتکاب کرتے رہے ہیں ان کا زنگ اِن کے دلوں پر پوری طرح چڑھ گیا ہے اس لیے جو بات سراسر معقول ہے وہ اِن کو افسانہ نظر آتی ہے۔ اِس زنگ کی تشریح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی ہے کہ بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اُس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو وہ نقطہ صاف ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو پورے دل پر وہ چھا جاتا ہے(مسند احمد،ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن جریر، حاکم، ابن ابی حاتم، ابن حِبّان وغیرہ)۔

8. یعنی دیدارِ الہٰی کا جو شرف نیک لوگوں کو نصیب ہو گا اس سے یہ لوگ محروم رہیں گے(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد ششم، القیامہ،حاشیہ۱۷)۔

9. یعنی اِن لوگوں کا یہ خیال غلط ہے کہ کوئی جزا و سزا واقع ہونے والی نہیں ہے۔

10. اصل الفاظ ہیں خِتٰمُہٗ مِسْکٌ۔ اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جن برتنوں میں وہ شراب رکھی ہو گی اُن پر مٹی یا موم کے بجائے مشک کی مُہر ہوگی۔ اس مفہوم کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ شراب کی ایک نفیس ترین قسم ہو گی جو نہروں میں بہنے والی شراب سے اشرف و اعلیٰ ہوگی اور اسے جنّت کے خدام مشک کی مُہر لگے ہوئے برتنوں میں لا کر اہل جنت کو پلائیں گے ۔ دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ شراب جب پینے والوں کے حلق سے اترے گی تو آخر میں اُن کو مشک کی خوشبو محسوس ہوگی۔ یہ کیفیت دنیا کی شرابوں کے بالکل بر عکس ہے جن کی بوتل کھلتے ہی بو کا ایک بھپکا ناک میں آتا ہے، پیتے ہوئے بھی ان کی بد بو محسوس ہوتی ہے، اور حلق سے جب وہ اترتی ہے تو دماغ تک اس کی سڑاند پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے بد مزگی کے آثاران کے چہرے پر ظاہر ہوتے ہیں۔

11. تسنیم کے معنی بلندی کے ہیں، اور کسی چشمے کو تسنیم کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بلندی سے بہتا ہوا نیچے آرہا ہو۔

12. یعنی یہ سوچتے ہوئے پلٹتے تھے کہ آج تو مزا آگیا، میں فلاں مسلمان کا مذاق اُڑا کر اور اس پر آوازے اور پھبتیاں کس کر خوب لطف اٹھایا اور لوگوں میں بھی اس کی اچھی گت بنی۔

13. یعنی اِن کی عقل ماری گئی ہے، اپنے آپ کو دنیا کے فائدوں اور لذتوں سے صرف اس لیے محروم کر لیا ہے اور ہر طرح کے خطرات اور مصائب صرف اس لیے مول لے لیے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں آخرت اور جنت اور دوزخ کے چکر میں ڈال دیا ہے۔ جو کچھ حاضر ہے اسے اس موہوم امید پر چھوڑ رہے ہیں کہ موت کے بعد کسی جنت کے ملنے کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے ، اور جو تکلیفیں آج پہنچ رہی ہیں انہیں اس خیالِ خام کی بنا پر انگیز کر رہے ہیں کہ دوسری دنیا میں کوئی جہنم ہو گی جس کے عذاب انہیں ڈرایا گیا ہے۔

14. اس مختصر سے فقرے میں ان مذاق اڑانے والوں کو بڑی سبق آموز تنبیہ کی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بالفرض وہ سب کچھ غلط ہے جس پر مسلمان ایمان لائے ہیں لیکن وہ تمہاراتو کچھ نہیں بگاڑ رہےہیں ۔ جس چیز کوانہوں نے حق سمجھا ہے اس کے مطابق وہ اپنی جگہ خو دہی ایک خاص اخلاقی رویّہ اختیار کر رہے ہیں۔ اب کیا خدا نے تمہیں کوئی فوجدار بنا کر بھیجا ہے کہ جو تمہیں نہیں چھیڑ رہاہے اس کو تم چھیڑو، اور جو تمہیں کوئی تکلیف نہیں دے رہا ہے اسے تم خوامخواہ تکلیف دو؟

15. اس فقرے میں ایک لطیف طنز ہے ۔ چونکہ وہ کفار کارِ ثواب سمجھ کر مومنوں کو تنگ کرتے تھے، اس لیے فرمایا گیا کہ آخرت میں مومن جنت میں مزے سے بیٹھے ہوئے جہنم میں جلنے والے ان کافروں کا حال دیکھیں گے اور اپنے دلوں میں کہیں گے کہ خوب ثواب انہیں ان کے اعمال کا مل گیا۔