1. اصل میں اَذِنَتْ لِرَبِّھَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کے لفظی معنی ہیں”وہ اپنے رب کا حکم سنے گا“۔لیکن عربی زبان میں محاورے کے طور پر اَذِنَ لَہٗ کے معنی صرف یہی نہیں ہوتے کہ اس نے حکم سُنا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس نے حکم سن کر ایک تابع فرمان کی طرح اس کی تعمیل کی اور ذرا سرتابی نہ کی۔
2. زمین کے پھیلا دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ سمندر اور دریا پاٹ دیے جائے گے، پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیے جائیں گے ، اور زمین کی ساری اونچ نیچ برابر کر کے اسے ایک ہموار میدا ن بنا دیا جائے گا۔ سورہ طٰہٰ میں اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ”اُسے چٹیل میدان بنا دے گا جس میں تم کو ئی بَل اور سَلُوَٹ نہ پاؤگے۔“(آیات۱۰۶۔۱۰۷)۔ حاکم نے مُستَدْر ک میں عمدہ سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ کے حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ”قیامت کے روز زمین ایک دسترخوان کی طرح پھیلا کر بچھا دی جائے گی، پھر انسانوں کے لیے اس پر صرف قدم رکھنے کی جگہ ہوگی“۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اُس دن تمام انسانوں کو جو ا ولِ روزِ آفر نیش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں گے، بیک وقت زندہ کر کے عدالتِ الہٰی میں پیش کیا جائیگا۔ اتنی بڑی آبادی کو جمع کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سمندر، دریا، پہاڑ، جنگل ، گھاٹیاں اور پست و بلند علاقے سب کے سب ہموار کر کے پورے کرہ زمین کو ایک میدان بنا دیا جائے تاکہ اس پر ساری نوع انسانی کے افراد کھڑے ہونے کی جگہ پاسکیں۔
3. مطلب یہ ہے کہ جتنے مرے ہوئے انسان اس کے اندر پڑے ہوں گے سب کو نکال کر وہ باہر ڈال دے گی، اور اسی طرح اُن کے اعمال کی جو شہادتیں اُس کے اندر موجود ہوں گی وہ سب بھی پوری کی پوری باہر آجائیں گی، کوئی چیز بھی اُس میں چھپی اور دبی ہوئی نہ رہ جائے گی۔
4. یہ صراحت نہیں کی گئی کہ جب یہ اور یہ واقعات ہوں گے تو کیا ہو گا ، کیونکہ بعد کا یہ مضمون اُس کو آپ سے آپ ظاہر کر دیتا ہے کہ اے انسان تو اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اُس کے سامنے حاضر ہونے والا ہے، تیرا نامۂاعمال تجھے دیا جانے والا ہے ، اور جیسا تیرا نامۂاعمال ہو گا اس کے مطابق تجھے جزا یا سزا ملنے والی ہے۔
5. یعنی وہ ساری تگ و دَو اور دوڑ دھوپ جو تو دنیا میں کر رہا ہے، اُس کے متعلق چاہے تو یہی سمجھتا رہے کہ یہ صرف دنیا کی زندگی تک ہے اور دنیوی اغراض کے یے ہے، لیکن درحقیقت تو شعوری یا غیر شعوری طور پر جا رہا ہے اپنے رب ہی کی طرف اور آخرکار وہیں تجھے پہنچ کر رہنا ہے۔
6. یعنی اُس سے سخت حساب فہمی نہ کی جائے گی۔ اُس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں فلاں کام تونے کیوں کیے تھے اور تیرے پاس اُن کاموں کے لیے کیا عذر ہے۔ اُس کی بھلائیوں کے ساتھ اُس کی برائیاں بھی اُس کے نامہ اعمال میں موجود ضرور ہوں گی، مگر بس یہ دیکھ کر کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں سے بھاری ہے ، اس کے قصوروں سے درگزر کیا جائےگا اور اسے معاف کر دیا جائے گا۔ قرآن مجید میں بد اعمال لوگوں سے سخت حساب فہمی کے لیے سُوءُ الْحِسابِ (بری طرح حساب لینے) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں (الرعد، آیت۱۸)، اور نیک لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ”یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم ان کے بہتر اعمال قبول کر لیں گے اور ان کی برائیوں سے درگزر کریں گے“(الاحقاف، آیت۱۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی جو تشریح فرمائی ہے اُسے امام احمد،بخاری،مسلم، ترمذی، نَسائی، ابو داؤد،حاکم ،ابن جریر، عبد بن حُمَید اور بن مردویہ نے مختلف الفاظ میں حضرت عائشہؓ نے نقل کیاہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا”جس سے بھی حساب لیا گیا وہ مارا گیا“۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایاکہ”جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں دیا گیا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا“؟حضورؐ نے جواب دیا”وہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے ، لیکن جس سے پوچھ گچھ کی گئی وہ مارا گیا“۔ایک اور روایت میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ حضورؐ کو نماز میں یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ ”خدایا مجھ سےہلکا حساب لے“۔آپ نے جب سلام پھیرا تو میں نے اس کا مطلب پوچھا۔ آپ نے فرمایا”ہلکے حساب سے مراد یہ ہے کہ بندے کے نامہ اعمال کو دیکھا جائے گا اور اُس سے درگزر کیا جائے گا۔ اے عائشہؓ، اُس روز جس سے حساب فہمی کی گئی وہ مارا گیا“۔
7. اپنے لوگوں سے مراد آدمی کے وہ اہل وعیال، رشتہ دار اور ساتھی ہیں جو اُسی کی طرح معاف کیے گئے ہوں گے۔
8. سورہ اَلْحَاقّہ میں فرمایاگیا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے اُ س کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ غالبًا اِ س کی صورت یہ ہوگی کہ وہ شخص اِ س بات سے تو پہلے ہی مایوس ہوگا کہ اُسے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال ملے گا، کیونکہ اپنے کرتوتوں سے وہ خوب واقف ہوگا اور اسے یقین ہوگا کہ مجھے نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں ملنے والا ہے ۔ البتہ سار ی خلقت کے سامنے بائیں ہاتھ میں نامۂاعمال لیتے ہوئے اُسےخِفّت محسوس ہوگی، اس لیے وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر لے گا۔ مگر اِس تدبیر سے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اپنا کچّا چٹھا اپنے ہاتھ میں لینے سے بچ جائے۔ وہ تو بہر حال اسے پکڑا یا ہی جائے گا خواہ وہ ہاتھ آگے بڑھا کر لے یا پیٹھ کے پیچھے چھپالے۔
9. یعنی اُس کا حال خدا کے صالح بندوں سے مختلف تھا جن کے متعلق سورہ طور (آیت ۲۶) میں فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں میں خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے، یعنی ہر وقت اُنہیں یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں بال بچوں کی محبت میں گرفتا ر ہو کر ہم اُن کی دنیا بنانے کےلیے اپنی عاقبت بر باد نہ کر لیں۔ اِس کے بر عکس اُس شخص کا حال یہ تھا کہ اپنے گھر میں وہ چین کی بنسری بجا رہا تھا اور خوب بال بچوں کو عیش کر ا رہا تھا، خواہ وہ کتنی ہی حرام خوریاں کر کے اور کتنے ہی لوگوں کے حق مار کر یہ سامانِ عیش فراہم کرے، اور اس لطف و لذت کے لیے خدا کی باندھی ہوئی حدوں کو کتنا ہی پامال کرتا رہے۔
10. یعنی یہ خدا کے انصاف اور اس کی حکمت کے خلاف تھا کہ جو کرتوت وہ کر رہا تھا ان کو وہ نظر انداز کر دیتا اور اسے اپنے سامنے بلا کر کوئی باز پرس اس سے نہ کرتا۔
11. یعنی تمہیں ایک حالت پر نہیں رہنا ہے بلکہ جوانی سے بڑھاپے ، بڑھاپے سے موت، موت سے بَرْزَخ، برزخ سے دوبارہ زندگی، دوبارہ زندگی سے میدان حشر، پھر حساب و کتاب اور پھر جزا و سزا کی بے شمار منزلوں سے لازماً تم کر گزرنا ہو گا۔ اِس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ سورج ڈوبنے کے بعد شفق کی سُرخی، دن کے بعد رات کی تاریکی اور اُس میں اُن بہت سے انسانوں اور حیوانات کا سمٹ آنا جو دن کے وقت زمین پر پھیلے رہتے ہیں ، اور چاند کا ہلال سے درجہ بدرجہ بڑھ کر بدر کامل بننا۔ یہ گویا چند وہ چیزیں ہیں جو اس بات کی علانیہ شہادت دے رہی ہیں کہ جس کائنات میں انسان رہتا ہے اس کے اندر ٹھیراؤ نہیں ہے، ایک مسلسل تغیّر اور درجہ بدرجہ تبدیلی ہر طرف پائی جاتی ہے، لہٰذا کفار کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ معاملہ ختم ہو جائے گا۔
12. یعنی ان کے دل میں خدا کا خوف پیدا نہیں ہوتا اور یہ اُس کے آگے نہیں جھکتے۔ اِس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ امام مالک، مسلم اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے نماز میں یہ سورہ پڑھ کر اِس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں سجدہ کیا ہے۔ بخاری، مسلم،ابو داؤد اور نسائی نے ابورافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے عشا کی نماز میں یہ سورہ پڑھی اور سجدہ کیا۔ میں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور حضورؐ نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے، اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا۔ مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، اور ابن ماجہ وغیرہ ہم نے ایک اور روایت نقل کی ہےجس میں حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اِس سورہ میں اور اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ میں سجدہ کیا ہے۔
13. دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے سینوں میں کفر اور عناد اور عداوتِ حق اور برے ارادوں اور فاسد نیتوں کی جو گندگی انہوں نے بھر رکھی ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے۔