1. مراد ہے قیامت ، یعنی وہ آفت جو سارے جہان پر چھا جائے گی۔ اِس مقام پر یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ یہاں بحیثیت مجموعی پورے عالمِ آخرت کا ذکر ہو رہا ہے جو نظام ِ عالم کے درہم برہم ہونے سے شروع ہو کر تمام انسانوں کے دوبارہ اُٹھنے اور اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جزا و سزا پانے تک تمام مراحل پر حاوی ہے۔
2. چہروں کا لفظ یہاں اشخاص کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ چونکہ انسان کے جسم کی نمایاں ترین چیز اُس کا چہرہ ہے جس سے اُس کی شخصیت پہچانی جاتی ہے ، اور انسان پر اچھی یا بُری جو کیفیات بھی گزرتی ہیں ان کا اظہار اس کے چہرے سے ہی ہوتا ہے اِس لیے ”کچھ لوگ“ کہنے کے بجائے ”کچھ چہرے“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
3. قرآن مجید میں کہیں فرمایا گیا ہے کہ جہنّم کے لوگوں کو زقّوم کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں ارشاد ہوا ہے کہ اُن کے لیے غِسْلین (زخموں کے دھوون) کے سوا کوئی کھانا نہ ہو گا ، اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ انہیں خاردار سوکھی گھاس کے سوا کچھ کھانے کو نہ ملے گا۔ ان بیانات میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنّم کے بہت سے درجے ہوں گے جن میں مختلف قسم کے مجرمین اپنے جرائم کے لحاظ سے ڈالے جائیں گے اور مختلف قسم کے عذاب ان کو دیے جائیں گے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زقّوم کھانے سے بچنا چاہیں گے تو غسْلین ان کو ملے گا، اس سے بھی بچنا چاہیں گے تو خاردار گھاس کے سوا کچھ نہ پائیں گے، غرض کوئی مرغوب غذا بہرحال انہیں نصیب نہ ہو گی۔
4. یعنی دنیا میں جو سعی و عمل کر کے وہ آئے ہوں گے اس کے بہترین نتائج آخرت میں دیکھ کر خوش ہو جائیں گے۔ انہیں اطمینان ہو جائے گا کہ دنیا میں ایمان اور صلا ح و تقویٰ کی زندگی اختیار کر کے انہوں نے نفس اور اس کی خواہشات کی جو قربانیاں کیں، فرائض کو ادا کرنے میں جو تکلیفیں اُٹھائیں، احکامِ الہٰی کی اطاعت میں جو زحمتیں برداشت کیں ، معصیتوں سے بچنے کی کوشش میں جو نقصانات اُٹھائے اور جن فائدوں اور لذّتوں سے اپنے آپ کو محروم کر لیا ، یہ سب کچھ فی الواقع بڑے نفع کا سودا تھا۔
5. یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن مجید میں جگہ جگہ جنّت کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، مریم، حاشیہ ۳۸۔ جلد پنجم، الطور، حاشیہ ۱۸۔ الواقع، حاشیہ۱۳۔ جلد ششم، النباء ، حاشیہ ۲۱)۔
6. یعنی ساغر بھرے ہو ئے ہر وقت اُن کے سامنے موجود ہوں گے۔ اِس کی حاجت ہی نہ ہو گی کہ وہ طلب کر کے انہیں منگوائیں۔
7. یعنی اگر یہ لوگ آخرت کی یہ باتیں سُن کر کہتے ہیں کہ آخر یہ سب کچھ کیسے ہو سکتا ہے ، تو کیا خود اپنے گرد و پیش کی دنیا پر نظر ڈال کر انہوں نے کبھی بھی نہ سوچا کہ یہ اُونٹ کیسے بن گئے؟ یہ آسمان کیسے بلند ہو گیا؟ یہ پہاڑ کیسے قائم ہو گئے؟ یہ زمین کیسے بِچھ گئی؟ یہ ساری چیزیں اگر بن سکتی تھیں تو اوربنی ہوئی ان کے سامنے موجود ہیں تو قیامت کیوں نہیں آسکتی؟ آخرت میں ایک دوسری دُنیا کیوں نہیں بن سکتی؟ دوزخ اور جنت کیوں نہیں ہو سکتیں؟ یہ تو ایک بے عقل اور بے فکر آدمی کا کام ہے کہ دنیا میں آنکھیں کھولتے ہی جن چیزوں کو اس نے موجود پایا ہے ان کے متعلق تو وہ یہ سمجھ لے کہ ان کا وجود میں آنا تو ممکن ہے کیونکہ یہ وجود میں آئی ہوئی ہیں ، مگر جو چیزیں اس کے مشاہدے اور تجربے میں ابھی نہیں آئی ہیں ان کے بارے میں وہ بے تکلف یہ فیصلہ کر دے کہ اُن کا ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس کے دماغ میں اگر عقل ہے تو اسے سوچنا چاہیے کہ جو کچھ موجود ہے یہ آخر کیسے وجود میں آگیا ؟ یہ اُونٹ ٹھیک اُن خصوصیات کے مطابق کیسے بن گئے جن خصوصیات کے جانور کی عرب کے صحر امیں رہنے والے انسانوں کو ضرورت تھی؟ یہ آسمان کیسے بن گیا جس کی فضا میں سانس لینے کے لیے ہوا بھری ہوئی ہے، جس کے بادل بارش لے کر آتے ہیں، جس کا سورج دن کو روشنی اور گرمی فراہم کرتا ہے، جس کے چاند اور تارے رات کو چمکتے ہیں؟ یہ زمین کیسے بِچھ گئی جس پر انسان رہتا اور بَستا ہے، جس کی پیداوار سے اس کی تمام ضروریات پوری ہوتی ہیں، جس کے چشموں اور کنوؤں پر اس کی زندگی کا انحصار ہے ؟ یہ پہاڑ زمین کی سطح پر کیسے اُبھر آئے جو رنگ برنگ کی مٹی اور پتھر اور طرح طرح کی معدنیات لیے ہوئے جمے کھڑے ہیں؟ کیا یہ سب کچھ کسی قادرِ مطلق صانع حکیم کی کاری گری کے بغیر ہو گیا ہے؟ کوئی سوچنے اور سمجھنے والا دماغ اس سوال کا جواب نفی میں نہیں دے سکتا۔ وہ اگر ضدّی اور ہٹ دھرم نہیں ہے تو اسے ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ہر چیز نا ممکن تھی اگر کسی زبردست قدرت اور حکمت والے نے اسے ممکن نہ بنایا ہوتا ۔ اور جب ایک قادر کی قدرت سے دنیا کی ان چیزوں کا بننا ممکن ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ جن چیزوں کے آئندہ وجود میں آنے کی خبر دی جا رہی ہے اُن کو بعید از امکان سمجھا جائے۔
8. یعنی اگر معقول دلیل سے کوئی شخص بات نہیں مانتا تو نہ مانے۔ تمہارے سُپرد یہ کام تو نہیں کیا گیا ہے کہ نہ ماننے والوں سے زبردستی منواؤ۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ لوگوں کو صحیح اور غلط کا فرق بتا دو اور غلط راہ پر چلنے کے انجام سے خبردار کر دو۔ سو یہ فرض تم انجام دیتے رہو۔