1. اِن آیات کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہوا ہے، حتیٰ کہ ”جُفت اور طاق“ کے بارے میں تو ۳۶ اقوال ملتے ہیں۔ بعض روایات میں ان کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی منسُوب کی گئی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی تفسیر حضور ؐ سے ثابت نہیں ہے، ورنہ ممکن نہ تھا کہ صحابہ اور تابعین اور بعد کے مفسرین میں سے کوئی بھی آپ ؐ کی تفسیر کے بعد خود اِن آیات کے معنی متعین کرنے کی جرأت کرتا۔
اندازِ بیان پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پہلے سے کوئی بحث چل رہی تھی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بات پیش فرما رہے تھے اور منکرین ان کا انکار کر رہے تھے ۔ اِس پر رسول ؐ کے قول کا اثبات کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ قسم ہے فلاں اور فلاں چیزوں کی ۔ مطلب یہ تھا کہ اِن چیزوں کی قسم، جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں وہ برحق ہے۔ پھر بات کو اِس سوال پر ختم کر دیا گیا کہ کیا کسی صاحب عقل کے لیے اِس میں کوئی قَسم ہے؟ یعنی کیا اِس حق بات پر کوئی شہادت دینے کے لیے اس کے بعد کسی اور قَسم کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ کیا یہ قَسم اِس کے لیے کافی نہیں ہے کہ ایک ہوشمند انسان اُس بات کو مان لے جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں؟
اب سوال یہ ہے کہ وہ بحث تھی کیا جس پر ان چار چیزوں کی قسم کھائی گئی۔ اس کے لیے ہمیں اُس پورے مضمون پر غور کرنا ہو گا جو بعد کی آیتوں میں ”تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے ربّ نے عاد کے ساتھ کیا کیا“ سے شروع ہو کر سورۃ کے آخر تک چلتا ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بحث جزا و سزا کے بارے میں تھی جس کو ماننے سے اہلِ مکہ انکار کر رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اس کا قائل کرنے کے لیے مسلسل تبلیغ و تلقین فرما رہے تھے۔ اس پر فجر ، اور دس راتوں اور جُفت اور طاق، اور رُخصت ہوتی ہوئی رات کی قسم کھا کر فرمایا گیا کہ اس بات کو باور کرنے کے لیے کیا یہ چار چیزیں کافی نہیں ہیں کہ کسی صاحبِ عقل آدمی کے سامنے اور کوئی چیز پیش کرنے کی ضرورت ہو؟
اِن قسموں کا یہ موقع و محل متعین ہو جانے کے بعد لامحالہ ہمیں اِن میں سے ہر ایک کے وہ معنی لینے ہوں گے جو بعد کے مضمون پر دلالت کرتے ہوں۔ سب سے پہلے فرمایا ”فجر کی قسم۔“ فَجر پَو پھٹنے کو کہتے ہیں ، یعنی وہ وقت جب رات کی تاریکی میں سے دن کی ابتدائی روشنی مشرق کی طرف ایک سفید دھاری کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ پھر فرمایا ”دس راتوں کی قَسم۔“ سلسلۂ بیان کو نگاہ میں رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مہینے کی تیس راتوں میں سے ہر دس راتیں ہیں۔ پہلی دس راتیں وہ جن میں چاند ایک باریک ناخُن کی شکل سے شروع ہو کر ہر رات کو بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ آدھے سے زیادہ روشن ہو جاتا ہے۔ دوسری دس راتیں وہ جن میں رات کا بڑا حصّہ چاند سے روشن رہتا ہے۔ آخری دس راتیں وہ جن میں چاند چھوٹے سے چھوٹا اور رات کا بیشتر حصّہ تاریک سے تاریک تر ہو تا جاتا ہے یہاں تک کہ مہینے کے خاتمے پر پوری رات تاریک ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد فرمایا ”جُف اور طاق کی قَسم“۔ جُفت اُس عدد کو کہتے ہیں جو دو برابر کے حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ، جیسے ۲۔۴۔۶۔۸۔ اور طاق اُس عدد کو کہتے ہیں جو تقسیم نہیں ہوتا ، جیسے۱۔۳۔۵۔۷۔ عمومی حیثیت سے دیکھا جائے تو اِس سے مراد کائنات کی تمام چیزیں ہو سکتی ہیں۔ چونکہ ہر چیز یا تو جوڑا جوڑا ہے یا تنہا۔ لیکن چونکہ یہاں بات دن اور رات کی ہو رہی ہے، اس لیے سلسلۂ مضمون کی مناسبت سے جُفت اور طاق کا مطلب تغیّر ایّام ہے کہ مہینے کی تاریخیں ایک سے دو اور دو سے تین ہوتی جاتی ہیں اور ہر تغیُّر ایک نئی کیفیت لے کر آتا ہے۔ آخر میں فرمایا ”رات کی قَسم جب کہ وہ رُخصت ہو رہی ہو۔“ یعنی وہ تاریکی جو سُورج غروب ہونے کے بعد سے دنیا پر چھائی ہوئی تھی ، خاتمے پر آلگی ہو اور پَو پھٹنے والی ہو۔
اب ان چاروں چیزوں پر ایک مجموعی نگاہ ڈالیے جن کی قَسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جزا و سزا کی جو خبر دے رہے ہیں وہ برحق ہے۔ یہ سب چیزیں اس حقیقت پر دلالت کر رہی ہیں کہ ایک ربِّ قدیر اِس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے اور وہ جو کام بھی کر رہا ہے وہ بے تُکا ، بے مقصد، بے حکمت، بے مصلحت نہیں کر رہا ہے بلکہ اُس کے ہر کام میں صریحًا ایک حکیمانہ منصوبہ کار فرما ہے۔ اُس کی دنیا میں تم یہ کبھی نہ دیکھو گے کہ ابھی رات ہے اور یکایک سُورج نصف النہار پر آکھڑا ہوا۔ یا ایک روز چاند ہلال کی شکل میں طلوع اور دوسرے روز چودھویں رات کا پورا چاند نمودار ہو جائے ۔ یا رات آئی ہو تو کسی طرح اس کے ختم ہونے کی نوبت ہی نہ آئے اور وہ مستقل طور پر ٹھہر کر رہ جائے۔ یا تغیُّرِ ایّام کا سِرے سے کوئی باقاعدہ سلسلہ ہی نہ ہو کہ آدمی تاریخوں کا کوئی حساب رکھ سکے اور یہ جان سکے کہ یہ کون سا مہینہ ہے، اِس کی کون سی تاریخ ہے، کس تاریخ سے اُس کا کون سا کام شروع اور کب ختم ہونا ہے، گرمی کے موسم کی تاریخیں کون سی ہیں اور برسات یا سردی کے موسم کی تاریخیں کون سی۔ کائنات کی دوسری بے شمار چیزوں کو چھوڑ کر اگر آدمی شب و روز کی اِس باقاعدگی ہی کو آنکھیں کھول کر دیکھے اور کچھ دماغ کو سوچنے کی تکلیف بھی دے تو اسے اس امر کی شہادت ملے گی کہ یہ زبردست نظم و ضبط کسی قادر ِ مطلق کا قائم کیا ہوا ہے اور اس کے قیام سے اس مخلوق کی بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں جسے اس نے اِس زمین پر پیدا کیا ہے۔ اب اگر ایسے حکیم و دانا اور قادر و توانا خالق کی دنیا میں رہنے والا کوئی شخص آخرت کی جزا و سزا کا انکار کرتا ہے تو وہ دو حماقتوں میں سے کسی ایک حماقت میں لا محالہ مبتلا ہے۔ یا تو وہ اُ س کی قدرت کا منکر ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کائنات کو ایسے بے نظیر نظم کے ساتھ پیدا کر دینے پر تو قادر ہے مگر انسان کو دوبارہ پیدا کر کے اُسے جزا و سزا دینے پر قادر نہیں ہے۔ یا وہ اس کی حکمت و دانائی کا منکر ہے اور اس کے بارے میں یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس نے دنیا میں انسان کو عقل اور اختیارات دے کر پیدا تو کر دیا مگر وہ نہ تو اس سے کبھی یہ حساب لے گا کہ اُس نے اپنی عقل اور اپنے اختیارات سے کام کیا لیا، اور نہ اچھے کام کی جزا دے گا اور نہ بُرے کام کی سزا۔ اِن دونوں باتوں میں جس بات کا بھی کوئی شخص قائل ہے وہ پرلے درجے کا احمق ہے۔
2. جز ا و سزا پر شب و روز کے نظام سے استدلال کرنے کےبعد اب اس کے ایک یقینی حقیقت ہونے پر انسانی تاریخ سے استدلال کیا جا رہا ہے ۔ تاریخ کی چند معروف قوموں کے طرزِ عمل اور ان کے انجام کے ذکر سے مقصود یہ بتانا ہے کہ یہ کائنات کسی اندھے بہرے قانونِ فطرت پر نہیں چل رہی ہے بلکہ ایک خدائے حکیم اس کو چلا رہا ہے اور اس خدا کی خدائی میں صرف ایک وہی قانون کار فرما نہیں ہے جسے تم قانونِ فطرت سمجھتے ہو، بلکہ ایک قانونِ اخلاق بھی کار فرما ہے جس کا لازمی تقاضا مکافاتِ عمل اور جزا اور سزا ہے۔ اس قانون کی کارفرمائی کے آثار خود اس دنیا میں بھی بار بار ظاہر ہوتے رہے ہیں جو عقل رکھنے والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ سلطنتِ کائنات کا مزاج کیا ہے۔ یہاں جن قوموں نے بھی آخرت سے بے فکر اور خدا کی جزا و سزا سے بے خوف ہو کر اپنی زندگی کا نظام چلایا وہ آخر کار فاسد و مُفسد بن کر رہیں، اور جو قوم بھی اس راستے پر چلی اُس پر کائنات کے ربّ نے آخر کار عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ انسانی تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ دو باتوں کی واضح شہادت دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ آخر ت کا انکار ہر قوم کو بگاڑنے اور بالآخر تباہی کے غار میں دھکیل دینے کا موجب ہوا ہے اس لیے آخرت فی الواقع ایک حقیقت ہے جس سے ٹکرانے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہر حقیقت سے ٹکرانے کا ہوا کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ جزائے اعمال کسی وقت مکمل طور پر بھی واقع ہونے والی ہے، کیونکہ فساد کی آخری حد پر پہنچ کر عذاب کا کوڑا جن لوگوں پر برسا ان سے پہلے صدیوں تک بہت سے لوگ اس فساد کے بیج بو کر دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور اُن پر کوئی عذاب نہ آیا تھا۔ خدا کے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی وقت اُن سب کی باز پُرس بھی ہو اور وہ بھی اپنے کیے کی سزا پائیں(قرآن مجید میں آخرت پر یہ تاریخی اور اخلاقی استدلال جگہ جگہ کیا گیا ہے اور ہم نے ہر جگہ اس کی تشریح کی ہے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حواشی ۶-۵۔ یونس، حاشیہ۱۲۔ ہُود، حواشی ۱۱۵-۱۰۵-۵۷۔ ابراہیم، حاشیہ ۹۔ جلد سوم، النمل، حواشی ۸۶-۶۶۔ الروم، حاشیہ۸۔ جلد چہارم، سبا، حاشیہ ۲۵۔ صٓ، حواشی ۳۰-۲۹۔ المومن، حاشیہ ۸۰۔ الدُّخان، حواشی ۳۴-۳۳۔ الجاثیہ، حواشی ۲۸-۲۷۔ جلد پنجم، قٓ، حاشیہ ۱۷۔ الذّاریات، حاشیہ ۲۱)۔
3. عادِ ارم سے مراد قدیم قومِ عاد ہے جسے قرآن مجید اور تاریخِ عرب میں عادِ اولیٰ کا نام دیا گیا ہے۔ سُورہ نجم میں فرمایا گیا ہے کہ وَاَنَّہٗ عَادَنِ الْاُوْلےٰ(آیت نمبر ۵۰)”اور یہ کہ اُس نے قدیم قومِ عاد کو ہلاک کیا“، یعنی اُس قومِ عاد کو جس کی طرف حضرت ھودؑ بھیجے گئے تھے اور جس پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اُس کے مقابلے میں تاریخِ عرب اِس قوم کے اُن لوگوں کو جو عذاب سے بچ کر بعد میں پھلے پھولے تھے عادِ اُخریٰ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ قدیم قومِ عاد کو عادِ ارم اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ سامی نسل کی اُس شاخ سے تعلق رکھتے تھے جو ارم بن سام بن نوحؑ سے چلی تھی۔ اسی شاخ کی کئی دوسری ضمنی شاخیں تاریخ میں مشہور ہیں جن میں سے ایک ثمود ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور دوسرے آرامی(Aramaeans ) ہیں جو ابتداءً شام کے شمالی علاقوں میں آباد تھی اور جن کی زبان آرامی(Aramaic ) سامی زبانوں میں بڑا اہم مقام رکھتی ہے۔
عاد کے لیے ذات العماد (اُونچے ستونوں والے) کے الفاظ اس لیے استعمال کیے گئے ہیں کہ وہ بڑی بڑی بلند عمارتیں بناتے تھے اور دنیا میں اُونچے ستونوں پر عمارتیں کھڑی کرنے کا طریقہ سب سے پہلے اُنہی نے شروع کیا تھا۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ اُن کی اس خصوصیت کا ذکر اِس طرح کیا گیا ہے کہ حضرت ھُود ؑ نے اُن سے فرمایا اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ۰۰۱۲۸وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَۚ۰۰۱۲۹”یہ تمہا را کیا حال ہے کہ ہر اُونچے مقام پر لاحاصل ایک یادگار عمارت بنا ڈالتے ہو اور بڑے بڑے قصر تعمیر کرتے ہو گویا تمہیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے۔“ (الشعراء، آیات ۱۲۹-۱۲۸)۔
4. یعنی وہ اپنے زمانے کی ایک بے نظیر قوم تھے ، اپنی قوت اور شان و شوکت کے اعتبار سے کوئی قوم اُس وقت دنیا میں اُن کی ٹکّر کی نہ تھی ۔ قرآن میں دوسرے مقامات پر ان کے متعلق فرمایا گیا ہے وَذَا دَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً،” تم کو جسمانی ساخت میں خوب تنو مند کیا “(الاعراف، آیت ۶۹)۔ فَاَمَّا عَادٌ فَا سْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَا لُوْ ا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّۃً، ”رہے عاد تو اُنہوں نے زمین میں کسی حق کے بغیر اپنی بڑا ئی کا گھمنڈ کیا اور کہنے لگے کون ہے ہم سے زیادہ زور آور؟“(حٰم السجدہ، آیت ۱۵)۔ وَاِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ،”اور تم نے جب کسی پر ہاتھ ڈالا جبّار بن کر ڈالا“(الشعراء، آیت ۱۳۰)۔
5. وادی سے مراد وادی القرُیٰ ہے جہاں اس قوم نے پہاڑوں کو تراش تراش کر اُن کے اند رعمارتیں بنائی تھیں اور غالباً تاریخ میں وہ پہلی قوم ہے جس نے چٹانوں کے اندر اس طرح کی عمارتیں بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا(تفصیل کے ملاحظہ ہو ، تفہیم القرآن، جلد دوم، الاعراف، حواشی ۵۹-۵۷۔ الحجر، حاشیہ ۴۵۔ جلد سوم، الشعراء، حواشی ۹۹-۹۵ مع تصاویر)۔
6. فرعون کے لیے ذوالْاَوْتاد(میخوں والا) کے الفا ظ اس سے پہلے سورۂ صٔ، آیت ۱۲ میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اُس کی فوجوں کو میخوں سے تشبیح دی گئی ہو اور میخوں والا کا مطلب فوجوں والا ہو۔ کیونکہ انہی کی بدولت اُس کی سلطنت اس طرح جمی ہوئی تھی جیسے خیمہ میخوں کے ذریعے سے مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد فوجوں کی کثرت ہو اور مطلب یہ ہو کہ اس کے لشکر جہاں بھی جا کر ٹھہرتے تھے وہاں ہر طرف ان کے خیموں کی میخیں ہی میخیں ٹُھکی نظر آتی تھیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد وہ میخیں ہوں جن سے ٹھونک کر وہ لوگوں کو عذاب دیتا تھا۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اَہرامِ مصر کو میخوں سے تشبیح دی گئی ہو کیونکہ وہ فراعنہ کی عظمت و شوکت کے وہ آثار ہیں جو صدیوں سے زمین پر جمّے کھڑے ہیں۔
7. ظالموں اور مفسدوں کی حرکات پر نگاہ رکھنے کے لیے گھات لگائے ہوئے ہونے کے الفاظ تمثیلی استعارے کے طور پر استعمال کیے گئے ہیں۔ گھات اُس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی شخص کسی کے انتظار میں اس غرض کے لیے چھُپا بیٹھا ہوتا ہے کہ جب وہ زَد پر آئے اسی وقت اُس پر حملہ کر دے۔ وہ جس کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے اُسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اُس کی خبر لینے کے لیے کون کہاں چھُپا ہوا ہے۔ انجام سے غافل ، بے فکری کے ساتھ وہ اُس مقام سے گزرتا ہے اور اچانک شکار ہو جاتا ہے۔ یہی صورتحال اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اُن ظالموں کی ہے جو دنیا میں فساد کا طوفان برپا کیے رہتے ہیں۔ اُنہیں اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ خدا بھی کوئی ہے جو ان کی حرکات کو دیکھ رہا ہے۔ وہ پوری بے خوفی کے ساتھ روز بروز زیادہ سے زیادہ شرارتیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ حد آجاتی ہے جس سے آگے اللہ تعالیٰ انہیں بڑھنے نہیں دینا چاہتا اُسی وقت اُن پر اچانک اُس کے عذاب کا کوڑا برس جاتا ہے۔
8. اب لوگوں کی عام اخلاقی حالت پر تنقید کر کے یہ بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کی زندگی میں یہ رویّہ جن انسانوں نے اختیار کر رکھا ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ ان سے کبھی باز پُرس نہ ہو، اور اس بات کو عقل و اخلاق کا تقاضا کیسے مانا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کر کے جب انسان دنیا سے رخصت ہو جائے تو اُسے کسی جزا اور سزا سے سابقہ پیش نہ آئے۔
9. یعنی یہ ہے انسان کا مادّہ پرستانہ نظریۂ حیات ۔ اسی دنیا کے مال و دولت اور جاہ و اقتدار کو وہ سب کچھ سمجھتا ہے ۔ یہ چیز ملے تو پھُول جاتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا نے مجھے عزّت دار بنا دیا ، اور یہ نہ ملے تو کہتا ہے کہ خدا نےمجھے ذلیل کر دیا۔ گویا عزّت اور ذلّت کا معیار اُس کے نزدیک مال و دولت اور جاہ و اقتدار کا ملنا یا نہ ملنا ہے۔ حالانکہ اصل حقیقت جسے وہ نہیں سمجھتا یہ ہے کہ اللہ نے جس کو دنیا میں جو کچھ بھی دیا ہے آزمائش کے لیے دیا ہے۔ دولت اور طاقت دی ہے تو امتحان کے لیے دی ہے کہ وہ اسے پا کر شکر گزار بنتا ہے یا ناشکری کرتا ہے۔ مفلس اور تنگ حال بنایا ہے کہ تو اس میں بھی اُس کا امتحان ہے کہ صبر اور قناعت کے ساتھ راضی بر ضا رہتا ہے اور جائز حدُود کے اندر رہتے ہوئے اپنی مشکلات کا مقابلہ کرتا ہے، یا اخلاق و دیانت کی ہر حد کو پھاند جانے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنے خدا کو کوسنے لگتا ہے۔
10. یعنی یہ عزت اور ذلت کا معیار ہر گز نہیں ہے ۔ تم سخت غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ اخلاق کی بھلائی اور بُرائی کے بجائے تم نے اسے معیارِ عزت و ذلت بنا رکھا ہے۔
11. یعنی جب تک اس کا باپ زندہ رہتا ہے اس کے ساتھ تمہارا برتاؤ کچھ اور ہوتا ہے اور جب اُس کا باپ مر جاتا ہے تو ہمسائے اور دُور کے رشتہ دار تو درکنار چچا اور ماموں اور بڑے بھائی تک اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔
12. یعنی تمہارے معاشرے میں غریبوں کو کھانا کھلانے کا کوئی چرچا نہیں ہے۔ نہ کوئی خود کسی بھوکے کو کھانا کھلانے پر آمادہ ہوتا ہے ، نہ لوگوں میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ بُھوکوں کی بھُوک مٹانے کے لیے کوئی فکر کریں اور ایک دوسرے کو اس کا انتظام کر نے پر اُکسائیں۔
13. عرب میں عورتوں اور بچوں کو تو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ اس باب میں یہ تھا کہ میراث کا حق صرف اُن مَردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کُنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں۔ اس کے علاوہ مَرنے والے کے وارثوں میں جو زیادہ طاقتور اور با اثر ہوتا تھا وہ بلا تأمل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا اور اُن سب لوگوں کا حصہ مار کھاتا تھا جو اپنا حصّہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ رکھتے ہوں۔ حق اور فرض کی کوئی اہمیت ان کی نگاہ میں نہ تھی کہ ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض سمجھ کر حقدار کو اُس کا حق دیں خواہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔
14. یعنی جائز و ناجائز اور حلال و حرام کی تمہیں کوئی فکر نہیں ۔ جس طریقے سے بھی مال حاصل کیا جا سکتا ہو اسے حاصل کرنے میں تمہیں کوئی تأمل نہیں ہوتا۔ اور خواہ کتنا ہی مال مل جائے تمہاری حِرص و طمع کی آگ کبھی نہیں بجھتی۔
15. یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تم دنیا میں جیتے جی یہ سب کچھ کرتے رہو اور اس کی باز پُرس کا وقت کبھی نہ آئے ۔ جس جزا و سزا کا انکار کر کے تم نے زندگی کا یہ ہنجار اختیار کر رکھا ہے وہ کوئی انہونی اور خیالی بات نہیں ہے بلکہ وہ پیش آنی ہے اور اس وقت آنی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
16. اصل الفاظ ہیں جَآ ءَ رَبُّکَ جن کا لفظی ترجمہ ہے”تیرا ربّ آئے گا۔“ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اس لیے لا محالہ اس کو ایک تمثیلی انداز ِ بیان ہی سمجھنا ہو گا جس سے یہ تصوّر دلانا مقصود ہے کہ اُس وقت اللہ تعالیٰ کے اقتدار اور اُس کی سلطانی و قہاری کے آثار اس طرح ظاہر ہوں گے جیسے دنیا میں کسی بادشاہ کے تمام لشکروں اور اعیانِ سلطنت کی آمد سے وہ رعب طاری نہیں ہوتا جو بادشاہ کے بنفس نفیس خود دربار میں آجانے سے طاری ہو تا ہے۔
17. اصل الفاظ ہیں یَوْمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی۔ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اُس روز انسان یاد کرے گا کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کر کے آیا ہے اور اُس پر نادم ہو گا ، مگر اُس وقت یاد کرنے اور نادم ہونے کا کیا فائدہ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اُس روز انسان کو ہوش آئے گا، اُسے نصیحت حاصل ہوگی، اُس کی سمجھ میں یہ بات آئے گی کہ جو کچھ اُسے انبیاء نے بتایا تھا وہی صحیح تھا اور اُن کی بات نہ مان کر اُس نے حماقت کی، مگر اُس وقت ہوش میں آنے اور نصیحت پکڑنے اور اپنی غلطی کو سمجھنے کا کیا فائدہ۔
18. نفس ِ مطمئن سے مراد وہ انسان ہے جس نے کسی شک و شبے کے بغیر پورے اطمینان اور ٹھنڈے دل کے ساتھ اللہ وحدہ لاشریک کو اپنا ربّ اور انبیاء کے لائے ہوئے دین ِ حق کو اپنا دین قرار دیا ، جو عقیدہ اور جو حکم بھی اللہ اور اس کے رسول ؐ سے ملا اور اُسے سراسر حق مانا، جس چیز سے بھی اللہ کے دین نے منع کیا اُس سے بادل نا خواستہ نہیں بلکہ اس یقین کے ساتھ رُک گیا کہ فی الواقع وہ بُری چیز ہے ، جس قربانی کی بھی حق پرستی کی راہ میں ضرورت پیش آئی بے دریغ اُسے پیش کر دیا، جن مشکلات اور تکالیف اور مصائب سے بھی اس راہ میں سابقہ درپیش ہوا اُنہیں سکونِ قلب کے ساتھ برداشت کیا ، اور دوسرے راستوں پر چلنے والوں کو دنیا میں جو فوائد اور منافع اور لذائد حاصل ہوتے نظر آرہے تھے ان سے محروم رہ جانے پر اسے کوئی حسرت لاحق نہ ہوئی بلکہ وہ اس بات پر پوری طرح مطمئن رہا کہ دین ِ حق کی پیروی نے اسے ان گندگیوں سے محفوظ رکھا ہے۔ اِسی کیفیت کو دوسری جگہ قرآن پاک میں شرحِ صدر سے تعبیر کیا گیا ہے (الانعام، آیت ۱۲۵)۔
19. یہ بات اُس سے موت کے وقت بھی کہی جائے گی ، قیامت کے روز جب وہ دوبارہ اُٹھ کر میدانِ حشر کی طرف چلے گا اُس وقت بھی کہی جائے گی اور جب اللہ کی عدالت میں پیشی کا موقع آئے گا اُس وقت بھی کہی جائے گی ۔ ہر مرحلے پر اُسے اطمینا ن دلایا جائے گا کہ وہ اللہ کی رحمت کی طرف جا رہا ہے۔