Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 100-110

وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا​ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿9:100﴾ وَمِمَّنۡ حَوۡلَـكُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ​​ ۛؕ وَمِنۡ اَهۡلِ الۡمَدِيۡنَةِ​ ​ ​ۛمَرَدُوۡا عَلَى النِّفَاقِلَا تَعۡلَمُهُمۡ ​ؕ نَحۡنُ نَـعۡلَمُهُمۡ​ ؕ سَنُعَذِّبُهُمۡ مَّرَّتَيۡنِ ثُمَّ يُرَدُّوۡنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيۡمٍ​ ۚ‏ ﴿9:101﴾ وَاٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِهِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًـا وَّاٰخَرَ سَيِّئًا ؕ عَسَى اللّٰهُ اَنۡ يَّتُوۡبَ عَلَيۡهِمۡ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏  ﴿9:102﴾ خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّيۡهِمۡ بِهَا وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡ​ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ﴿9:103﴾ اَلَمۡ يَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ هُوَ يَقۡبَلُ التَّوۡبَةَ عَنۡ عِبَادِهٖ وَيَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿9:104﴾ وَقُلِ اعۡمَلُوۡا فَسَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَكُمۡ وَرَسُوۡلُهٗ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ​ؕ وَسَتُرَدُّوۡنَ اِلٰى عٰلِمِ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ​ۚ‏ ﴿9:105﴾ وَاٰخَرُوۡنَ مُرۡجَوۡنَ لِاَمۡرِ اللّٰهِ اِمَّا يُعَذِّبُهُمۡ وَاِمَّا يَتُوۡبُ عَلَيۡهِمۡ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿9:106﴾ وَالَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّكُفۡرًا وَّتَفۡرِيۡقًۢا بَيۡنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاِرۡصَادًا لِّمَنۡ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ مِنۡ قَبۡلُ​ؕ وَلَيَحۡلِفُنَّ اِنۡ اَرَدۡنَاۤ اِلَّا الۡحُسۡنٰى​ؕ وَاللّٰهُ يَشۡهَدُ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿9:107﴾ لَا تَقُمۡ فِيۡهِ اَبَدًا ​ؕ لَمَسۡجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقۡوٰى مِنۡ اَوَّلِ يَوۡمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِيۡهِ​ؕ فِيۡهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوۡنَ اَنۡ يَّتَطَهَّرُوۡا ​ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُطَّهِّرِيۡنَ‏ ﴿9:108﴾ اَفَمَنۡ اَسَّسَ بُنۡيَانَهٗ عَلٰى تَقۡوٰى مِنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانٍ خَيۡرٌ اَمۡ مَّنۡ اَسَّسَ بُنۡيَانَهٗ عَلٰى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانۡهَارَ بِهٖ فِىۡ نَارِ جَهَـنَّمَ​ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿9:109﴾ لَا يَزَالُ بُنۡيَانُهُمُ الَّذِىۡ بَنَوۡا رِيۡبَةً فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ اِلَّاۤ اَنۡ تَقَطَّعَ قُلُوۡبُهُمۡ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿9:110﴾

100 - وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیّا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ 101 - تمہارے گردو پیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں ۔ تم انہیں نہیں جانتے ، ہم ان کو جانتے ہیں۔97 قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے، 98پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ 102 - کچھ اور لوگ ہیں جنہیں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے ، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہوجائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ 103 - اے نبی ؐ ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاوٴ ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دُعا ان کے لیے وجہ تسکین ہوگی، اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ 104 - کیا اِن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے، اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے ؟ 105 - اور اے نبی ؐ ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو ، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِ عمل اب کیا رہتا ہے۔99پھر تم اُس کی طرف پلٹائے جاوٴ گے جو کھُلے اور چھُپے سب کو جانتا ہے اور وہ تمہیں بتادے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔100 106 - کچھ دُوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھہرا ہوا ہے ، چاہے اُنہیں سزا دے اور چاہے اُن پر از سرِ نو مہربان ہو جائے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔101 107 - کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے کہ (دعوتِ حق کو) نقصان پہنچائیں، اور (خدا کی بندگی کرنے کے بجائے) کُفر کریں، اور اہلِ ایمان میں پُھوٹ ڈالیں، اور (اس بظاہر عبادت گاہ کو) اُس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اُس کے رسول ؐ کے خلاف بر سرِ پیکار ہوچکا ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا دوسری چیز کا نہ تھا ۔ مگر اللہ گواہ ہے وہ قطعی جھوٹے ہیں ۔ 108 - تم ہرگز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا ۔ جو مسجد اول روز سے تقوٰی پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔102 109 - پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر 103پر اُٹھائی اور وہ اُسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔104 110 - یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے یقینی کی جڑ بنی رہے گی (جس کے نکلنے کی اب کوئی صورت نہیں) بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہو جائیں۔105 اللہ نہایت باخبر اور حکیم و دانا ہے۔؏ ۱۳


Notes

97. یعنی اپنے نفاق کو چھپانے میں وہ اتنے مشاق ہوگئے ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی کمال درجے کی فراست کے باوجود ان کو نہیں پہچان سکتے تھے۔

98. دوہری سزا سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ دنیا جس کی محبت میں مبتلا ہو کر انہوں نے ایمان و اخلاص کے بجائے منافقت اور غداری کا رویہ اختیار کیا ہے، ان کے ہاتھ سے جائے گی اور یہ مال و جاہ اور عزت حاصل کرنے کے بجائے اُلٹی ذلت و نامرادی پائیں گے۔ دوسری طرف جس مشن کو یہ ناکام دیکھنا اور اپنی چال بازیوں سے ناکام کرنا چاہتے ہیں وہ ان کی خواہشوں اور کوششوں کے علی الرغم ان کی آنکھوں کے سامنے فروغ پائے گا۔

99. یہاں جھوٹے مدعی ایمان اور گنہگار مومن کا فرق صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے ۔ جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر فی الواقع خدا اور اس کے دین اور جماعت مومنین کے ساتھ کوئی خلوص نہیں رکھتا اس کے عدم اخلاص کا ثبوت اگر اس کے طرزِ عمل سے مل جائے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے گا۔ خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لیے وہ کوئی مال پیش کرے تو اسے رد کر دیا جائے گا۔ مرجائے تو نہ مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور نہ کوئی مومن اس کے لیے دعائے مغفرت کرے گا چاہے وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ بخلاف اس کے جو شخص مومن ہواور اس سے کوئی غیر مخلصانہ طرزِ عمل سرزد ہو جائے وہ اگر اپنے قصور کا اعتراف کر لے تو اس کو معاف بھی کیا جائے گا ، اس کے صدقات بھی قبول کیے جائیں گے اور اس کے لیے دعائے رحمت بھی کی جائے گی۔ اب رہی یہ بات کہ کس شخص کو غیر مخلصانہ طرزِ عمل کے صدور کے باوجود منافق کے بجائے محض گناہ گار مومن سمجھا جائے گا ، تو یہ تین معیاروں سے پرکھی جائے گی جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے:

(۱) وہ اپنے قصور کے لیے عذرات لنگ اور تاویلات و توجیہات پیش نہیں کرے گا ، بلکہ جو قصور ہوا ہے اسے سیدھی طرح صاف صاف مان لے گا۔

(۲) اس کے سابق طرزِ عمل پر نگاہ ڈال کر دیکھا جائے گا کہ یہ عدم اخلاص کا عادی مجرم تو نہیں ہے۔ اگر پہلے وہ جماعت کا ایک صالح فرد رہا ہے اور اس کے کارنامۂ زندگی میں مخلصانہ خدمات ، ایثار و قربانی ، اور سبقت الی الخیرات کا ریکارڈ موجود ہے تو باور کر لیا جائے گا کہ اِس وقت جو قصور اس سے سرزد ہوا ہے وہ ایمان و اخلاص کے عدم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک کمزوری ہے جو وقتی طور پر رونما ہوگئی ہے۔

(۳) اس کے آئندہ طرزِ عمل پر نگاہ رکھی جائے گی کہ آیا اس کا اعترافِ قصور محض زبانی ہے یا فی الواقع اس کے اندر کوئی گہرا احساس ِ ندامت موجود ہے۔ اگر وہ اپنے قصور کی تلافی کے لیے بے تاب نظر آئے اور اس کی بات بات سے ظاہر ہو کہ جس نقص ایمانی کا نقش اس کی زندگی میں ابھر آیا تھا اسے مٹانے اور اس کا تدارک کرنے کی وہ سخت کوشش کر رہا ہے ، تو سمجھا جائے گا کہ وہ حقیقت میں نادم ہے اور یہ ندامت ہی اس کے ایمان و اخلاص کی دلیل ہو گی۔

محدثین نے ان آیات کی شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہ مضمون آئینہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ابو لُبابہ بن عبد المنذِر اور ان کے چھ ساتھیوں کے معاملہ میں نازل ہوئی تھیں۔ ابو لُبابہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیعتِ عقبہ کے موقع پر ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے۔ پھر جنگ بدر، جنگ اُحُد اور دوسرے معرکوں میں برابر شریک رہے ۔ مگر غزوۂ تبوک کے موقع پر نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا اور یہ کسی عذر شرعی کے بغیر بیٹھے رہ گئے۔ ایسے ہی مخلص ان کے دوسرے ساتھی بھی تھے اور ان سے بھی یہ کمزوری سرزد ہو گئی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے اور ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق اللہ اور رسول کی کیا رائے ہے تو انہیں سخت ندامت ہوئی۔ قبل اس کے کوئی باز پرس ہوتی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ ہم پر خواب و خور حرام ہے جب تک ہم معاف نہ کر دیے جائیں ، یا پھر ہم مر جائیں ۔ چنانچہ کئی روز وہ اسی طرح بے آپ و دانہ اور بے خواب بندھے رہے حتیٰ کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ آخر کا ر جب انہیں بتایا گیا کہ اللہ اور رسول نے تمہیں معاف کر دیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ جس گھر کی آسائش نے ہمیں فرض سے غافل کیا اسے اور اپنے تمام مال کو خدا کی راہ میں دے دیں گے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارا مال دینے کی ضرورت نہیں ، صرف ایک تہائی کافی ہے، چنانچہ وہ انہوں نے اسی وقت فی سبیل اللہ وقف کر دیا۔ اس قصہ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوجا تا ہے کہ خدا کےہاں معافی کس قسم کی کمزوریوں کے لیے ہے۔ یہ سب حضرات عادی غیر مخلص نہ تھے بلکہ ان کا پچھلا کارنامۂ زندگی ان کے اخلاص ایمانی پر دلیل تھا۔ ان میں سے کسی نے عذرات نہیں تراشے بلکہ اپنے قصور کو خود ہی قصور مان لیا۔ انہوں نے اعتراف ِ قصور کے ساتھ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی نہایت نادم اور اپنے اس گناہ کی تلافی کے لیے سخت بے چین ہیں۔

اس سلسلہ میں ایک اور مفید نکتے پر بھی نگاہ رہنی چاہیے جو ان آیات میں ارشاد ہوا ہے ۔ وہ یہ کہ گناہوں کی تلافی کے لیے زبان اور قلبِ کی تو بہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ بھی ہونی چاہیے، اور عملی توبہ کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں مال خیرات کرے۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پا رہی تھی اور جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہوا تھا، دور ہو جاتی ہے اور خیر کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے ۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گر گیا تھا، اپنے گرنے کو خود محسوس کر لے۔ پھر اس کا اپنے گناہ پر شرمسار ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس گڑھے کو اپنے لیے نہایت بری جائے قرار سمجھتا ہے اور اپنی اسی حالت سے سخت تکلیف میں ہے ۔ پھر اس کا صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں سے اس کی تلافی کی سعی کرنا گویا گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا ہے۔

100. مطلب یہ ہے کہ آخر کار معاملہ اُس خدا کے ساتھ ہے جس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ اس لیے بالفرض اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہو جائے اور انسان جن جن معیاروں پر کسی کے ایمان و اخلاص کو پرکھ سکتے ہیں ان سب پر بھی پورا اتر جائے تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا پانے سے بچ نکلا ہے۔

101. یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہ گار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا ، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرزِ عمل اس وقت تک متعین نہ کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں۔

102. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینے تشریف لے جانے سے پہلے قبیلہٴ خزرج میں ایک شخص ابو عامر نامی تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی راہب بن گیا تھا۔ اس کا شمار علماء اہل کتاب میں ہوتا تھا اور رہبانیت کی وجہ سے اس کے علمی وقار کے ساتھ ساتھ اس کی درویشی کا سکہ بھی مدینے اور اطراف کے جاہل عربوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینے پہنچےتو اس کی مشیخت وہاں خوب چل رہی تھی۔ مگر یہ علم اور یہ درویشی اس کے اندر حق شناسی اور حق جوئی پیدا کرنے کے بجائے الٹی اس کے لئے ایک زبردست حجاب بن گئی اور اس حجاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد وہ نعمت ایمان ہی سے محروم نہ رہا بلکہ آپ کو اپنی مشیخت کا حریف اور اپنے کاروبار درویشی کا دشمن سمجھ کر آپ کی اور آپ کے کام کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگیا۔ پہلے دو سال تک تو اسے یہ امید رہی کہ کفار قریش کی طاقت ہی اسلام کی مٹانے کے لئے کافی ہوگی۔ لیکن جنگ بدر میں جب قریش نے شکست فاش کھائی تو اسے یارائے ضبط نہ رہا۔ اسی سال وہ مدینہ سے نکل کھڑا ہوا اور اس نے قریش اور دوسرے عرب قبائل میں اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کردی۔ جنگ احد جن لوگوں کی سعی سے برپا ہوئی ان میں یہ بھی شامل تھا اور کہاجاتا ہے کہ احد کے میدان جنگ میں اسی نے وہ گڑھے کھدوائے تھے جن میں سے ایک میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گر کر زخمی ہوئے۔ پھر جنگ احزاب میں جو لشکر ہر طرف سے مدینہ پر چڑھ آئے تھے ۔ان کو چڑھا لانے میں بھی اس کا حصہ نمایاں تھا۔اس کے بعد جنگ حنین تک جتنی لڑائیاں مشرکین عرب اور مسلمانوں کے درمیان ہوئیں ان سب میں یہ عیسائی درویش اسلام کے خلاف شرک کا سرگرم حامی رہا۔ آخر کار اسے اس بات سے مایوسی ہوگئی کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کے سیلاب کو روک سکے گی۔ اس لئے عرب کو چھوڑ کر اس نے روم کا رخ کیا تاکہ قیصر کو اس “خطرے ”سے آگاہ کر ے جو عرب سے سر اٹھا رہا تھا۔ یہ وہی موقع تھا جب مدینے میں یہ اطلاعات پہنچیں کہ قیصر عرب پر چڑھائی کی تیاریاں کر رہا ہے اور اسی کی روک تھام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تبوک کی مہم پر جانا پڑا۔

ابو عامر راہب کی ان تمام سرگرمیوں میں مدینہ کے منافقین کا ایک گروہ اس کے ساتھ شریک سازش تھااور آخری تجویز میں بھی یہ لوگ اس کے ہمنوا تھے کہ وہ اپنے مذہبی اثر کو استعمال کر کے اسلام کے خلاف قیصر روم اور شمالی عرب کے عیسائی ریاستوں سے فوجی امداد حاصل کرے۔ جب وہ روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اس کے اور ان منافقوں کے درمیان یہ قرارداد ہوئی کہ مدینہ میں یہ لوگ اپنی ایک الگ مسجد بنالیں گے تاکہ عام مسلمانوں سے بچ کر منافق مسلمانوں کی علیٰحدہ جتھہ بندی اس طرح کی جاسکے کہ اس پر مذہب کا پردہ پڑا رہے اور آسانی سے اس پر کوئی شبہ نہ کیا جاسکے، اور وہاں نہ صرف یہ کہ منافقین منظم ہوسکیں اور آئندہ کاروائیوں کے لئےمشورے کر سکیں، بلکہ ابو عامر کے پاس سے جو ایجنٹ خبریں اور ہدایات لے کر آئیں وہ بھی غیر مشتبہ فقیروں اور مسافروں کی حیثیت سے اس مسجد میں ٹھہر سکیں۔ یہ تھی وہ ناپاک سازش جس کے تحت وہ مسجد تیار کی گئی تھی جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔

مدینہ میں اس وقت دو مسجدیں تھیں۔ ایک مسجدقبا جو شہر کے مضافات میں تھی، دوسری مسجد نبوی جو شہرکے اندر تھی۔ ان دو مسجدوں کی موجودگی میں ایک تیسری مسجد بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، اور وہ زمانہ ایسی احمقانہ مذہبیت کا نہ تھا کہ مسجد کے نام سے ایک عمارت بنادینا بجائے خود کار ثواب ہو قطع نظر اس سے کہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔بلکہ اس کے برعکس ایک نئی مسجد بننے کے معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی جماعت میں خواہ مخواہ تفریق رونما ہو جسے ایک صالح اسلامی نظام کسی طرح گورا نہیں کر سکتا۔ اس لئے یہ مجبور ہوئے کہ اپنی علیٰحدہ مسجد بنانے سے پہلے اس کی ضرورت ثابت کریں۔ چنانچہ انہوں نے بنی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس تعمیر نو کے لئے یہ ضرورت پیش کی کہ بارش میں اور جاڑے کی راتوں میں عام لوگوں کو اور خصوصاً ضعیفوں اور معذوروں کو، جو اِن دونوں مسجدوں سے دور رہتے ہیں، پانچوں وقت حاضری دینی مشکل ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم محض نمازیوں کی آسانی کے لئے یہ ایک نئی مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

ان پاکیزہ ارادوں کی نمائش کے ساتھ جب یہ مسجد ضِرار بن کر تیار ہوئی تو یہ اشرار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ایک مرتبہ خود نماز پڑھا کر ہماری مسجد کا افتتاح فرمادیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس وقت میں جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں اور ایک بڑی مہم درپیش ہے۔ اس مہم سے واپس آکر دیکھوں گا۔ اس کے بعد آپ تبوک کی طرف روانہ ہوگئے اور آپ کے پیچھے یہ لوگ اس مسجد میں اپنی جتھہ بندی اور سازش کرتے رہے، حتٰی کے انہوں نے یہاں تک طے کر لیا کہ ادھر رومیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قلع قمع ہو اور ادھر یہ فوراً ہی عبداللہ ابن ابّی کے سر پر تاج رکھ دیں۔ لیکن تبوک میں جو معاملہ پیش آیا اس نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ واپسی پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے قریب ذِی اَدَان کے مقام پر پہنچے تو یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت چند آدمیوں کو مدینہ کی طرف بھیج دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے وہ اس مسجد ضِرار کو مسمار کردیں۔

103. متن میں لفظ”جُرُف“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق عربی زبان میں کسی ندی یا دریا کے اُس کنارے پر ہوتا ہے جس کے نیچے کی مٹی کو پانی نے کاٹ کاٹ کر بہا دیا ہو اور اوپر کا حصہ بے سہارا کھڑا ہو۔ جو لوگ اپنے عمل کی بنیاد خدا سے بے خوفی اور اس کی رضا سے بے نیازی پر رکھتے ہیں ان کی تعمیر حیات کو یہاں اُس عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے ایک کھوکھلے بے ثبات کنارۂ دریا پر اُٹھائی گئی ہو ۔ یہ ایک بے نظیر تشبیہ ہے جس سے زیادہ بہتر طریقہ سے اِس صورت حال کی نقشہ کشی نہیں کی جا سکتی۔ اس کی پوری معنویت ذہن نشین کر نے کے لیے یوں سمجھیے کہ دنیوی زندگی کی وہ ظاہری سطح جس پر مومن، منافق، کافر ، صالح، فاجر ، غرض تمام انسان کام کرتے ہیں، مٹی کی اُس اوپر ی تہ کے مانند ہے جس پر دنیا میں ساری عمارتیں بنائی جاتی ہیں ۔ یہ تہ اپنے اندر خود کوئی پائیدار ی نہیں رکھتی، بلکہ اس کی پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے ٹھوس زمین موجود ہو۔ اگر کوئی تہ ایسی ہو جس کے نیچے کی زمین کسی چیز ، مثلاً دریا کے پانی سے کٹ چکی ہو تو جو ناواقف انسان اس کی ظاہری حالت سے دھوکا کھا کر اس پر اپنا مکان بنائے گا اسے وہ اس کے مکان سمیت لے بیٹھے گی اور وہ نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ اس ناپائیدار بنیاد پر اعتماد کر کے اپنا جو کچھ سرمایہ ٔ زندگی وہ اس عمار ت میں جمع کرے گا وہ بھی برباد ہو جائے گا۔ بالکل اسی مثال کے مطابق حیاتِ دنیا کی وہ ظاہری سطح بھی جس پر ہم سب اپنے کارنامۂ زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں، بجائے خود کوئی ثبات و قرار نہیں رکھتی بلکہ اس کی مضبوطی و پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے خدا کے خوف، اُس کے حضور جوابدہی کے احساس اور اُس کی مرضی کے اتباع کی ٹھوس چٹان موجود ہو۔ جو نادان آدمی محض حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر لیتا ہے اور دنیا میں خدا سے بے خوف اور اس کی رضا سے بے پروا ہو کر کام کرتا ہے وہ دراصل خود اپنی تعمیر زندگی کے نیچے سے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بے بنیاد سطح ، جس پر اس نے اپنی عمر بھر کا سرمایہ ٔ عمل جمع کیا ہے ایک دن یکایک گر جائے اور اسے اس کے پورے سرمایے سمیت لے بیٹھے۔

104. ”سیدھی راہ“ یعنی وہ راہ جس سے انسان بامراد ہوتا اور حقیقی کامیابی کی منزل پر پہنچتا ہے۔

105. یعنی ان لوگوں نے منافقانہ مکر و دغا کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر کے اپنے دلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایمان کی صلاحیت سے محروم کر لیا ہے اور بے ایمانی کا روگ اس طرح ان کے دلوں کے ریشے ریشے میں پیوست ہو گیا ہے کہ جب تک ان کے دل باقی ہیں یہ روگ بھی ان میں موجود رہے گا۔ خدا سے کفر کرنے لیے جو شخص علانیہ بت خانہ بنائے ، یا اس کے دین سے لڑنے کے لیے کھلم کھلا مورچے اور دمدمے تیار کرے، اس کی ہدایت تو کسی نہ کسی وقت ممکن ہے، کیونکہ اس کے اندر راستبازی ، اخلاص اور اخلاقی جرأت کا وہ جوہر تو بنیادی طور پر محفوظ رہتا ہے جو حق پرستی کےلیے بھی اسی طرح کام آسکتا ہے جس طرح باطل پرستی کے کام آتا ہے ۔ لیکن جو بزدل جھوٹا اور مکار انسان کفر کےلیے مسجد بنائے اور خدا کے دین سے لڑنے کے لیے خدا پرستی کا پر فریب لبادہ اوڑھے، اس کی سیر ت کو تو نفاق کی دیمک کھا چکی ہوتی ہے۔ اس میں یہ طاقت ہی کہاں باقی رہ سکتی ہے کہ مخلصانہ ایمان کا بوجھ سہار سکے۔