Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 11-16

فَاِنۡ تَابُوۡا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِ​ؕ وَنُفَصِّلُ الۡاٰيٰتِ لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿9:11﴾ وَاِنۡ نَّكَثُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ عَهۡدِهِمۡ وَطَعَنُوۡا فِىۡ دِيۡـنِكُمۡ فَقَاتِلُوۡۤا اَـئِمَّةَ الۡـكُفۡرِ​ۙ اِنَّهُمۡ لَاۤ اَيۡمَانَ لَهُمۡ لَعَلَّهُمۡ يَنۡتَهُوۡنَ‏ ﴿9:12﴾ اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّكَثُوۡۤا اَيۡمَانَهُمۡ وَهَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَهُمۡ بَدَءُوۡكُمۡ اَوَّلَ مَرَّةٍ​ ؕ اَتَخۡشَوۡنَهُمۡ​ ۚ فَاللّٰهُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡهُ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿9:13﴾ قَاتِلُوۡهُمۡ يُعَذِّبۡهُمُ اللّٰهُ بِاَيۡدِيۡكُمۡ وَيُخۡزِهِمۡ وَيَنۡصُرۡكُمۡ عَلَيۡهِمۡ وَيَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِيۡنَۙ‏ ﴿9:14﴾ وَيُذۡهِبۡ غَيۡظَ قُلُوۡبِهِمۡ​ ؕ وَ يَتُوۡبُ اللّٰهُ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿9:15﴾ اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تُتۡرَكُوۡا وَلَـمَّا يَعۡلَمِ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا مِنۡكُمۡ وَلَمۡ يَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوۡلِهٖ وَلَا الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَلِيۡجَةً​ ؕ وَاللّٰهُ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿9:16﴾

11 - پس اگر یہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰة دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں اور جاننے والوں کے لیے ہم اپنے احکام واضح کیے دیتے ہیں۔14 12 - اور اگر عہد کرنے کے بعد یہ پھر اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین پر حملے کرنے شروع کر دیں تو کُفر کے علمبرداروں سے جنگ کرو کیونکہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔ شاید کہ (پھر تلوار ہی کے زور سے) وہ باز آئیں گے۔15 13 - کیا تم نہ لڑو گے16ایسے لوگوں سے جو اپنے عہد توڑتے رہے ہیں اور جنہوں نے رسُول کو ملک سے نکال دینے کا قصد کیا تھا اور زیادتی کی ابتدا کرنے والے وہی تھے؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اِس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو۔ 14 - ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا 15 - اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا، اور جسے چاہے گا توبہ کی توفیق بھی دے گا۔17 اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا ہے۔ 16 - کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاوٴ گے حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جنہوں نے (اس کی راہ میں)جاں فشانی کی اور اللہ اور رسول اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہ بنایا 18، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے۔ ؏ ۲


Notes

14. یہاں پھر یہ تصریح کی گئی ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کے بغیر محض توبہ کر لینے سے وہ تمہارے دینی بھائی نہیں بن جائیں گے۔

اور یہ جو فرمایا گیا کہ اگر ایسا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شرائط پوری کرنے کا نتیجہ صرف یہی نہ ہوگا کہ تمہارے لیے ان پر ہاتھ اٹھانا اور ان کے جان و مال سے تعرض کرنا حرام ہو جائے گا۔ بلکہ مزید برآں اس کا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اسلامی سوسائیٹی میں ان کو برابر کے حقوق حاصل ہو جائیں گے۔ معاشرتی ، تمدنی اور قانونی حیثیت سے وہ تمام دوسرے مسلمانوں کی طرح ہوں گے ۔ کوئی فرق و امتیاز ان کی ترقی کی راہ میں حائل نہ ہوگا۔

15. اس جگہ سیاق و سبا ق خود بتا رہا ہے کہ قسم اور عہد و پیمان سے مراد کفر چھوڑ کر اسلام قبول کر لینے کا عہد ہے۔ اس لیے کہ اُن لوگوں سے اب کوئی اور معاہدہ کرنے کا تو کوئی سوال باقی ہی نہ رہا تھا۔ پچھلے سارے معاہدے وہ توڑ چکے تھے۔ اُن کی عہد شکنیوں کی بنا پر ہی اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے برأت کا اعلان اُنہیں صاف صاف سنایا جا چکا تھا۔ یہ بھی فرما دیا گیا تھا کہ آخر ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ اور یہ فرمان بھی صادر ہو چکا تھا کہ اب انہیں صرف اسی صورت میں چھوڑا جا سکتا ہے کہ یہ کفر و شرک سے توبہ کر کے اقامتِ صلوٰۃ اور اِیتائے زکوٰۃ کی پابندی قبول کر لیں اس لیے یہ آیت مرتدین سے جنگ کے معاملہ میں بالکل صریح ہے۔ دراصل اس میں اُس فتنۂ ارتداد کی طرف اشارہ ہے جو ڈیڑھ سال بعد خلافتِ صدیقی کی ابتداء میں برپا ہوا ۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اس موقع پر جو طرزِ عمل اختیار کیا وہ ٹھیک اس ہدایت کے مطابق تھا جو اس آیت میں پہلے ہی دی جا چکی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب ”مرتد کی سزا اسلامی قانون میں“)۔

16. اب تقریر کا رُخ مسلمانوں کی طرف پھرتا ہے ا ور ان کو جنگ پر ابھارنے اور دین کے معاملہ میں کسی رشتہ و قرابت اور کسی دنیوی مصلحت کا لحاظ نہ کرنے کی پُر زور تلقین کی جاتی ہے ۔ اس حصہ تقریر کی پوری رُوح سمجھنے کے لیے پھر ایک مرتبہ اُس صورت حال کو سامنے رکھ لینا چاہیے جو اُس وقت درپیش تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام اب ملک کے ایک بڑے حصہ پر چھا گیا تھا اور عرب میں کوئی ایسی بڑی طاقت نہ رہی تھی جو اس کو دعوت مبارزت دے سکتی ہو ، لیکن پھر بھی جو فیصلہ کن قدم اور انتہائی انقلابی قدم اس موقع پر اُٹھایا جا رہا تھا اس کے اندر بہت سے خطرناک پہلو ظاہر بین نگاہوں کو نظر آرہے تھے:

اوّلاً تمام مشرک قبائل کو بیک وقت معاہدات کی منسوخی کا چیلنج دے دینا، پھر مشرکین کے حج کی بندش ، کعبے کی تولیت میں تغیر، اور رسوم جاہلیت کا کلّی انسداد یہ معنی رکھتا تھا کہ ایک مرتبہ سارے ملک میں آگ سی لگ جائے اور مشرکین و منافقین اپنا آخری قطرۂ خون تک اپنے مفادات اور تعصبات کی حفاظت کے لیے بہا دینے پر آمادہ ہو جائیں۔

ثانیًا حج کو صرف اہل توحید کے لیے مخصوص کر دینے اور مشرکین پر کعبے کا راستہ بند کر دینے کے معنی یہ تھے کہ ملک کی آبادی کا ایک معتدبہ حصہ ، جو ابھی مشرک تھا ، کعبہ کی طرف اُس نقل و حرکت سے باز رہ جائے جو صرف مذہبی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ معاشی حیثیت سے بھی عرب میں غیر معمولی حیثیت رکھتی تھی اور جس پر اُس زمانہ میں عرب کی معاشی زندگی کا بہت بڑا انحصار تھا۔

ثالثًا جو لوگ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے بعد ایمان لائے تھے ان کے لیے یہ معاملہ بڑی کڑی آزمائش کا تھا کیونکہ ان کے بہت سے بھائی بند، عزیز اقارب ابھی تک مشرک تھے اور ان میں ایسے لوگ بھی تھے جن کے مفاد قدیم نطام جاہلی کے مناصب سے وابستہ تھے۔ اب جو بظاہر تمام مشرکین عرب کا تہس نہس کر ڈالنے کی تیاری کی جا رہی تھی تو اس کے معنی یہ تھے کہ یہ نئے مسلمان خود اپنے ہاتھوں اپنے خاندانوں اور اپنے جگر گوشوں کو پیوند خاک کریں اور ان کے جاہ و منصب اور صدیوں کے قائم شدہ امتیازات کا خاتمہ کردیں۔

اگرچہ فی الواقع اِن میں سے کوئی خطرہ بھی عملًا بروئے کار نہ آیا۔ اعلانِ براءَت سے ملک میں حربِ کلّی کی آگ بھڑکنے کے بجائے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ تمام اطراف و اکناف عرب سے بچے کھچے مشرک قبائل اور امراء و ملوک کے وفد آنے شروع ہو گئے جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسلام و اطاعت کا عہد کیا اور ان کے اسلام قبول کر لینے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک کو اس کی پوزیشن پر بحال رکھا۔ لیکن جس وقت اِس نئی پالیسی کا اعلان کیا جا رہا تھا اُس وقت تو بہر حال کوئی بھی اِس نتیجہ کو پیشگی نہ دیکھ سکتا تھا۔ نیز یہ کہ اس اعلان کے ساتھ ہی اگر مسلمان اسے بزور نافذ کر نے کے لیے پوری طرح تیار نہ ہو جاتے تو شاید یہ نتیجہ برآمد بھی نہ ہو تا ۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں کو اس موقع پر جہاد فی سبیل اللہ کی پر جوش تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے اُن تمام اندیشوں کو دور کر دیا جاتا جو اس پالیسی پر عمل کرنے میں ان کو نظر آرہے تھے اور ان کو ہدایت کی جاتی کہ اللہ کی مرضی پوری کرنے میں انہیں کسی چیز کی پروا نہ کرنی چاہیے ۔ یہی مضمون اس تقریر کا موضوع ہے۔

17. یہ ایک ہلکا سا اشارہ ہے اُس امکان کی طرف جو آگے چل کر واقعہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ مسلمان جو یہ سمجھ رہے تھے کہ بس اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں خون کی ندیاں بہ جائیں گی ، ان کی اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے اشارۃً انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ پالیسی اختیار کرنے میں جہاں اس کا امکان ہے کہ ہنگامۂ جنگ برپا ہو گا وہاں اس کا بھی امکان ہے کہ لوگوں کو توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے گی۔ لیکن اس اشارہ کو زیادہ نمایاں اس لیے نہیں کیا گیا کہ ایسا کرنے سے ایک طرف تو مسلمانوں کی تیاریِ جنگ ہلکی پڑجاتی اور دوسری طرف مشرکین کے لیے اُس دھمکی کا پہلو بھی خفیف ہو جاتا جس نے انہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنی پوزیشن کی نزاکت پر غور کرنے اور بالآخر نظام اسلامی میں جذب ہوجانے پر آمادہ کیا۔

18. خطاب ہے اُن نئے لوگوں سے جو قریب کے زمانہ میں اسلام لائے تھے۔ ان سے ارشاد ہورہا ہے کہ جب تک تم اس آزمائش سے گزر کر یہ ثابت نہ کر دو گے کہ واقعی تم خدا اور اس کے دین کو اپنی جان و مال اور اپنے بھائی بندوں سے بڑھ کر عزیز رکھتے ہو، تم سچے مومن قرار نہیں دیے جا سکتے۔ اب تک تو ظاہر کے لحاظ سے تمہاری پوزیشن یہ ہے کہ اسلام چونکہ مومنین صادقین اور سابقین ِ اوّلین کی جانفشانیوں سے غالب آگیا اور ملک پر چھا گیا اس لیے تم مسلمان ہوگئے۔