Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 111-118

اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَـنَّةَ​ ؕ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيَقۡتُلُوۡنَ وَ يُقۡتَلُوۡنَ​وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ وَالۡقُرۡاٰنِ​ ؕ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسۡتَـبۡشِرُوۡا بِبَيۡعِكُمُ الَّذِىۡ بَايَعۡتُمۡ بِهٖ​ ؕ وَذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿9:111﴾ اَلتَّاۤـئِبُوۡنَ الۡعٰبِدُوۡنَ الۡحٰمِدُوۡنَ السّاۤـئِحُوۡنَ الرّٰكِعُوۡنَ السّٰجِدُوۡنَ الۡاٰمِرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَالنَّاهُوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَالۡحٰـفِظُوۡنَ لِحُدُوۡدِ اللّٰه ِ​ؕ وَبَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿9:112﴾ مَا كَانَ لِلنَّبِىِّ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡاۤ اَنۡ يَّسۡتَغۡفِرُوۡا لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ وَ لَوۡ كَانُوۡۤا اُولِىۡ قُرۡبٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمۡ اَنَّهُمۡ اَصۡحٰبُ الۡجَحِيۡمِ‏ ﴿9:113﴾ وَمَا كَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰهِيۡمَ لِاَبِيۡهِ اِلَّا عَنۡ مَّوۡعِدَةٍ وَّعَدَهَاۤ اِيَّاهُ​ ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗۤ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنۡهُ​ ؕ اِنَّ اِبۡرٰهِيۡمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيۡمٌ‏ ﴿9:114﴾ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُـضِلَّ قَوۡمًۢا بَعۡدَ اِذۡ هَدٰٮهُمۡ حَتّٰى يُبَيِّنَ لَهُمۡ مَّا يَتَّقُوۡنَ​ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ‏ ﴿9:115﴾ اِنَّ اللّٰهَ لَهٗ مُلۡكُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ​ؕ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُ​ؕ وَمَا لَـكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ مِنۡ وَّلِىٍّ وَّلَا نَصِيۡرٍ‏ ﴿9:116﴾ لَـقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِىِّ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ الَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ فِىۡ سَاعَةِ الۡعُسۡرَةِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا كَادَ يَزِيۡغُ قُلُوۡبُ فَرِيۡقٍ مِّنۡهُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَيۡهِمۡ​ؕ اِنَّهٗ بِهِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌۙ ‏ ﴿9:117﴾ وَّعَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِيۡنَ خُلِّفُوۡا ؕ حَتّٰۤى اِذَا ضَاقَتۡ عَلَيۡهِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَضَاقَتۡ عَلَيۡهِمۡ اَنۡفُسُهُمۡ وَظَنُّوۡۤا اَنۡ لَّا مَلۡجَاَ مِنَ اللّٰهِ اِلَّاۤ اِلَيۡهِ ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَيۡهِمۡ لِيَتُوۡبُوۡا ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏ ﴿9:118﴾

111 - حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اُن کے نفس اور اُن کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔106 وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ اُن سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں ۔107 اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناوٴ اپنے اُس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ 112 - اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے 108، اُس کی بندگی بجا لانے والے ، اُس کی تعریف کے گُن گانے والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے 109، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدُود کی حفاظت کرنے والے110 (اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبی ؐ ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔ 113 - نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ اُن کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر یہ بات کھُل چکی ہے کہ وہ جہنّم کے مستحق ہیں۔111 114 - ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اُس کے وعدے کی وجہ سے تھی جو اُس نے اپنے باپ سے کیا تھا112 ، مگر جب اُس پر یہ بات کھُل گئی کہ اُس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گیا ، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بُردبار آدمی تھا۔113 115 - اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کرے جب تک کہ اُنہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ اُنہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔114 درحقیقت اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ 116 - اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ ہی کے قبضے میں آسمان و زمین کی سلطنت ہے، اسی کے اختیار میں زندگی و موت ہے، اور تمہارا کوئی حامی و مددگار ایسا نہیں ہے جو تمہیں اُس سے بچا سکے۔ 117 - اللہ نے معاف کر دیا نبی کو اور اُن مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی ؐ کا ساتھ دیا۔115 اگرچہ اُن میں سے کچھ لوگوں کے دل کَجی کی طرف مائل ہو چلے تھے،116 (مگر جب اُنہوں نے اُس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبی ؐ کا ساتھ ہی دیا تو) اللہ نے اُنہیں معاف کر دیا117 ، بے شک اُس کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے۔ 118 - اور اُن تینوں کو بھی اُس نے معاف کیا جن کے معاملے کو ملتوی کر دیا گیا تھا 118۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجوداُن پر تنگ ہو گئی اور اُن کی اپنی جانیں بھی اُن پر بار ہونے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے، تو اللہ اپنی مہربانی سے اُن کی طرف پلٹا تاکہ وہ اُس کی طرف پلٹ آئیں، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔119؏ ۱۴


Notes

106. یہاں ایمان کے اُس معاملے کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے ، بیع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک مابعد الطبعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں خدا کی طرف سے اِس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع کی حقیقیت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔

جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیونکہ وہی اُس کا اور اُن ساری چیزوں کا خالق ہے جو اُس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کررہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید و فروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اُسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نےکلیۃً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار یعنی اس کا اپنے انتخاب وارادہ میں آزاد ہونا (free will and freedom of choice) اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہو جاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کر دے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور اُن اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں ، مالک ہو گیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں کو جس طرح چاہے استعمال کرے ۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خد ا کے حقوق ِ مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر اپنے حدودِ اختیار میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے۔ بلکہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تُو برضا و رغبت (نہ کہ بمجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھرا س میں خود مختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کر لے ، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خود بخود دست بردار ہو جا۔ اس طرح اگر تُو دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو ( جو تیری حاصل کر دہ نہیں بلکہ میری عطا کر دہ ہے) میرے ہاتھ فروخت کر دے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادا کروں گا ۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کر لے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے۔ اور جو شخص اس سے انکار کر دے ، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔

بیع کی اِس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضمُّنات کا تجزیہ کیجیے:

(۱) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اُس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہو جائے۔

(۲) دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضیِ شرع کسی کے غیر مومن یا خارج از ملت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اُس کے حق میں اپنے ادعائے ملکیت سے کلیۃً دست بردار ہو جائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا ، اپنے دل و ماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہو سکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے، مگر خدا کے ہاں یقینًا وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا کیونکہ اس نےخدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآ ن کی رو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اُس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا ، یہ دونوں طرزِ عمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے ، یا بیع کا معاہدہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔

(۳) ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اورکافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الّا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہو جائے اور وہ خد ا کے ساتھ اپنے معاہدہ ٔ بیع کو بھول کر کوئی خودمختارانہ حرکت کر بیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ اہلِ ایمان سے مرکب ہو وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب ، کوئی طریقِ معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویّہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کرسکتا۔ اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہو گا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویہ کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں ، بہر حال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے خواہ اس پر چلنے والے لوگ ”مسلمان“ کے نام سے موسوم ہوں یا ”غیر مسلم“ کے نام سے۔

(۴) اس بیع کی روسے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے ۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرالینا اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدہ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا رویہ ٔزندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔

یہ اس بیع کے تضمنات ہیں ، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس خرید و فروخت کے معاملہ میں قیمت(یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمہ پر کیوں موخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اِس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ”بائع نے اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا“۔ بلکہ وہ اِس عمل کا معاوضہ ہے کہ”بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خودمختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے“۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہو گی جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہو جائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدۂ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحہ تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروئے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔

اِن امور کی توضیح کے ساتھ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سلسلہ ٔ بیان میں یہ مضمون کس مناسبت سے آیا ہے ۔ اوپر سے جو سلسلۂ تقریر چل رہا تھا اُس میں اُن لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا۔ مگر جب امتحان کا نازک موقع آیا تو ان میں سے بعض نے تساہل کی بنا پر ، بعض نے اخلاص کی کمی کی وجہ سے، اور بعض نے قطعی منافقت کی راہ سے خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنے وقت، اپنے مال، اپنے مفاد اور اپنی جان کو قربان کرنے میں دریغ کیا ۔لہٰذا ان مختلف اشخاص اور طبقوں کے رویّہ پر تنقید کرنے کے بعد اب ان کو صاف صاف بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایمان ، جسے قبول کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے، محض یہ مان لینے کا نام نہیں ہے کہ خدا ہے اور وہ ایک ہے، بلکہ دراصل وہ اس امر کا اقرار ہے کہ خدا ہی تمہارے نفس اور تمہارے مال کا مالک ہے ، پس یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم اِس نفس و مال کو خدا کے حکم پر قربان کر نے سے جی چراتے ہو ، اور دوسری طرف اپنے نفس کی قوتوں کو اور اپنے ذرائع کو خدا کے منشا کے خلاف استعمال کرتے ہو ، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تم اپنے اقرار میں جھوٹے ہو ۔ سچے اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو واقعی اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ چکے ہیں اور اسی کو ان چیزوں کا مالک سمجھتے ہیں ۔ جہاں اس کا حکم ہوتا ہے وہاں انہیں بے دریغ قربان کرتے ہیں، اور جہاں اس کا حکم نہیں ہوتا وہاں نفس کی طاقتوں کا کوئی ادنیٰ سا جز اور مالی ذرائع کا کوئی ذرا سا حصہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

107. اس امر پر بہت اعتراضات کیے گئے ہیں کہ جس وعدے کا یہاں ذکر ہے وہ توراۃ اور انجیل میں موجود نہیں ہے ۔ مگر جہاں تک انجیل کا تعلق ہے یہ اعتراضات بے بنیا د ہیں ۔ جو اناجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعدد اقوال ہم کو ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے ہم معنی ہیں ، مثلاً:

”مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں ، کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہی کی ہے“ (متی ۱۰:۵)

”جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا“(متی ۳۹:۱۰)

”جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہوگا“(متی ۲۹:۱۹)

البتہ توراۃ جس صورت میں اس وقت موجود ہے اس میں بلاشبہ یہ مضمون نہیں پایا جاتا، اور یہی مضمون کیا، وہ تو حیات بعد الموت اور یوم الحساب اور اخروی جزا و سزا کے تصور ہی سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے دین حق کا جز و لاینفک رہا ہے۔ لیکن موجودہ توراۃ میں اس مضمون کے نہ پائے جانے سے یہ نتیجہ نکا لنا درست نہیں کہ واقعی توراۃ اس سے خالی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اپنے زمانۂ تنزل میں کچھ ایسے مادّہ پرست اور دنیا کی خوشحالی کے بھوکے ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک نعمت اور انعام کے کوئی معنی اس کے سوا نہ رہے تھے کہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو۔ اسی لیے کتاب الہٰی میں بندگی و اطاعت کے بدلے جن جن انعامات کے وعدے ان سے کیے گئے تھے ان سب کو وہ دنیا ہی میں اتار لائے اور جنت کی ہر تعریف کو انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر چسپاں کر دیا جس کے وہ امیدوار تھے۔ مثال کے طور پر توراۃ میں متعدد مقامات پر ہم کو یہ مضمون ملتا ہے :

” سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے ۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر“ (استثناء ۶ : ۴ : ۵ )

اور یہ کہ:

”کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کوخریدا ہے؟ اسی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا“ (استثنا ء ۳۲ : ۶)

لیکن اس تعلق باللہ کی جو جزا بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اُس ملک کے مالک ہو جاؤ گے جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے ، یعنی فلسطین۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ توراۃ جس صورت میں اس وقت پائی جاتی ہے اول تو وہ پوری نہیں ہے ، اور پھر وہ خالص کلامِ الہٰی پر بھی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سا تفسیری کلام خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے اندر یہودیوں کی قومی روایات، اُن کے نسلی تعصبات ، ان کے اوہام، ان کی آرزووں اور تمناؤں ، ان کی غلط فہمیوں ، اور ان کے فقہی اجتہادات کا ایک معتدبہ حصہ ایک ہی سلسلہ عبارت میں کلامِ الہٰی کے ساتھ کچھ اس طرح رَل مِل گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اصل کلام کو اِن زوائد سے ممیز کرنا قطعًا غیر ممکن ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ آلِ عمران ، حاشیہ نمبر۲)۔

108. متن میں لفظ التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ”توبہ کرنے والے“ ہے۔ لیکن جس اندازِ کلام میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ کرنا اہلِ ایمان کی مستقل صفا ت میں سے ہے ، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں، لہٰذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ یوں کیا ہے کہ ” وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں“۔ مومن اگر چہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے کرتا ہے، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہےکہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اُس کا اپنا ہے، اور یہ بات کہ اِس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے ، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتھ اپنے معاملۂ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خودمختارانہ طرزِ عمل اختیار کربیٹھتا ہے۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے ، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے ۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعور کی حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آکر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی قابلِ تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر برابر اُسی راہ کی طرف آتا ہے ، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے۔

پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے ۔ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آرہا ہے اس میں روئے سخن اُن لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضٰی بتانے کے بعد اب یہ تلقین کی جارہی ہے کہ ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہِ بندگی سے پھسل جائے وہ فورًا اس کی طرف پلٹ آئیں ، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دُور نکلتے چلے جائیں۔

109. متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ (روزہ رکھنے والے) سے کی ہے۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ، مجازی معنی ہیں۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس لفظ کیے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں ، اس کی نسبت حضورؐ کی طرف درست نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقًا انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کےمعنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اُس سے راہ ِ خدا میں خرچ کرنا ہے ، اُسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہو ں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ مثلًا اقامت دین کے لیے جہاد، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت، دعوتِ دین، اصلاحِ خلق، طلبِ علمِ صالح، مشاہدۂ آثارِ الہٰی اور تلاشِ رزق ِ حلال۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعوٰی کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں نے نہیں نکلتے تھےان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے۔

110. یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد ، عبادات، اخلاق، معاشرت ، تمدّن، معیشت ، سیاست، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر دی ہیں وہ ان کو پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں ، اپنے انفرادی و اجتماعی عمل کو انہی حدود کے اندر محدود رکھتے ہیں، اور کبھی ان سے تجاوز کر کے نہ تو من مانی کا روائیاں کرنے لگتے ہیں اور نہ خدائی قوانین کے بجائے خود ساختہ قوانین یا انسانی ساخت کے دوسرے قوانین کو اپنی زندگی کا ضابطہ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا کے حدود کی حفاظت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کیا جائے اور انہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے۔ لہٰذا سچے اہلِ ایمان کی تعریف صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ خود حدود اللہ کی پابندی کرتےہیں، بلکہ مزید برآں ان کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی نگہبانی کرتے ہیں اور اپنا پورا زور اس سعی میں لگا دیتے ہیں کہ یہ حدیں ٹوٹنے نہ پائیں۔

111. ”کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازمًا یہ معنی رکھتی ہے کہ اوّل تو ہم اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابلِ معافی سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اُس شخص کے معاملہ میں تو درست ہیں جو وفادار وں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گناہ گار ہو۔ لیکن جو شخص کُھلا ہُوا باغی ہو اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا نہ صرف یہ کہ اصولًا غلط ہے بلکہ اس سے خود ہماری اپنی وفاداری مشتبہ ہو جاتی ہے ۔ اور اگر ہم محض اس بنا پر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے، یہ چاہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے ، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے ، اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بے لاگ نہیں ہے ، اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگا رکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کر لے اور ہمارے رشتہ دار کو تو ضرو ر بخش دے خوا ہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے ۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں ، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اُس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو ، خدا کا دوست ہمارا دوست ہو اور اس کا دشمن ہمارا دشمن۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ”مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو“ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ” تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو“۔ یعنی ہمارے منع کرنے سے اگر تم باز رہے تو کچھ بات نہیں، تم میں تو خود وفاداری کی حِس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو۔

یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ جو ہمدردی ممنوع ہے وہ صرف وہ ہمدردی ہے جو دین کے معاملہ میں دخل انداز ہوتی ہو۔ رہی انسانی ہمدردی اور دُنیوی تعلقات میں صلۂ رحمی ، مُواساۃ، اور رحمت و شفقت کا برتاؤ، تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ محمود ہے۔ رشتہ دار خواہ کافر ہو یا مومن ، اس کے دنیوی حقوق ضرور ادا کیے جائیں گے۔ مصیبت زدہ انسان کی بہر حال مد د کی جائے گی۔ حاجت مند آدمی کو بہرصورت سہارا دیا جائے گا ۔ بیمار اور زخمی کے ساتھ ہمدردی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جائے گی ۔ یتیم کے سر پر یقینًا شفقت کا ہاتھ رکھا جائے گا۔ ایسے معاملات میں ہر گز یہ امتیاز نہ کیا جائے گا کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم۔

112. اشارہ ہے اُس بات کی طرف جو اپنے مشرک باپ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے حضرت ابراہیم ؑ نے کہی تھی کہ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّاo (مریم ۔ آیت ۴۷)”آپ کو سلام ہے ، میں آپ کے لیے اپنے ربّ سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے“۔ اور لَاَ سْتَغْفِرَ نَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْ ءٍ (الممتحنہ آیت ۴)” میں آپ کے لیے معافی ضرور چاہوں گا، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں“۔ چنانچہ اسی وعدے کی بنا پر آنجناب نے اپنے باپ کے لیے یہ دُعا مانگی تھی کہ : وَاغْفِرْ لِاَ بِیْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَo وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ o یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ َ بَقَلْبٍ سَلِیْمٍ o(الشعراء آیات ۸۶ تا ۸۹) ”اور میرے باپ کو معاف کر دے، بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے تھا، اور اس دن مجھے رسوا نہ کر جبکہ سب انسان اٹھائے جائیں گے، جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گا نہ اولاد، نجات صرف وہ پائے گا جو اپنے خدا کے حضور بغاوت سے پاک دل لے کر حاضر ہوا ہو“۔ یہ دعا اوّل تو خود انتہائی محتاط لہجے میں تھی۔ مگر اس کے بعد جب حضرت ابراہیم کی نظر اس طرف گئی کہ میں جس شخص کے لیے دعا کر رہا ہوں وہ تو خدا کا کھلم کھلا باغی تھا، اور اس کے دین سے سخت دشمنی رکھتا تھا ، تو وہ اس سے بھی باز آگئے اور ایک سچے وفادار مومن کی طرح انہوں نے باغی کی ہمدردی سے صاف صاف تبرّی کر دی، اگرچہ وہ باغی ان کا باپ تھا جس نے کبھی محبت سے ان کو پالا پوسا تھا۔

113. متن میں اَوَّاہٌ اور حَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اَوَّاہٌ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا، زاری کرنے والا، ڈرنے والا، حسرت کرنے والا۔ اور حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو، نہ غصّے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو، نہ محبت اور دوستی اور تعلقِ خاطر میں حد اعتدال سے تجاوز کر جائے۔ یہ دونو ں لفظ اس مقا م پر دوہرے معنی دے رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی کیونکہ وہ نہایت رقیق القلب آدمی تھے، اس خیال سے کانپ اٹھے تھے کہ میرا یہ باپ جہنم کا ایندھن بن جائے گا ۔ اور حلیم تھے ، اُس ظلم و ستم کے باوجود جو ان کے باپ نے اسلام سے ان کوروکنے کے لیے ان پر ڈھایا تھا ۔ ان کی زبان اس کے حق میں دعا ہی کے لیے کھلی۔ پھر انہوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا باپ خدا کا دشمن ہے اس سے تبّری کی، کیونکہ وہ خدا سے ڈرنے والے انسان تھے اور کسی کی محبت میں حد سے تجاوز کر نے والے نہ تھے۔

114. یعنی اللہ پہلے یہ بتادیتا ہے کہ لوگوں کو کن خیالات ، کِن اعمال اور کن طریقوں سے بچنا چاہیے، پھر جب وہ باز نہیں آتے اور غلط فکری و غلط کاری ہی پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی ہدایت و رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اُسی غلط راہ پر انہیں دھکیل دیتا ہے جس پر وہ خود جانا چاہتے ہیں۔

یہ ارشاد ایک قاعدۂ کلیہ بیان کرتا ہے جس سے قرآن مجید کے وہ تمام مقامات اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں جہاں ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل بتایا ہے ۔ خدا کا ہدایت دینا یہ ہے کہ وہ صحیح طریق فکر و عمل اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر پیش کر دیتا ہے، پھر جولوگ اس طریقے پر خود چلنے کے لیے آمادہ ہوں انہیں اس کی توفیق بخشتا ہے ۔ اور خدا کا گمراہی میں ڈالنا یہ ہے کہ جو صحیح طریقِ فکر و عمل اس نے بتا دیا ہے اگراس کے خلاف چلنے ہی پر کوئی اصرار کرے اور سیدھا نہ چلنا چاہے تو خدا اس کو زبردستی راست بیں اور راست رو نہیں بناتا بلکہ جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے اسی طرف اس کو جانے کی توفیق دے دیتا ہے۔

اس خاص سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات جس مناسبت سے بیان ہوئی ہے وہ پچھلی تقریر اور بعد کی تقریر پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے ۔ یہ ایک طرح کی تنبیہ ہے جو نہایت موزوں طریقہ سے پچھلے بیان کا خاتمہ بھی قرار پا سکتی ہے اور آگے جو بیان آرہا ہے اس کی تمہید بھی۔

115. یعنی غزوۂ تبوک کے سلسلہ میں جو چھوٹی چھوٹی لغزشیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے ہوئیں ان سب کو اللہ نے ان کی اعلیٰ خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے معاف فرما دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو لغزش ہوئی تھی اس کا ذکر آیت ۴۳ میں گزر چکا ہے ، یعنی یہ کہ جن لوگوں نے استطاعت رکھنے کے باوجود جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگی تھی ان کو آپ ؐ نے اجازت دے دی تھی۔

116. یعنی بعض مخلص صحابہ بھی اس سخت وقت میں جنگ پر جانے سے کسی نہ کسی حد تک جی چرانے لگے تھے، مگر چونکہ ان کے دلوں میں ایمان تھا اور وہ سچے دل سے دینِ حق کے ساتھ محبت رکھتے تھے اس لیے آخر کار وہ اپنی اس کمزوری پر غالب آگئے۔

117. یعنی اب اللہ اس بات پر ان سے مؤاخذہ نہ کرے گا کہ ان کے دلوں میں کجی کی طرف یہ میلان کیوں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے کہ اللہ اُس کمزوری پر گرفت نہیں کرتا جس کی انسان نے خود اصلاح کر لی ہو۔

118. نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں ۸۰ سے کچھ زیادہ منافق تھےاور تین سچے مومن بھی تھے۔ منافقین جھوٹے عذرات پیش کرتے گئے اور حضور ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے ۔ پھر ان تینوں مومنوں کی باری آئی اور انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کے معاملہ میں فیصہ کو ملتوی کر دیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے ، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے۔ اسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ (یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اِن تین اصحاب کا معاملہ اُن سات اصحاب سے مختلف ہے جن کا ذکر حاشیہ نمبر ۹۹ میں گزر چکا ہے۔ انہوں نے باز پرس سے پہلے ہی خود اپنے آپ کو سزا دے لی تھی)۔

119. یہ تینوں صاحب کَعب بن مالک، ہِلال بن اُمیّہ اور مُرارہ بن رُبَیع تھے ۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہین ، تینوں سچے مومن تھے۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ قربانیاں کر چکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوۂ بدر کے شرکاء میں سےتھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سُستی اِس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہلِ ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، اِن حضرات نے دکھائی اُس پر سخت گرفت کی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔ ۴۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہو گیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ آخر کار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا۔

ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے ۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے ، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلا یا کرتے تھے، یہ قصہ خود بیا ن کیا:

غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی مسلمانوں سے شرکتِ جنگ کی اپیل کرتے تھے ، میں اپنے دل میں ارادہ کر لیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آکر سُستی کر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے ، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیار ہو تے کیا دیر لگتی ہے۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا۔ مگر پھر وہی سُستی مانع ہوئی حتٰی کہ وقت نکل گیا۔

اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بے حد کُڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے۔

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسبِ معمول آپؐ نے پہلے مسجد آکر دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آآ کر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے ۔ یہ ۸۰ سے زیادہ آدمی تھے ۔ حضورؐ نے اُن میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں۔ ان کے ظاہری عذرات کو قبول کر لیا، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نےآگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔”خدا کی قسم اگر میں اہلِ دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اِس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاہے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کر سکوں، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا“۔ اس پر حضور نے فرمایا”یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔ اچھا، اُٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے“۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑگئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تُو نے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنا دوں۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں (مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی ، تو مجھے تسکین ہوگئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔

اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے ۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے، مگر میں نکلتا تھا ، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا ، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بالکل بدل گئی ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں ۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسبِ معمول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا تھا، مگر بس انتظار ہی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ہٹائی۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قَتَادَہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا۔ مگر اس اللہ کے بندے نےسلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا”ابوقتادہ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا؟ “ وہ خاموش رہے ۔ میں نے پھر پوچحا ۔ وہ پھر خاموش رہے، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ ”اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے“۔ اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نَبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا۔ میں کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ”ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے ، ہمارے پس آجاؤ، ہم تمہاری قدر کریں گے“۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی، اور اسی وقت اس خط کو چولھے میں جھونک دیا۔

چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا آدمی حکم لے کر آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیٰحدہ ہو جاؤ ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں؟ جواب ملا نہیں، بس الگ رہو۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔

پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ”مبارک ہو کعب بن مالک“! میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ہو گیا ہے۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کو مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہو گئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا۔ دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے ۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ”تجھے مبارک ہو، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ہے“ میں نے پوچھا یہ معافی حضور کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے، اور یہ آیات سنائیں۔ میں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ! میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں ۔ فرمایا”کچھ رہنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے“۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپناخیبر کا حصہ رکھ لیا ، باقی سب صدقہ کر دیا۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتار ی کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ہے اس پر تمام عمر قائم رہوں گا، چنانچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلافِ واقعہ نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا“۔

یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دل نشین ہونے چاہییں:

سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ کفر و اسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر اہم اور کتنا نازک ہے کہ اس کشمکش میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار ، جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں ، بدنیتی سے بھی نہیں نیک نیتی سے ، تمام عمر بھی نہیں کسی ایک موقع ہی پر، کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں اور دینداریاں خطرے میں پڑجاتی ہیں ، حتیٰ کہ ایسے عالی قدر لوگ بھی گرفت سے نہیں بچتے جو بدر و احد اور احزاب و حنین کے سخت معرکوں میں جانبازی کے جو ہر دکھا چکے تھے اور جن کا اخلاص و ایمان ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا۔

دوسری بات ، جو اس سے کچھ کم اہم نہیں یہ ہے کہ ادائے فرض میں تساہُل کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات محض تساہُل ہی تساہل میں آدمی کسی ایسے قصور کا مرتکب ہو جاتا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے، اور اس وقت یہ بات اسے پکڑ سے نہیں بچا سکتی کہ اس نے اس قصور کا ارتکاب بدنیتی سے نہیں کیا تھا۔

پھر یہ قصہ اُس معاشرے کی رُوح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں بنا تھا ۔ ایک طرف منافقین ہیں جن کی غداریاں سب پر آشکار ہیں ، مگر ان کے ظاہری عذر سُن لیے جاتے ہیں اور درگزر کیا جاتا ہے ، کیونکہ ان سے خلوص کی امید ہی کب تھی کہ اب اس کے عدم کی شکایت کی جاتی۔ دوسری طرف ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جاں نثاری پر شبہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ جھوٹی باتیں بھی نہیں بناتا، صاف صاف قصور کا اعتراف کر لیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش بر سا دی جاتی ہے، نہ اس پر کہ اس کے مومن ہونے میں کوئی شبہ ہو گیا ہے، بلکہ اس بنا پر مومن ہو کر اس نے وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو ، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس سارے قضیہ میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتتا ہے، اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کو نافذ کرتی ہے، اس کا ہر پہلو بے نظیر ہے اور یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے۔ لیڈر نہایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں ، گہری محبت کے ساتھ دے رہا ہے۔ باپ کی طرح شعلہ بار نگاہوں کا ایک گوشہ ہر وقت یہ خبر دیے جاتا ہے کہ تجھ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ تیرے قصور پر تیری ہی خاطر دل دکھا ہے۔ تُو درست ہو جائے تو یہ سینہ تجھے چمٹا لینے کے لیے بے چین ہے۔ پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کا قدم جادۂ اطاعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا ، اور صرف یہی نہیں کہ اس پر غرور نفس اور حمیت جاہلیہ کا کوئی دورہ نہیں پڑتا اور علانیہ استکبار پر اتر آنا تو درکنار وہ دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا ۔ بلکہ اس کے برعکس وہ لیڈر کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہوگیا ہے۔ سزا کے ان پورے پچاس دنوں میں اس کی نظریں سب سے زیادہ بے تابی کے ساتھ جس چیز کی تلاش میں رہیں وہ یہ تھی کہ سردار کی آنکھوں میں وہ گوشۂ التفات اس کے لیے باقی ہے یا نہیں جو اس کی امیدوں کا آخری سہارا ہے۔ گویا وہ ایک قحط زدہ کسان تھا جس کا سارا سرمایۂ امید بس ایک ذرا سا لکّۂ ابر تھا جو آسمان کے کنارے پر نظر آتا تھا ۔ پھر جماعت کو دیکھیے تو اس کے ڈسپلن اور اس کی صالح اخلاقی اسپرٹ پر انسان عَش عَش کر جاتا ہے۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ اُدھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نِکلا اِدھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھیر لیں۔ جلوت تو درکنار خلوت تک میں کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اس سے بات نہیں کرتا۔ بیوی تک اس سے الگ ہو جاتی ہے ۔ خدا کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے، مگر وہ لوگ بھی جو مدت العمر سے اس کو مخلص جانتے تھے، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں ، خدا اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند اور پاکیزہ کہ ایک شخص کی چڑھی ہوئی کمان اترتے ہی مردار خوروں کا کوئی گروہ اس کا گوشت نوچنے اور اسے پھاڑ کھانے کے لیے نہیں لپکتا، بلکہ اس پورے زمانۂ عتاب میں جماعت کا ایک ایک فرد اپنے اس معتعب بھائی کی مصیبت پر رنجیدہ اور اس کو پھر سے اٹھا کر گلے لگا لینے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور معافی کا اعلان ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اس سے ملیں اور اسے خوشخبری پہنچائیں۔ یہ نمونہ ہے اُس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس پس منظر میں جب ہم آیت زیرِ بحث کو دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان صاحبوں کو اللہ کے دربار سے جو معافی ملی ہے اور اس معافی کے اندازِ بیان میں جو رحمت و شفقت ٹپکی پڑ رہی ہے اس کی وجہ ان کا وہ اخلاص ہے جس کا ثبوت انہوں نے پچاس دن کی سخت سزا کے دوران میں دیا تھا۔ اگر قصور کر کے وہ اکڑتے اور اپنے لیڈر کی ناراضی کا جواب غصے اور عناد سے دیتے اور سزا ملنے پر اُس طرح بپھرتے جس طرح کسی خود پرست انسان کا غرور نفس زخم کھا کر بپھر ا کرتا ہے ، اور مقاطعہ کے دوران میں ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا کہ ہمیں جماعت سے کٹ جانا گوارا ہے مگر اپنی خودی کے بُت پر چوٹ کھانا گوارا نہیں ہے ، اور اگر یہ سزا کا پورا زمانہ وہ اس دوڑ دھوپ میں گزارتے کہ جماعت کے اندر بددلی پھیلائیں اور بددل لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ساتھ ملائیں تاکہ ایک جتھا تیار ہو ، تو معافی کیسی ، انہیں تو بالیقین جماعت سے کاٹ پھینکا جاتا اور اس سزا کے بعد ان کی اپنی منہ مانگی سزا ان کو یہ دی جاتی کہ جاؤ اب اپنی خودی کے بُت ہی کو پوجتے رہو، اعلاء کلمۃ الحق کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سعادت اب تمہارےنصیب میں کبھی نہ آئے گی۔ لیکن ان تینوں صاحبوں نے اس کڑی آزمائش کے موقع پر یہ راستہ اختیار نہیں کیا، اگرچہ یہ بھی ان کے لیے کھلا ہوا تھا ۔ اس کے برعکس انہوں نے وہ روش اختیار کی جو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں۔ اس روش کو اختیار کرکے انہوں نے ثابت کر دیا کہ خدا پرستی نے ان کے سینے میں کوئی بت باقی نہیں چھوڑا ہے جسے وہ پوجیں، اور اپنی پوری شخصیت کو انہوں نے راہِ خدا کی جدوجہد میں جھونک دیا ہے اور وہ اپنی واپسی کی کشتیاں اس طرح جلا کر اسلامی جماعت میں آئے ہیں کہ اب یہاں سے پلٹ کر کہیں اور نہیں جا سکتے۔ یہاں کی ٹھوکریں کھائیں گے مگر یہیں مریں گے اور کھپیں گے۔ کسی دوسری جگہ بڑی سے بڑی عزّت بھی ملتی ہو تو یہاں کی ذلت چھوڑ کر اسے لینے نہ جائیں گے۔ اس کے بعد اگر انہیں اٹھا کر سینے سے لگا نہ لیا جاتا تو اور کیا کیا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا ذکر ایسے شفقت بھرے الفاظ میں فرماتا ہے کہ ”ہم ان کی طرف پلٹے تاکہ وہ ہماری طرف پلٹ آئیں“۔ ان چند لفظوں میں اِس حالت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ آقا نے پہلے تو ان بندوں سے نظر پھیر لی تھی، مگر جب وہ بھاگے نہیں بلکہ دل شکستہ ہو کر اسی کے در پر بیٹھ گئے تو ان کی شان وفاداری دیکھ کر آقا سے خود نہ رہا گیا ۔ جوش محبت سے بے قرار ہو کر وہ آپ نکل آیا تاکہ انہیں دروازے سے اٹھا لائے۔