Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 123-129

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قَاتِلُوا الَّذِيۡنَ يَلُوۡنَكُمۡ مِّنَ الۡكُفَّارِ وَلۡيَجِدُوۡا فِيۡكُمۡ غِلۡظَةً​  ؕ وَاعۡلَمُوۡاۤ اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿9:123﴾ وَاِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَةٌ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّقُوۡلُ اَيُّكُمۡ زَادَتۡهُ هٰذِهٖۤ اِيۡمَانًا​ ۚ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡهُمۡ اِيۡمَانًا وَّهُمۡ يَسۡتَبۡشِرُوۡنَ‏ ﴿9:124﴾ وَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ فَزَادَتۡهُمۡ رِجۡسًا اِلٰى رِجۡسِهِمۡ وَمَاتُوۡا وَهُمۡ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿9:125﴾ اَوَلَا يَرَوۡنَ اَنَّهُمۡ يُفۡتَـنُوۡنَ فِىۡ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوۡ مَرَّتَيۡنِ ثُمَّ لَا يَتُوۡبُوۡنَ وَلَا هُمۡ يَذَّكَّرُوۡنَ‏ ﴿9:126﴾ وَاِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَةٌ نَّظَرَ بَعۡضُهُمۡ اِلٰى بَعۡضٍؕ هَلۡ يَرٰٮكُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوۡا​ ؕ صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوۡبَهُمۡ بِاَنَّهُمۡ قَوۡمٌ لَّا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿9:127﴾ لَـقَدۡ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ عَزِيۡزٌ عَلَيۡهِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِيۡصٌ عَلَيۡكُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿9:128﴾ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ حَسۡبِىَ اللّٰهُ ۖ  لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ؕ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ​ ؕ وَهُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِيۡمِ‏ ﴿9:129﴾

123 - اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جنگ کرو اُن منکرینِ حق سے جو تم سے قریب ہیں۔121اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں،122 اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔123 124 - جب کوئی نئی سُورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے) پوچھتے ہیں کہ ”کہو، تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا ؟“ (اس کا جواب یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع(ہر نازل ہونے والی سُورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں، 125 - البتہ جن لوگوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا اُن کی سابق نجاست پر (ہر نئی سُورت نے) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا 124اور وہ مرتے دم تک کُفر ہی میں مُبتلا رہے۔ 126 - کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟125 مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔ 127 - جب کوئی سُورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے، پھر چُپکے سے نکل بھاگتے ہیں۔126 اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔127 128 - دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسُول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے ، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے ۔۔۔۔ 129 - اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبی ؐ ، ان سے کہہ دو کہ ”میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا۔“ ۱۶


Notes

121. آیت کے ظاہر الفاظ سے جو مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دارالاسلام کے جس حصّے سے دشمنانِ اسلام کا جو علاقہ متصل ہو، اُس کے خلاف جنگ کرنے کی اولین ذمہ داری اُسی حصے کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اگر آگے کے سلسلۂ کلام کے ساتھ ملا کر اِس آیت کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کفار سے مراد وہ منافق لوگ ہیں جن کا انکار حق پوری طرح نمایاں ہو چکا تھا، اور جن کے اسلامی سوسائٹی میں خلط ملط رہنے سے سخت نقصانات پہنچ رہے تھے۔ رکوع ۱۰ کی ابتداء میں بھی جہاں سے اس سلسلہ ٔ تقریر کا آغاز ہوا تھا ، پہلی بات یہی کہی گئی تھی کہ اب ان آستین کے سانپوں کا استیصال کرنے کے لیے باقاعدہ جہاد شروع کر دیا جائے ۔ وہی بات اب تقریر کے اختتام پر تاکید کے لیے پھر دہرائی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کی اہمیت کو محسوس کر یں اور اِن منافقوں کے معاملہ میں اُن نسلی و نسبی اور معاشرتی تعلقات کا لحاظ نہ کریں جو اُن کے اور اِن کے درمیان وابستگی کے موجب بنے ہوئے تھے۔ وہاں ان کے خلاف”جہاد “ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اس سے شدید تر لفظ ”قتال“ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے، کوئی کسر ان کی سرکوبی میں اٹھا نہ رکھی جائے۔ وہاں”کفار“ اور ”منافق“ دو الگ لفظ بولے گئے تھے ، یہاں ایک ہی لفظ” کفار“ پر اکتفا کیا گیا ہے ، تاکہ اِن لوگوں کا انکارِ حق ، جو صریح طور پر ثابت ہو چکا تھا، ان کے ظاہری اقرار ایمان کے پردے میں چھُپ کر کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھ لیا جائے۔

122. یعنی اب وہ نرم سلوک ختم ہو جانا چاہیے جو اب تک ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔ یہی بات رکوع ۱۰ کی ابتدا میں کہی گئی تھی وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔

123. اس تنبیہ کے دو مطلب ہیں اور دونوں یکساں طور پر مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ ان منکرین ِ حق کے معاملے میں اگر تم نے اپنے شخصی اور خاندانی اور معاشی تعلقات کا لحاظ کیا تو یہ حرکت تقویٰ کے خلاف ہو گی ، کیونکہ متقی ہونا اور خدا کے دشمنوں سے لاگ لگائے رکھنا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، لہٰذا خدا کی مدد اپنے شامل حال رکھنا چاہتے ہو تو اس لاگ لپٹ سے پاک رہو۔ دوسرے یہ کہ یہ سختی اور جنگ کا جو حکم دیا جا رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ سختی کرنے میں اخلاق و انسانیت کی بھی ساری حدیں توڑ ڈالی جائیں۔ حدود اللہ کی نگہداشت تو بہر حال تمہاری ہر کا ر روائی میں ملحوظ رہنی ہی چاہیے۔ اس کو اگر تم نے چھوڑ دیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے۔

124. ایمان اور کفر اور نفاق میں کمی بیشی کا کیا مفہوم ہے، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انفال ، حاشیہ نمبر ۲۔

125. یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزررہا ہے جبکہ ایک دو مرتبہ ایسے حالات نہ پیش آجاتے ہوں جن میں ان کا دعوائے ایمان آزمائش کی کسوٹی پر کسا نہ جاتا ہواور اس کی کھوٹ کا راز فاش نہ ہو جاتا ہو۔ کبھی قرآن میں کوئی ایسا حکم آجاتا ہے جس سے ان کی خواہشات نفس پر کوئی نئی پابندی عائد ہو جاتی ہے ، کبھی دین کا کوئی ایسا مطالبہ سامنے آجاتا ہے جس سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے، کبھی کوئی اندرونی قضیہ ایسا رونما ہو جاتا ہے جس میں یہ امتحان مضمر ہو تا ہے کہ ان کو اپنے دنیوی تعلقات اور اپنے شخصی و خاندانی اور قبائلی دلچسپیوں کی بہ نسبت خدا اور اس کا رسول اور اس کا دین کس قدر عزیز ہے۔ ، کبھی کوئی جنگ ایسی پیش آجاتی ہے جس میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ یہ جس دین پر ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کی خاطر جان، مال ، وقت اور محنت کا کتنا ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر صرف یہی نہیں کہ منافقت کی وہ گندگی جو ان کے جھوٹے اقرار کے نیچے چھپی ہوئی ہے کھل کر منظر عام پر آجاتی ہے بلکہ ہر مرتبہ جب یہ ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر بھاگتے ہیں تو ان کے اندر کی گندگی پہلے سے کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

126. قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سورۃ نازل ہوتی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے اجتماع کا اعلان کراتے اور پھر مجمع عام میں اس سورہ کو خطبے کے طور پر سناتے تھے۔ اس محفل میں اہلِ ایمان کا حال تو یہ ہوتا تھا کہ ہمہ تن گوش ہو کر اس خطبے کو سنتے اور اس میں مستغرق ہو جاتے تھے ، لیکن منافقین کا رنگ ڈھنگ کچھ اور تھا۔ وہ آتو اس لیے جاتے تھے کہ حاضری کا حکم تھا اور اجتماع میں شریک نہ ہونے کے معنی اپنی منافقت کا راز خود فاش کر دینے کے تھے۔ مگر اس خطبے سے ان کو کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی ۔ نہایت بددلی کے ساتھ اُکتائے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور اپنے آپ کو حاضرین میں شمار کرا لینے کے بعد انہیں بس یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کسی طرح جلدی سے جلدی یہاں سے بھاگ نکلیں ۔ ان کی اسی حالت کی تصویر یہاں کھینچی گئی ہے۔

127. یعنی یہ بے وقوف خود اپنے مفاد کو نہیں سمجھتے۔ اپنی فلاح سے غافل اوراپنی بہتری سے بے فکر ہیں۔ ان کو احساس نہیں ہے کہ کتنی بڑی نعمت ہے جواس قرآن اور اس پیغمبر کے ذریعے سے ان کو دی جارہی ہے ۔ اپنی چھوٹی سی دنیا اور اس کی نہایت گھٹیا قسم کی دلچسپیوں میں یہ کنویں کے مینڈک ایسے غرق ہیں کہ اُس عظیم الشان علم اور اس زبر دست رہنمائی کی قدر و قیمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی جس کی بدولت یہ ریگستان عرب کے اس تنگ و تاریک گوشے سے اٹھ کر تمام عالم انسانی کے امام و پیشوا بن سکتے ہیں اور اس فانی دنیا ہی میں نہیں بلکہ بعد کی لازوال ابدی زندگی میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرفراز ہو سکتے ہیں۔ اس نادانی و حماقت کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں استفادہ کی توفیق سے محروم کر دیا ہے۔ جب فلاح و کامرانی اور قوت و عظمت کا یہ خزانہ مفت لٹ رہا ہوتا ہے اور خوش نصیب لوگ اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوتے ہیں اس وقت ان بد نصیبوں کے دل کسی اور طرف متوجہ ہوتے ہیں اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ کس دولت سے محروم رہ گئے ۔