19. یعنی جو مساجد خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی ہوں ان کے متولی، مجاور، خادم اور آباد کار بننے کے لیے وہ لوگ کسی طرح موزون نہیں ہو سکتے جو خدا کے ساتھ خداوندی کی صفات ، حقوق او ر اختیارات میں دوسروں کو شریک کرتے ہوں۔ پھر جبکہ وہ خود بھی توحید کی دعوت قبول کرنے سے انکار کرچکے ہوں اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہو کہ ہم اپنی بندگی و عبادت کو ایک خدا کے لیے مخصوص کر دینا قبول نہیں کریں گے تو آخر انہیں کیا حق ہے کہ کسی ایسی عبادت گاہ کے متولی بنے رہیں جو صرف خد اکی عبادت کے لیے بنائی گئی تھی۔
یہاں اگر چہ بات عام کہی گئی ہے اور اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ عام ہے بھی لیکن خاص طور پر یہاں اس کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ خانۂ کعبہ اور مسجد حرام پر سے مشرکین کی تولیت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس پر ہمیشہ کے لیے اہلِ توحید کی تولیت قائم کر دی جائے۔
20. یعنی جو تھوڑی بہت واقعی خدمت انہوں نے بیت اللہ کی انجام دی وہ بھی اس وجہ سے ضائع ہو گئ کہ یہ لوگ اس کے ساتھ شرک اور جاہلانہ طریقوں کی آمیزش کرتے رہے۔ ان کی تھوڑی بھلائی کو ان کی بہت بڑی برائی کھا گئ۔
21. یعنی کسی زیارت گاہ کی سجادہ نشینی ، مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری ، جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں ، خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی۔ اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے۔ ان صفات کا جو شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خوا ہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں۔ لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں ۔ سجادہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آرہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں، نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ایسے بے حقیقت ”موروثی“ حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں۔
22. یعنی تمہیں ہٹا کر سچی دینداری کی نعمت اور اُس کی علمبرداری کا شرف اور رشد و ہدایت کی پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے۔