Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 25-29

لَـقَدۡ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ فِىۡ مَوَاطِنَ كَثِيۡرَةٍ​ ۙ وَّيَوۡمَ حُنَيۡنٍ​ ۙ اِذۡ اَعۡجَبَـتۡكُمۡ كَثۡرَتُكُمۡ فَلَمۡ تُغۡنِ عَنۡكُمۡ شَيۡـئًـا وَّضَاقَتۡ عَلَيۡكُمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ ثُمَّ وَلَّـيۡتُمۡ مُّدۡبِرِيۡنَ​ۚ‏ ﴿9:25﴾ ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡهَا​ ۚ وَعَذَّبَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا​ ؕ وَذٰ لِكَ جَزَآءُ الۡـكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿9:26﴾ ثُمَّ يَتُوۡبُ اللّٰهُ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰ لِكَ عَلٰى مَنۡ يَّشَآءُ ​ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏ ﴿9:27﴾ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِكُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا يَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَـرَامَ بَعۡدَ عَامِهِمۡ هٰذَا​ ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَيۡلَةً فَسَوۡفَ يُغۡنِيۡكُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖۤ اِنۡ شَآءَ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏  ﴿9:28﴾ قَاتِلُوا الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوۡنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗ وَلَا يَدِيۡنُوۡنَ دِيۡنَ الۡحَـقِّ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ حَتّٰى يُعۡطُوا الۡجِزۡيَةَ عَنۡ يَّدٍ وَّهُمۡ صٰغِرُوۡنَ‏ ﴿9:29﴾

25 - اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غَزوہٴ حُنَین کے روز (اُس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو23)۔ اس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غَرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ 26 - پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول ؐ پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اُتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرینِ حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں۔ 27 - پھر (تم یہ بھی دیکھ چُکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے،24 اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ 28 - اے ایمان لانے والو، مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔25 اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔ 29 - جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے26 اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے 27اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں چھوٹے بن کر رہیں۔28 ؏ ۴


Notes

23. جو لوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اعلان براءت کی خطرناک پالیسی پر عمل کرنے سے تمام عرب کے گوشے گوشے میں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھے گی اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہوگا، ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان اندیشوں سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جو خدا اس سے بہت زیادہ سخت خطرات کے موقعوں پر تمہاری مدد کر چکا ہے وہ اب بھی تمہاری مدد کو موجود ہے ۔ اگر یہ کام تمہاری قوت پر منحصر ہوتا تو مکہ ہی سے آگے نہ بڑھتا ، ورنہ بدر میں تو ضرور ہی ختم ہو جاتا۔ مگر اس کی پشت پر تو اللہ کی طاقت ہے اور پچھلے تجربات تم پر ثابت کر چکے ہیں کہ اللہ ہی کی طاقت اب تک اس کو فروغ دیتی رہی ہے۔ لہٰذا یقین رکھو کہ آج بھی وہی اسے فروغ دے گا۔

غزوۂ حُنَین جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے شوال سن ۸ ھجری میں ان آیات کے نزول سے صرف بارہ تیرہ مہینے پہلے مکّے اور طائف کے درمیان وادی حُنَین میں پیش آیا تھا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے ۱۲ ہزار فوج تھی جو اس سے پہلے کبھی کسی اسلامی غزوہ میں اکٹھی نہیں ہوئی تھی اور دوسری طرف کفار اُن سے بہت کم تھے۔ لیکن اس کے باوجود قبیلۂ ہوازِن کے تیر اندازوں نے ان کا منہ پھیر دیا اور لشکر ِ اسلام بُری طرح تِتّر بِتّر ہو کر پسپا ہوا۔ اس وقت صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور چند مٹھی بھر جانباز صحابہ تھے جن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے اور انہی کی ثابت قدمی کا نتیجہ تھا کہ دوبارہ فوج کی ترتیب قائم ہو سکی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی۔ ورنہ فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا۔

24. غزوۂ حنین میں فتح حاصل کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شکست خوردہ دشمنوں کے ساتھ جس فیاضی و کریم النفسی کا برتاؤکیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن میں سے بیشتر آدمی مسلمان ہو گئے۔ اس مثال سے مسلمانوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ تم نے یہی کیوں سمجھ رکھا ہے کہ بس اب سارے مشرکین عرب تہس نہس کر ڈالے جائیں گے۔ نہیں، پہلے کے تجربات کو دیکھتے ہوئے تو تم کو یہ توقع ہونی چاہیے کہ جب نظام ِ جاہلیت کے فروغ و بقا کی کوئی امید ان لوگوں کو باقی نہ رہے گی اور وہ سہارے ختم ہو جائیں گے جن کی وجہ سے یہ اب تک جاہلیت کو چمٹے ہوئےہیں تو خود بخود یہ اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے کے لیے آجائیں گے۔

25. یعنی آئندہ کےلیے ان کا حج اور ان کی زیارت ہی بند نہیں بلکہ مسجد حرام کے حدود میں ان کا داخلہ بھی بند ہے تاکہ شرک و جاہلیت کے اعادہ کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔”ناپاک“ ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ بذاتِ خود ناپاک ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعتقادات ، ان کے اخلاق، ان کے اعمال اور ان کے جاہلانہ طریق ِ زندگی ناپاک ہیں اور اسی نجاست کی بنا پر حدود ِحرم میں ان کا داخلہ بند کیا گیا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ حج اور عمرہ اور مراسم جاہلیت ادا کرنے کے لیے حدود حرم میں نہیں جا سکتے۔ امام شافعی کے نزدیک اس حکم کا منشا یہ ہے کہ یہ مسجد حرام میں جاہی نہیں سکتے۔ اور امام مالک یہ رائے رکھتے ہیں کہ صرف مسجد حرام ہی نہیں بلکہ کسی مسجد میں بھی ان کا داخل ہونا درست نہیں۔ لیکن یہ آخری رائے درست نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں ان لوگوں کو آنے کی اجازت دی تھی۔

26. ”اگرچہ اہلِ کتاب خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں لیکن فی الواقع نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر۔ خدا پر ایمان رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی بس اس بات کو مان لے کہ خدا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خدا کو الٰہِ واحد اور ربِّ واحد تسلیم کر ے اور اس کی ذات ، اس کی صفات، اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں نہ خود شریک بنے نہ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ لیکن نصاریٰ اور یہود دونوں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسا کہ بعد والی آیات میں بتصریح بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کا خدا کو ماننا بے معنی ہے اور اسے ہرگز ایمان باللہ نہیں کہا جا سکتا ۔ اسی طرح آخرت کو ماننے کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی یہ بات مان لے کہ ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے جائیں گے ، بلکہ اس کے ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ، اور کسی بزرگ سے منتسِب ہونا کام نہ آئے گا اور نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکے گا، خدا کی عدالت میں بے لاگ انصاف ہو گا اور آدمی کے ایمان و عمل کے سوا کسی چیز کا لحاظ نہ رکھا جائے گا۔ اس عقیدے کے بغیر آخرت کو ماننا لا حاصل ہے ۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اسی پہلو سے اپنے عقیدے کو خراب کر لیا ہے۔ لہٰذا ان کا ایمان بالآخر ت بھی مسلّم نہیں ہے۔

27. یعنی اُس شریعت کو اپنا قانونِ زندگی نہیں بناتے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ سے نازل کی ہے۔

28. یعنی لڑائی کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور دینِ حق کے پیرو بن جائیں ، بلکہ اس کی غایت یہ ہےکہ ان کی خودمختاری و بالادستی ختم ہو جائے۔ وہ زمین میں حاکم اور صاحبِ امر بن کر نہ رہیں بلکہ زمین کے نظامِ زندگی کی باگیں اور فرمانروائی و امامت کے اختیارات متبعینِ دینِ حق کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ ان کے ماتحت تابع و مطیع بن کر رہیں۔

جزیہ بدل ہے اُس امان اور اس حفاظت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جائے گی۔ نیز وہ علامت ہے اس امر کی کہ یہ لوگ تابع امر بننے پر راضی ہیں۔ ”ہاتھ سے جزیہ دینے“ کا مفہوم سیدھی طرح مطیعانہ شان کےساتھ جزیہ ادا کرنا ہے۔ اور چھوٹے بن کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں بڑے وہ نہ ہوں بلکہ وہ اہلِ ایمان بڑے ہوں جو خلافتِ الہٰی کا فرض انجام دے رہے ہیں۔

ابتداءً یہ حکم یہود و نصاریٰ کے متعلق دیا گیا تھا، لیکن آگے چل کر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے جزیہ لے کر انہیں ذمّی بنایا اور اس کے بعد صحابہ کرام نے بالاتفاق بیرونِ عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کر دیا۔

یہ جزیہ و ہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں اُنیسویں صدی عیسوی کے دَورِ مذلّت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اُس دَور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالاو برتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو۔ سیدھی اور صافف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں، لیکن انہیں اس کا قطعًا کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار و فرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو گی ،فساد رونما ہوگا اور اہلِ ایمان کا فرض ہوگا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انہیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اُس آزادی کی قیمت ہے جو انہیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے ، اور اس قیمت کو اُس صالح نظامِ حکومت کے نظم و نسق پر صَرف ہونا چاہیے جو انہیں اِس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے ۔ اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بد قسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں۔