Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 30-37

وَقَالَتِ الۡيَهُوۡدُ عُزَيۡرُ ۨابۡنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الۡمَسِيۡحُ ابۡنُ اللّٰهِ​ؕ ذٰ لِكَ قَوۡلُهُمۡ بِاَ فۡوَاهِهِمۡ​ ۚ يُضَاهِـُٔوۡنَ قَوۡلَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ قَبۡلُ​ ؕ قَاتَلَهُمُ اللّٰهُ ​ۚ  اَنّٰى يُؤۡفَكُوۡنَ‏ ﴿9:30﴾ اِتَّخَذُوۡۤا اَحۡبَارَهُمۡ وَرُهۡبَانَهُمۡ اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ وَالۡمَسِيۡحَ ابۡنَ مَرۡيَمَ​ ۚ وَمَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِيَـعۡبُدُوۡۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا​ ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ​ ؕ سُبۡحٰنَهٗ عَمَّا يُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿9:31﴾ يُرِيۡدُوۡنَ اَنۡ يُّطۡفِـُٔـوۡا نُوۡرَ اللّٰهِ بِاَ فۡوَاهِهِمۡ وَيَاۡبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنۡ يُّتِمَّ نُوۡرَهٗ وَلَوۡ كَرِهَ الۡـكٰفِرُوۡنَ‏ ﴿9:32﴾ هُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَهٗ بِالۡهُدٰى وَدِيۡنِ الۡحَـقِّ لِيُظۡهِرَهٗ عَلَى الدِّيۡنِ كُلِّهٖۙ وَلَوۡ كَرِهَ الۡمُشۡرِكُوۡنَ‏ ﴿9:33﴾ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَالرُّهۡبَانِ لَيَاۡكُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ؕ وَالَّذِيۡنَ يَكۡنِزُوۡنَ الذَّهَبَ وَالۡفِضَّةَ وَلَا يُنۡفِقُوۡنَهَا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرۡهُمۡ بِعَذَابٍ اَلِيۡمٍۙ‏ ﴿9:34﴾ يَّومَ يُحۡمٰى عَلَيۡهَا فِىۡ نَارِ جَهَـنَّمَ فَتُكۡوٰى بِهَا جِبَاهُهُمۡ وَجُنُوۡبُهُمۡ وَظُهُوۡرُهُمۡ​ؕ هٰذَا مَا كَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِكُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا كُنۡتُمۡ تَكۡنِزُوۡنَ‏ ﴿9:35﴾ اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰهِ اثۡنَا عَشَرَ شَهۡرًا فِىۡ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ مِنۡهَاۤ اَرۡبَعَةٌ حُرُمٌ​ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِيۡهِنَّ اَنۡفُسَكُمۡ​ ؕ وَقَاتِلُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ كَآفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ كَآفَّةً​  ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الۡمُتَّقِيۡنَ‏ ﴿9:36﴾ اِنَّمَا النَّسِىۡٓءُ زِيَادَةٌ فِى الۡكُفۡرِ​ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا يُحِلُّوۡنَهٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوۡنَهٗ عَامًا لِّيُوَاطِـُٔـوۡا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ فَيُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللّٰهُ​ ؕ زُيِّنَ لَهُمۡ سُوۡۤءُ اَعۡمَالِهِمۡ​ ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الۡـكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿9:37﴾

30 - یہودی کہتے ہیں کہ عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔29 یہ بے حقیقت باتیں ہوتی ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کُفر میں مبتلا ہوئے تھے۔30 خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں۔ 31 - انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے31 اور اسی طرح مسیح اِبنِ مریم کو بھی، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق ِ عبادت نہیں ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ 32 - یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ 33 - وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔32 خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ 34 - اے ایمان لانے والو، اِن اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔33 دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ 35 - ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا ۔۔۔۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔ 36 - حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے34، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو35 اور مشرکوں سے سب مِل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں36 اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔ 37 - نَسِی تو کُفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں ۔ کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں ، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں۔37ان کے بُرے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ منکرینِ حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ؏ ۵


Notes

29. عُزَیر سے مراد عَزرا(Ezra) ہیں جن کو یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں۔ ان کا زمانہ سن ۴۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان ؑ کے بعد جو دَور ابتلاء بنی اسرائیل پر آیا اس میں نہ صرف یہ کہ توراۃ دنیا سے گم ہو گئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت ، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان، عبرانی تک سے نا آشنا کر دیا تھا۔ آخر کار انہی عزیر یا عزرا نے بائیبل کے پُرانے عہد نامے کو مرتب کیا ، اور شریعت کی تجدید کی۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض یہودی گروہوں نے ان کو ابن اللہ تک بنا دیا۔ یہاں قرآن مجید کے ارشاد کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام یہودیوں نے بالاتفاق عزرا کا ہن کو خدا کا بیٹا بنایا ہے بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا کے متعلق یہودیوں کے اعتقادات میں جو خرابی رونما ہوئی وہ اس حد تک ترقی کر گئی کہ عزرا کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے بھی ان میں پیدا ہوئے۔

30. یعنی مصر، یونان ، روم ، ایران اور دوسرے ممالک میں جو قومیں پہلے گمراہ ہو چکی تھیں ان کے فلسفوں اور اوہام و تخیلات سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے بھی ویسے ہی گمراہانہ عقیدے ایجاد کر لیے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو المائدہ حاشیہ ۱۰۱)۔

31. حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتِم، جو پہلے عیسائی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خد ا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ فرمایا بس یہی ان کو خد ا بنا لینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعمِ خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حقِ شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدابناتے ہیں۔

یہ دونوں الزام ، یعنی کسی کو خدا کا بیٹا قرار دینا، اور کسی کو شریعت سازی کا حق دے دینا، اس بات کے ثبوت میں پیش کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ ایمان باللہ کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ خدا کی ہستی کو چاہے یہ مانتے ہوں مگر ان کا تصورِ خدائی اس قدر غلط ہے کہ اس کی وجہ سے ان کا خدا کو ماننا نہ ماننے کے برابر ہو گیا ہے۔

32. متن میں”الدین“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ”جنس دین“ کیا ہے۔ دین کا لفظ ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، عربی زبان میں اُس نظامِ زندگی یا طریقِ زندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مُطاع تسلیم کر کے اس کا اتباع کیا جائے۔ پس بعثتِ رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دینِ حق کو وہ خدا کیطرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام طریقوں اور نظاموں پر غالب کر دے۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے۔ بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آیا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے ۔ اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظامِ زندگی رہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو المزمر، حاشیہ ۳، المومن، حاشیہ ۴۳– الشوریٰ حاشیہ ۲۰)

33. یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، نذرانے لوٹتے ہیں ، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات اِن سے خریدیں اور اُن کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی اِن کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار اِن کو سمجھ لیں۔ بلکہ مزید براں اپنی اِنہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلقِ خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسا ئے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوتِ حق اصلا ح کے لیے اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

34. یعنی جب سے اللہ نے چاند، سورج اورزمین کو خلق کیا ہے اسی وقت سے یہ حساب بھی چلا آرہا ہے کہ مہینے میں ایک ہی دفعہ چاند ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے اور اس حساب سے سال کے ۱۲ ہی مہینے بنتے ہیں۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ عرب کے لوگ نَسِی کی خاطر مہینوں کی تعداد ۱۳ یا ۱۴ بنالیتے تھے، تاکہ جس ماہِ حرام کو انہوں نے حلال کر لیا ہو اسے سال کی جنتری میں کھپا سکیں۔ اس مضمون کی تشریح آگے آتی ہے۔

35. یعنی جن مصالح کی بنا پر ان مہینوں میں جنگ کرنا حرام کیا گیا ہے ان کو ضائع نہ کرو اور ان ایام میں بد امنی پھیلا کر اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ چار حرام مہینوں سے مراد ہیں ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عُمرے کے لیے۔

36. یعنی اگر مشرکین ان مہینوں میں بھی لڑنے سے باز نہ آئیں تو جس طرح وہ متفق ہو کر تم سے لڑتے ہیں تم بھی متفق ہو کر ان سے لڑو۔ سورۂ بقرہ آیت ۱۹۴ اِس آیت کی تفسیر کرتی ہے۔

37. عرب میں نَسِی دو طرح کی تھی ۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ و جدل اور غارت گری اور خون کے انتقام لینے کی خاطر کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام کر کے حرام مہینوں کی تعداد پوری کر دیتے تھے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبِیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے ، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ اُن زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کےمطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں۔ اس طرح ۳۳ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہو تا رہتا تھا اور صرف چونتیسویں سال ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ۹ – ۱۰ تاریخ کو ادا ہوتا تھا ۔ یہی وہ بات ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےخطبہ میں فرمائی تھی کہ ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوٰت والارض۔ یعنی اِس سال حج کا وقت گردش کرتا ہو اٹھیک اپنی اس تاریخ پر آگیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے۔

اس آیت میں نَسی کو حرام اور ممنوع قرار دےکر جہلائے عرب کی ان دونوں اغراض کو باطل کر دیا گیا ہے ۔ پہلی غرض تو ظاہر ہے کہ صریح طور پر ایک گناہ تھی۔ اُس کے تو معنی ہی یہ تھے کہ خداکے حرام کیے ہوئے کو حلا ل بھی کر لیا جائے اور پھر حیلہ بازی کر کے پابندی قانون کی ظاہری شکل بھی بنا کر رکھ دی جائے۔ رہی دوسری غرض تو سرسری نگاہ میں وہ معصوم اور مبنی بر مصلحت نظر آتی ہے ، لیکن درحقیقت وہ بھی خدا کے قانون سے بدترین بغاوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لیے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے بندے زمانے کی تما م گردشوں میں، ہر قسم کے حالات اور کیفیات میں اُس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں۔ مثلاً رمضان ہے، تو وہ کبھی گرمی میں اور کبھی برسات میں اور کبھی سردیوں میں آتا ہے، اور اہلِ ایمان اِن سب بدلتے ہوئے حالات میں روزے رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں ۔ اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اور ان سب طرح کے اچھے اور بُرے حالات میں خدا کی رضا کے لیے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اُترتے ہیں اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی گروہ اپنے سفر اور اپنی تجارت اور اپنے میلوں ٹھیلوں کی سہولت کی خاطر حج کو کسی خوشگوار موسم میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دے ، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے مسلمان کوئی کانفرنس کر کے طے کر لیں کہ آئندہ سے رمضان کا مہینہ دسمبر یا جنوری کے مطابق کر دیا جائے گا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بندوں نے اپنے خدا سے بغاوت کی اور خودمختار بن بیٹھے۔ اسی چیز کا نام کفر ہے ۔ علاوہ بریں ایک عالمگیر دین جو سب انسانوں کے لیے ہے، آخر کس شمسی مہینے کو روزے اور حج کے لیے مقرر کرے؟ جو مہینہ بھی مقرر کیا جائے گا وہ زمین کے تمام باشندوں کے لیے یکساں سہولت کا موسم نہیں ہو سکتا۔ کہیں وہ گر می کا زمانہ ہو گا اور کہیں سردی کا ۔ کہیں وہ بارشوں کا موسم ہوگا اور کہیں خشکی کا۔ کہیں فصلیں کاٹنے کا زمانہ ہوگا اور کہیں بونے کا۔

یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نسی کی منسُوخی کا یہ اعلان سن ۹ ھجری کے حج کے موقع پر کیا گیا۔ اور اگلے سال سن ۱۰ ھجری کا حج ٹھیک اُن تاریخوں میں ہُوا جو قمری حساب کے مطابق تھیں۔ اس کے بعد سے آج تک حج اپنی صحیح تاریخوں میں ہورہا ہے۔