Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 38-42

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَـكُمۡ اِذَا قِيۡلَ لَـكُمُ انْفِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اثَّاقَلۡـتُمۡ اِلَى الۡاَرۡضِ​ ؕ اَرَضِيۡتُمۡ بِالۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا مِنَ الۡاٰخِرَةِ​ ۚ فَمَا مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا فِى الۡاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيۡلٌ‏ ﴿9:38﴾ اِلَّا تَـنۡفِرُوۡا يُعَذِّبۡكُمۡ عَذَابًا اَلِيۡمًا   ۙ وَّيَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡ وَلَا تَضُرُّوۡهُ شَيۡـئًـا​ ؕ وَاللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿9:39﴾ اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا​ ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ وَاَ يَّدَهٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا السُّفۡلٰى​ ؕ وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿9:40﴾ اِنْفِرُوۡا خِفَافًا وَّثِقَالًا وَّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ وَاَنۡفُسِكُمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ​ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿9:41﴾ لَوۡ كَانَ عَرَضًا قَرِيۡبًا وَّسَفَرًا قَاصِدًا لَّاتَّبَعُوۡكَ وَلٰـكِنۡۢ بَعُدَتۡ عَلَيۡهِمُ الشُّقَّةُ ​ ؕ وَسَيَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ لَوِ اسۡتَطَعۡنَا لَخَـرَجۡنَا مَعَكُمۡ ۚ يُهۡلِكُوۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ​ ۚ وَاللّٰهُ يَعۡلَمُ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿9:42﴾

38 - 38اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دُنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔39 39 - تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا،40 اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اُٹھائے گا،41 اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ 40 - تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں ،اللہ اُس کی مدد اُس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ”غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے“42۔ اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکون ِقلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبردست اور دانا و بینا ہے ۔۔۔۔ 41 - نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل43، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ 42 - اے نبی ؐ اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہوگیا۔ 44اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے! وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں ۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ ؏ ۶


Notes

38. یہاں سے وہ خطبہ شروع ہوتا ہے جو غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نازل ہوا تھا۔

39. اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ عالم آخرت کے بے پایاں زندگی اور وہاں کے بے حد وحساب سازو سامان کوجب تم دیکھو گے تب تمہیں معلوم ہو گا کہ دنیا کے تھوڑے سے عرصۂ حیات میں لطف اندوزی کے جو بڑے سے بڑے امکانات تم کو حاصل تھے اور زیادہ سے زیادہ جو اسبابِ عیش تم کومیسر تھے وہ غیر محدود امکانات اور اس نعیم و ملکِ کبیر کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ اور اُس وقت تم کو اپنی اس ناعاقبت اندیشی و کم نگاہی پر افسوس ہو گا کہ تم نے کیوں ہمارے سمجھانے کے باوجود دنیا کے عارضی اور قلیل منافع کی خاطر اپنے آپ کو ان ابدی اور کثیر منافع سے محروم کر لیا۔ دوسرے یہ کہ متاعِ حیاۃِ دنیا آخرت میں کام آنے والی چیز نہیں ہے۔ یہاں تم خواہ کتنا ہی سروسامان مہیا کر لو ، موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہر چیز سے دست بردار ہونا پڑے گا ، اور سرحدِ موت کے دوسری جانب جو عالَم ہے وہاں اِن میں سے کوئی چیز بھی تمہارے ساتھ منتقل نہ ہو گی۔ وہاں اِس کا کوئی حصہ اگر تم پا سکتے ہو تو صرف وہی جسے تم نے خدا کی رضا پر قربان کیا ہو اور جس کی محبت پر تم نے خدا اور اس کے دین کی محبت کو ترجیح دی ہو۔

40. اسی سے یہ مسئلہ نکلا ہے کہ جب تک نفیر عام (جنگی خدمت کے لیے عام بلاوا) نہ ہو، یا جب تک کسی علاقے کی مسلم آبادی یا مسلمانوں کے کسی گروہ کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم نہ دیا جائے، اس وقت تک تو جہاد فرض کفایہ رہتا ہے ، یعنی اگر کچھ لوگ اسے ادا کرتے رہیں تو باقی لوگوں پر سے اس کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے ۔ لیکن جب امام المسلمین کی طرف سے مسلمانوں کو جہاد کا عام بلاوا ہو جائے، یا کسی خاص گروہ یا خاص علاقے کی آبادی کو بلاوا دے دیا جائے تو ، پھر جنہیں بلاوا دیا گیا ہو ان پر جہاد فرض عین ہے، حتٰی کہ جو شخص کسی حقیقی معذوری کےبغیر نہ نکلے ا س کاایمان تک معتبر نہیں ہے۔

41. یعنی خدا کا کام کچھ تم منحصر نہیں ہے کہ تم کرو گے تو ہو گا ورنہ نہ ہو گا۔ درحقیقت یہ تو خدا کا فضل و احسان ہے کہ وہ تمہیں اپنے دین کی خدمت کا زرین موقع دے رہا ہے۔ اگر تم اپنی نادانی سے اس موقع کو کھو دو گے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی توفیق بخش دے گا اور تم نامراد رہ جاؤگے۔

42. یہ اُس موقع کا ذکر ہے جب کفارِ مکہ نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا تہیہ کر لیا تھا اور آپؐ عین اس رات کو، جو قتل کے لیے مقرر کی گئی تھی ، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ جا چکی تھی۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یہ منافقانہ ایمان رکھتے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ اس حالت میں جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ صرف ایک رفیق حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے، اور اس خیال سے کہ آپ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا ، آپ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر (جو شمال کی طرف تھی) جنوب کی راہ اختیار کی۔ یہاں تین دن تک آپ غارِ ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن آپ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے ایسا نہ چھوڑا جہاں آپ کو تلاش نہ کیا ہو۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اُس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے ۔ حضرت ابوبکر ؓ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں کسی نے ذرا آگے بڑھ کر غار میں جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ نے یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ کو تسکین دی کہ ”غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے“۔

43. ہلکے اور بوجھل کے الفاظ بہت وسیع مفہوم رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب نکلنے کا حکم ہو چکا تو بہر حال تم کو نکلنا چاہیے خواہ برضا و رغبت خواہ بکراہت ، خواہ خوشحالی میں خواہ تنگ دستی میں ، خواہ ساز و سامان کی کثرت کے ساتھ خواہ بے سروسامانی کے ساتھ، خواہ موافق حالات میں خواہ نافوافق حالات میں، خواہ جوان و تندرست خواہ ضعیف و کمزور۔

44. یعنی یہ دیکھ کر کہ مقابلہ روم جیسی طاقت سے ہے اور زمانہ شدید گرمی کا ہے اور ملک میں قحط برپا ہے اور نئے سال کی فصلیں جن سے آس لگی ہوئی تھی، کٹنے کے قریب ہیں، ان کو تبوک کا سفر بہت ہی گراں محسُوس ہونے لگا۔