Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 43-59

عَفَا اللّٰهُ عَنۡكَ​ۚ لِمَ اَذِنۡتَ لَهُمۡ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَتَعۡلَمَ الۡـكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿9:43﴾ لَا يَسۡتَـاۡذِنُكَ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ اَنۡ يُّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالۡمُتَّقِيۡنَ‏  ﴿9:44﴾ اِنَّمَا يَسۡتَاْذِنُكَ الَّذِيۡنَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَارۡتَابَتۡ قُلُوۡبُهُمۡ فَهُمۡ فِىۡ رَيۡبِهِمۡ يَتَرَدَّدُوۡنَ‏ ﴿9:45﴾ وَلَوۡ اَرَادُوۡا الۡخُـرُوۡجَ لَاَعَدُّوۡا لَهٗ عُدَّةً وَّلٰـكِنۡ كَرِهَ اللّٰهُ انۢبِعَاثَهُمۡ فَثَبَّطَهُمۡ وَقِيۡلَ اقۡعُدُوۡا مَعَ الۡقٰعِدِيۡنَ‏ ﴿9:46﴾ لَوۡ خَرَجُوۡا فِيۡكُمۡ مَّا زَادُوۡكُمۡ اِلَّا خَبَالًا وَّلَاْاَوۡضَعُوۡا خِلٰلَـكُمۡ يَـبۡغُوۡنَـكُمُ الۡفِتۡنَةَ ۚ وَفِيۡكُمۡ سَمّٰعُوۡنَ لَهُمۡ​ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِالظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿9:47﴾ لَـقَدِ ابۡتَغَوُا الۡفِتۡنَةَ مِنۡ قَبۡلُ وَقَلَّبُوۡا لَكَ الۡاُمُوۡرَ حَتّٰى جَآءَ الۡحَـقُّ وَظَهَرَ اَمۡرُ اللّٰهِ وَهُمۡ كٰرِهُوۡنَ‏ ﴿9:48﴾ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّقُوۡلُ ائۡذَنۡ لِّىۡ وَلَا تَفۡتِنِّىۡ​ ؕ اَلَا فِى الۡفِتۡنَةِ سَقَطُوۡا​ ؕ وَاِنَّ جَهَـنَّمَ لَمُحِيۡطَةٌ ۢ بِالۡـكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿9:49﴾ اِنۡ تُصِبۡكَ حَسَنَةٌ تَسُؤۡهُمۡ​ ۚ وَاِنۡ تُصِبۡكَ مُصِيۡبَةٌ يَّقُوۡلُوۡا قَدۡ اَخَذۡنَاۤ اَمۡرَنَا مِنۡ قَبۡلُ وَيَتَوَلَّوْا وَّهُمۡ فَرِحُوۡنَ‏ ﴿9:50﴾ قُلْ لَّنۡ يُّصِيۡبَـنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَـنَا ۚ هُوَ مَوۡلٰٮنَا ​ ۚ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ‏ ﴿9:51﴾ قُلۡ هَلۡ تَرَبَّصُوۡنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡدَى الۡحُسۡنَيَيۡنِ​ؕ وَنَحۡنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمۡ اَنۡ يُّصِيۡبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنۡ عِنۡدِهٖۤ اَوۡ بِاَيۡدِيۡنَا  ​ۖ  فَتَرَبَّصُوۡۤا اِنَّا مَعَكُمۡ مُّتَرَبِّصُوۡنَ‏ ﴿9:52﴾ قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ كَرۡهًا لَّنۡ يُّتَقَبَّلَ مِنۡكُمۡ​ؕ اِنَّكُمۡ كُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِيۡنَ‏ ﴿9:53﴾ وَمَا مَنَعَهُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡهُمۡ نَفَقٰتُهُمۡ اِلَّاۤ اَنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ وَبِرَسُوۡلِهٖ وَلَا يَاۡتُوۡنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمۡ كُسَالٰى وَلَا يُنۡفِقُوۡنَ اِلَّا وَهُمۡ كٰرِهُوۡنَ‏ ﴿9:54﴾ فَلَا تُعۡجِبۡكَ اَمۡوَالُهُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُهُمۡ​ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمۡ بِهَا فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَتَزۡهَقَ اَنۡفُسُهُمۡ وَهُمۡ كٰفِرُوۡنَ‏  ﴿9:55﴾ وَيَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ اِنَّهُمۡ لَمِنۡكُمۡؕ وَمَا هُمۡ مِّنۡكُمۡ وَلٰـكِنَّهُمۡ قَوۡمٌ يَّفۡرَقُوۡنَ‏ ﴿9:56﴾ لَوۡ يَجِدُوۡنَ مَلۡجَاً اَوۡ مَغٰرٰتٍ اَوۡ مُدَّخَلًا لَّوَلَّوۡا اِلَيۡهِ وَهُمۡ يَجۡمَحُوۡنَ‏ ﴿9:57﴾ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ يَّلۡمِزُكَ فِى الصَّدَقٰتِ​ ۚ فَاِنۡ اُعۡطُوۡا مِنۡهَا رَضُوۡا وَاِنۡ لَّمۡ يُعۡطَوۡا مِنۡهَاۤ اِذَا هُمۡ يَسۡخَطُوۡنَ‏ ﴿9:58﴾ وَلَوۡ اَنَّهُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۙ وَقَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰهُ سَيُؤۡتِيۡنَا اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ وَ رَسُوۡلُهٗۙ اِنَّاۤ اِلَى اللّٰهِ رٰغِبُوۡنَ‏ ﴿9:59﴾

43 - اے نبی ؐ ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے) تاکہ تم پر کھُل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔ 45 44 - جو لوگ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ 45 - ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردّد ہو رہے ہیں۔46 46 - اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اُٹھنا پسند ہی نہ تھا47 اس لیے اس نے اُنھیں سُست کر دیا اور کہہ دیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ ۔ 47 - اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دُھوپ کرتے ، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کی باتیں کان لگا کر سُنتے ہیں، اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ 48 - اِس سے پہلے بھی اِن لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا اُلٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ اِن کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا ۔ 49 - ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ ”مجھے رُخصت دے دیجیے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے“48۔۔۔۔ سُن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں49 اور جہنم نے اِن کافروں کو گھیر رکھا ہے۔50 50 - تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کر لیا تھا۔ 51 - ان سے کہو ”ہمیں ہر گز کوئی (بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہلِ ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔51 52 - ان سے کہو ”تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔52 اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو اب تم انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔“ 53 - ان سے کہو ”تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت53 ، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے کیونکہ تم فاسق لوگ ہو۔“ 54 - ان کے دیے ہوئے مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے، نماز کے لیے آتے ہیں تو کَسمَساتے ہوئے آتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں۔ 55 - اِن کے مال و دولت اور اِن کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاوٴ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے54 اور یہ جان بھی دیں تو اِنکارِ حق ہی کی حالت میں دیں۔55 56 - وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں ، حالانکہ وہ ہرگز تم میں سے نہیں ہیں ۔ اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوف زدہ ہیں۔ 57 - اگر وہ کوئی جائے پناہ پا لیں یا کوئی کھوہ یا گھُس بیٹھنے کی جگہ، تو بھاگ کر اُس میں جا چھُپیں۔56 58 - اے نبی ؐ ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں۔ اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں ، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔57 59 - کیا اچھا ہوتا کہ اللہ اور رسول ؐ نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے 58اور کہتے کہ ”اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہ اپنے فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا،59 ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں۔60“ ؏ ۷


Notes

45. بعض منافقین نے بناوٹی عذرات پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رخصت مانگی تھی ، اور حضور ؐ نے بھی اپنے طبعی حِلم کی بنا پر یہ جاننے کے باوجود کہ وہ محض بہانے کر رہے ہیں ان کو رخصت عطا فرمادی تھی۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور آپ کو تنبیہ کی کہ ایسی نرمی مناسب نہیں ہے ۔ رخصت دے دینے کی وجہ سے ان منافقوں کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا۔ اگر انہیں رخصت نہ دی جاتی اور پھر یہ گھر بیٹھے رہتے تو ان کا جھوٹا دعوٰئے ایمان بے نقاب ہو جاتا۔

46. اس سے معلوم ہوا کہ کفر اسلام کی کشمکش ایک کسوٹی ہے جو کھرے مومن اورکھوٹے مدعی ایمان کے فرق کو صاف کھول کر رکھ دیتی ہے ۔ جو شخص اس کشمکش میں دل و جان سے اسلام کی حمایت کرے اور اپنی ساری طاقت اور تمام ذرائع اس کو سربلند کرنے کی سعی میں کھپا دے اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرے وہی سچا مومن ہے۔ بخلاف اس کے جو اس کشمکش میں اسلام کا ساتھ دینے سے جی چرائے اور کفر کی سر بلندی کا خطرہ سامنے دیکھتے ہوئے بھی اسلام کی سربلندی کے لیے جان و مال کی بازی کھیلنے سے پہلو تہی کر ے اس کی یہ روش خود اس حقیقت کو واضح کر دیتی ہے کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔

47. یعنی بادل نا خواستہ اٹھنا اللہ کو پسند نہیں تھا۔ کیونکہ جب وہ شرکت جہاد کے جذبے اور نیت سے خالی تھے اور ان کے اندر دین کی سربلندی کے لیے جاں فشانی کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی، تو وہ صرف مسلمانوں کی شرما شرمی سے بددلی کے ساتھ یا کسی شرارت کی نیت سے مستعدی کے ساتھ اُٹھتے اور یہ چیز ہزار خرابیوں کی موجب ہوتی جیسا کہ بعد والی آیت میں بتصریح فرما دیا گیا ہے۔

48. جو منافق بہانے کر کر کے پیچھے ٹھیر جانے کی اجازتیں مانگ رہے تھے ان میں سے بعض ایسے بے باک بھی تھے جو راہِ خدا سے قدم پیچھے ہٹانے کے لیے مذہبی و اخلاقی نوعیت کے حیلے تراشتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص جَدّ بن قیس کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہوسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ میں ایک حسن پرست آدمی ہوں ، میری قوم کے لوگ میری اس کمزوری سے واقف ہیں کہ عورت کے معاملہ میں مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں رومی عورتوں کو دیکھ کر میرا قدم پھسل نہ جائے۔ لہٰذا آپ مجھے فتنے میں نہ ڈالیں اور اس جہاد کی شرکت سے مجھ کو معذور رکھیں۔

49. یعنی نام تو فتنے سے بچنے کا لیتے ہیں مگر درحقیقت نفاق اور جھوٹ اور ریاکاری کا فتنہ بُری طرح ان پر مسلط ہے۔ اپنے نزدیک یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے فتنوں کے امکان سے پریشانی و خوف کا اظہار کر کے یہ بڑے متقی ثابت ہوئے جا رہے ہیں۔حالانکہ فی الواقع کفر و اسلام کی فیصلہ کن کشمکش کے موقع پر اسلام کی حمایت سے پہلو تہی کر کے یہ اتنے بڑے فتنے میں مبتلا ہو رہے ہیں جس سے بڑھ کر کسی فتنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

50. یعنی تقویٰ کی اس نمائش نے ان کو جہنم سے دُور نہیں کیا بلکہ نفاق کی اس لعنت نے انہیں جہنم کے چنگل میں اُلٹا پھنسا دیا ۔

51. ”یہاں دنیا پرست اور خدا پرست کی ذہنیت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے ۔ دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے ۔یہ مقاصد اسے حاصل ہو جائیں تو وہ پھول جاتا ہے اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مردنی چھا جاتی ہے۔ پھر اُس کا سہارا تمام تر مادّی اسباب پر ہوتا ہے ۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے اور ناسازگار ہو تے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے ۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کام میں اس کا بھروسہ اپنی قوت یا مادّی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔ راہِ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہو رہی ہے ۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کر سکتیں ۔کیونکہ اوّل تو دونوں کو وہ اپنے حق میں خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گذر جائے۔ دوسرے اس کے پیشِ نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کر ے۔ اس کے سامنے تو رضائے الہٰی کا مقصدِ وحید ہوتا ہے اور اس مقصد سے اس کے قریب یادور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصول نہیں ہے بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا ۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کر دیا ہو تو خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی ہَر گئی ہو لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگاری یا ناسازگاری اس کو خوش یا رنجیدہ کردے۔اس کا سارا اعتماد خدا پر ہوتا ہے جو عالم اسباب کا حاکم ہے اوراس کے اعتماد پر وہ ناسازگار حالات میں بھی اُسی عزم وہمت کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہلِ دنیا سے صرف سازگار حالات ہی میں ہوا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے ۔ تمہاری خوشی و رنج کے قوانین کچھ اور ہیں اور ہمارے کچھ اور تم اطمینان اور بے اطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذسے۔

52. منافقین حسب عادت اس موقع پر بھی کفر و اسلام کی اس کشمکش میں حصہ لینے کےبجائے اپنی دانست میں کمال دانشمندی کے ساتھ دور بیٹھے ہوئے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس کشمکش کا انجام کیا ہوتا ہے، رسول اور اصحاب رسول فتحیاب ہو کر آتے ہیں یا رومیوں کی فوجی طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ اس کا جواب انہیں یہ دیا گیا ہے کہ جن د و نتیجوں میں سے ایک کے ظہور کا تمہیں انتظار ہے ، اہلِ ایمان کے لیے تو وہ دونوں ہی سراسر بھلائی ہیں۔ وہ اگر فتحیاب ہوں تو اس کا بھلائی ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن اگر اپنے مقصد کی راہ میں جانیں لڑاتے ہوئے وہ سب کے سب پیوندِ خاک ہو جائیں تب بھی دنیا کی نگاہ میں چاہے یہ انتہائی ناکامی ہو مگر حقیقت میں یہ بھی ایک دوسری کامیابی ہے۔ اس لیے کہ مومن کی کامیابی و ناکامی کا معیار یہ نہیں ہے کہ اس نے کوئی ملک فتح کیا یا نہیں ، یا کوئی حکومت قائم کر دی یا نہیں بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ اس نے اپنے خدا کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے اپنے دل و دماغ اور جسم و جان کی ساری قوتیں لڑادیں یا نہیں۔ یہ کام اگر اس نے کر دیا تو درحقیقت وہ کامیاب ہے، خواہ دنیا کے اعتبار سے اس کی سعی کا نتیجہ صفر ہی کیوں نہ ہو۔

53. بعض منافق ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو خطرے میں دالنے کے لیے تو تیار نہ تھے، مگر یہ بھی نہ چاہتے تھے کہ اس جہاد اور اس کی سعی سے بالکل کنارہ کش رہ کر مسلمانوں کی نگاہ میں اپنی ساری وقعت کھو دیں اور اپنے نفاق کو علانیہ ظاہر کردیں۔ اس لیے وہ کہتے تھے کہ ہم جنگی خدمت کو انجام دینے سے تو اس وقت معذرت چاہتے ہیں، لیکن مال سے مدد کرنے کے لیے حاضر ہیں۔

54. یعنی اس مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے، اس کی وجہ سے مسلم سوسائیٹی میں یہ انتہائی ذلیل و خوار ہو کر رہیں گے اور وہ ساری شانِ ریاست اور عزّت و ناموری اور مشیخیت و چودھراہٹ، جو اب تک عربی سوسائٹی میں ان کو حاصل رہی ہے، نئے اسلامی نظام اجتماعی میں وہ خاک میں مل جائے گی۔ ادنیٰ ادنیٰ غلام اور غلام زادے اور معمولی کاشتکار اور چرواہے ، جنہوں نے اخلاص ایمانی کا ثبوت دیا ہے، اس نئے نظام میں باعزّت ہوں گے، اور خاندانی چودھری اپنی دنیا پرستی کی بدولت بے عزت ہو کر رہ جائیں گے۔

اس کیفیت کا ایک دلچسپ نمونہ وہ واقعہ ہے جو ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کی مجلس میں پیش آیا۔ قریش کے چند بڑے بڑے شیوخ، جن میں سُہَیل بن عَمرو اور حارِث بن ہِشام جیسے لوگ بھی تھے، حضرت عمر ملنے گئے۔وہاں یہ صورت پیش آئی کہ انصار و مہاجرین میں سے کوئی معمولی آدمی بھی آتا تو حضرت عمرؓ اسے اپنے پاس بلا کر بٹھاتے اور اِن شیوخ سے کہتے کہ اس کے لیے جگہ خالی کرو۔ تھوڑی دیر میں نوبت یہ آئی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے پائینِ مجلس میں پہنچ گئے ۔ باہر نکل کر حارث بن ہشام نے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ سُہَیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر کا کچھ قصور نہیں ، قصور ہمارا ہے کہ جب ہمیں اِس دین کی طرف دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے۔ پھر یہ دونوں صاحب دوبارہ حضرت عمر ؓ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ، مگر اب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ہے؟ حضرت عمر ؓ نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحدِ روم کی طرف اشارہ کردیا۔ مطلب یہ تھا کہ اب میدانِ جہاد میں جان و مال کھپاؤ تو شاید وہ پوزیشن پھر حاصل ہو جائے جسے کھو چکے ہو۔

55. یعنی اس ذلت و رسوائی سے بڑھ کر مصیبت ان کے لیے یہ ہوگی کہ جن منافقانہ اوصاف کو یہ اپنے اندر پرورش کر رہے ہیں ان کی بدولت انہیں مرتے دم تک صدقِ ایمانی کی توفیق نصیب نہ ہو گی اور اپنی دنیا خراب کر لینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ آخرت بھی خراب بلکہ خراب تر ہو گی۔

56. “مدینہ کے یہ منافق زیادہ تر بلکہ تمام تر مالدار اور سن رسیدہ لوگ تھے۔ ابنِ کثیر نے البِدایہ و النِّہایہ میں ان کی جو فہرست دی ہے اس میں صرف ایک نوجوان کا ذکر ملتا ہے اور غریب ان میں سے کوئی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ مدینہ میں جائدادیں اور پھیلے ہوئے کاروبار رکھتے تھے اور جہاندیدگی نے ان کو مصلحت پرست بنا دیا تھا۔ اسلام جب مدینہ پہنچا اور آبادی کے ایک بڑے حصہ نے پورے اخلاص اور جوش ایمانی کے ساتھ اسلام قبول کر لیا، تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو ایک عجیب مخمصہ میں مبتلا پایا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو خود ان کے اپنے قبیلوں کی اکثریت بلکہ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں تک کو اس نئے دین نے ایمان کے نشے سے سرشار کر دیا ہے۔ ان کے خلاف اگر وہ کفر و انکار پر قائم رہتے ہیں تو ان کی ریاست ، عزت ، شہرت سب خاک میں ملی جاتی ہے حتیٰ کہ ان کے اپنے گھروں میں ان کے خلاف بغاوت برپا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف اس دین کا ساتھ دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ سارے عرب سے بلکہ اطراف و نواح کی قوموں اور سلطنتوں سے بھی لڑائی مول لینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اغراض نفسانی کی بندگی نے معاملہ کے اس پہلو پر نظر کرنے کی استعداد تو ان کے اندر باقی ہی نہیں رہنے دی تھی کہ حق اور صداقت بجائے خود بھی کوئی قیمتی چیز ہے جس کے عشق میں انسان خطرات مول لے سکتا ہے اور جان و مال کی قربانیاں گوارا کر سکتا ہے۔ وہ دنیا کےسارے معاملات و مسائل پر صرف مفاد اور مصلحت ہی کے محاذ سے نگاہ ڈالنے کے خوگر ہو چکے تھے۔ اس لیے ان کو اپنے مفاد کے تحفظ کی بہترین صورت یہی نظر آئی کہ ایمان کا دعویٰ کریں تاکہ اپنی قوم کے درمیان اپنی ظاہری عزت اور اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھ سکیں ، مگر مخلصانہ ایمان نہ اختیار کریں تاکہ اُن خطرات و نقصانات سے دوچار نہ ہوں جو اخلاص کی راہ اختیار کرنے سے لازمًا پیش آنے تھے۔ ان کی اسی ذہنی کیفیت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ تمہارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نقصانات کے خوف نے انہیں زبردستی تمہارے ساتھ باندھ دیا ہے ۔ جو چیز انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرائیں وہ صرف یہ خوف ہے کہ مدینہ میں رہتے ہوئے علانیہ غیر مسلم بن کر رہیں تو جاہ و منزلت ختم ہو تی ہے اور بیوی بچوں تک سے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں۔ مدینہ کوچھوڑ دیں تو اپنی جائدادوں اور تجارتوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے ، اور ان کے اندر کفر کے لیے بھی اتنا اخلاص نہیں ہے کہ اس کی خاطر وہ ان نقصانات کو برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں۔ اس مخمصے نے انہیں کچھ ایسا پھانس رکھا ہے کہ مجبورًا مدینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، بادل نا خواستہ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور زکوٰۃ کا ”جرمانہ“ بھگت رہے ہیں، ورنہ آئے دن جہاد اور آئے دن کسی نہ کسی خوفناک دشمن کے مقابلے اور آئے دن جان و مال کی قربانیوں کے مطالبے کی جو ”مصیبت“ان پر پڑی ہوئی ہے اس سے بچنے کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ اگر کوئی سُوراخ یا بل بھی ایسا نظر آجائے جس میں انہیں امن ملنے کی امید ہو تو یہ بھاگ کر اس میں گھس بیٹھیں۔

57. عرب میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے تمام اُن باشندوں پر جو ایک مقرر مقدار سے زائد مال رکھتے تھے، باقاعدہ زکوٰۃ عائد کی گئی تھی اور وہ ان کی زرعی پیداوار سے ان کے مویشیوں سے ان کے اموال ِ تجارت سے اُن کے معدنیات سے اور ان کے سونے چاندی کے ذخائر سے ۲-۱/۲ فی صدی ، ۵ فی صدی، ۱۰۰ فی صدی کی مختلف شرحوں کے مطابق وصول کی جاتی تھی۔ یہ سب اموال زکوٰۃ ایک منظم طریقہ سے وصول کیے جاتے اور ایک مرکز پر جمع ہو کر منظم طریقہ سے خرچ کیے جاتے ۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملک کے اطراف سے اتنی دولت سمٹ کر آتی اور آپ کے ہاتھوں خرچ ہوتی تھی جو عرب کے لوگوں نے کبھی اس سے پہلے کسی ایک شخص کے ہاتھوں جمع اور تقسیم ہوتے نہیں دیکھی تھی۔ دنیا پرست منافقین کے منہ میں اس دولت کو دیکھ کر پانی بھر بھر آتا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بہتے ہوئے دریا سے ان کو خوب سیر ہو کر پینے کا موقع ملے، مگر یہاں پلانے والا خود اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر اس دریا کے ایک ایک قطرے کو حرام کر چکا تحا اور کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے مستحق لوگوں کے سوا کسی اور کے لب تک جام پہنچ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم صدقات کو دیکھ دیکھ کر دلوں میں گھُٹتے تھے اور تقسیم کے موقع پر آپ کو طرح طرح کے الزامات سے مطعون کرتے تھے ۔ دراصل شکایت تو انہیں یہ تھی کہ اس مال پر ہمیں دست درازی کا موقع نہیں دیا جاتا ، مگر اس حقیقی شکایت کو چھپا کر وہ الزام یہ رکھتے تھے کہ مال کی تقسیم انصاف سے نہیں کی جاتی اور اس میں جانب داری سے کام لیا جاتا ہے۔

58. یعنی مال غنیمت میں سے جو حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیتے ہیں اس پر قانع رہتے، اور خدا کے فضل سے جو کچھ یہ خود کماتے ہیں اور خدا کے دیے ہوئے ذرائع آمدنی سے جو خوشحالی انہیں میسر ہے اس کو اپنے لیے کافی سمجھتے۔

59. یعنی زکوٰۃ کےعلاوہ جو اموال حکومت کے خزانے میں آئیں گے ان سے حسب استحقاق ہم لوگوں کو اسی طرح استفادہ کا موقع حاصل رہے گا جس طرح اب تک رہا ہے۔

60. یعنی ہماری نظر دنیا اور اس کی متاع حقیر پر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے فضل و کرم پر ہے ۔ اسی کی خوشنودی ہم چاہتے ہیں ۔ اسی سے امید رکھتے ہیں ۔ جو کچھ وہ دے اُس پر راضی ہیں۔