Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 60-66

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ​ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏  ﴿9:60﴾ وَمِنۡهُمُ الَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ النَّبِىَّ وَيَقُوۡلُوۡنَ هُوَ اُذُنٌ​ ؕ قُلۡ اُذُنُ خَيۡرٍ لَّـكُمۡ يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَيُؤۡمِنُ لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَرَحۡمَةٌ لِّـلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ​ ؕ وَالَّذِيۡنَ يُؤۡذُوۡنَ رَسُوۡلَ اللّٰهِ لَهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿9:61﴾ يَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ لَـكُمۡ لِيُرۡضُوۡكُمۡ​ۚ وَاللّٰهُ وَرَسُوۡلُهٗۤ اَحَقُّ اَنۡ يُّرۡضُوۡهُ اِنۡ كَانُوۡا مُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿9:62﴾ اَلَمۡ يَعۡلَمُوۡۤا اَنَّهٗ مَنۡ يُّحَادِدِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَاَنَّ لَهٗ نَارَ جَهَـنَّمَ خَالِدًا فِيۡهَا​ ؕ ذٰ لِكَ الۡخِزۡىُ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿9:63﴾ يَحۡذَرُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ اَنۡ تُنَزَّلَ عَلَيۡهِمۡ سُوۡرَةٌ تُنَبِّئُهُمۡ بِمَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ​ ؕ قُلِ اسۡتَهۡزِءُوۡا​ ۚ اِنَّ اللّٰهَ مُخۡرِجٌ مَّا تَحۡذَرُوۡنَ‏  ﴿9:64﴾ وَلَـئِنۡ سَاَلۡتَهُمۡ لَيَـقُوۡلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوۡضُ وَنَلۡعَبُ​ؕ قُلۡ اَبِاللّٰهِ وَاٰيٰتِهٖ وَرَسُوۡلِهٖ كُنۡتُمۡ تَسۡتَهۡزِءُوۡنَ‏ ﴿9:65﴾ لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ كَفَرۡتُمۡ بَعۡدَ اِيۡمَانِكُمۡ​ ؕ اِنۡ نَّـعۡفُ عَنۡ طَآئِفَةٍ مِّنۡكُمۡ نُـعَذِّبۡ طَآئِفَةً ۢ بِاَنَّهُمۡ كَانُوۡا مُجۡرِمِيۡنَ‏  ﴿9:66﴾

60 - یہ صدقات تو دراصل فقیروں61 اور مسکینوں62 کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں63، اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔64 نیز یہ گردنوں کے چھُڑانے65 اور قرضداروں کی مدد کرنے میں66 اور راہِ خدا میں67 اور مسافر نوازی میں68 استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔ 61 - ان میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دُکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔69 کہو ”وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے70، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتا ہے71 اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں ۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دُکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔“ 62 - یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسُول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں۔ 63 - کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور اُس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بہت بڑی رُسوائی ہے۔ 64 - یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سُورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔72 اے نبی ؐ ، ان سے کہو ”اور مذاق اُڑاوٴ، اللہ اُس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھُل جانے سے تم ڈرتے ہو۔“ 65 - اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے ، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔73 ان سے کہو ”کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟ 66 - اب عذرات نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کے بعد کُفر کیا ہے، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔74“ ؏ ۸


Notes

61. فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ لفظ تما م حاجت مندوں کے لیے عام ہے خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاجِ اعانت ہو گئے ہوں ، یا کسی عارضی سبب سے سردست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہوں، مثلًا یتیم بچے ، بیوہ عورتیں ، بے روزگار لوگ اور وہ لوگ جو وقتی حوادث کے شکار ہو گئے ہوں۔

62. مَسکَنَت کے لفظ میں عاجزی ، درماندگی ، بے چارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھیرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پارہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خودداری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ چنانچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے کہ المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصد ق علیہ ولا یقوم فیسئال الناس۔” مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا ، اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے، اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے۔ “ گویا وہ ایک ایسا شریف آدمی ہے جو غریب ہو۔

63. یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں۔ ایسے لوگ خواہ فقیر و مسکین نہ ہوں ، اُن کی تنخواہیں بہر حال صدقات ہی کی مدد سے دی جائیں گی۔ یہ الفاظ اور اسی سورۃ کی آیت ۱۰۳ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃًاس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکوت کے فرائض میں سے ہے۔

اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان (یعنی بنی ہاشم) پر زکوٰۃ کا مال حرام قرار دیا تھا ، چنانچہ آپ نے خود بھی صدقات کی تحصیل کا کام ہمیشہ بلامعاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلا معاوضہ انجام دیں تو جائز ہے ، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبے کی کوئی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے ۔ آپ کے خاندان کے لوگ اگر صاحب ِ نصاب ہوں تو زکوٰۃ دینا ان پر فرض ہے ، لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوٰۃ لینا ان کے لیے حرام ہے ۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوٰۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں۔ امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے۔

64. تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہےکہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو ، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مدد گار بن سکتے ہوں ، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استمالت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار ، یا مطیع و فرماں بردار ، یا کم از کم بے ضر ر دشمن بنالیا جائے۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال خرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔

یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہو گیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مد ساقط ہوگئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جا سکتا ہے مگر کفار کو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃالقلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو۔

حنفیہ کا استدلال اِس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد عُیَینَہ بن حِصن اور اَقرَع بن حابِس حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی ۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیانِ صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہوگئیں۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کر تے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا ۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس شکایت لے کر آئے اور آپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابو بکر ؓ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر ؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہوگئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداءً مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے با جماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہو گیا۔

امام شافعی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مال ِ غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوٰۃ سے۔

ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃالقلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلاشبہہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکوت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے ۔ حضرت عمرؓ اور صحابۂ کرام کا اجماع جس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسُوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اُس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔

رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مداتِ آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے۔لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آجائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لو گ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا۔ ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے۔

65. گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے۔ اس کی دوصورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کردوں تو تم مجھے آزاد کر دو، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے۔ دوسرے یہ کہ خود زکوٰۃ کی مد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہا متفق ہیں لیکن دوسری صورت کو حضرت علیؓ، سعید بن جُبَیر، لَیث، ثَوری، ابراہیم نَخَعی، شَعبی، محمد بن سیرین، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس ، حسن بصری، مالک، احمد اور ابو ثَور جائز قرار دیتے ہیں۔

66. یعنی ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی ، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوٰۃ کی مد سے کی جاسکتی ہے ۔ مگر متعدد فقہا کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضدار ی میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کر لے۔

67. راہِ خدا کا لفظ عام ہے ۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو، اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوٰۃ کا مال ہر قسم کے نیک کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن حق یہ ہے ، اور ائمۂ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو مٹانا اور اس کی جگہ نظام اسلامی کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفر خرچ کے لیے ، سواری کے لیے، آلات و اسلحہ اور سروسامان کی فراہمی کے لیے زکوٰۃ سے مدد دی جا سکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مد د کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت ، عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دے دیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جا سکتی ہیں۔

یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزوْ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے ا س لیے لوگ یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کو جو مد رکھی گئی ہے وہ صرف قتال کے لیے مخصوص ہے ۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ ، قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمۂ کفر کو پست اور کلمۂ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں ، خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں۔

68. مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن حالت سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہو جائے تو اس کی مدد زکوٰۃ کی مد سے کی جائے گی ۔یہاں بعض فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس شخص کا سفر معصیت کے لیے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے۔ مگر قرآن و حدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے ، اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہ ہونی چاہیے۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسنِ سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے۔

69. منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جن عیوب سے متہم کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ حضورؐ ہر شخص کی سُن لیتے تھے اور ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا کرتے تھے۔ یہ خوبی ان کی نگاہ میں عیب تھی۔ کہتے تھے کہ آپؐ کانوں کے کچے ہیں، جس کا جی چاہتا ہے آپؐ کے پاس پہنچ جاتا ہے جس طرح چاہتا ہے آپؐ کے کان بھرتا ہے ، اور آپؐ اس کی بات مان لیتے ہیں۔ اس الزام کا چرچا زیادہ تر اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ سچے اہلِ ایمان اِن منافقین کی سازشوں اور ان کی شرارتوں اور ان کی مخالفانہ گفتگو ؤں کا حال نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا کرتے تھے اور اس پر یہ لوگ سیخ پا ہو کر کہتے تھے کہ آپ ہم جیسے شرفا و معززین کے خلاف ہر کنگلے اور ہر فقیر کی دی ہوئی خبروں پر یقین کر لیتے ہیں۔

70. جواب میں ایک جامع بات ارشاد ہوئی ہے جو اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے ۔ ایک یہ کہ وہ فساد اور شر کی باتیں سننے والا آدمی نہیں ہے بلکہ صرف انہی باتوں پر توجہ کرتا ہے جن میں خیر اور بھلائی ہے اور جن کی طرف التفات کرنا امت کی بہتری اور دین کی مصلحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کا ایسا ہونا تمہارے ہی لیے بھلائی ہے۔ اگر وہ ہر ایک کی سُن لینے والا اور ضبط و تحمل سے کام لینے والا آدمی نہ ہوتا تو ایمان کے وہ جھوٹے دعوے اور خیر سگالی کی وہ نمائشی باتیں اور راہِ خدا سے بھاگنے کے لیے وہ عذرات لنگ جو تم کیا کرتے ہو انہیں صبر سے سننے کے بجائے تمہاری خبر لے ڈالتا اور تمہارے لیے مدینہ میں جینا دشوار ہو جاتا۔ پس اس کی یہ صفت تو تمہارے حق میں اچھی ہے نہ کہ بُری۔

71. یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ وہ ہر ایک کی بات پر یقین لے آتا ہے ۔ وہ چاہے سنتا سب کی ہو مگر اعتماد صرف انہی لوگوں پر کرتا ہے جو سچے مومن ہیں ۔ تمہاری جن شرارتوں کی خبریں اُس تک پہنچیں اور اس نے ان پر یقین کیا وہ بداخلاق چغلخوروں کی پہنچائی ہوئی نہ تھیں بلکہ صالح اہلِ ایمان کی پہنچائی ہوئی تھیں اور اسی قابل تھیں کہ ان پر اعتماد کیا جاتا۔

72. یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر سچا ایمان تو نہیں رکھتے تھے لیکن جو تجربات انہیں پچھلے آٹھ نو برس کے دوران میں ہو چکے تھے ان کی بنا پر انہیں اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ آپ کے پاس کوئی نہ کوئی فوق الفطری ذریعۂ معلومات ضرور ہے جس سے آپ کو ان کے پوشیدہ رازوں تک کی خبر پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات قرآن میں (جسے وہ حضورؐ کی اپنی تصنیف سمجھتے تھے) آپ ان کے نفاق اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کر کے رکھ دیتے ہیں۔

73. غزوۂ تبوک کے زمانہ میں منافقین اکثر اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے تھے اور اپنی تضحیک سے اُن لوگوں کی ہمتیں پست کرنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں وہ نیک نیتی کے ساتھ آمادۂ جہاد پاتے۔ چنانچہ روایات میں اِن لوگوں کے بہت سے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ مثلًا ایک محفل میں چند منافق بیٹھے گپ لڑا رہے تحے۔ ایک نے کہا”اجی کیا رومیوں کو بھی تم نے کچھ عربوں کیطرح سمجھ رکھا ہے؟ کل دیکھ لینا کہیہ سب سورما جو لڑنے تشریف لائے ہیں رسیوں میں بندھے ہوئے ہوں گے۔“ دوسرا بولا”مزا ہو جو اوپر سے سو سو کوڑے بھی لگانے کا حکم ہو جائے؟“ ایک اور منافق نے حضور کو جنگ کی سرگرم تیاریاں کرتے دیکھ کر اپنے یا ر دوستوں سے کہا”آپ کو دیکھیے، آپ روم و شام کے قلعے فتح کرنے چلے ہیں“۔

74. یعنی وہ کم عقل مسخر ے تو معاف بھی کیے جا سکتے ہیں جو صرف اس لیے ایسی باتیں کرتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا میں کوئی چیز سنجیدہ ہے ہی نہیں۔ لیکن جن لوگوں نے جان بوجھ کر یہ باتیں اس لیے کی ہیں کہ وہ رسول اور اس کے لائے ہوئے دین کو اپنے دعوائے ایمان کے باوجود ایک مضحکہ سمجھتے ہیں ، اور جن کے اس تمسخر کا اصل مدعا یہ ہے کہ اہل ایمان کی ہمتیں پست ہوں اور وہ پوری قوت کے ساتھ جہاد کی تیاری نہ کر سکیں، ان کو تو ہر گز معاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مسخرے نہیں بلکہ مجرم ہیں۔