Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 81-89

فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِهِمۡ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰهِ وَكَرِهُوۡۤا اَنۡ يُّجَاهِدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَقَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِى الۡحَـرِّؕ قُلۡ نَارُ جَهَـنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا​ؕ لَوۡ كَانُوۡا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿9:81﴾ فَلۡيَـضۡحَكُوۡا قَلِيۡلاً وَّلۡيَبۡكُوۡا كَثِيۡرًا​ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿9:82﴾ فَاِنۡ رَّجَعَكَ اللّٰهُ اِلٰى طَآئِفَةٍ مِّنۡهُمۡ فَاسۡتَـاْذَنُوۡكَ لِلۡخُرُوۡجِ فَقُلْ لَّنۡ تَخۡرُجُوۡا مَعِىَ اَبَدًا وَّلَنۡ تُقَاتِلُوۡا مَعِىَ عَدُوًّا​ ؕ اِنَّكُمۡ رَضِيۡتُمۡ بِالۡقُعُوۡدِ اَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقۡعُدُوۡا مَعَ الۡخٰلـِفِيۡنَ‏  ﴿9:83﴾ وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓى اَحَدٍ مِّنۡهُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمۡ عَلٰى قَبۡرِهٖ ؕ اِنَّهُمۡ كَفَرُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَمَاتُوۡا وَهُمۡ فٰسِقُوۡنَ‏ ﴿9:84﴾ وَلَا تُعۡجِبۡكَ اَمۡوَالُهُمۡ وَاَوۡلَادُهُمۡ​ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ اَنۡ يُّعَذِّبَهُمۡ بِهَا فِى الدُّنۡيَا وَتَزۡهَقَ اَنۡفُسُهُمۡ وَهُمۡ كٰفِرُوۡنَ‏  ﴿9:85﴾ وَاِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَةٌ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَجَاهِدُوۡا مَعَ رَسُوۡلِهِ اسۡتَـاۡذَنَكَ اُولُوا الطَّوۡلِ مِنۡهُمۡ وَقَالُوۡا ذَرۡنَا نَكُنۡ مَّعَ الۡقٰعِدِيۡنَ‏  ﴿9:86﴾ رَضُوۡا بِاَنۡ يَّكُوۡنُوۡا مَعَ الۡخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَهُمۡ لَا يَفۡقَهُوۡنَ‏ ﴿9:87﴾ لٰـكِنِ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ جَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ​ؕ وَاُولٰۤـئِكَ لَهُمُ الۡخَيۡـرٰتُ​ وَاُولٰۤـئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏  ﴿9:88﴾ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا​ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‏ ﴿9:89﴾

81 - جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہُوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ”اس سخت گرمی میں نہ نکلو۔“ ان سے کہو کہ جہنّم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا ۔ 82 - اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ، اس لیے کہ جو بدی یہ کماتے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے (کہ انہیں اس پر رونا چاہیے)۔ 83 - اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ ”اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیّت میں کسی دشمن سے لڑسکتے ہو، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی گھر بیٹھے رہو۔“ 84 - اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہر گز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے ساتھ کُفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔88 85 - ان کی مالداری اور ان کی کثرتِ اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اِس مال و اولاد کے ذریعہ سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔ 86 - جب کبھی کوئی سُورة اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں۔ 87 - ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔89 88 - بخلاف اس کے رسولؐ نے اور ان لوگوں نے جو رسول ؐ کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور اب ساری بھلائیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ 89 - اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے عظیم الشان کامیابی۔ ؏ ۱۱


Notes

88. تبوک سے واپسی پر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ عبداللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین مر گیا۔ اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ جو مخلص مسلمانوں میں سے تھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کفن میں لگانے کے لیے آپ کا کُرتہ مانگا۔ آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ عطا کر دیا۔ پھر انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہی اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں۔ آپ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ حضرت عمر ؓ نے باصرار عرض کیا کہ یا رسول ؐ اللہ ، کیا آپ اس شخص پر نماز جنازہ پڑھیں گے جو یہ اور یہ کر چکا ہے۔ مگر حضورؐ ان کی یہ سب باتیں سن کر مسکراتے رہے اور اپنی اُس رحمت کی بنا پر جو دوست دشمن سب کے لیے عام تھی، آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں بھی دعائے مغفرت کرنے میں تامل نہ کیا۔ آخر جب آپ نماز پڑھانے کھڑے ہی ہو گئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور براہِ راست حکم خداوندی سے آپ کو روک دیا گیا۔ کیونکہ اب یہ مستقل پالیسی مقرر کی جا چکی تھی کہ مسلمانوں کی جماعت میں منافقین کو کسی طرح پنپنے نہ دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے اس گروہ کی ہمت افزائی ہو۔

اسی سے یہ مسئلہ نکلا کہ فساق اور فجار اور مشہور بفسق لوگوں کی نماز جنازہ مسلمانوں کے امام اور سربر آوردہ لوگوں کو نہ پڑھانی چاہیے نہ پڑھنی چاہیے۔ ان آیات کے بعدنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ ہو گیا تھا کہ جب آپ کو کسی جنازے پر تشریف لانے کے لیے کہا جاتا تو آپ پہلے مرنے والے کے متعلق دریافت فرماتے تھے کہ کس قسم کا آدمی تھا، اور اگر معلوم ہوتا کہ بُرے چلن کا آدمی تھا تو آپ اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں اختیار ہے ، جس طرح چاہو اسے دفن کر دو۔

89. یعنی اگرچہ یہ بری شرم کے قابل بات ہے کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے ، تندرست، صاحب مقدرت لوگ، ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود کام کا وقت آنے پر میدان میں نکلنے کے بجائے گھروں میں گھس بیٹھیں اور عورتوں میں جا شامل ہوں ، لیکن چونکہ ان لوگوں نے خود جان بوجھ کر اپنے لیے یہی رویہ پسند کیا تھا اس لیے قانونِ فطرت کے مطابق ان سے وہ پاکیزہ احساسات چھین لیے گئے جن کی بدولت آدمی ایسے ذلیل اطوار اختیار کرنے میں شرم محسوس کیا کرتا ہے۔