Tafheem ul Quran

Surah 9 At-Tawbah, Ayat 90-99

وَ جَآءَ الۡمُعَذِّرُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ لِيُؤۡذَنَ لَهُمۡ وَقَعَدَ الَّذِيۡنَ كَذَبُوا اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ​ ؕ سَيُصِيۡبُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡهُمۡ عَذَابٌ اَ لِيۡمٌ‏ ﴿9:90﴾ لَـيۡسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَلَا عَلَى الۡمَرۡضٰى وَلَا عَلَى الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ مَا يُنۡفِقُوۡنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوۡا لِلّٰهِ وَ رَسُوۡلِهٖ​ؕ مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍ​ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ‏ ﴿9:91﴾ وَّلَا عَلَى الَّذِيۡنَ اِذَا مَاۤ اَتَوۡكَ لِتَحۡمِلَهُمۡ قُلۡتَ لَاۤ اَجِدُ مَاۤ اَحۡمِلُكُمۡ عَلَيۡهِ تَوَلَّوْا وَّاَعۡيُنُهُمۡ تَفِيۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ حَزَنًا اَلَّا يَجِدُوۡا مَا يُنۡفِقُوۡنَؕ‏ ﴿9:92﴾ اِنَّمَا السَّبِيۡلُ عَلَى الَّذِيۡنَ يَسۡتَاْذِنُوۡنَكَ وَهُمۡ اَغۡنِيَآءُ​ۚ رَضُوۡا بِاَنۡ يَّكُوۡنُوۡا مَعَ الۡخَـوَالِفِۙ وَطَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ فَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿9:93﴾ يَعۡتَذِرُوۡنَ اِلَيۡكُمۡ اِذَا رَجَعۡتُمۡ اِلَيۡهِمۡ​ ؕ قُلْ لَّا تَعۡتَذِرُوۡا لَنۡ نُّـؤۡمِنَ لَـكُمۡ قَدۡ نَـبَّاَنَا اللّٰهُ مِنۡ اَخۡبَارِكُمۡ​ ؕ وَ سَيَرَى اللّٰهُ عَمَلَـكُمۡ وَرَسُوۡلُهٗ ثُمَّ تُرَدُّوۡنَ اِلٰى عٰلِمِ الۡغَيۡبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿9:94﴾ سَيَحۡلِفُوۡنَ بِاللّٰهِ لَـكُمۡ اِذَا انْقَلَبۡتُمۡ اِلَيۡهِمۡ لِتُعۡرِضُوۡا عَنۡهُمۡ​ؕ فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡهُمۡ​ؕ اِنَّهُمۡ رِجۡسٌ​ وَّمَاۡوٰٮهُمۡ جَهَـنَّمُ​ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ‏ ﴿9:95﴾ يَحۡلِفُوۡنَ لَـكُمۡ لِتَرۡضَوۡا عَنۡهُمۡ​ۚ فَاِنۡ تَرۡضَوۡا عَنۡهُمۡ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَرۡضٰى عَنِ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِيۡنَ‏ ﴿9:96﴾ اَلۡاَعۡرَابُ اَشَدُّ كُفۡرًا وَّ نِفَاقًا وَّاَجۡدَرُ اَلَّا يَعۡلَمُوۡا حُدُوۡدَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ​ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ‏ ﴿9:97﴾ وَمِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ يَّتَّخِذُ مَا يُنۡفِقُ مَغۡرَمًا وَّيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَآئِرَ​ؕ عَلَيۡهِمۡ دَآئِرَةُ السَّوۡءِ​ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏  ﴿9:98﴾ وَمِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ يُّؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ​ؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرۡبَةٌ لَّهُمۡ​ؕ سَيُدۡخِلُهُمُ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ​ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ‏  ﴿9:99﴾

90 - بدوی عربوں90 میں سے بھی بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی جائے۔ اِس طرح بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان بدویوں میں سے جن جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے91 عنقریب وہ درد ناک سزا سے دوچار ہوں گے۔ 91 - ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکت ِ جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے ، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلُوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے وفادار ہوں۔92 ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ 92 - اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں ، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس آگئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسُو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔ 93 93 - البتہ اعتراض ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں اور پھر بھی تم سے درخواستیں کرتے ہیں کہ انہیں شرکتِ جہاد سے معاف رکھا جائے۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا، اس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی اس روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے)۔ 94 - [الجزء ۱۱]تم جب پلٹ کر ان کے پاس پہنچو گے تو یہ طرح طرح کے عذرات پیش کریں گے ، مگر تم صرف کہہ دینا کہ ”بہانے نہ کرو، ہم تمہاری کسی بات کا اعتبار نہ کریں گے۔ اللہ نے ہم کو تمہارے حالات بتا دیے ہیں۔ اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھے گا۔ پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاوٴ گے جو کھلے اور چھُپے سب کا جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔“ 95 - تمہاری واپسی پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صَرفِ نظر کرو۔ تو بے شک تم اِن سے صَرفِ نظر ہی کر لو،94کیونکہ یہ گندگی ہیں اور ان کا اصلی مقام جہنّم ہے جو ان کی کمائی کے بدلے میں انہیں نصیب ہوگی۔ 96 - یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاوٴ، حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہر گز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہوگا۔ 97 - یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔95اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔ 98 - ان میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہِ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبردستی کی چٹّی سمجھتے ہیں96اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کر رہے ہیں (کہ تم کسی چکر میں پھنسو تو وہ اپنی گردن سے اس نظام کی اطاعت کا قلادہ اُتار پھینکیں جس میں تم نے انہیں کَس دیا ہے)۔ حالانکہ بدی کا چکر خود انہی پر مسلّط ہے اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے ۔ 99 - اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے ہاں تقرّب کا اور رسول ؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہاں ! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏ ۱۲


Notes

90. بدوی عربوں سے مراد مدینہ کے اطراف میں رہنے والے دیہاتی اور صحرائی عرب ہیں جنہیں عام طور پر بدو کہا جاتا ہے۔

91. “منافقانہ اظہار ایمان ، جس کی تہ میں فی الواقع تصدیق، تسلیم، اخلاص اور اطاعت نہ ہو، اور جس کے ظاہری اقرار کے باوجود انسان خدا اور اس کے دین کی بہ نسبت اپنے مفاد اور اپنی دنیوی دلچسپیوں کو عزیز رکھتا ہو، اصل حقیقت کے اعتبار سے کفر و انکار ہی ہے۔ خدا کےہاں ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ ہو گا جو منکروں اور باغیوں کے ساتھ ہوگا، چاہے دنیا میں اس قسم کے لوگ کافر نہ ٹھیرائے جا سکتے ہوں اور ان کے ساتھ مسلمانوں ہی کا سا معاملہ ہوتا رہے۔ اس دنیوی زندگی میں جس قانون پر مسلم سوسائٹی کا نظام قائم کیا گیا ہے اور جس ضابطہ کی بنا پر اسلامی حکومت اور اس کے قاضی احکام کی تنفید کرتے ہیں ، اس کے لحاظ سے تو منافقت پر کفر یا اشتباہ ِ کفر کا حکم صرف انہی صورتوں میں لگایا جا سکتا ہے جبکہ انکار و بغاوت یا غداری و بے وفائی کا اظہار صریح طور پر ہو جائے۔ اس لیے منافقت کی بہت سی صورتیں اور حالتیں ایسی رہ جاتی ہیں جو قضائے شرعی میں کفر کے حکم سے بچ جاتی ہیں۔ لیکن قضائے شرعی میں کسی منافق کا حکمِ کفر سے بچ نکلنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ قضائے خداوندی میں بھی وہ اس حکم اور اس کی سزا سے بچ نکلے گا۔

92. ”اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بظاہر معذور ہوں ان کے لیے بھی مجرد ضعیفی و بیماری یا محض ناداری کافی وجہ معافی نہیں ہے بلکہ ان کی مجبوریاں صرف اُس صورت میں ان کے لیے وجہ معافی ہو سکتی ہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سچے وفادار ہوں۔ ورنہ اگر وفاداری موجود نہ ہو تو کوئی شخص صرف اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ادائے فرض کے موقع پر بیمار یا نادار تھا۔ خدا صرف ظاہر کو نہیں دیکھتا ہے کہ ایسے سب لوگ جو بیماری کا طبی صداقت نامہ یا بڑھاپے اور جسمانی نقص کا عذر پیش کر دیں ، اُس کے ہاں یکساں معذور قرار دے دیے جائیں اور ان پر سے باز پرس ساقط ہو جائے۔ وہ تو ان میں سے ایک ایک شخص کے دل کا جائزہ لے گا، اور اس کے پورے مخفی و بظاہر برتاؤ کو دیکھے گا ، اور یہ جانچے گا کہ اس کی معذوری ایک وفادار بندے کی سی معذرت تھی یا ایک غدار اور باغی کی سی۔ ایک شخص ہے کہ جب اُ س نے فرض کی پکار سُنی تو دل میں لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ”بڑے اچھے موقعے پر میں بیمار ہو گیا ورنہ یہ بلا کسی طرح ٹالے نہ ٹلتی اور خواہ مخواہ مصیبت بھگتنی پڑتی“۔ دوسرے شخص نے یہی پُکار سُنی تو تِلمِلا اُٹھا کہ”ہائے، کیسے موقع پر اس کم بخت بیماری نے آن دبوچا ، جو وقت میدان میں نکل کر خدمت انجام دینے کا تھا وہ کس بُری طرح یہاں بستر پر ضائع ہو رہا ہے“۔ ایک نے اپنے لیے تو خدمت سے بچنے کا بہانہ پایا ہی تھا مگر اس کے ساتھ اس نے دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کی۔ دوسرا اگرچہ خود بسترِ علالت پر مجبور پڑا ہوا تھا مگر وہ برابر اپنے عزیزوں ، دوستوں اور بھائیوں کو جہاد کا جوش دلا تا رہا اور اپنے تیمار داروں سے بھی کہتا رہا کہ ” میرا اللہ مالک ہے، دوا دارو کا انتظام کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائے گا، مجھ اکیلے انسان کے لیے تم قیمتی وقت کو ضائع نہ کرو جسے دین حق کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے“۔ ایک نے بیماری کے عذر سے گھر بیٹھ کر سارا زمانۂ جنگ بد دلی پھیلانے، بری خبریں اڑانے ، جنگی مساعی کو خراب کرنے اور مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر بگاڑنے میں صرف کیا۔ دوسرے نے یہ دیکھ کر کہ میدان میں جانے کے شرف سے وہ محروم رہ گیا ہے، اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ گھر کے محاذ (home front) کو مضبوط رکھنے میں جو زیادہ سے زیادہ خدمت اس سے بن آئے اسے انجام دے۔ ظاہر کے اعتبار سے تو یہ دونوں ہی معذور ہیں۔ مگر خدا کی نگاہ میں یہ دو مختلف قسم کے معذور کسی طرح یکساں نہیں ہو سکتے۔ خدا کے ہاں معافی اگر ہے تو صرف دوسرے شخص کے لیے۔ رہا پہلا شخص تو وہ اپنی معذوری کے باوجود غداری و نا وفاداری کا مجرم ہے۔

93. ایسے لوگ جو خدمت دین کے لیے بے تاب ہوں، اور اگر کسی حقیقی مجبوری کے سبب سے یا ذرائع نہ پانے کی وجہ سے عملًا خدمت نہ کرسکیں تو ان کے دل کو اتنا ہی سخت صدمہ ہو جتنا کسی دنیا پرست کو روزگار چھوٹ جانے یا کسی بڑے نفع کے موقع سے محروم رہ جانے کا ہوا کرتا ہے ، ان کا شمار خدا کےہاں خدمت انجام دینے والوں ہی میں ہو گا اگر چہ انہوں نے عملًا کوئی خدمت انجام نہ دی ہو۔ اس لیے کہ وہ چاہے ہاتھ پاؤں سے کام نہ کر سکے ہوں ، لیکن دل سے تو وہ برسر خدمت ہی رہے ہیں۔ یہی بات ہے جو غزوہ ٔ تبوک سے واپسی پر اثنائے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفقا کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ ان بالمدینۃ اقوامًا ما سرتم مسیرا ولا قطعتم وادیا الا کانو ا معکم۔ ” مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں کی اور کوئی کوچ نہیں کیا جس میں وہ تمہارے ساتھ ساتھ نہ رہے ہوں“۔صحابہؓ نے تعجب سے کہا” کیا مدینہ ہی میں رہتے ہوئے؟“ فرمایا”ہاں، مدینے ہی میں رہتے ہوئے ۔ کیونکہ مجبوری نے انہیں روک لیا تھا ورنہ وہ خود رکنے والے نہ تھے“۔

94. پہلے فقرے میں صَرفِ نظر سے مراد درگزر ہے اور دوسرے فقرے میں قطع تعلق۔ یعنی وہ تو چاہتے ہیں کہ تم ان سے تعرض نہ کرو، مگر بہتر یہ ہے کہ تم ان سے کوئی واسطہ ہی نہ رکھو اور سمجھ لو کہ تم ان سےکٹ گئے اور وہ تم سے۔

95. “جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یہاں بدوی عربوں سے مراد وہ دیہاتی و صحرائی عرب ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں ایک مضبوط اور منظم طاقت کو اُٹھتے دیکھ کہ پہلے تو مرعوب ہوئے۔ پھر اسلام اور کفر کی آویزشوں کے دوران میں ایک مدت تک موقع شناسی و ابن الوقتی کی روش پر چلتے رہے۔ پھر جب اسلامی حکومت کا اقتدار حجاز و نجد کے ایک بڑے حصّے پر چھا گیا اور مخالف قبیلوں کا زور اس کے مقابلہ میں ٹوٹنے لگا تو ان لوگوں نے مصلحتِ وقت اسی میں دیکھی کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ لیکن ان میں کم لوگ ایسے تھے جو اِس دین کو دینِ حق سمجھ کر سچے دل سے ایمان لائے ہوں اور مخلصانہ طریقہ سے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں۔ بیشتر بدویوں کے لیے قبول ِ اسلام کی حیثیت ایمان و اعتقاد کی نہیں بلکہ محض مصلحت اور پالیسی کی تھی۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے حصہ میں صرف وہ فوائد آجائیں جو برسر اقتدار جماعت کی رکنیت اختیار کرنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں۔ مگر وہ اخلاقی بندشیں جو اسلام ان پر عائد کرتا تھا ، وہ نماز روزے کی پابندیاں جو اس دین کو قبول کرتے ہی ان پر لگ جاتی تھیں، وہ زکوٰۃ جو باقاعدہ تحصیل داروں کے ذریعہ سے ان کے نخلستانوں اور ان کے گلّوں سے وصول کی جاتی تھی، وہ ضبط و نظم جس کے شکنجے میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسے گئے تھے، وہ جان و مال کی قربانیاں جو لوٹ مار کی لڑائیوں میں نہیں بلکہ خالص راہِ خدا کے جہاد میں آئے دن ان سے طلب کی جارہی تھیں، یہ ساری چیزیں ان کو شدت کے ساتھ ناگوار تھیں اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہر طرح کی چالبازیاں اور بہانہ سازیاں کرتے رہتے تھے۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ حق کیا ہے اور ان کی اور تمام انسانوں کی حقیقی فلاح کس چیز میں ہے۔ انہیں جو کچھ بھی دلچسپی تھی وہ اپنے معاشی مفاد، اپنی آسائش، اپنی زمینوں ، اپنے اونٹوں اور بکریوں اور اپنے خیمے کے آس پاس کی محدود دنیا سے تھی۔ اس سے بالاتر کسی چیز کے ساتھ وہ اُس طرح کی عقیدت تو رکھ سکتے تھے جیسی پیروں اور فقیروں سےرکھی جاتی ہے کہ یہ ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور وہ اس کے عوض ترقی روزگار اور آفات سے تحفظ اور ایسی ہی دوسری اغراض کے لیے ان کو تعویذ گنڈے دیں اور ان کے لیے دعائیں کریں۔ لیکن ایسے ایمان و اعتقاد کے لیے وہ تیار نہ تھے جو ان کی پوری تمدنی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو اخلاق اور قانون کے ضابطہ میں کس دے اور مزید برآں ایک عالمگیر اصلاحی مشن کے لیے اُن سے جان و مال کی قربانیوں کا بھی مطالبہ کرے۔

ان کی اسی حالت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شہریوں کی بہ نسبت یہ دیہاتی و صحرائی لوگ زیادہ منافقانہ رویہ رکھتے تھے اور حق سے انکار کی کیفیت ان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے ۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے کہ شہری لوگ تو اہلِ علم اور اہلِ حق کی صحبت سے مستفید ہو کر کچھ دین کو اور اس کی حدود کو جان بھی لیتے ہیں مگر یہ بدوی چونکہ ساری ساری عمر بالکل ایک معاشی حیوان کی طرح شب و روز رزق کے پھیر ہی میں پڑے رہتے ہیں اور حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے دین اور اس کے حدود سے ان کے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دینا غیر موزوں نہ ہوگا کہ ان آیات کے نزول سے تقریبًا دو سال بعد حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے ابتدائی عہد میں ارتداد اور منعِ زکوٰۃ کا جو طوفان برپا ہوا تھا اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہی تھا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔

96. مطلب یہ ہےکہ جو زکوٰۃ ان سے وصول کی جاتی ہے اسے یہ ایک جرمانہ سمجھتے ہیں۔ مسافروں کی ضیافت و مہمانداری کا جو حق ان پر عائد کیا گیا ہے وہ اُن کو بُری طرح کھَلتا ہے۔ اور اگر کسی جنگ کے موقع پر یہ کوئی چندہ دیتے ہیں تو اپنے دلی جذبہ سے رضائے الہٰی کی خاطر نہیں دینے بلکہ بادلِ ناخواستہ اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے دیتے ہیں۔