1. جیسا کہ ہم نے دیباچہ میں بیان کیا ہے، فرشتے نے جب حضور ؑ سے کہا کہ پڑھو، تو حضورؑ نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور اُنہیں پڑھنے کے لیے کہا تھا ۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جا ؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں، تو حضورؑ کو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔
2. یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھو، یا بالفاظ دیگر بسم اللہ کہو اور پڑھو۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس وحی کے آنے سے پہلے ہی صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب جانتے اور مانتے تھے۔ اسی لیے یہ کہنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آپ کا رب کون ہے ، بلکہ یہ کہا گیا کہ اپنے رب کا نام لے کر پڑھو۔
3. مطلقاً ”پیدا کیا“فرمایا گیا ہے، یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا۔ اِس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اُس رب کا نام لے کر پڑھو جو خالق ہے، جس نے ساری کائنات اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے۔
4. کائنات کی عام تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد خاص طورپر انسان کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس حقیر حالت سے اُس کی تخلیق کی ابتدا کرکے اُسے پورا انسان بنایا۔ عَلَق جمع ہے عَلَقَہ کی جس کے معنی جمے ہوئے خون کے ہیں۔ یہ وہ ابتدائی حالت ہے جو استقرارِ حمل کے بعد پہلے چند دنوں میں رونما ہوتی ہے ، پھر وہ گوشت کی شکل اختیار کرتی ہے اور اس کے بعد بتدریج اس میں انسانی صورت بننے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الحج، آیت۵ حواشی ۵ تا ۷)۔
5. یعنی یہ اُس کا انتہائی کرم ہے کہ اِس حقیر ترین حالت سے ابتدا کر کے اُس نے انسان کو صاحبِ علم بنا یا جو مخلوقات کی بلند ترین صفت ہے ، اور صرف صاحبِ علم ہی نہیں بنایا، بلکہ اُس کو قلم کے استعمال سے لکھنے کا فن سکھایا جو بڑے پیمانے پر علم کی اشاعت، ترقی اور نسلا ًبعد نسل اُس کے بقا اور تحفظ کا ذریعہ بنا۔ اگر وہ الہامی طور پر انسان کو قلم اور کتابت کے فن کا یہ علم نہ دیتا تو انسان کی علمی قابلیت ٹھٹھر کر رہ جاتی اور اُسے نشونما پانے، پھیلنے اور ایک نسل کے علوم دوسری نسل تک پہنچنے اور آگے مزید ترقی کرتے چلے جانے کا موقع ہی نہ ملتا۔
6. یعنی انسان اصل میں بالکل بے علم تھا۔ اُسے جو کچھ بھی علم حاصل ہو ا اللہ کے دینے سے حاصل ہوا۔ اللہ ہی نے جس مرحلے پر انسان کے لیے علم کے جو دروازے کھولنے چاہے وہ اُس پر کُھلتے چلے گئے۔ یہی بات ہے جو آیۃ الکرسی میں اِس طرح فرمائی گئی ہے کہ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ءٍ مِنْ عِلْمِہٖٓ اِلّا بِمَاشَآءَ۔”اور لوگ اُس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے سوائے اُس کے جو وہ خود چاہے“(البقرہ۔۲۵۵) جن جن چیزوں کو بھی انسان اپنی علمی دریافت سمجھتا ہے، درحقیقت وہ پہلے اس کے علم نہ تھیں، اللہ تعالیٰ ہی نے جب چاہا اُن کا علم اُسے دیا بغیر اس کے کہ انسان یہ محسوس کرتا کہ یہ علم اللہ اُسے دے رہا ہے۔
یہاں تک وہ آیات ہیں جو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، یہ پہلا تجربہ اتنا سخت تھا کہ حضور ؑ اِس سے زیادہ کے متحمّل نہ ہو سکتے تھے۔ اس لیے اس وقت صرف یہ بتا نے پر اکتفا کیا گیا کہ وہ رب جس کو آپ پہلے سے جانتے اور مانتے ہیں، آپ سے براہ راست مخاطب ہے، اس کی طرف سے آپ پر وحی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، اور آپ کو اس نے اپنا نبی بنا لیا ہے۔ اِس کے ایک مدت بعد سورہ مدّثِّر کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں آپ کو بتایا گیا کہ نبّوت پر مامور ہونے کے بعد اب آپ کو کام کیا کرنا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، المدّثِّر، دیباچہ)
7. یعنی ایسا ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ جس خدائے کریم نے انسان پر اتنا بڑا کرم فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں وہ جہالت برت کر وہ رویّہ اختیار کرے جو آگے بیان ہو رہا ہے۔
8. یعنی یہ دیکھ کر کہ مال، دولت، عزّت وجاہ اور جو کچھ بھی دنیا میں وہ چاہتا تھا وہ اسے حاصل ہو گیا ہے، شکر گزار ہونے کے بجائے وہ سرکشی پر اتر آتا ہے اور حدّ بندگی سے تجاوز کرنے لگتا ہے۔
9. یعنی خواہ کچھ بھی اس نے دنیا میں حاصل کر لیا ہو جس کے بل پر وہ تمُّرد اور سرکشی کر رہا ہے ، آخر کار اسے جانا تو تیرے رب ہی کے پاس ہے۔ پھر اسے معلوم ہو جائے گا کہ اِس روش کا انجام کیا ہوتا ہے۔
10. بندے سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس طریقے سے حضور ؑ کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً سُبْحٰنَ الّذیٰ اَسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاقْصٰے(بنی اسرائیل۔۱)”پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصٰی کی طرف“۔اَلْحَمْدُ لِلّہِ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلیٰ عَبْدِہِ الکِتٰبَ(الکہف۔۱)”تعریف ہے اُس خدا کے لیے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی“۔وَاِنَّہُ لَمَا قَامَ عَبْدُ اللہِ یَدْعُوْہُ کَادُوْ ا یَکُوْ نُوْنَ عَلَیْہِ لِبَدًا(الجن۔۱۹) ”اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اُس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہو ا تو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیّار ہوگئے۔“ اس سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ ایک خاص محبت کا انداز ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتا ہے۔ علاوہ بریں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے منصب پر سرفراز فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھا دیا تھا۔ اُس طریقے کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ اے نبی تم اِس طرح نماز پڑھا کرو۔ لہٰذا یہ اِس امر کا ایک اور ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن مجید میں درج ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسی باتوں کی تعلیم دی جاتی تھی جو قرآن مجید میں درج نہیں ہیں۔
11. بظاہر ایسا معلو م ہوتا ہے کہ یہاں ہر انصاف پسند شخص مخا طب ہے۔ اُس سے پو چھا جا رہا ہے کہ تم نے دیکھی اُس شخص کی حرکت جو خدا کی عبادت کرنے سے ایک بندے کو روکتا ہے؟ تمہارا کیا خیا ل ہے اگر وہ بندہ راہ راست پر ہو، یا لوگوں کو خدا سے ڈرنے اور برے کاموں سے روکنے کی کوشش کرتا ہو، اور یہ منع کرنے والا حق کو جھٹلاتا اور اُس سے منہ موڑتا ہو، تو اُس کی یہ حرکت کیسی ہے؟ کیا یہ شخص یہ روش اختیار کر سکتا تھا اگر اِسے یہ معلوم ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اُس بندے کو بھی دیکھ رہا ہے جو نیکی کا کام کرتا ہے اور اِس کو بھی دیکھ رہا ہے جو حق کو جُھٹلانے اور اُس سے روگردانی کرنے میں لگا ہوا ہے؟ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومی کو اللہ تعالیٰ کا دیکھنا خود اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ ظالم کو سزا دے گا اور مظلوم کی دادرسی کرے گا۔
12. یعنی یہ شخص جو دھمکی دیتا ہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھیں گے تو وہ ان کی گردن کو پا ؤں سے دبا دے گا، یہ ہر گز ایسا نہ کر سکے گا۔
13. پیشانی سے مراد یہاں پیشانی والا شخص۔
14. جیسا کہ ہم نے دیباچہ میں بیان کیا ہے ابو جہل کے دھمکی دینے پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جِھڑک دیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ اے محمدؑ، تم کس بل پر مجھے ڈراتے ہو ، خدا کی قسم اس وادی میں میرے حمایتی سب سے زیادہ ہیں۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بلا لے اپنے حمایتیوں کو۔
15.
اصل میں زَبانیہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو قتادہ کی تشریح کے مطابق کلامِ عرب میں پولیس کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور زَیَن کے اصل معنی دھکا دینے کے ہیں۔ بادشاہوں کے ہاں چوبدار بھی اِسی غرض کے لیے ہوتے تھے کہ جس پر بادشاہ ناراض ہوا سے وہ دھکّے دے کر نکال دیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنے حمایتیوں کو بلا لے، ہم اپنی پولیس، یعنی ملائکہ عذاب کو بلا لیں گے کہ وہ اِس کی اور اس کے حمایتیوں کی خبر لیں۔
16. سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے۔ یعنی اے نبی، تم بے خوف اُسی طرح نماز پڑھتے رہو جس طرح پڑھتے رہے ہو، اور اس کے ذریعہ سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ”بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اُس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے“۔ اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدہ تلاوت ادا فرما تے تھے۔